پتلی کی عوض ہوں بت‌ رعناۓ بنارس

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پتلی کی عوض ہوں بت‌ رعناۓ بنارس
by حاتم علی مہر

پتلی کی عوض ہوں بت‌ رعناۓ بنارس
اللہ پھر ان آنکھوں کو دکھلائے بنارس

روتا ہوں بنارس کے تصور میں شب و روز
اے ہندؤو دیکھو یہ ہے دریاۓ بنارس

میری یہ وصیت سے کہ مر جاؤں اگر میں
تو باد صبا خاک کو پہنچائے بنارس

ہے کعبہ مقصود فقط کوچۂ دل‌‌ دار
کافر ہوں جو مجھ کو ہو تمناۓ بنارس

ناظم ہو محمد کا اگر لکھنؤ جاؤں
اس ملک میں ہوں معدلت آراۓ بنارس

کعبہ میں دعا مانگوں گا میں اپنے خدا سے
یا رب بت کافر مجھے بلوائے بنارس

بنگل کو روانہ ہوں رقیبان سیہ رو
میرے لیے ہو مسکن‌ و ماوائے بنارس

میں خوش ہوں تو آباد رہے ورنہ الٰہی
پھر پیپے سے باروت کے اوڑھ جائے بنارس

جب سے مجھے قسمت نے بنارس سے چھڑایا
رہتا ہے زباں پر مرے بس ہائے بنارس

اک گیسوؤں والے کی محبت کا پڑا پیچ
پہلے تو نہ تھا مجھ کو یہ سوداۓ بنارس

اے مہرؔ توارد ہوں جو مضموں تو بجا ہے
میں اور حزیںؔ دونوں ہیں شہدائے‌ بنارس

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse