آئینۂ عبرت ہے مرا دل بھی جگر بھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آئینۂ عبرت ہے مرا دل بھی جگر بھی
by ثاقب لکھنوی

آئینۂ عبرت ہے مرا دل بھی جگر بھی
اک درد کی تصویر ادھر بھی ہے ادھر بھی

کیا تم سے شکایت مجھے قسمت سے گلہ ہے
پھرتا ہے مقدر تو پلٹتی ہے نظر بھی

اس کو بھی نکال اے دل پر داغ کے گلچیں
کانٹا ہے مرے پہلوئے خالی میں جگر بھی

بس نالۂ دل بس مجھے امید نہیں ہے
منہ دیکھنے والوں میں ہے ظالم کے اثر بھی

ملنے سے بھی ان کے نہوی دل کو تسلی
وصلت کی مسرت بھی رہی صبح کا ڈر بھی

تھامے ہیں کلیجا وہ مرے دل کو دکھا کے
اک تیر کی تاثیر ادھر بھی ہے ادھر بھی

ہوش اڑتے ہیں گم گشتگیٔ اہل عدم سے
اس دشت‌‌ سیہ روز میں عنقا ہے خبر بھی

پس کر ترے ہاتھوں کی حنا جب سے ہوا دل
اک خون کا چلو نظر آتا ہے جگر بھی

ٹکڑے تھا کلیجا مرا خود جور فلک سے
پہلو سے گئی چھان کے دل ان کی نظر بھی

تنہائی فرقت میں کوئی پاس نہ ٹھہرا
رخصت ہوا آخر کو دعاؤں سے اثر بھی

ہر خوف سے پہلو کا بچانا نہیں اچھا
اے امن طلب حشر میں کام آئے گا ڈر بھی

کیا زخم دل امید رکھے اس سے کہ جس نے
دیکھا نہ کبھی چاک گریبان سحر بھی

روداد ہے کیا شہر خموشاں کی الٰہی
اس باب میں خاموش ہیں ارباب خبر بھی

تصویر بنا دیجیے مجھ کو کسی صورت
لے جائیے پہلو سے مرا دل بھی جگر بھی

سد حادثۂ دہر کی ٹوٹی نہ اجل سے
جاتی نہیں ان تک مرے مرنے کی خبر بھی

یہ حکم محبت ہے کہ دل اس پہ فدا ہے
ثاقبؔ جسے دیکھا نہ کبھی ایک نظر بھی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse