وہ پارہ ہوں میں جو آگ میں ہوں وہ برق ہوں جو سحاب میں ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ پارہ ہوں میں جو آگ میں ہوں وہ برق ہوں جو سحاب میں ہوں
by احمد حسین مائل

وہ پارہ ہوں میں جو آگ میں ہوں وہ برق ہوں جو سحاب میں ہوں
زمیں پہ بھی اضطراب میں ہوں فلک پہ بھی اضطراب میں ہوں

نہ میں ہوا میں نہ خاک میں ہوں نہ آگ میں ہوں نہ آب میں ہوں
شمار میرا نہیں کسی میں اگرچہ میں بھی حساب میں ہوں

اگرچہ پانی کی موج بن کر ہمیشہ میں پیچ و تاب میں ہوں
وہی ہوں قطرہ وہی ہوں دریا جو عین چشم حباب میں ہوں

سلایا کس نے گلے لگا کر کہ صور بھی تھک گیا جگا کر
بپا ہے عالم میں شور محشر مجھے جو دیکھو تو خواب میں ہوں

مزا ہے ساقی ترے کرم سے ظہور میرا ہے تیرے دم سے
وہ بادہ ہوں جو ہوں میکدے میں وہ نشہ ہوں جو شراب میں ہوں

الٰہی وہ گورے گورے تلوے کہیں نہ ہو جائیں مجھ سے میلے
کہ خاک بن کر برنگ سرمہ ہمیشہ چشم رکاب میں ہوں

جو بھیس اپنا بدل کے آیا تو رنگ اطلاق منہ سے دھویا
کیا ہے پانی میں قید مجھ کو ہوا کی صورت حباب میں ہوں

غضب ہے جوش ظہور تیرا پکارتا ہے یہ نور تیرا
خدا نے اندھا کیا ہے جس کو اسی کے آگے حجاب میں ہوں

ہوئی ہے دونوں کی ایک حالت نہ چین اس کو نہ چین مجھ کو
ادھر وہ ہے محو شوخیوں میں ادھر جو میں اضطراب میں ہوں

الٰہی مجھ پر کرم ہو تیرا نہ کھول اعمال نامہ میرا
پکارتا ہے یہ خط قسمت کہ میں بھی فرد حساب میں ہوں

دماغ میں ہوں قدح کشوں کے دہن میں آیا ہوں مہ وشوں کے
نشہ وہ ہوں جو شراب میں ہوں مزا وو ہوں جو کباب میں ہوں

وہ اپنا چہرا اگر دکھائے یقین اندھوں کو خاک آئے
پکارتی ہے یہ بے حجابی کہ میں ازل سے حجاب میں ہوں

علاحدہ کر کے خود سے مجھ کو جو تو نے بخشا تو خاک بخشا
اگرچہ جنت مجھے ملی ہے الٰہی پھر بھی عذاب میں ہوں

ہجوم نظروں کا ہے وہ منہ پر دیا ہے دونو کو جس نے دھوکا
یقیں یہ مجھ کو پڑا ہے پردا گماں یہ ان کو نقاب میں ہوں

جو مجھ کو اس سے جدا کرو گے تو میرا نقصان کیا کرو گے
نہیں ہوں مانند صفر کچھ بھی اگرچہ میں بھی حساب میں ہوں

نہ آیا مر کر بھی چین مجھ کو اٹھا مری خاک سے بگولا
بتوں کا گیسو تو میں نہیں ہوں الٰہی کیوں پیچ و تاب میں ہوں

جو حال پوچھو تو اک کہانی نشان پوچھو تو بے نشانی
وہ ذرہ ہوں جو مٹا ہوا ہوں اگرچہ میں آفتاب میں ہوں

مٹا اگرچہ مزار میرا چھٹا نہ وہ شہسوار میرا
پکارتا ہے غبار میرا کہ میں بھی حاضر رکاب میں ہوں

کرم کی مائلؔ پہ بھی نظر ہو نظر میں پھر چلبلا اثر ہو
ازل سے امیدوار میں بھی الٰہی تیری جناب میں ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse