آئیں گے گر انہیں غیرت ہوگی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آئیں گے گر انہیں غیرت ہوگی
by بیان میرٹھی

آئیں گے گر انہیں غیرت ہوگی
وہ نہ آئے تو قیامت ہوگی

حشر میں کون سنے گا فریاد
سد رہ حد سماعت ہوگی

ننگ نظارہ ہے ہم چشمۂ عام
ہم نہ دیکھیں گے جو رویت ہوگی

یک طرف ہو کے رہیں گے یک رنگ
ہم کو اعراف سے نفرت ہوگی

شکوہ ہے دین وفا میں احداث
مجھ سے کاہے کو یہ بدعت ہوگی

ہیں قیامت میں تامل کیا کیا
وصل کی کون سی ساعت ہوگی

ریگ ہوں چاہیے دریائے شراب
میکدے پر نہ قناعت ہوگی

ہے شب وصل دو عالم گیسو
وہ جبیں صبح شہادت ہوگی

بحر رحمت ہے دو عالم کو محیط
میرے مشرب کی سی وسعت ہوگی

مے سے آلودہ ہوا دامن حسن
متہم خون کی تہمت ہوگی

کھینچتا تھا کوئی ان کا دامن
خاک میں وصل کی حسرت ہوگی

راس ہے چارۂ بالمثل مجھے
قید سے اور بھی وحشت ہوگی

شعلہ رو پڑھتے ہیں کلمہ تیرا
شمع انگشت شہادت ہوگی

غیر کی آگ میں جلنے نہ دیا
حسن کی سی کسے غیرت ہوگی

واشدہ غنچۂ خاطر مت مانگ
منتشر بوئے محبت ہوگی

زہر لگتی ہے انہیں میری حیات
کیوں کہ منظور شہادت ہوگی

کھا گئے نرگس شہلا کا فریب
کہ ان آنکھوں میں مروت ہوگی

تیری زلفوں نے چڑھائے چلے
دل کی اس کوچہ میں تربت ہوگی

بن گئے سات جہنم تہ خاک
کس کے پہلو میں یہ حدت ہوگی

کہیں سر پھوڑ کے مر رہیے بیاںؔ
اک جہاں سے تو فراغت ہوگی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse