پوشاک سیہ میں رخ جاناں نظر آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پوشاک سیہ میں رخ جاناں نظر آیا
by حاتم علی مہر

پوشاک سیہ میں رخ جاناں نظر آیا
شب کو ہمیں خورشید درخشاں نظر آیا

دیکھا نہ کہیں کفر نہ ایماں نظر آیا
ہندو کوئی پایا نہ مسلماں نظر آیا

ملبوس سیہ میں رخ جاناں نظر آیا
ظلمات میں یاں چشمۂ حیواں نظر آیا

بالوں میں چھپا چہرۂ جاناں نظر آیا
پردہ میں یہاں کفر کے ایماں نظر آیا

پھر جوش جنوں سلسلۂ جنباں نظر آیا
پھر بے سر و سامانی کا ساماں نظر آیا

پریاں جسے کاندھے پہ اٹھاتی تھیں ہمیشہ
برباد وہ اورنگ سلیماں نظر آیا

باایں ہمہ وسعت بھی ہے کیا خوان فلک تنگ
آسودہ نہ اس کا کوئی مہماں نظر آیا

آنکھوں کے تلے پھر گیا وہ آہوئے‌ شہری
جنگل میں جو آہوئے‌ بیاباں نظر آیا

مجمع میں رقیبوں کے کھلا تھا ترا جوڑا
کل رات عجب خواب پریشاں نظر آیا

جس دشت میں پھوٹے ہیں مرے آبلہ پا
کوسوں وہی سرسبز نیستاں نظر آیا

تا سال دگر مے کہ خورد زندہ کہ ماند
ماہ رمضان ساقیٔ دوراں نظر آیا

دیوانہ ہوں پر کام میں ہوشیار ہوں اپنے
یوسف کا خیال آیا جو زنداں نظر آیا

شوخ‌ مژۂ برگشتہ کی دیکھی نگہ قہر
آہو بھی مجھے شیر نیستاں نظر آیا

مایوس پھری آتی ہیں کیوں میری دعائیں
کیا باب اجابت پہ بھی درباں نظر آیا

میں زار مہ نو ہوں کہ اس نے مجھے اے مہرؔ
جب غور سے دیکھا تو کہا ہاں نظر آیا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.