آئینۂ خیال تھا عکس پذیر راز کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آئینۂ خیال تھا عکس پذیر راز کا
by وحشت کلکتوی

آئینۂ خیال تھا عکس پذیر راز کا
طور شہید ہو گیا جلوۂ دل نواز کا

پایہ بہت کیا بلند اس نے حریم ناز کا
تا نا پہنچ سکے غبار رہ گزر نیاز کا

خستگیٔ کلیم نے نکتہ عجب سمجھا دیا
ورنہ حریف میں بھی تھا اس مژۂ دراز کا

دیر ملا تھا راہ میں کعبے کو ہم نکل گئے
جذبۂ شوق میں دماغ کس کو ہو امتیاز کا

بندگی اور صاحبی اصل میں دونوں ایک ہیں
جس کا غلام ایاز ہے وہ ہے غلام ایاز کا

گو تہی نصیب نے دور رکھا تو کیا ہوا
بندۂ خانہ زاد ہوں اس کے قد دراز کا

شوق ترا ہے موجزن ذوق ترا بہانہ جو
کھول نہ دیں بھرم کہیں پرد گیان راز کا

مستیٔ بے خودی سے یاں آنکھ کھلی نہ حشر تک
یعنی یہی جواب تھا نرگس نیم باز کا

آہ و فغاں کے ساتھ ساتھ چھا گئی ایک بے خودی
قطع زباں ضرور تھا شمع زباں دراز کا

خاک میں مل گئے ولے آنکھ اٹھی نہ شرم سے
ہم سے ہوا نہ حق ادا اس کی نگاہ ناز کا

مطرب خلد کیا سنائے وحشت خستہ کیا سنے
معتقد قدیم ہے زمزمہ حجاز کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse