وصل میں ذکر غیر کا نہ کرو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وصل میں ذکر غیر کا نہ کرو
by امداد علی بحر

وصل میں ذکر غیر کا نہ کرو
خوش کیا ہے تو پھر خفا نہ کرو

زلفوں پر مجھ کو شیفتہ نہ کرو
ان بلاؤں میں مبتلا نہ کرو

میری اتنی تو بات مانو بھلا
بات اغیار سے کیا نہ کرو

ملنے دوں گا نہ غیر سے تم کو
کرو مجھ سے ملاپ یا نہ کرو

مر بھی جاؤں کہیں یہ روگ مٹے
اے طبیبوں مری دوا نہ کرو

منہ چھپانا ہی ہے اگر منظور
میرے آنکھوں تلے پھرا نہ کرو

اے گل ان دنوں روؤ گے
کھلکھلا کر بہت ہنسا نہ کرو

بوسہ لینے دو کچھ تو ہو تقصیر
ہدف تیر بے خطا نہ کرو

جان صدقے کروں جو قدر کرو
دل تمہیں دوں اگر دغا نہ کرو

کبھی فریادتاً سنو میری
کون کہتا ہے تم جفا نہ کرو

غیر پر کیوں نگاہ کرتے ہو
مجھ کو اس تیر کا نشانہ کرو

دو گھڑی کے لیے ہم آئے ہیں
تلخ باتوں سے بے مزا نہ کرو

ایک پرزے پہ لکھ کے یہ دو حرف
دوستو یار کو روانہ کرو

جلد آؤ کہ دم نکلتا ہے
مجھ کو پیٹو اگر بہانہ کرو

بحرؔ شاکر رہو مقدر پر
کس و ناکس سے التجا نہ کرو


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.