آئینہ کبھی قابل دیدار نہ ہووے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آئینہ کبھی قابل دیدار نہ ہووے
by عشق اورنگ آبادی

آئینہ کبھی قابل دیدار نہ ہووے
گر خاک کے ساتھ اس کو سروکار نہ ہووے

کیا خاک کہو اس میں تجلی ہو نمایاں
خورشید کا جو ذرہ پرستار نہ ہووے

گر مہر نہ ہو داغ کے الفت کی گواہی
منظور مرے درد کا طومار نہ ہووے

دل خواب کی غفلت سے مبادا کہیں چونکے
یہ فتنۂ خوابیدہ ہی بیدار نہ ہووے

عشق اہل وفا بیچ اسے قدر ہے کیا خاک
وہ دل کہ جو گرد رہ دل دار نہ ہووے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse