آئی بہار دور ہو ساقی شراب کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آئی بہار دور ہو ساقی شراب کا
by نسیم میسوری

آئی بہار دور ہو ساقی شراب کا
دریا بہا دے بزم میں اشک کباب کا

اس آفتاب رخ پہ نظر اپنی پڑتے ہی
شبنم کی طرح اڑ گیا پردہ حجاب کا

کس بے وفا پہ مرتا ہے کیا کیجیے اسے
گھر اور ہو کہیں دل خانہ خراب کا

کرنے تو دو سوال کریں ہیں تو کیا
عاشق ہوں میں بھی اک بت خانہ خراب کا

ہر دم وہ مجھ کو دیکھ کے ابرو چڑھاتے ہیں
پیاسا ہے خنجر ان کا مرے خون ناب کا

قدموں کو چومتا اے صنم آتے جاتے میں
کیوں سنگ میں بنا نہیں تیری جناب کا

صدمے فراق یار کے کیا کم ہیں اے نسیمؔ
محشر میں مجھ کو خوف نہیں کچھ حساب کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse