چوتھا خطبہ، 29 نومبر 1853ء

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

گارساں دتاسی

چوتھا خطبہ

29 نومبر 1853ء

حضرات! ہندوستانی زبان، جیسا کہ آسانی سے تصور کیا جا سکتا ہے، صرف بول چال ہی میں استعمال نہیں ہوتی بلکہ اس ملک میں روز افزوں تحریر کے کام میں بھی لائی جا رہی ہے، جسے ہم ہندوستان (انڈیا) کہتے ہیں جو وسعت میں اس قدر بڑا ہے جس قدر براعظم یورپ اور جہاں سولہ کروڑ انسان بستے ہیں اسی طرح اس کا علم و ادب ترقی کر رہا ہے اور روز بروز اچھی اچھی تالیفات و تصنیفات سے مالامال ہو رہا ہے۔

1851ء سے بعض نئے سنگی مطبع قائم ہوئے ہیں جہاں سے دلچسپ کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ نئے اخبار بھی جاری ہوئے ہیں اور پرانے تقریباً سب کے سب زندہ ہیں۔ اس اطلاع کی بنیاد پر جو میرے کرم فرما دوستوں اور ایک انگریزی اخبار (فرینڈ آف انڈیا) نے اپنی عنایت سے مجھے بہم پہنچائی ہے میں شمالی و مغربی صوبوں کے ان مطابع کے متعلق چند صحیح تفصیلیں آپ کے سامنے بیان کر سکتا ہوں جو 1852ء کے آغاز میں وہاں جاری تھے۔ یہ صوبے رقبے میں فرانس سے دو چند ہیں اور وہاں کی چالو زبان ہندوستانی ہے خواہ اردو ہو یا ہندی۔ افسوس ہے کہ میں آپ کو راجپوتانہ، دکن، سلطنت اودھ اور خود تینوں انگریزی احاطوں کی دارالحکومتوں کے متعلق کوئی نئی بات نہیں بتا سکتا، تاہم جو جزوی تفصیل میں آپ کے سامنے پیش کروں گا اس سے آپ قیاسی طور پر اس ادبی تحریک کا اندازہ کر سکیں گے جو اس زبان کے ذریعے سے جس کے حاصل کرنے کے لیے آپ یہاں آئے ہیں، ہندوستان میں حقیقی طور پر ظاہر ہو رہی ہے، نیز آپ پر ظاہر ہو جائے گا کہ زمانہ دراز سے ہندوستانی نے خاصی حیثیت اور اہمیت حاصل کر لی ہے۔

1853ء کے آغاز میں شمالی و مغربی صوبوں کے پندرہ شہروں میں 36 سنگی مطبع تھے، جن میں ہندوستانی مطبوعات شائع ہوتی تھیں اور 31 ہندوستانی اخبار تھے۔ مطبعوں کی تفصیل یہ ہے۔ سات آگرہ میں، چھ دہلی میں، دو میرٹھ میں، دو لاہور میں، سات بنارس میں اور ایک سردھنے، بریلی، کانپور، مرزا پور، شملہ، اندور، لدھیانہ، بھرت پور، امرتسر اور ملتان میں۔ ان مطبعوں سے مفصلۂ ذیل ہندوستانی اخبار شائع ہوتے ہیں۔ آگرہ سے مطبع الاخبار (جس کے معنی ہیں خبروں کا مطبع) جو شہر آگرہ میں خوب بکتا ہے۔ اخبار الخلائق (جس کے معنی ہیں خبروں کا شیر) جو ہفتہ میں ایک بار نکلتا ہے ایک اور اخبار اسی شہر سے نکلتا ہے جس کا نام قطب الاخبار ہے (یعنی خبر کا مرکز و مدار) جس میں مذہب اسلام کے متعلق بحث ہوتی ہے اس میں اسلامی روایات احادیث اور انبیا شہدا اور اولیائے اسلام کے حالات شائع ہوتے ہیں اور قدیم مصنفوں کی کتابوں کے اقتباسات بھی درج کیے جاتے ہیں۔ Meyaar معیارالشعراء (یعنی شاعروں کی برانگیختگی) ایک ادبی رسالہ یا موقت الشیوع مجموعہ ہے جس میں قدیم و جدید شعرا کا کلام درج ہوتا ہے۔ اخبارالنواح (یعنی دور دراز مقاموں کی خبریں) پہلے ایک علمی پرچہ تھا مگر اب معمولی خبروں کا اخبار بن گیا ہے۔ آگرہ گورنمنٹ گزٹ کا ذکر محض یادداشت کے لیے کرتا ہوں یہ سرکاری اخبار ہے اور ہندوستانی اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع ہوتا ہے۔ اب اگر ہم دہلی کی طرف رجوع کریں تو وہاں سراج الاخبار ہے (یعنی خبروں کا چراغ) جو کہ اس شہر کا سب سے پرانا اخبار ہے۔ دہلی اردو اخبار (یعنی دہلی کی خبریں اردو میں) اردو میں چھپتا ہے۔ مظہرالحق (یعنی حقیقت کا مظہر) کے ایڈیٹر ایک صاحب محمد علی ہیں جن کی اسی نام کی ایک تالیف ہے جس میں مذہب اسلام کی مختلف رسموں کا ذکر ہے۔ قران السعدین (یعنی دو مبارک ستاروں یعنی مشتری و زہرہ کا اجتماع) ایک باتصویر اخبار ہے جس میں سائنس ادب اور سیاست سے بحث ہوتی ہے اس کے چند نمونے جو میرے پاس آئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ باتصویر رسالہ ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ ہندیوں میں مغربی معلومات کو شائع کرے اور انہیں ان کی تاریخ یاد دلائے۔ اس میں روزمرہ خبریں بھی چھپتی ہیں۔ ہفتہ میں ایک بار پیر کے روز شائع ہوتا ہے اور چھوٹی فولیو تقطیع کے بارہ صفحوں میں ہوتا ہے ایک ماہانہ رسالہ بھی جس کا نام فوائد الناظرین (یعنی دیکھنے والوں کے فوائد) ہے۔ اس میں علاوہ روزمرہ کی خبروں کے ٹھوس مضامین چھپتے ہیں جو عام طور پر انگریزی ذرائع سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ دقیق الاخبار (یعنی خبروں کی روح) خاص کر ہندووں کے لیے نکلتا ہے۔

میرٹھ میں دو ہندوستانی اخبار ہیں۔ ایک مفتاح الاخبار (یعنی خبروں کی چابی) ہے، جس کے ایڈیٹر محبوب علی ہیں۔ انہوں نے ہندوستانی لغت اللغات کا خلاصہ بھی لکھا ہے جو لکھنؤ میں 1847ء میں طبع ہوا۔ دوسرا جام جہاں نما (یعنی دنیا بتانے والا پیالہ) ہے یہ جمشید کے اس پیالے کی طرف اشارہ ہے جس کی تہہ میں وہ دنیا کے تمام واقعات جو گزرتے تھے دیکھ لیا کرنے کا مدعی تھا۔ اس اخبار میں علاوہ معمولی روزمرہ کی خبروں کے سرکاری گزٹ اور شمالی و مغربی صوبوں کی عدالت عالیہ (تری بیونال سوپریم) کے فیصلوں کے اقتباسات بھی درج ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک ورق بطور ضمیمہ کے شائع ہوتا ہے جس میں فیضی کی مہابھارت کا فارسی ترجمہ شائع ہوتا ہے یہ ضمیمہ اخبار کے خریداروں کو مفت نذر کیا جاتا ہے۔

بنارس میں چھ ہندوستانی اخبار ہیں۔ ان میں سے دو اخباروں کا ایک ہی ایڈیٹر ہے۔ ایک ہندی یعنی دیوناگری حروف میں اور دوسرا اردو یعنی فارسی حروف میں شائع ہوتا ہے۔ پہلے کا نام "بنارس الاخبار" یعنی بنارس کی خبریں، سنا ہے کہ راجہ نیپال سے امداد ملتی ہے، جن کی رانی بنارس میں رہی ہے۔ دوسرے کا نام حد سے زیادہ یورپ زدہ ہے یعنی بنارس گزٹ، بہرحال ایڈیٹر جو ایک پرجوش ہندو ہے ان دونوں اخباروں میں عیسائی مشنریوں کے خلاف ہندو مذہب کی پرزور حمایت کرتا ہے۔ بنارس کا تیسرا ہندوستانی اخبار "سدھاکر اخبار" یعنی قابل اطمینان خبریں، ہے۔ یہ اخبار جو انگریزی حکومت کا موافق ہے پہلے ہندی اردو دونوں زبانوں میں نکلتا تھا مگر اب صرف ہندی میں شائع ہوتا ہے۔ اس کی ہندی بہت دقیق اور سنسکرت کے الفاظ سے بھری ہوتی ہے اس لیے اس کی اشاعت صرف تعلیم یافتہ ہندوؤں تک محدود ہے۔ چوتھا اخبار باغ و بہار ہے جس کا نام اسی نام کی مشہور کتاب پر رکھا گیا ہے۔ یہ مہاراجہ بنارس کی سرپرستی میں نکلتا ہے۔ مہاراجہ ہندوستان کے جدید ادب کے بڑے مربی ہیں۔ اور ایسی بہت سی کتابیں انہوں نے اپنے خرچ سے چھپوائی ہیں اور خود بھی ہندوستانی اور فارسی کے شاعر ہیں۔ پانچواں اخبار سائرین ہند (یعنی ہندوستان کے چلنے والے) ہے۔ یہ دو ہفتے میں ایک بار چھوٹی فولیو قطع کے آٹھ صفحوں پر چھپتا ہے اور ہر صفحہ میں دو کالم ہوتے ہیں۔ علاوہ معمولی خبروں کے جو کسی قدر تفصیل سے لکھی جاتی ہے اس میں مختلف قسم کے ٹھوس مضامین بھی ہوتے ہیں۔ چھٹا اخبار بنارس ہرکارہ یعنی بنارس کا پیام رساں ہے۔ جو 1851ء سے اب تک نکل رہا ہے۔

بریلی سے "عمدۃ الاخبار" (یعنی خبروں کا ستون) شائع ہوتا ہے۔ اس کے ایڈیٹر لکشمن پرشاد ہیں۔ انہوں نے چھوٹی سی علمی اور اخلاقی سائیکلوپیڈیا بھی لکھی ہے اور اس کا نام مشرقی طرز پر ذہنی جواہرات جواہرالاذہان رکھا ہے۔

مرزاپور سے "خیرخواہ ہند" (یعنی ہند کی بھلائی چاہنے میں سرگرم) نکلتا ہے۔ یہ امریکی پروٹسٹنٹ مشنریوں کا اخبار ہے اور اس کا مقصد تبلیغ مذہب ہے۔ شملہ اخبار (یعنی شملہ کی خبریں) شملہ سے شائع ہوتا ہے یہ بہت اچھا اخبار ہے جسے آج کل شیخ عبداللہ مرتب کرتے ہیں۔ یہ انگریزی ہندوستانی دونوں سے واقف ہیں۔ ہندوستانی ان کی مادری زبان ہے۔

اندور سے جو مالوہ کا دارالحکومت ہے، مالوہ اخبار نکلتا ہے۔ یہ آٹھ صفحوں کا ہفتہ واری ہے اس کے ایک کالم میں اردو سے اردو اور دوسرے میں ہندی ہوتی ہے اس کے ایڈیٹر دھرم نرائن ہیں جن کی عمر صرف ستائیس سال کی ہو گی۔ یہ بہت اچھے شاعر ہیں اور انہوں نے مل Mill کی پولیٹیکل اکانومی (معاشیات) اور انگلستان کی ایک تاریخ کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ بھرت پور صوبہ آگرہ میں ہے۔ وہاں کا اخبار مظہر السرور (یعنی خوشی کا مظہر) ہے جو راجہ بھرت کی سرپرستی میں شائع ہوتا ہے۔ مالوہ اخبار کی طرح اس کے ایک کالم میں اردو اور دوسرے میں ہندی ہوتی ہے۔

آخر میں اب ہم پنجاب کے اخباروں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ ان کے ناموں کے دیکھنے سے یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ روشنی علم کی اشاعت میں زیادہ کوشاں ہیں کیونکہ وہاں کے سارے ہی اخبارات کے ناموں کے ساتھ نور کا لفظ لگا رہتا ہے، مثلاً دریائے نور (یعنی روشنی کا سمندر) جو لاہور کا اخبار ہے۔ ایک دوسرا جو ہفتے میں دو بار شائع ہوتا ہے، کوہ نور (یعنی روشنی کا پہاڑ) اس مشہور ہیرے کا نام ہے جو آج کل ملکۂ انگلستان کے قبضے میں ہے۔

لدھیانہ کا اخبار نور علی نور (یعنی روشنی پر روشنی) ہے جسے محمد حسین نے 1851ء میں جاری کیا تھا۔ یہ اپنی نظم کی وجہ سے مشہور ہیں۔ جس میں انہوں نے فطرت کی ان پیداواروں کو منظوم کیا ہے جن کا ذکر احادیث میں آیا ہے۔ امرتسر سے باغ نور اور ملتان سے جو اسی نام کے صوبہ کا دارالحکومت ہے، ریاض نور (یعنی روشنی کے باغ) نکلتا ہے۔

حضرات! اب میں ہندوستانی تالیف و تصنیف کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو شمالی و مغربی صوبوں میں سنہ 1851ء میں شائع ہوئیں۔ میں ان معلومات میں جو میں نے گزشتہ سال آپ کے سامنے پیش کیں، کچھ اضافہ کر سکتا ہوں۔

رومن کیتھلک نقطۂ نظر سے سردھنہ ان صوبجات میں ایسا ہے جیسے صحرا میں نخلستان۔ یہاں رومن کیتھلک مشنریوں نے مطبع قائم کر رکھا ہے جس میں حال میں علاوہ کچھ اور چیزوں کے مذہبی عقائد کی سوال و جواب کی کتاب بھی چھپی ہے۔ یہ آگرہ والی کتاب سے زیادہ تفصیلی ہے۔ کئی کتابیں دعاؤں کی اور فلیوری (Fleury) کے عقائد پر تاریخی سوال و جواب کا ترجمہ، عیسائی اولیا کے تذکرے اور کئی مذہبی کتابیں فارسی اور دیوناگری حروف میں چھپی ہیں۔ پراٹسٹنٹوں کی مذہبی مطبوعات کا میں آپ سے ذکر نہیں کروں گا وہ بلاشبہ بہت زیادہ ہیں اور ان کی اشاعت سے اہل ہند میں رفتہ رفتہ عیسائیت کی اشاعت ہوتی جاتی ہے اور اسی کے ساتھ ہر قسم کی ابتدائی کتابیں جو انگریزی ترجمہ کی جاتی ہیں اور جن کا بھی میں ذکر نہ کروں گا۔ مغربی علوم کے پھیلانے میں مدد دیتی ہیں۔

گزشتہ سال میں نے آپ سے رام چندر کے اینگلیکن فرقے کی عیسائیت قبول کرنے کا ذکر کیا ہے۔ اور میں نے ابھی ابھی اس اخبار کا ذکر بھی کیا ہے جس کے وہ ایڈیٹر ہیں۔ اس سال ایک ہندوستانی شہزادہ کا ذکر کرتا ہوں اور صرف یہی ایک ہندوستانی شہزادہ ہے جو ہمارے زمانہ میں عیسائی ہوا ہے۔ یہ مہاراجہ دلیپ سنگھ لاہور کے شاہی خاندان کا سکھ شہزادہ ہے۔ اس نے فتح گرہ میں گزشتہ مارچ کی آٹھویں تاریخ کو عیسائی مذہب قبول کیا ہے۔ اس وقت وہ فتح گڑھ ہی میں مقیم ہے۔

لیکن ہمیں ہندوستانیوں کے مطابع کی طرف اپنی توجہ مبذول رکھنی چاہیے کیونکہ یہی سب سے بڑی چیز ہے جو یورپ کی توجہ کی مستحق ہے سنہ 1851ء کے دوران میں تیس دیسی مطابع میں جس قدر کتابیں چھپی ہیں ان کا ایک گوشوارہ تیار کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا ہوتا ہے کہ ان کی تعداد 126 ہے جن میں سے 84 ہندوستانی میں ہیں۔ افسوس ہے کہ ان میں سے متعدد کتابوں کے صرف نام لکھے ہیں دوسری قسم کی کیفیت درج نہیں ہے اور محض نام سے کتاب کے متعلق صحیح اندازہ نہیں ہو سکتا کیونکہ مشرقی کتب کے نام اکثر اوقات اصل مضمون سے کچھ تعلق نہیں رکھتے۔ اس لیے حضرات! میں بعض کتابوں کا تذکرہ کرنے سے معذور ہوں۔ ممکن ہے کہ ان کا جاننا بہت دلچسپ ہوتا۔

مذہبی کتب میں سے لائق ذکر مفصلۂ ذیل کتابیں ہیں جو آپ کی محتاج توجہ ہیں۔ راماین کی شرح جو مہاراجہ بنارس کی فرمائش سے طبع ہو رہی تھی، جنوری سن 1852ء میں قریب قریب تکمیل کو پہنچ گئی تھی۔ سجن چوتر (یعنی عقلمندوں کا طرز عمل) یہ کتب راجہ بھرت پور کے حکم سے مطبع ہوئی اس میں اس لڑائی کا منظوم تذکرہ ہے جو سورج مل (جو راجہ بھرت کے بزرگوں میں سے تھے) اور صلابت خاں اور دوسرے افغان سرداروں میں ہوئی تھی۔

نجات المؤمنین۔ باوجود عربی نام کے یہ کتاب پنجاب کی ہندی بولی میں جسے پنجابی کہتے ہیں لکھی گئی ہے یہ مذہب اسلام پر ہے اور لدھیانہ میں چھپی ہے۔ حاتم طائی ہندی منظوم بنارس میں چھپی۔ ایک ہندی لغت مرتبہ تعشق دہلی میں چھپی ہے۔ یہ صاحب کئی کتابوں کے مؤلف ہیں، جو اس سے قبل شائع ہو چکی ہیں اگر میں سرکاری مطبوعات جنتریوں اور چھوٹی چھوٹی مذہبی کتابوں اور خاص کر ایسی کتابوں کو جو دوبارہ چھپی ہیں اپنے تبصرہ میں شریک کر لوں تو یہ فہرست بہت طویل ہو سکتی ہے۔

یہی کیفیت اردو مطبوعات کی ہے جن کی تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ ہندو مصنفین بھی زبان کی اسی شاخ میں لکھنا پسند کرتے ہیں جسے مسلمان مصنفین نے قابل تعریف کمال تک پہنچا دیا ہے۔

حضرات! اس سال میں اردو مطبوعات میں سے چند ایسی کتابوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں جو حقیقی طور پر قابل ذکر ہیں۔

کانپور کا مطبع ان ہندوستانی مطابع میں سے ایک ہے جن کی پیداوار بہت کثیر ہے۔ سنہ 1851ء میں اس مطبع میں علاوہ دوسری کتابوں کے ایک نظم قصہ منصور کے نام سے چھپی ہے۔ منصور ایک مشہور حکیم (صوفی) گزرے ہیں۔ جو زیادہ تر حلاج کے نام سے (جس کے معنی ہیں روئی دھنکنے والا) معروف ہیں اس مشہور شخص پر جو صوفی اور نظریۂ ہمہ اوست کا قائل ہے سن 922ء میں کفر کا فتویٰ لگایا گیا اور اس جرم پر کہ وہ اپنے تئیں "الحق" کہتا تھا جو خدا کا نام ہے، قتل کیا گیا۔ صوفیا اسے شہید سمجھتے ہیں اور ان کی تصانیف میں اس کا ذکر بہت عزت و حرمت سے کیا گیا ہے۔ بعض لوگ اسے عیسائی خیال کرتے ہیں چنانچہ دیربیلو (D’Herbelot) نے اپنی کتاب "ببلیوتیک اوریانتال" میں اس کے چند اشعار نقل کیے ہیں جن سے اس بیان کی تصدیق ہوتی ہے اور یہ اشعار تھے، جو سولی پر چڑھائے جاتے وقت اس کی زبان سے نکلے تھے۔

"حمد ہو ہمیشہ اس کے لیے جس نے اپنی الوہیت کو چھپا کر جو تمام دنیا میں ساری ہے، اپنی انسانیت (انسانی شکل) کو ہم پر ظاہر کیا۔ یہاں تک کہ اس نے خواہش کی کہ وہ ہم کو کھاتا پیتا نظر آئے۔ وہ جو مجھے اپنے دسترخواں پر بلاتا ہے۔ تو برا نہیں کرتا کیونکہ وہ مجھے وہی پیالہ پینے کو دیتا ہے جیسا ایک میزبان اپنے مہمان کے ساتھ کیا کرتا ہے۔"

علاوہ اس کے اس مطبع سے مفصلۂ ذیل کتابیں شائع ہوئی ہیں "مجموعہ مثنوی" یہ اردو منظوم حکایتوں کا مجموعہ ہے۔ حکایات نصیحت آمیز، ناز و نیازیہ، خدا اور رسول خدا (صلعم) کی حمد و ثنا میں ہے۔ یہ اسی قسم کی کتاب ہے جو آگرہ میں نظم نادر کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ گلستان مسرت یہ شعرا کے کلام کا مجموعہ ہے جو اس مطبع کے روشن خیال مالک مصطفیٰ خاں نے انتخاب کیا ہے۔

اب ان اردو کتب کی طرف آپ کی توجہ منعطف کرتا ہوں جو دوسرے مطبعوں سے شائع ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک عربی کی مشہور کتاب مقامات حریری کا اردو ترجمہ ہے۔ دھرم سنگھ کا قصہ جو ایک دلچسپ قصہ ہے۔ بوعلی قلندر کی فارسی مثنوی کی شرح۔ بہارستان سخن جو ناسخ، آتش، آباد کے کلام کا مجموعہ ہے، میزان الطب یہ فارسی کتاب کا ترجمہ ہے تاکہ کثیر تر لوگ اس سے مستفید ہو سکیں۔

اس سال کے شروع میں پنجاب کے ایک اخبار نے ایک جدید کتاب کی اطلاع شائع کی ہے۔ یہ میجر ایڈورڈ کی کتاب A year in the Punjab ، پنجاب میں ایک سال، کا ترجمہ ہے۔ اس کے مترجم نواب امام الدین ہیں، جو پہلے کشمیر کے گورنر تھے اور جنہوں نے کابل کے محاصرے اور دوسری لڑائیوں میں نمایاں کام کیے ہیں۔

میں ان جغرافی نقشوں کا ذکر نہیں کروں گا جو مختلف مطبعوں کے ہیں۔ ہرکلاٹس Herklotts اور ٹیسن Tassin کے نقشوں کے بعد سے شمالی و مغربی صوبوں کے مطابع میں ناصرف دنیا کے نقشے بلکہ ہندوستان اور ہر ضلع کے نقشے چھپ کر شائع ہوئے ہیں۔

میں اپنے درسوں کے دوران میں کئی سال تک Hindustani Selection (ہندوستانی انتخاب) پڑھاتا رہا ہوں۔ یہ عمدہ انتخاب عالم و فاضل مسٹر شیکسپیئر کا کیا ہوا ہے اور اس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کے کالجوں کے نصاب میں داخل تھا۔ اب اس کی جگہ طوطا کہانی، اور باغ و بہار رکھی گئی ہیں۔ اس سال میں ان کتابوں کی تعلیم دوں گا۔ نہ صرف ان انگریزوں کے فائدہ کے خیال سے جو میرے لکچروں میں حاضر ہوتے ہیں اور ان امتحان دینے والے ہوتے ہیں بلکہ اس خیال سے بھی کہ اردو میں ان کتابوں کا طرز تحریر نہایت پاکیزہ اور لطیف ہے۔ یعنی یہ ہندوستان کی اس خوبصورت زبان میں لکھی گئی ہیں، جس میں فارسی اور اس کی معین و مددگار عربی اعتدال کے ساتھ شریک ہے۔ ان کتابوں میں استعارات اور دیگر صنائع و بدائع اور لفظی مناسبت کا صرف ایک حد تک استعمال کیا گیا ہے حالانکہ یہ وہ چیزیں ہیں جن کے اہل مشرق بہت شائق ہیں۔ ان میں سے پہلی کتاب سے آپ واقف ہیں کیونکہ اس کا ترجمہ طوطا کہانی (Contes d’un Perroquet) Tales of a Parrot کے نام سے ہو چکا ہے۔ لہذا اس کے متعلق مجھے کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔

دوسرا ایک مشہور قصہ ہے جسے ہندوستان میں مختلف ناموں سے کئی صاحبوں نے لکھا ہے ان میں باغ و بہار نام کا بہت مقبول ہوا۔ اور اس نام سے بار بار چھپا ہے۔ حتی کہ اس کا ایک ترجمہ خود ارمنی زبان میں بھی ہوا ہے علاوہ اور باتوں کے اس میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں اردو ہندی کی بہت سی ضرب المثلیں اور اشعار بھی جگہ جگہ آتے ہیں۔ اس کا نام باغ و بہار کسی قدر عجیب ہے، خود مصنف نے اپنے دیپاچے میں اس کی وجہ تسمیہ ان الفاظ میں بیان کی ہے۔ "ہم نام و ہم تاریخ اس میں نکلتی ہے۔ تب میں نے یہی نام رکھا جو کوئی اس کو پڑھے گا گویا باغ و بہار کی سیر کرے گا"۔ جیسا کہ اکثر مشرقی کتابوں میں پایا جاتا ہے۔ اس قصے میں کئی اور قصے شامل ہیں اور Orlando Furioso کی طرح قصے کا انجام عام ہے جس میں قصے کے تمام خاص اشخاص شریک ہیں۔ یہ کتاب کئی شخصوں کی عجیب و غریب آپ بیتیوں کا مجموعہ ہے۔ جن میں حیرت انگیز پرستان (جن اور پری) کا ذکر ہر جگہ پایا جاتا ہے اور باوجود بار بار اعادہ کے اہل مشرق اسے پسند کرتے ہیں۔ اس سے درحقیقت اکثر اوقات قصوں کا لطف کم ہو جاتا ہے لیکن خوشی کی یہ بات ہے کہ اس قصہ میں عجائب نگاری کے ساتھ ساتھ اسلامی روایات کی آمیزش بھی جو دل و دماغ کے لیے زیادہ قابل قبول اور اطمینان بخش ہیں۔

حضرات! میں اب آپ سے باغ و بہار کا خلاصہ بیان کرتا ہوں تاکہ آپ کے خیال میں کتاب کا ایک تصور پیدا ہو جائے اور اصل کتاب کے پڑھنے میں آسانی ہو (اس کے بعد پانچ سات صفحوں میں کتاب کا خلاصہ ہے جو غیر ضروری سمجھ کر ترجمہ میں چھوڑ دیا گیا۔

میں نے مختصر طور سے باغ و بہار کا خاکہ آپ کے سامنے کھینچ دیا ہے۔ لیکن اس کتاب کے پڑھتے وقت آپ بہت سے مفید اور کارآمد بات یہ پائیں گے کہ ان قصوں میں ہر صفحہ پر آپ کو قومی خصوصیات کے متعلق ایسی باتیں ملیں گی جو ہمیں اصلی ہندووستان اور خاص کر اسلامی ہندوستان کے سمجھنے میں بہت کارآمد ہوں گی۔ اس قسم کی باتیں قصے کے ہر صفحے میں جاتی ہیں اور اس میں شک نہیں کہ بعض جگہ مذہبی جوش اور ظلم کی کارستانی اس ناگوار طریقہ سے بیان کی گئی ہیں کہ وہ کسی قدر خلاف قیاس معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن بہت سے حصے ایسے ہیں کہ ان کا جوڑ بڑی خوبصورتی سے بٹھایا گیا ہے اور درحقیقت بہت دلچسپ ہیں۔

حضرات! اس کتاب میں آپ اس زبان کا مطالعہ کریں گے جو ہندوستانی کہلاتی ہے اور اس میں آپ ان الفاظ کو نہیں پڑھیں گے جن کا کوئی مفہوم نہیں بلکہ ایسے الفاظ دیکھیں گے جو ان اشیا کا مفہوم بتاتے ہیں جو بہت دلچسپ ہیں اور جہاں تک الفاظ کا تعلق ہے آپ اس کے علاوہ ایک اور بات بھی پائیں گے اور وہ یہ ہے کہ اس کے الفاظ خیالات کی نیابت کرتے ہیں کیونکہ ان کا تجزیہ کرنے سے ہم ان مادوں تک پہنچتے ہیں جو انڈویورپین زبانوں کے ایک بہت بڑے مجموعہ کی کنجی ہیں اور خود ہماری فرانسیسی زبان بھی انہی میں شامل ہے اور درحقیقت ہندوستانی کی ایک بہن ہے۔

رجوع بہ: خطبات گارساں دتاسی