آئی ہے شب قتل حسین ابن علی کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آئی ہے شب قتل حسین ابن علی کی
by میر تقی میر

آئی ہے شب قتل حسین ابن علی کی
رخصت ہے سحر عترت والاے نبی کی
کٹ جائے گی سب آل رسول عربی کی
برہم ہی ہوئی جان لو صحبت یہ کبھی کی

جب اس شہ مظلوم سے تلوار چلے گی
گرد اٹھ کے سوے چرخ ستمگار چلے گی
پاؤں کے تلے سے زمیں یک بار چلے گی
اٹھ جائے گی تہ انس و ملک جن و پری کی

لیکن جو مقدر ہے شہ دین کا ہونا
آزار دلی کھینچنا اس جان کو کھونا
احباب جو ہیں ان کو قیامت تئیں رونا
کس طرح ظفر ہووے نہ اس قوم دنی کی

بے ڈول نظر آتی ہیں اعدا کی نگاہیں
ہے جاے تعجب جو مروت کو نباہیں
غالب ہے کہ یہ خوبی شبیر نہ چاہیں
سن لیجو کہ ان لوگوں نے سادات کشی کی

ہووے گا نمودار سحر کا جو ستارہ
ہوگا تبھی سے شام کے لوگوں کا گذارا
میداں میں نکل صاف یہ شہ جائے گا مارا
ساتھ اس کے اجل آئے گی یک بار سبھی کی

ہرگز نہ ملے گا کسو کو ایک دم آب
کیا خرد و کلاں پیاس سے ہوجائیں گے بے تاب
تڑپیں گے پڑے خاک میں کیا کیا گہر ناب
دریا پہ یہ آفت پڑے گی تشنہ لبی کی

اکبر کے تڑپنے کے تئیں دیکھے گا مظلوم
مرنا کرے گا گود میں اصغر کا بھی معلوم
سن لیوے گا قاسم کی ہلاکی کی پڑی دھوم
لے جائے گا سب مرتے ہوئے جی ہی میں جی کی

گذرے گی جو کچھ سر کے اپر سب وہ سہے گا
بیٹوں میں بھتیجوں میں کوئی کم ہی رہے گا
جو وارثی کر باپ کی اک بات کہے گا
اوقات نے دیکھوگے بہت اس سے کمی کی

برپا کریں گے حشر عجب خیموں میں جاکر
لے جائیں گے پھر سر کے تئیں نیزہ چڑھا کر
لاویں گے بلا اک حرم شاہ میں آکر
دلجوئی نہ عابد کی تسلی نہ کسی کی

چھینیں گے ردائیں سر سکان حرم سے
کچھ کہہ نہ سکے گا کوئی واں فرط الم سے
درگوش سکینہ کا اتاریں گے ستم سے
دلداری کرے گا نہ کوئی باپ موئی کی

محجوب نہ ہوگا کوئی شبیر کے رو سے
ہوگا وہ پڑا خاک میں آلودہ لہو سے
کیا زین عبا آنکھ ملاوے گا کسو سے
کچھ چشم کسو سے نہ جسے دادرسی کی

جس جا کہ پڑا خاک میں ہوگا وہ تن پاک
ہووے گی کھڑی مویہ کناں زینب غمناک
کلثوم اڑاوے گی کھڑی ہوکے بہت خاک
پرسش نہ کرے گا کوئی اس خاک ملی کی

اصغر کے لیے بانو المناک پھرے گی
آنکھوں سے لہو روتی جگرچاک پھرے گی
فریادکناں منھ پہ ملے خاک پھرے گی
سننے کے نہیں بات کو اس جان جلی کی

پاس احمد مختار کا کرنے کے نہیں کچھ
رو حیدر کرار کا کرنے کے نہیں کچھ
غم عابد بیمار کا کرنے کے نہیں کچھ
کیا دیکھیو اس قوم نے دنیاطلبی کی

بے صرفہ چلے آویں گے غارت کے بہانے
لے جائیں گے لوگوں کے تئیں پاؤں چلانے
دیکھوگے کہ اس جمع سراپاے جفا نے
وارث کے موئے پر بھی جفا میں نہ کمی کی

خوش ہوویں گے دیکھیں گے اسیروں کو جو مغموم
دم لینے نہ دیویں گے جو ہو ماتم مظلوم
انصاف کروگے تو تمھیں ہووے گا معلوم
ان بدگہروں نے کوئی بھی بات بھلی کی

القصہ وے سب شام کی جانب کو چلیں گے
دل اور جگر آتش کربت سے جلیں گے
کم فرصتی وقت سے ٹک دم بھی نہ لیں گے
سن لیجو کہ عابد نے بلا رنج کشی کی

یک چند جدا جا کے وہ رنجور رہے گا
بے گور و کفن یہ تن پرنور رہے گا
ہر جاے بہم میرؔ یہ مذکور رہے گا
کیا سمجھے تھے وے لوگ جو یہ بے ادبی کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse