نہ سمجھو تم کہ میں دیوانہ ویرانے میں رہتا ہوں
Jump to navigation
Jump to search
نہ سمجھو تم کہ میں دیوانہ ویرانے میں رہتا ہوں
خیال روئے خوباں سے پری خانے میں رہتا ہوں
تماشا گاہ عالم کا تماشا مجھ سے مت پوچھو
کہ جوں آئینہ میں حیرت کے کاشانے میں رہتا ہوں
خم جوشان عشق بے محابا ہوں میں تب ہی تو
نہ شیشے میں ٹھہرتا ہوں نہ پیمانے میں رہتا ہوں
شریف کعبہ نت مجھ کو سلام شوق بھیجے ہے
میں کافر گرچہ ہندستاں کے بت خانے میں رہتا ہوں
مجھے اے مصحفیؔ ہے کام ہر دم ذکر خوباں سے
اسی خاطر تو میں مشغول افسانے میں رہتا ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |