آؤ کبھو تو پاس ہمارے بھی ناز سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آؤ کبھو تو پاس ہمارے بھی ناز سے
by میر تقی میر

آؤ کبھو تو پاس ہمارے بھی ناز سے
کرنا سلوک خوب ہے اہل نیاز سے

پھرتے ہو کیا درختوں کے سائے میں دور دور
کر لو موافقت کسو بے برگ و ساز سے

ہجراں میں اس کے زندگی کرنا بھلا نہ تھا
کوتاہی جو نہ ہووے یہ عمر دراز سے

مانند سبحہ عقدے نہ دل کے کبھو کھلے
جی اپنا کیوں کہ اچٹے نہ روزے نماز سے

کرتا ہے چھید چھید ہمارا جگر تمام
وہ دیکھنا ترا مژۂ نیم باز سے

دل پر ہو اختیار تو ہرگز نہ کریے عشق
پرہیز کریے اس مرض جاں گداز سے

آگے بچھا کے نطع کو لاتے تھے تیغ و طشت
کرتے تھے یعنی خون تو اک امتیاز سے

مانع ہوں کیوں کہ گریۂ خونیں کے عشق میں
ہے ربط خاص چشم کو افشائے راز سے

شاید شراب خانے میں شب کو رہے تھے میرؔ
کھیلے تھا ایک مغبچہ مہر نماز سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse