آئینہ کے عکس سے گل سا بدن میلا ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آئینہ کے عکس سے گل سا بدن میلا ہوا
by منیرؔ شکوہ آبادی

آئینہ کے عکس سے گل سا بدن میلا ہوا
صبح کے پرتو سے رنگ یاسمن میلا ہوا

ہوگیا نام کدورت بھی لطافت کے خلاف
عطر مٹی کا لگایا پیرہن میلا ہوا

ہوگیا بٹنا غبار راہ جسم صاف پر
رنگ نکھرا اور بھی جتنا بدن میلا ہوا

مل گئی پوشاک لے جاتی ہیں جو زمیں مانگ کر
حلۂ جنت ہوا جو پیرہن میلا ہوا

صاف اے عریانئ وحشت کہے دیتا ہوں میں
پوست کھینچوں گا اگر میرا بدن میلا ہوا

خاکساری سے ہوئے جز و زمیں ہم بعد مرگ
خاک کا پردا بنا ایسا کفن میلا ہوا

مل گجے کپڑے پسینے میں معطر ہوگئے
عطر میں دھویا گیا جو پیرہن میلا ہوا

بعد مردن بھی تکلف سے کدورت دل میں ہے
صحبت کافور سے اپنا بدن میلا ہوا

ہوگیا مسی کا دھوکا صاف اہل دید کو
دود قلیاں سے لب غنچہ دہن میلا ہوا

طبع رنگیں کو مکدر سرد آہوں نے کیا
دو نسیم صبح سے رنگ چمن میلا ہوا

شیشۂ ساعت کی کیفیت دکھائی یار نے
دل میں جب اس کے غبار ٓیا بدن میلا ہوا

کیا تری تلوار بھی مجھ سے غبار آلود تھی
خون دل کا رنگ کیوں اے تیغ زن میلا ہوا

ہوگئی بے حس غبار آمد صیاد سے
خاک تودا لوگ سمجھے جوہرن میلا ہوا

کیا کدورت لائیں جس پے نمک کی گرمیاں
شمع کافوری سے رنگ انجمن میلا ہوا

شاعروں میں گفتگو آئی کدورت کی بہم
صاف کہتا ہوں کہ اب رنگ سخن میلا ہوا

کیا لطافت ہے کہ غلطی میں مکدر ہوگیا
منہ لگاتے ہی ترا رنگ دہن میلا ہوا

سالک راہ بتاں آخر کو پتھر ہوگئے
ہوگیا بہاری جو رخت برہمن میلا ہوا

وصل کی شب باتوں باتوں میں مکدر ہو گئی
گفتگوئے بوسہ سے رنگ دہن میلا ہوا

خاک میں مل کر نہ چھوڑا بوسۂ دیوار یار
بن گیا روزن اگر رنگ دہن میلا ہوا

کوچۂ گیسو میں کس کی خاک اوڑالائی صبا
اے پری موباف جعد پرشکن میلا ہوا

صاف گوئی سے غبار آئینہ میں آیا منیرؔ
میری باتوں سے دل اہل سخن میلا ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse