آنائی کے شیر انسان - باب 4
باب چہارم
شیر انسان
ان چھوئے جنگل میں انسان فطرت کے قریب ہوتا ہے اور اس پر پوری طرح انحصار کرتا ہے اور ہر اس قابلِ مشاہدہ چیز پر غور کرتا ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے تو جنگل کے باسیوں کی اگلی نسلیں مختلف واقعات کے گرد اپنے تخیل سے تفصیلات بنتی جاتی ہیں اور وقت کے ساتھ یہ کہانیاں بھیانک تصورات بن جاتی ہیں۔
جتنا جنگل کے باسی نگیلمو۔ گڈونگن یعنی شیرآدمیوں پر یقین رکھتے ہیں،ا س سے زیادہ یقین شاید ہی کسی چیز پر رکھتے ہوں۔ جہاں بھی شیر پائے جاتے ہیں، وہاں یہ کہانیاں بھی ملتی ہیں۔ تاہم بالی اس سے مستثنٰی ہے کہ وہاں بدھ مت کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ وہاں اچھی روح یا بدروح کے بعد آنے والا کوئی تصور باقی نہیں بچا۔
روایات کے مطابق پلمبنگ کے ضلع میں ایسے انسان پائے جاتے ہیں جو بالکل عام انسان دکھائی دیتے ہیں مگر ان کے بالائی ہونٹ کے اوپر درمیان میں نشیب نہیں ہوتا۔ ان لوگوں کے پاس ایسی طاقت ہوتی ہے کہ وہ شیر بن سکتے ہیں۔ ہاشم توہم پرست ہونے کی وجہ سے ان تمام تواہمات پر یقین رکھتا تھا اور اس کا ماننا تھا کہ پہاڑی علاقے میں ڈیمپو پہاڑیوں میں کسی جگہ ایک پورا گاؤں ہے جس کی تمام تر آبادی شیرآدمیوں اور شیرعورتوں اور ان کے بچوں پر مشتمل ہے۔
ان لوگوں کے پاس کوئی جادوئی نسخہ ہوتا ہے کہ جس کی مدد سے یہ انسان سے شیر اور شیر سے انسان بن سکتے ہیں۔ عام طور پر انہیں عام انسانوں کی طرح کھیتی باڑی کرتے، بازار آتے جاتے، خرید و فروخت کرنے کے علاوہ بعض اوقات ہمسایہ دیہاتوں کی عام عورتوں سے شادی بھی کر لیتے ہیں۔
سائنسی دنیا کو ان شیرآدمیوں میں دلچسپی رہی ہے۔ Leendertsz نے اپنی کتاب De Dierenwereld van Insulinde میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ اسی کتاب میں Van Balen کے حوالے سے سورآدمیوں کا بھی اقتباس دیا گیا ہے جو کمپونگ بنیجی بلینگکاو میں رہتے ہیں۔ یہ آبادی دو حصوں میں منقسم تھی۔ ایک حصے میں سورآدمی رہتے تھے جو سور بن سکتے تھے اور دوسرے حصے میں شیرآدمی رہتے تھے جو شیر بن جاتے تھے۔ اُس علاقے میں شیرآدمیوں کو تجنڈا کو کہا جاتا تھا۔
سال کے خاص ایام میں شیرآدمی آبادی سے نکل کر اپنی مخصوص شکارگاہوں کو چلے جاتے تھے۔ اگر راستے میں کوئی بڑا دریا آ جاتا تو یہ شیرآدمی انسانی شکل میں آ کر سمپان یعنی کشتی کی مدد سے دریا عبور کر لیتے تھے۔ اس مقصد کے لیے ان کے سر پر پوٹلی بھی ہوتی تھی تاکہ ملاح انہیں عام راہگیر سمجھیں۔ راستے میں کسی بستی سے گزر ہوتا تو انسانی شکل میں جا کر وہ رات گزارنے کے لیے اجازت مانگتے۔ اگر دیہاتی اتنے غافل ہوتے کہ ان کے بالائی ہونٹ سے بھی ان کو نہ پہچان سکتے تو انہیں اپنی غفلت کی سزا ملتی۔ صبح ہمسائیوں کو میزبان کی ہڈیاں ملتیں اور شیرآدمیوں کا کوئی اتہ پتہ نہ ہوتا۔
شیرآدمیوں کے بارے یہ تصور صرف سماٹرا تک محدود نہیں۔ میں نے مشرقی جاوا کے ضلع پروبولنگو میں ایسے لوگوں سے بات کی ہے جو یہ روایات سن چکے تھے لیکن انہیں جادوئی منتر کے بارے کچھ علم نہیں تھا۔ ان کے خیال میں یہ تبدیلی لاشعوری طور پر ہوتی ہے۔ میں نے van Balen کی کتاب میں ایسی مخلوق کا تذکرہ پڑھا ہے اور اس کتاب میں اس مخلوق کے بارے بتایا گیا ہے کہ وہ شاید لمونگن میں رہتی ہے۔
ان لوگوں کے بارے بے شمار داستانیں لوگوں میں مشہور ہیں۔ جب میں پلمبنگ ضلع میں متعین ہوا تو پہلی بار میرا واسطہ اس سے پڑا تاہم میں نے زیادہ توجہ نہیں دی۔ ان دنوں میری تعیناتی رانالینگاؤ نامی دور افتادہ جگہ پر تھی۔ یہاں شکار کی کثرت تھی اور شکاری کے لیے جنت کے برابر۔ میرا گھر چھوٹی پہاڑی پر بانس سے بنا ہوا جھونپڑا نما تھا۔ اس کے سامنے خوبصورت باغ تھا اور گھر اور باغ کے اردگرد ریتلا دائرہ سا بنا ہوا تھا۔ یہاں سے نیچے کی وادی کا بہت خوبصورت نظارہ دیکھنے کو ملتا تھا۔ میں نوجوان تھا اور ابھی میری شادی نہیں ہوئی تھی، اس لیے مجھے زیادہ تکلفات کی ضرورت بھی نہیں تھی اور مجھے کھلی ہوا میں رہنا پسند تھا۔
آس پاس کے علاقے میں مقامی لوگ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں یا جنگل میں جگہ صاف کر کے اکا دکا جھونپڑوں میں رہتے تھے۔ یا تو ان کا گزارہ کھیتی باڑی سے ہوتا تھا یا پھر چھوٹی موٹی دکانیں ہوتی تھیں۔ بھاری کام جیسا کہ جنگل میں راستہ بنانا یا دریا یا کھائیوں پر پل بنانے کے لیے درختوں کی کٹائی کے لیے میرے پاس اپنے آدمی تھے جو سخت جان جاوانیز اور ساحل سے تعلق رکھتے تھے۔
مجھے کام کی وجہ سے اکثر رات بھر باہر رہنا پڑتا تھا۔ اس لیے مجھے اپنے گھر کا سامان ملازم کے بھروسے پر چھوڑنا پڑتا تھا جو مالی بھی تھا۔ اس کے ساتھ دو اور خواتین بھی ملازم رکھی تھیں جو کھانا پکانے اور پانی لانے کا کام کرتی تھیں۔ ہاشم بھی ساتھ رہتا تھا لیکن وہ میرے ساتھ گھر آتا اور میرے ساتھ کام پر جاتا تھا۔ ویسے بھی اسے گھر کا کام کرنا بالکل پسند نہیں تھا۔
مجھے ان ملازمین پر پورا بھروسہ تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ یہ لوگ سب گھر سے باہر سوتے تھے۔ ان کی عدم موجودگی میں گھر پر چوروں کا راج ہو جاتا تھا۔ اس جھونپڑی نما عمارت میں چوروں کو گھسنے میں کوئی مشکل نہیں پیش آتی تھی اور بہت مرتبہ ایسا ہوا کہ جب میں کئی روز کے بعد گھر پہنچا تو دیکھا کہ میرے ملازمین میرے گھریلو اشیا کے مزید کم ہو جانے پر افسوس کا اظہار کر رہے ہوتے تھے۔ ایک بار چور میرے گھر سے میز پوش اور چار نیپکن لے اڑے۔ اکیلے رہتے ہوئے اس طرح کی چھوٹی چیزوں کی اہمیت بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ آپ کو شاید ایسا نہ لگے۔ میرے گھر سے پچاس میل کے دائرے میں تین یورپی رہتے تھے جن میں سے دو کے باغات تھے اور ایک بی پی ایم تیل کمپنی کے لیے تیل کی تلاش کا کام کرتا تھا۔ سو جب یہ لوگ میرے گھر کھانے پر آتے تو یہی میزپوش اور یہی نیپکن ان کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ ان لوازمات کی وجہ سے انہیں یقین رہتا ہوگا کہ میں جنگل کی زندگی میں رہ کر جنگلی نہیں بنا۔ جونہی ان میں سے کوئی میرا مہمان بنتا تو میں فوراً صندوق سے میزپوش اور نیپکن نکالتا جس میں کافور کی بو شاید کئی کئی میل تک پھیل جاتی ہو، اور ان کے لیے کھانے کی میز سج جاتی۔
اب چونکہ ‘خزانہ’ چوری ہو چکا تھا، میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ میں نے مقامی ملازمین کو حکم دیا کہ میری عدم موجودگی میں وہ گھر کے اندر سویا کریں گے تاکہ چوروں کو موقع نہ مل سکے۔
ایک بار ہاشم دو دن کے لئے غائب ہوا۔ دراصل وہ جنگلی ریچھ کا پیچھا کرتا گیا جو شاید لمبے سفر پر نکلا تھا۔ واپسی پر اس نے عجیب کہانی سنائی۔ جب وہ ایک بہت دور کے دیہات پہنچا تو وہاں ایک چھوٹا سا بچہ اژدہے کی گرفت میں تھا اور ہاشم نے اس بچے کو چھڑایا اور اس کے والدین کے پاس لے گیا۔ وہاں جا کر جب اس بچے کے والدین سے ملا تو ششدر رہ گیا۔ دونوں کے بالائی ہونٹ پر نشیب نہیں تھا۔
ہاشم بہت برسوں سے میرا ملازم چلا آ رہا تھا اور اسے پورا اطمینان تھا کہ ایسی مافوق الفطرت بات سن کر میں اس کا مذاق نہیں اڑاؤں گا۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی میں نے اس کی کہانی سنجیدگی سے سن تو لی مگر اسے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ شاید اس نے یہ کہانی اپنی طرف سے گھڑ لی ہو۔ جب کوئی جنگل شکار کے قابل جانوروں سے بھرا ہوا ہو تو ظاہر ہے کہ شیروں کی موجودگی عام سی بات ہے اور شیرآدمیوں سے ملاقات بھی اس کے لیے متوقع رہی ہوگی۔ تاہم یہاں کی مقامی آبادی نے کبھی بھی شیرآدمیوں کا ذکر نہیں کیا تھا اور نہ ہی شیروں کی وجہ سے ہمیں کوئی تکلیف ہوئی۔ سو ہاشم اور اس کی کہانی کو بھلا کر میں نے تمام تر توجہ اپنے کام پر مرکوز رکھی۔
ایک شام مجھے کام پر کافی دیر ہو گئی اور میں سورج غروب ہونے کے بعد گھر کو لوٹا۔ بہت تھکن ہو رہی تھی اور غسل کا سوچ رہا تھا۔ میرے سامنے فورمین ایک مشعل اٹھائے چل رہا تھا اور اس کے پیچھے میں بالکل نہتا چل رہا تھا۔ میرے ہاتھ میں ایک پرانگ تھی۔ مشعل کی ڈولتی روشنی میں سائے اپنے اصل قد سے بہت بڑے اور لرزاں تھے۔ ہم جب گھر پہنچے تو ریتلا احاطہ چمک رہا تھا۔ اچانک ہی میرا ہمراہی پیچھے کو مڑا اور جھک کر اس نے میرا ہاتھ تھام کر کہا ‘تھوان۔ ہاریماؤ۔‘
اچانک ہی میں پوری طرح ہوشیار ہو گیا اور بے چینی سی ہونے لگی۔ ہمراہی کوئی چھوٹا بچہ نہیں تھا اور نہ ہی اس نے کوئی خواب دیکھا ہوگا۔ میں نے تاریکی میں پوری توجہ سے جھانکا۔ مشعل کی ہلکی سی روشنی لرز رہی تھی۔ ہمراہی کے دانت بج رہے تھے، جس سے مجھے حیرت نہ ہوئی۔ پھر میں نے حوصلہ شکن صورتحال دیکھی، میرے صحن میں چار شیر موجود تھے۔
دائیں جانب بانسوں کے سائے میں ایک بڑے شیر کی آنکھیں دمک رہی تھیں۔ دروازے کے پاس ہی دو بچے کھیل رہے تھے اور ان کے ساتھ شیرنی لیٹی ہوئی تھی۔ کسی چڑیا گھر میں یہ بہترین منظر ہوتا کہ یہ سب شیر لوہے کی مضبوط سلاخوں کے پیچھے ہوتے، مگر یہاں انہیں پا کر محض دہشت ہو رہی تھی۔ ہم اسی جگہ بے حس و حرکت کھڑے رہے مبادا کہ شیر ہماری موجودگی سے آگاہ ہو جائیں۔ پام اور بانس کے جھنڈ عجیب سی آوازیں پیدا کرتے رہے۔ وادی سے جنگل کی عجیب آوازیں ہمیں سنائی دیتی رہیں۔ شیروں کی آنکھیں ایسے دمک رہی تھیں جیسے کوئی بڑے جگنو جل رہے ہوں۔ بچوں کے کھیلنے کی آواز ہمیں صاف سنائی دے رہی تھی۔
پھر اندھیرے حصے میں بیٹھا شیر اٹھا اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے روانہ ہو گیا۔ اس کے خاندان نے اس کی پیروی کی۔ جلد ہی اندھیرے میں سب گم ہو گئے اور کچھ دیر تک ہمیں ان کے چلنے کی آواز آ تی رہی کہ ان کے پنجوں تلے ٹہنیاں وغیرہ ٹوٹتی رہیں۔ صاف لگ رہا تھا کہ وہ اپنی خوشی سے جا رہے ہیں۔
چند لمحے تک سن گن لینے کے بعد ہم تیزی اور خاموشی سے گھر کے اندر چلے گئے۔ شیروں کی موجودگی کی وجہ سے مجھے اپنا گھر مزید کمزور لگا۔ فوراً میں نے اپنی رائفل بیڈ روم سے نکالی تو کچھ سکون ملا۔
میرا ہمراہی فورمین مزدوروں کی رہائش گاہوں کے پاس ہی رہتا تھا، نے مجھ سے رات یہیں گزارنے کی درخواست کی جو میں نے بخوشی قبول کر لی۔ پھر رائفل اور شکاری لیمپ لے کر میں نے غسل خانے کا رخ کیا اور غسل سے فارغ ہو کر فوراً واپس لوٹ آیا۔ واپس پر مقامی ملازمین کو کہتا آیا کہ کھانا پیش کریں۔ جتنی دیر میں اور فورمین کھانا کھاتے، میں نے ملازم سے پوچھا کہ اسے کوئی عجیب بات محسوس ہوئی۔ اس کا جواب نفی میں تھا۔ میں نے فورمین کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ اس بارے کوئی بات نہیں ہوگی۔ ہاشم پہلے ہی سو چکا تھا، ورنہ اس سے بھی پوچھتا۔
جب ملازمین باہر نکلے تو میں نے دروازے کی اوٹ سے انہیں جاتے دیکھا۔ پھر میں نے دروازہ مقفل کر دیا اور اپنے مہمان کے سونے کی جگہ تیار کرنے لگا۔ ہم نے اس کی خاطر چارپائی بچھائی اور اس پر مچھردانی لگا کر ہم نے سگریٹ پیا اور پھر لیٹ گئے۔
ابھی میں سونے ہی والا تھا کہ باہر شور سنائی دیا۔ پہلے ایک عورت کی چیخ سنائی دی اور پھر دروازہ زور سے بند ہوا۔ پھر اندر سے زور زور سے باتیں کرنے کی آوازیں آنے لگیں۔ میرے مقامی ملازمین مجھے پکار رہے تھے، ‘تھوان، تھوان!‘
میں فوراً بستر سے اترا اور اپنی رائفل سنبھال کر لیمپ جلایا اور کھانے کے کمرے پہنچا جہاں میرا مہمان دروازہ کھول رہا تھا۔ جب دروازہ کھلا تو میں نے باہر جھانکا۔
ملازمین ابھی تک شور مچا رہے تھے اور عورتوں کی آواز کافی اونچی تھی۔ جب باہر کی تاریکی سے میری آنکھیں آشنا ہوئیں تو لیمپ کی مدہم روشنی میں عجیب منظر دکھائی دیا۔ شیر پھر وہیں موجود تھے۔ سب سے بڑا شیر احاطے کے کنارے پر لیٹا ہوا تھا اور بچے اچھل کود رہے تھے۔ شاید کوئی ملازم باہر نکلا تو فوراً ہی اسے شیر دکھائی دیے۔
شیرنی اپنا سر اٹھائے اور دم سیدھا کیے کھڑی رہی اور اس کی آنکھیں ملازمین پر جمی ہوئی تھیں۔ جب میں نے رائفل شانے کو اٹھائی تو میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ میں گولی چلانے کو تیار تھا مگر کسی انجانی سوچ نے میرا ہاتھ تھامے رکھا۔ شیر کسی کو نقصان تو نہیں پہنچا رہے تھے۔ محض دو گھنٹے قبل انہوں نے میری خاطر راستہ چھوڑ دیا تھا۔ میں نے اپنا ہاتھ روک لیا اور شیر کے بچوں کے بے فکری والی کھیل کود کو دیکھنے لگا۔ شیر جو نیم دراز تھا، نے اپنے پہلو کو چاٹنا شروع کر دیا اور ٹانگ پھیلا دی۔ صرف شیرنی چوکیداری کر رہی تھی۔
تاہم یہ صورتحال زیادہ دیر نہیں چل سکتی تھی۔ میں نے اسی طرح رائفل اٹھائے ہوئے مقامی زبان میں چلا کر کہا، ‘چپ ہو جاؤ!‘
فوراً ہی ایک چیخ سنائی دی اور پھر خاموشی چھا گئی۔ تاہم بڑا شیر جست لگا کر اٹھا اور شیرنی نے ہلکی سی غراہٹ سے سر موڑا۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ دونوں شیر کھڑے ہو کر مجھے بے فکری سے دیکھ رہے تھے اور میں انہیں رائفل کے دیدبان سے دیکھ رہا تھا۔ تاہم میں نے گولی نہیں چلائی۔ خوف اور جوش کی جگہ سکون اور خوشی چھا گئی۔ میں نے رائفل جھکا کر دروازہ بند کر دیا۔ فورمین نے مجھے دیکھا مگر کچھ بولا نہیں۔
پھر میں نے اس بارے زیادہ نہیں سوچا اور اپنی مچھردانی میں جا کر سو گیا۔ تاہم صبح ہاشم نے مجھے معمول سے پہلے جگا دیا۔ اس نے مجھے اپنی دانا آنکھوں سے دیکھا اور مجھے برآمدے میں لے گیا۔ بغیر بولے اس نے ناریل کے چھلکے سے بنی چٹائیوں کی طرف اشارہ کیا جہاں شیروں کے بال پڑے تھے اور احاطے میں ہر طرف شیروں کے پگ تھے۔ اس نے آنکھوں آنکھوں میں پوچھا، ‘آپ نے دیکھا؟‘ ظاہر ہے کہ میرے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی لیکن یہ سب معاملہ میری سمجھ سے باہر تھا اور میں نے کچھ کہے بغیر اسے قبول کر لیا۔
صورتحال کافی مضحکہ خیز تھی۔ شیر ساری رات میرے برآمدے میں آرام کرتے رہے اور میں آرام سے اپنے بستر میں سوتا رہا۔ ہمارے درمیان محض بانس کی ایک دیوار تھی۔
دوپہر کے کھانے کے بعد جب میں نے تھوڑا آرام کیا تو ہاشم پھر میرے پاس آیا اور تسلی کی کہ ہمارے ساتھ اور کوئی نہیں۔ پھر میرے پاس بیٹھ کر اس نے پھر شیرآدمیوں کا موضوع چھیڑ دیا۔ اس نے یاد دلایا کہ کیسے اس نے بچے کو اژدہے سے بچایا اور کیسے اس کے والدین کے بالائی ہونٹ پر نشان نہیں تھا۔ ان امن پسند شیروں کا ہمارے احاطے کی طرف آنا فطری امر تھا۔
‘تم اچھے آدمی ہو‘۔ میں نے شرمندگی چھپاتے ہوئے اس کے کندھے پر تھپکی دے کر کہا۔ مجھے ہرگز پسند نہیں تھا کہ عوام الناس میرے احاطے سے ایسی داستان جوڑنا شروع کر دیں جو میرے فہم و ادراک سے بالاتر ہوں۔ میں نے ہاشم کو سگریٹ دیا اور اس کی پیٹھ تھپک کر کام پر چلا گیا۔
اس طرح واقعات ہوتے رہے۔ اگلے روز مجھے یہی خیال رہا کہ شاید شیر آج بھی وہیں موجود ہوں۔ اس لیے غروبِ آفتاب سے قبل میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ گھر پہنچ جاؤں۔ میری رائفل میرے ہمراہ تھی۔ تاہم شیروں نے ہمیں کبھی تنگ نہیں کیا۔ جونہی وہ ہمیں آتے دیکھتے، آرام سے اٹھ کر جھاڑیوں میں چلے جاتے اور جب میں شب گزاری کے لیے گھر کے اندر پہنچ جاتا تو وہ پھر لوٹ آتے۔
چاندنی راتوں میں میں نے انہیں احاطے میں کھیلتے دیکھا جو معصومیت اور محبت سے بھرا کھیل ہوتا تھا۔ جیسے بڑی بلیاں کھیل رہی ہوں۔ ان شیروں سے مجھے معمولی سا بھی نقصان تو کیا پہنچتا، الٹا فائدہ ہوا کہ جب بھی میں رات کو گھر سے باہر ہوتا، چوروں کی ہمت نہ ہوتی کہ میرے گھر کے پاس پھٹکیں۔ بعد میں ہاشم نے مقامی آبادی کے رویے میں تبدیلی کی جانب میری توجہ مبذول کرائی۔ میں نے اس بارے کبھی کسی سے بات نہیں کی تھی مگر لوگوں کے رویے میں واقعی بدلاؤ آ چکا تھا۔ اگر میں کسی انتہائی تھکے ہوئے قلی کی جانب دیکھتا تو وہ فوراً کام میں جٹ جاتا۔ کمپونگ کے میلوں میں لوگ مجھے غذائی اجناس تحفتاً بھیجتے۔ لوگ مجھے ہر قسم کی چیزیں بھیجتے جن میں پھل، انڈے اور دریائی مچھلیاں بھی شامل ہوتی تھیں۔ لوگ مجھے جھک کر سلام کرتے حالانکہ میں کیچڑ سے لتھڑے جوتوں اور پیوند لگی خاکی وردی میں ہوتا۔
شیر ہر روز شام کو باقاعدگی سے آتے رہے۔ بچے بہت تیزی سے بڑے ہو رہے تھے۔ اب وہ میرے کتوں سپلٹ، شیری اور پلیٹ کو بھی تنگ نہیں کرتے تھے اگرچہ کتوں کو شیروں کا قرب پسند نہیں تھا۔
اگر مقامی لوگ ہر ماہ بازار جا کر اس بارے بات نہ کرتے تو اس جگہ میرا کام سہولت سے ہوتا رہتا۔ بازار میں ہونے والی سرگوشیاں فوراً ہی افواہوں میں بدلتی گئیں۔ آخر وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ مقامی کہانیاں جمع کرنے والے ایک شخص کو پتہ چلا کہ ایک ‘تھوان‘ کے گھر روزانہ شیرانسان آتے ہیں۔ جلد ہی وہ بندہ میرے پاس آیا اور اس کے پاس میرے کنٹرولر کا ذاتی خط بھی موجود تھا۔ اس خط میں کنٹرولر نے مجھ سے اس بندے کی ہر ممکن مدد کرنے کو کہا تاکہ وہ ان روایتی کہانیوں کی سائنسی اہمیت پر کام کر سکے۔
میں نے اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر بے سود۔ عجیب کیفیات کے ساتھ میں نے اسے خوش آمدید کہا۔ میرا سکون تو اس کی آمد کا مقصد جان کر غارت ہو چکا تھا۔ میں ایسے عجیب اور مافوق الفطرت واقعات کے بارے کبھی کسی اجنبی سے بات نہیں کرتا اور نہ ہی جنگل میں برسوں قیام کے دوران ہونے والے عجیب واقعات کے بارے۔ ہمیشہ میں نے ان باتوں کو اپنے اور اپنے اردگرد موجود مقامی لوگوں تک ہی رکھا ہے۔ اب ایسا بندہ میرے پیچھے پڑ گیا تھا جو کاغذ پنسل تھامے جنگل میں گھس کر ہر بات کی وجہ جاننے کے چکر میں پڑا تھا۔
اس کی آمد والی شام ہم نے کہانی سننے اور سنانے میں گزاری۔ اسے بیزار کرنے کے لیے میں شروع میں ہی بتا دیا کہ اس طرح کی ساری کہانیاں انتہائی توڑ موڑ کر پیش کی جاتی ہیں۔ یہ بات سچ بھی تھی۔ سارا وقت اس نے ایسے احمقانہ اور عجیب سوالات جاری رکھے کہ شاید ہی کوئی بات بچی ہو۔
میں نے اسے چند عام سے واقعات بتائے اور ساتھ ساتھ شیروں کی آمد کی آہٹ سننے پر توجہ مرکوز رکھی۔ میں اسے ان شیرآدمیوں کے بارے بات کرنے سے ہرممکن طور پر روکنا چاہتا تھا۔ شکر ہے کہ اس شام شیر بالکل خاموش رہے۔ اس کے علاوہ یہ بندہ بھی مسلسل بولتا رہا۔ اس کی بیان کی ہوئی ہر بات سے صاف ظاہر تھا کہ اسے کتنی غلط معلومات ملی ہیں اور میں خوشی خوشی اس کی اصلاح کرتا رہا۔
اسے بہت مایوسی ہوئی ہوگی۔ اسے تو یہ بتایا گیا تھا کہ میں ہی وہ انسان ہوں جو اس کے تمام سوالات کے جواب رکھتا ہوں اوراس کی ہر بات کی تصدیق کروں گا۔ یہاں معاملہ الٹا نکلا۔ خیر، بیزار ہو کر وہ سونے چلا گیا۔
اگلی صبح مسائل کا آغاز ہوا۔ میرے مہمان نے صبح سویرے ہی شیروں کے پگ دیکھے اور فوراً ہاشم کو بلایا جو پاس ہی کوئی کام کر رہا تھا۔ ہاشم نے فوراً کانوں پر ہاتھ دھرے اور کہا کہ اسے تو کچھ بھی علم نہیں اور وہ ابھی جا کر آقا کو بتاتا ہے۔
بدقسمتی سے اس نے دن کو پھرتے ہوئے شیروں کے پرانے پگ بھی دیکھے۔ پھر اس نے ایک قلی کو بلایا اور اسے سگریٹوں کا آدھا ڈبہ اور نصف روپیہ دے کر اس سے ساری بات اگلوا لی۔
جب میں دوپہر کو کھانے کے لیے لوٹا تو میرا مہمان بہت چپ چپ تھا۔ کھانے کے دوران بھی محض ہوں ہاں سے بات ہوتی رہی۔ اگر میں کچھ زیادہ تجربہ کار ہوتا تو شاید برداشت کر جاتا مگر جس عمر سے میں گزر رہا تھا، اس میں انسان نتائج و عواقب سے بالکل بے پروا ہو کر کچھ بھی کر لیتا ہے۔ اگر میرا مہمان سرکاری دورے پر، شکار کی خاطر یا محض دوست کی حیثیت سے بھی آیا ہوتا تو اس کے ساتھ گزرا وقت خوشی کا سبب بنتا۔ تاہم مجھے اس کا تجسس ناپسند تھا اور اس لیے بھی کہ وہ جان بوجھ کر ان چیزوں کو چھیڑ رہا تھا جن پر مجھے بات کرنا پسند نہیں تھا۔
تاہم میں نے گفتگو کو رخ اس طرح موڑا کہ میں اس کی مدد کرنے کو تیار ہوں۔ اس نے فوراً اس تعاون کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھ سے میری رائفل ادھار مانگ لی تاکہ اسی شام وہ ان میں سے ایک شیر کو شکار کرے۔
اس میں میرا بھی قصور تھا کہ میں نے بار بار اصرار کر کے شیرآدمیوں کی بات کو غلط ثابت کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ عام شیر ہیں جو میرے کتوں کے پیچھے پڑے ہیں۔ آخرکار جب اس نے میری بات مان لی تو پھر اس کی بات کا رخ بدل گیا۔ اب وہ ہالینڈ جاتے ہوئے شیر کی کھال ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔ میں اسے اس بات سے نہ روک پایا، تاہم میری خواہش تھی کہ کوئی ان دیکھا واقعہ اسے روک دے۔
شام کا اندھیرا پھیلنے لگا اور ایسا کوئی ان دیکھا واقعہ نہ ہوا۔ میرا مہمان بہت پرجوش ہو رہا تھا۔ اس نے ساری تیاریاں مکمل کر لی تھیں اور ایک قلی کی مدد سے اس نے احاطے کے ایک جانب ایک درخت پر ایک چبوترہ بنا لیا تھا۔ کسی نامعلوم سبب سے ہاشم غائب تھا۔ اب میرا ایک ہی کام رہ گیا تھا کہ شکار کے لیے کارتوس بناؤں۔ میں نے گولی کو نکال کر اسے اس طرح چھیلا کہ وہ نشانے سے دور جائے۔ پھر زیادہ بارود ڈالا تاکہ گولی چلتے ہی نالی اوپر کو اٹھ جائے اور گولی کے نشانے پر لگنے کا کوئی امکان نہ ہو۔
جب مہمان درخت پر چڑھ کر میری تین نالہ رائفل کے ساتھ بیٹھا تو میں نے اسے اچھی طرح سمجھا دیا کہ وہ صرف بھری ہوئی نالی کو ہی چلائے کہ باقی دو خالی ہیں۔ اگرچہ اس ہدایت کی ضرورت تو نہیں تھی لیکن میں نے یہ کہنا مناسب سمجھا۔ اس کے علاوہ میں نے اسے اپنی شکاری لالٹین بھی دی کہ رات کافی تاریک تھی۔ میں نے لالٹین کا رخ درختوں کی جانب کر دیا کہ میں شیر کبھی بھی اس جانب سے نہیں آئے تھے اور وہاں کوئی پگ بھی نہیں تھے۔
کہہ نہیں سکتا کہ وہ شام مجھ پر کتنی بھاری گزری۔ ٹمٹاتے لالٹین کی روشنی میں بیٹھا تجسس اور پریشانی سے اپنے ناخن چبا رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ مجھے آج تک ان شیروں سے نقصان کی بجائے فائدہ ہی ہوا ہے جس کا بدلہ اتارنے کے لیے میں نے ایک اجنبی بندے کو اپنی رائفل تھما کر ان کے شکار پر بٹھا دیا۔ جتنا سوچتا گیا، اتنا ہی مجھے یقین ہوتا گیا کہ اس بندے کا نشانہ خطا نہیں جائے گا۔ آخرکار میں نے مان لیا کہ یہ بندہ شیر مار کر ہی لوٹے گا۔
اس سوچ کے ساتھ میرے لیے سکون سے بیٹھنا ممکن نہ رہا۔ میں اس نیت سے باہر نکلنے ہی والا تھا کہ جا کر اس بندے کو یہ بتا کر کہ میں نے اس کے ساتھ دھوکا کیا ہے، اسے اتار کر واپس لے آؤں کہ اچانک عجیب سی بات ہوئی۔ پہلے شیر کے بچے کی گھبرائی ہوئی غراہٹ اور پھر بڑے شیر کی دھاڑ سنائی دی۔ عین اسی وقت وہ بندہ مدد کے لیے چلایا، گولی چلی اور اس کی گونج ابھی باقی تھی کہ شاخیں ٹوٹنے کی آوازیں آئی اور پھر دھپ کے ساتھ پریشان کن خاموشی چھا گئی۔ کچھ بندر اور پرندے دور چلا رہے تھے اور اپنے ملازمین کے کمرے سے مجھے سرگوشیوں کی آواز سنائی دی۔
میں نے لپک کر بیرونی دروازہ کھولا اور لالٹین کی روشنی میں احاطے اور اس درخت کی جانب دیکھا جہاں وہ بندہ بیٹھا تھا۔ اچانک ہاشم نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھ میں لمبا پرانگ تھا اور برآمدے کی سیڑھیوں کے ساتھ کھڑا تھا۔
وہ بندہ اپنے بنائے چبوترے کے نیچے لیٹا ہوا تھا۔ اس کا سر اس کے گھٹنوں کے درمیان تھا اور آنکھیں اور منہ دہشت کے مارے کھلے رہ گئے تھے۔ پہلے پہل تو اس کی حالتِ زار دیکھ کر مجھے بڑا ترس آیا۔ جب میں نے یہ تسلی کر لی کہ کوئی شیر آس پاس نہیں تو میں نے ہاشم کی مدد سے اسے اٹھایا اور گھر لے آیا۔
برآمدے کی کرسی پر وہ جیسے گر پڑا۔ کچھ دیر بعد اس کی حالت بحال ہوئی۔ اس کے دانت بج رہے تھے۔ بولنے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔ یا حیرت، یہی سب کچھ تو میں چاہ رہا تھا، مگر پتہ نہیں کیوں میں مطمئن نہیں تھا۔ میں نے ہاشم کو اشارہ کیا کہ شراب لے آئے۔ حیرت انگیز پھرتی سے ہاشم میری خفیہ الماری سے شراب نکال کر آیا۔ مجھے فوراً اس پر شک ہوا اور اس نے جس طرح نظریں چرائیں، مجھے اپنا شک یقین میں بدلتا محسوس ہوا۔ جب کچھ برانڈی ہمارے مہمان کے حلق سے اتری تو اس کے حواس کچھ بحال ہوئے۔ پھر اس نے کہانی بیان کی جس نے میرے خدشات کی تصدیق کی۔ جب وہ غنودگی کے عالم میں تھا کہ چھوٹے شیر نے درخت پر کسی عجیب چیز کی موجودگی محسوس کر کے اوپر دیکھا اور غرایا۔ شیروں کو دیکھتے ہی اس کے ہوش اڑ گئے کہ وہ کوئی تجربہ کار شکاری نہیں تھا ۔ پھر اسے زمین پر گرنے کے بعد ہوش آیا۔
اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے وہ بار بار اپنے دائیں کندھے کو تھام کر کراہتا رہا۔ دھکے سے شاید جوڑ ہل گیا تھا اور شانے پر بڑا نیل دکھائی دے رہا تھا۔ تاہم جب اس نے کہانی بیان کی تو زندہ دلی سے ہنس رہا تھا۔ شاید میرے لیے بھی یہی حل بہترین تھا۔ اس کے بعد میں نے اس کی ہر ممکن مدد کی اور تمام معلومات جمع کرنے میں مدد دی۔ جب وہ واپس گیا تو ہم دوست بن چکے تھے۔
ان شیروں کو ہم نے پھر کبھی نہیں دیکھا۔ وہ ہمارے علاقے سے ہی غائب ہو گئے تھے اور مجھے شرمندگی سی ہونے لگی۔