آب حیات/غزلہائے تاباں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

نہیں ہے دوست اپنا یار اپنا مہرباں اپنا
سُناؤں کس کو غم اپنا الم اپنا بیاں اپنا

بہت چاہا کہ آوے یار یا اس دل کو صبر آوے
نہ یار آیا نہ صبر آیا دیا جی میں نداں اپنا

قفس میں تڑپے ہے یہ عندلیباں سخت بے بس ہیں
نہ گلشن دیکھ سکتے ہیں نہ یہ اب آشیاں اپنا

مجھے آتا ہے رونا ایسی تنہائی پہ اے تاباںؔ
نہ یار اپنا، نہ دل اپنا، نہ تن اپنا نہ جاں اپنا

رہتا ہوں خاک و خوں میں سدا لوٹتا ہوا
میرے غریب دل کو الٰہی یہ کیا ہوا؟

میں اپنے دل کو غنچہ تصویر کی طرح
یارب کبھو خوشی سے نہ دیکھا کھلا ہوا

ناصح عبث نصیحت بیہودہ تو نہ کر
ممکن نہیں کہ چھوٹ سکے دل لگا ہوا

ہم بے کسی پہ اپنی نہ رو دیں تو کیا کریں
دل سا رفیق ہائے ہمارا جُدا ہوا

جفا سے اپنی پشیماں نہ ہو، ہوا سو ہوا
تری بلا سے مرے جی پہ جو ہوا سو ہوا

سبب جو میری شہادت کا یار سے پوچھا
کہا کہ اب تو اسے گاڑ دو ہوا سو ہوا

یہ دردِ عشق میرا نہیں علاج طبیب
ہزار میری دوائیں کرو ہوا سو ہوا​

بھلے بُرے کی تری عشق میں اُڑا دی شرم
ہمارے حق میں کوئی کچھ کہو ہوا سو ہوا

نہ پائی خاک بھی تاباں کی ہم نے پھر ظالم
وہ ایک دم ی ترے روبرو ہوا سو ہوا

سُن فصلِ گل خوشی ہو گلشن میں آئیاں ہیں
کیا بلبلوں نے دیکھ دھومیں مچائیاں ہیں

بیمار ہے، زمیں سے اُٹھتی نہیں عصا بِن
نرگس کو تم نے شاید آنکھیں دکھائیں ہیں

آئینہ روبرو رکھ اور اپنی چھب دکھانا
کیا خود پسندیاں ہیں کیا خود نمائیاں ہیں

دیکھے سے آئینہ بھی حیران ہے ترا رُو
چہرہ کے بیچ تیرے کیا کیا صفائیاں ہیں

خورشید گر کہوں میں تو جان ہے وہ پیلا
جو مہہ کہوں ترا رُو اُس پر تو جھائیاں ہیں

جب پان کھا کے پیارا گلشن میں جا ہنسا ہے
بے اختیار کلیاں تب کھل کھلائیاں ہیں

کہتے تھے ہم کسی سے تم بِن نہیں ملیں گے
اب کس کے ساتھ پیارے وے دلربئیاں ہیں

عاشق سے گرم ملنا پھر بات بھی نہ کہنا
کیا بے مروتی ہے کیا بے وفائیاں ہیں

افسوس اے صنم تم ایسے ہوئے ہو ابتر
ملتے تو غیر سے جا ہم سے روکھائیاں ہیں

قسمت میں دیکھیں کیا ہے جیتے رہیں کہ مر جائیں
قاتل سے ہم نے یارو آنکھیں لڑائیاں ہیں

اب مہرباں ہوا ہے تاباںؔ ترا ستمگر
آہیں تری کسی نے شاید سُنائیاں ہیں