آئے بھی تو وہ منہ کو چھپائے مرے آگے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آئے بھی تو وہ منہ کو چھپائے مرے آگے
by داغ دہلوی

آئے بھی تو وہ منہ کو چھپائے مرے آگے
اس طرح سے آئے کہ نہ آئے مرے آگے

بجھتے ہوئے دیکھوں گا نہ میں دل کی لگی کو
کوئی نہ کبھی شمع بجھائے مرے آگے

تیور یہی کہتے تھے کہ یہ نام ہے میرا
لکھ کر کئی حرف اس نے مٹائے مرے آگے

بچھڑے ہوئے معشوق ملیں سب کو الٰہی
تنہا کوئی جنت میں نہ جائے مرے آگے

کچھ داغؔ کا مذکور جو آیا تو وہ بولے
آئے تھے برا حال بنائے مرے آگے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse