پہلا خطبہ، 3 دسمبر 1850ء

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

گارساں دتاسی


پہلا خطبہ

3 دسمبر 1850ء

حضرات! قبل اس کے کہ میں نصاب کی اس کتاب پر جو ہمارے سامنے ہے، کچھ بیان کروں، میں ہندوستانی زبان کے عملی فائدے اور اس وقت ادبی حیثیت سے اس کی اہمیت کے متعلق چند لفظ کہنا چاہتا ہوں۔

عام طور پر لوگ پوری طرح یہ بھی نہیں جانتے کہ ہندوستانی ہندوستان کے تمام صوبوں میں بولی جاتی ہے۔ چاہے اس طور پر کہ بعض جگہ اس کے ساتھ صوبے کی دوسری بولیاں بھی شریک ہوں، جیسے بنگال میں اور احاطۂ مدراس اور احاطۂ بمبئی میں یا اس طرح کہ تنہا وہی بولی جاتی ہو جیسے ہندوستان کے صوبہ ہائے شمال و مغربی یعنی بہار، الہ آباد، مالوہ، اودھ، اجمیر، آگرہ، دہلی میں اور ان مقامات کے ساتھ لاہور اور نیپال کے نام بھی شریک کرنے چاہئیں۔ جیسا کہ پیرس میں حال میں ثبوت ملا ہے۔ لہذا اگر کوئی شخص ان صوبجات میں بودوباش کرنا یا سیاحت کرنا چاہے، جو وہ نہایت آسانی کے ساتھ بغیر کسی پروانۂ راہداری کے ساتھ کر سکتا ہے تو میں کہوں گا کہ اس کے لیے ہندوستانی زبان کا جاننا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنریبل ایسٹ انڈیا کمپنی اپنی ملازمت میں (ملکی ہو یا فوجی) صرف انہی اشخاص کو داخل کرتی ہے جو ہندوستانی زبان جانتے ہیں اور ہندوستانی زبان کے امتحان میں شریک ہو کر کامیاب ہو چکے ہیں۔

لیکن یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ ہندوستان میں صرف انگریز ہی کاروبار کر سکتے ہیں۔ بہت سے دوسرے یوروپین بھی وہاں معزز خدمات انجام دے رہے ہیں اور اگر کوئی ہندوستانی جانتا ہو تو وہ آسانی سے آزاد روزگار حاصل کر سکتا ہے۔ قطع نظر تجارت کے جو اکثر ہندوستانیوں کا ذریعۂ تمول ہے اگر کوئی چاہے تو طبابت کر سکتا ہے، مصوری کا پیشہ کامیابی کے ساتھ اختیار کر سکتا ہے لیکن خاص کر اسے ہندوستانی یعنی مسلمانوں اور انگریزوں کے قانون کا علم ہے اور ساتھ ہی ہندوستانی پر عبور ہے تو وکالت کر سکتا ہے۔

مبلغین مسیحیت بیگم شمرو کے خوبصورت گرجا گھر میں جو سردھنہ میں ہے، یا آگرہ کے کیتھولک بشپ کے ماتحت چرچ یا دوسرے مقامات میں اردو میں وعظ و تلقین کر سکتے ہیں۔ خود کلکتہ میں ایک گرجا ہے جسے "ہندوستانی گرجا" کہتے ہیں۔ اور جو ان ہندوستانیوں کے لیے تعمیر کیا گیا ہے جو انگلی‍‏کن کلیسا کے توسط سے عیسائی ہوئے وہاں عبادت صرف ہندوستانی زبان میں ہوتی ہے۔ عام طور پر اس کا علم نہیں ہے کہ ہندوستان کے بڑے شہروں میں دیسی لوگوں کے پاس لیتھو کے مطابع پائے جاتے ہیں جہاں روزانہ ہندوستانی زبان کی کتابیں چھپتی رہتی ہیں، ان میں ترجمے بھی ہوتے ہیں اور تصنیفات بھی۔ میں صرف شمالی و مغربی صوبوں کا ذکر کرتا ہوں جن کا نام میں نے ابھی لیا تھا۔ یہاں اس سال کی پہلی جنوری کو 23 مطبع تھے جن میں صرف گزشتہ سال (سنہ 1849ء میں) 141 مختلف قسم کی کتابیں طبع ہوئی تھیں۔ علاوہ ان کے 29 اخبار بھی انہی مطبعوں میں چھپتے تھے جن میں سے 23 ہندوستانی زبان کے تھے دو فارسی کے اور ایک بنگالی کا۔ اب اگر ان میں وہ اخبار بھی شامل کر لیے جائیں جو ہندوستان کے دوسرے صوبوں میں شائع ہوتے ہیں تو ہندوستانی زبان کے اخبارات کی کل تعداد جو اس وقت موجود ہے آسانی سے پچاس تک پہنچ جائے گی۔

ہندوستانی زبان بلاشبہ ترقی پذیر ہے۔ اس سے میرا مطلب یہ ہے کہ بجائے لوگوں کی معمولی اور روزمرہ کی زبان کے یا عوام پسند گیتوں کی زبان ہی رہنے کے جیسا کہ سابق میں اس کا حال تھا، وہ گورنمنٹ کی سرکاری زبان بھی ہو گئی ہے جیسے پہلے فارسی تھی۔ یعنی اب وہ سیاسی و سفارتی مراسلت عدالتوں اور انتظامی محکموں کی زبان ہو گئی ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستانی میں اب علمی کتابیں لکھی جانے لگی ہیں جو اب تک صرف فارسی میں لکھی جاتی ہیں۔ ہندوستانی زبان میں ایک عصری لٹریچر بھی ہے، جو اہمیت سے خالی نہیں، مزید برآں ہمارے لیے اس میں ایک دلچسپی یہ ہے کہ وہ ایک موجود چیز ہے جس کے باعث ہمیں اس میں اور مشرقی ممالک کی دوسری زبانوں کے ادب میں امتیاز کر سکنے کا موقع ملتا ہے۔ مثلا یہ ممکن ہے کہ شمالی ہند کے پہاڑوں پر بسے ہوئے شہر شملہ کا ہندوستانی اخبار اپنے نام جاری کرا لیا جائے جو پابندی کے ساتھ ڈاک کے ذریعے پیرس پہنچتا رہے۔ دہلی کی کسی ادبی انجمن کی رویدادوں کا جو چاہے خریدار بن جائے اور اس طرح ماہ بہ ماہ ان علمی کارناموں سے واقفیت حاصل کی جائے جو ہندوستان میں سرانجام پاتے ہیں۔

ہندوستانی زبان کی ان کتابوں میں سے جو حال میں شائع ہوئی ہیں، کچھ تو جدید تصنیفات ہیں اور کچھ انگریزی کا ترجمہ ہیں۔ کچھ دینی اور مذہبی مختلف فیہ مسائل کی کتابیں بھی ہیں جن میں کیتھولک مذہب کے مبادیات کی بھی ایک کتاب شامل ہے جو آگرہ میں چھپی ہے۔ ان قدیم و جدید زمانے کی چند تاریخیں اور اخلاقی اور مذہبی کتابوں کے ترجمے بھی ہیں، مثلا بنین (Bunyan) کی پِل‏گرِمس پراگرس اور میسن (Mason) کی سیلف نالج کے ترجمے، قصے کہانیوں کے ترجمے بھی ہوئے ہیں۔ مثلا راس لاس اور قزلباش، بعض نظموں کے ترجمے بھی کیے گئے ہیں۔ مثلا گے (Gay) کی حکایتوں کا ترجمہ۔

یہ امر پوشیدہ نہیں کہ سنسکرت سے بھی بہت سے ترجمے ہندوستانی میں ہوئے ہیں، البتہ حالیہ زمانہ میں ایسی کوئی چیز طبع اور شائع نہیں ہوئی ہے مگر عربی فارسی سے بہت سے ترجمے شائع ہوئے ہیں۔ ان میں قرآن شریف کے کئی ترجمے ہیں جو تفسیر کے ساتھ چھپے ہیں۔ ایک عربی لغات بھی ہے جس میں الفاظ کے معنی ہندوستانی میں دیے ہیں۔ کئی عربی فارسی کی صرف و نحو کی کتابیں، گلستان کے متعدد ترجمے، الف لیلی کے دو ترجمے، اخلاق جلالی، اخلاق محسنی کے ترجمے، شاہنامہ کا ایک خلاصہ، ابن خلکان، تاریخ ابوالفدا اور قصیدۂ بردہ شریف کے ترجمے ہیں۔ اصل تصانیف میں سے صرف چند دلکش نظموں کا نام لینے پر اکتفا کروں گا۔ یعنی شکنتلا، لیلی مجنوں، ابراہیم ادھم، کلا و کامروپ، اور حسن و عشق کے مشہور قصوں کو منظوم کیا گیا ہے۔ علاوہ ان کے چند سیاحت نامے اور چند تاریخیں بھی شائع ہوئی ہیں جن میں سسے ایک ٹیپو سلطان کے باپ حیدر علی کی تاریخ ہے جو شاہ میسور کے ایک بیٹے نے لکھی ہے۔ نثر میں بہت سے ناول اور قصے کہانیاں، لغت اور انگریزی کی صرف و نحو پر بھی بعض مفید کتابیں لکھی گئی ہیں۔ آخر میں حال کے زندہ ہر دلعزیز شعرا یعنی مومن، ناصر، ذوق، ناسخ اور آتش کے کلام کا ذکر کرتا ہوں۔ یہ شاعر اس وقت زمانۂ حال کی ہندوستانی زبان پر بہت بڑا اثر رکھتے ہیں۔


رجوع بہ: خطبات گارساں دتاسی