نواں خطبہ، 5 مئی 1859ء

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

نواں خطبہ

گارساں دتاسی


امپیریل لائبریری (پیرس) کی آرائش کی وجہ سے جو طویل وقفہ واقع ہوا، اس کے بعد آج میں پھر اپنے لکچروں کا سلسلہ شروع کرتا ہوں۔ یہ اعادہ ایسی عادت میں کیا جا رہا ہے جب کہ اس امر کا اطمینان ہو چکا ہے کہ ہندوستان میں سنہ 1857ء کا منحوس فساد جس کا مقصد انگلستان ایسے ملک کے چھین لینے کا تھا، جو اس کے تاج کا سب سے خوبصورت نگینہ ہے، اب فرو ہو گیا ہے اور پھر امن و امان قائم ہو گیا ہے۔

ہمیں امید ہے کہ گورنمنٹ برطانیہ جنگ کی لائی ہوئی تباہی اس کی تلافی اور اہل ہند کی (جن پر خدا نے انہیں حکمران کیا ہے) فلاح و بہبود میں ساعی رہے گی۔ ہندوستانیوں میں بے شبہہ برائیاں ہیں لیکن ان میں خوبیاں بھی ہیں۔ اسب سے بڑھ کر ان میں ایک ایسی چیز ہے جس نے انہیں انگریزوں سے قریب تر کر دیا ہے۔ یعنی اپنے خوشنما ملک کی الفت یعنی حب وطن۔ اس امر کا تیقن بآسانی ان کے اپنے کلام سے ہو سکتا ہے۔ افسوسۜ کو سنیے؛ "جب سے یہ مرکز خاکی حیوانات کی آرام گاہ ہوا۔ سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں قصبے بسے اور بستے جاتے ہیں۔ کوئی ادنیٰ، کوئی اعلیٰ، لیکن ہندوستان کی سرزمین کا عالم سب سے نرالا ہے۔ کوئی ولایت اس کی وسعت کو نہیں پہنچتی، اور کسی مملکت کی آبادی اس کو نہیں لگتی، یہاں کی ہر ایک بستی میں گھما گھمی، جابجا ایک نئی طرح کا عالم، ہر شہر و قصبے میں ستھری پاکیزہ پختہ متعدد سرائیں، مسافر کے واسطے ہر موسم کے اوڑھنے بچھونے اور اقسام کی غذائیں، اکثر بستیوں میں مسجدیں، خانقاہیں، مدرسے، باغات غریبوں بے کسوں، مسافروں کے لیے مکانات۔ قلعے بڑے بڑے مضبوط وسعت میں ایسے کہ سیکڑوں گاؤں ان میں بسیں اور رفعت میں اس قدر کہ بادل ان کے نیچے برسیں۔ ندی نالے تالاب کوئے لطیف و پاکیزہ ہزارہا، پانی ان میں میٹھا ٹھنڈا ستھرا بھرا ہو۔ بڑے بڑے دریاؤں میں کشتیاں نواڑے بجرے وغیرہ بے شمار، شاہ راہ کے ندی نالوں پر بیشتر مقاموں میں پل بندھے ہوئے تیار، اکثر دوستوں میں کوسوں تلک سایہ دار درختوں کی دو رستہ قطار۔ ایک ایک کوس کی مسافت پر ایک مینار نمودار۔ ہر ایک چوکی پر ہمہ چیز مہیا، سودے والوں کی دوکانیں جا بجا۔ مسافر خوش و خرم کھاتے پیتے اٹھتے بیٹھتے دن بھر چلے جاتے ہیں، اور شام کو منزل پر بھی سب طرح کا آرام پاتے ہیں۔"

ایک ہندوستانی مصنف مقبول ہندوستان کے متعلق اسی انداز سے رطب اللسان ہے لیکن اس نے تشبیہات و استعارات سے بہت کام لیا ہے۔

"ہندوستان ربع مسکون کا پانچواں حصہ ہے۔ میں اس کا ذکر کیا کروں۔ وہ بذات خود ایک عالم ہے۔ وہ تمام ملکوں سے عظمت و وسعت کی بازی میں گولہ لے گیا ہے۔ اس کی بے شمار خوبیوں کے منجملہ ایک آب و ہوا ہے جو دوسرے ممالک سے بالکل مختلف ہے۔ علم و ہنر، صنعت و حرفت، زبان و ذکاوت، تعمق و تدبر میں یہ ملک آفاق کے محل شہرت کا محراب ہے۔ اگرچہ دوسرے ممالک میں بھی بعد تلاش یہ صفات پائے جاتے ہیں لیکن ان ممالک میں اور ہندوستان کے مابین ویسا ہی فرق ہے جیسا سورج اور دب اکبر کے ٹمٹماتے تاروں میں۔ بلکہ زمین و آسمان میں۔ ہندوستان میں جو لوگ دوسرے ممالک کی اشیا کی تقلید کرنا چاہتے ہیں وہ درحقیقت موجد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ زبان اس عمدگی سے سیکھتے ہیں کہ خود اہل زبان سے بڑھ جاتے ہیں۔ ترک، عرب، حبشی، ایرانی اور انگریز جو عرصے سے ہندوستان میں رہے بسے وہ یہاں کی زبان بآسانی سیکھ نہیں سکتے اور آتش حسد میں سوخت ہوتے رہتے ہیں۔"

ہندوستان کے ہندو مسلمانوں کی 1857ء والی خوفناک شورش نے انگلستان کو بددل نہیں کیا۔ اس نے اس کو فرو کر لیا اور تقریباً تمام ملک میں پورا نظم قائم ہو گیا ہے۔ بقول ایک انگریز شاعر کے:-

گدہ کا غلیظ اور کچھوے کا عشق

بھی رنج سے اپنے آپ گھلتے اور کبھی پاگل بنا کر جرم کے ارتکاب پر ابھارتے ہیں۔ علاوہ بریں اب ہندوستان کا تعلق براہ راست تاج برطانیہ سے ہو گیا ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ اب ایک شفیق ملکہ حکمراں ہے۔ اہل ہند بجائے اس ہستی کے جسے وہ آنریبل کمپنی بہادر کے نام سے موسوم کرتے تھے اور جس کے متعلق اہل ہند کا خیال تھا کہ وہ ایک بوڑھی ہمیشہ رہنے والی مخلوق ہے اور دور دراز ملک میں رہ کر اپنے نائبین کے ذریعہ حکمرانی کرتی ہے، یقیناً اس ملکہ کی اطاعت برضا و رغبت کریں گے۔

یکم نومبر گزشتہ کو اس تبدیل حکومت کا اعلان بڑی شان کے ساتھ کلکتہ میں کیا گیا جو برٹش انڈیا کا دارالسطنت نیز ہندوستان کے دیگر بڑے شہروں میں اس کا بہت اچھا اثر پڑا جس کا ثبوت ان بکثرت ایڈریسوں اور نظموں سے ملتا ہے جو اس کے جواب میں لکھی گئیں۔

میرے پیش نظر ایسی ایک ہندوستانی نظم ہے جو آگرہ میں چھپی ہے۔ یہ ایک قصیدہ ہے جس کا عنوان "تہنیت جلوس"ہے۔ یہ مرزا حاتم علی خاں کا لکھا ہوا ہے جن سے ہندوستان کا ادبی حلقہ ان کے تخلص مہر (یعنی آفتاب) کے نام سے آشنا ہے۔ یہ فاضل مسلمان اور یورپین تہذیب کا حامی 1857ء کے غدر سے قبل چنار میں منصفی کے عہدے پر مامور تھا۔ غدر میں خوش قسمتی سے اس نے سات مرد اور متعدد یورپین بچوں کی جانیں بچائیں، جس کا ذکر اس خط میں ہے جو نظم کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ اگرچہ اس نظم کی دہلی کے مشہور ہم عصر شاعر مرزا اسداللہ خاں مضطر نے بہت داد دی لیکن مجھے اس میں کوئی خاص ندرت معلوم نہیں ہوتی۔ ابتدا میں مصنف یہ استفسار کرتا ہے کہ یہ تمام انتظامات جو نظر آ رہے ہیں کس غرض سے ہیں۔ اس کا جواب وہ یہ دیتا ہے کہ یہ اس لیے ہے کہ شاہی فرمان پڑھا جائے۔ اس کے بعد بالکل مشرقی رنگ میں ملکۂ لندن کی مدح سرائی ہے۔ "جس کا چمکتا ہوا چہرہ لوئی فلک (زہرہ) میں منعکس ہے۔" اس کے بعد ہی (ویسرائے) لارڈ کیننگ کی تعریف شروع ہو جاتی ہے، اس کے بعد دوسرے بڑے عہدیداروں کی مثلاً مسٹر ایڈمنسٹن Edminston اور صاحب علم و عزت ولیم میور W. Muir کی جن کے متعلق یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ تمام علوم و فنون میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں، جنہیں روئے زمین کے تمام بادشاہوں یعنی کیومرث سے لے کر آج تک کے فرماں رواؤں کی تاریخ سے واقفیت ہے۔"

اعلان میں وکٹوریا نے اپنے لیے یہ خطاب اختیار کیا ہے: ملکۂ مستعمرات و نوآبادیات یورپ، ایشیا، افریقہ، امریکہ و آسٹریلیا۔" اس نے لارڈ کیننگ کو برطانوی ہند کا پہلا وائسرائے و گورنر جنرل اس غرض سے مقرر کیا کہ وہ اس کو بجائے بتوسط وزیر ہند لارڈ اسٹینلی Stanly اس ملک کا انتظام کریں، لارڈ اسٹینلی کی مدد کے لیے ایک کونسل معین ہوئی جس میں ہندوستان کے بہی خواہوں کو یہ معلوم کر کے مسرت ہو گی کہ سر ہندی رالن‏سن H. Rowlinson، مسٹر ایچ پی پرنسیپ H. P. Prinsep جو مشہور مستشرق جیمز پرنسیپ James Prinsep متوفی کے بھائی ہیں اور مسٹر ڈبلیو جے ایسٹ‏وک W. J. Eastwick شریک ہیں جو ای بی ایسٹ وک مشہور مستشرق کے بھائی ہیں جن کا تقرر اس وقت ایسٹ انڈیا ہاؤس کے محکمہ خفیفہ میں نائب وزیر کی خدمت پر ہوا ہے۔ پنجاب نیا صوبہ بنایا جائے گا اور سر جان لارنس، جو سر ہندی کے بھائی ہیں جن کی افسوسناک موت ہمیشہ یاد رہے گی۔ مستقل طور پر اس کی عنانِ حکومت اپنے ہاتھ میں لیں گے جو فی‏الوقت عارضی طور پر آنریبل رابرٹ منٹگمری R. Montgomery کے ہاتھ میں ہے۔

صرف انہی تغیرات پر اکتفا نہیں کیا گیا۔ بلکہ ہیلیبری Haileybury کا ایسٹ انڈیا کالج قطعی طور پر 14 دسمبر سنـ 1857ء کو مسدود کر دیا گیا اور اس موقع پر ایک پروقار مجلس تقسیم انعامات کی منعقد کی گئی جس کے صدر نشین ریورنڈ مسٹر میلول Mr. Melvill پرنسپل کالج تھے۔ یہ کالج پچاس سال سے قائم تھا، اس میں سے 2055 تلامذہ فارغ ہو کر نکلے جن میں ایسے افراد بھی ہیں جن کی شہرت یورپ بھر میں ہے۔ اس کالج کے پروفیسروں میں میکن‏تاش Mackintosh، امپ سن Empson، جرمی Jermie، اور مشرقی السنہ کے لیے ہاٹن Haughton، اسٹوارٹ Stewart، جانسن Johnson، اور ایسٹ‏وک Eastwick جیسے افراد تھے۔ ایسے فاضل پروفیسروں کے ہوتے ہوئے یہ امر باعث تعجب نہیں کہ یہاں سے کیسے کیسے قابل لوگ نکلے۔

ہیلیبری کالج کی مسدودی سے جو نقصان مشرقی علوم کی تحصیل میں واقع ہوا ہے وہ ابھی سے محسوس کیا جانے لگا ہے۔ توقع ہے کہ انڈیا کونسل جدید کالج ان نوجوانوں کے لیے قائم کرے گی جو انڈین سول سروس کے لیے نامزد کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ اس نے ایڈسکومپ Addiscombe کا رائل ملٹری کالج فوجی خدمات کے لیے بعض اصلاحات کے ساتھ برقرار رکھا ہے اور دوران تعلیم میں ہندوستانی کو برطانوی ہند کی عام زبان کی حیثیت سے قائم رکھا گیا ہے۔ سنڈہرسٹ Sandhurst کے رائل ملٹری کالج میں بھی ہندوستانی زبان پڑھائی جائے گی اور سنہ 1860ء میں اس کا دروازہ بلاامتیاز رتبہ تمام ایسے خواہش مندوں کے لیے کھول دیا جائے گا جو ان شرائط کی تکمیل کر سکیں جو اس درس گاہ کے داخلے کے لیے عائد کی گئی ہیں۔ بالآخر یہ بھی فیصلہ ہو چکا ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں جو انگلستان کی ممتاز ترین یونیورسٹی ہے ہندوستانی کی تعلیم دی جائے گی اور اس کے لیے ایک خاص مسند Teachership قائم کی جائے گی۔

حضرات! ہندوستان کی موجودہ حالت سے آپ نے کافی طور پر اندازہ لگا لیا ہو گا کہ فی‏الحال مجھے کوئی ادبی واقعات یا کوئی مستند تصنیف ایسی دستیاب نہ ہوئی جس کا میں آپ سے ذکر کرتا۔ اس بغاوت نے ادبی ترقی کو روک دیا جو چند سال سے ہندوستانیوں میں نمایاں تھی اور جس نے طویل مذہبی عقائد بگڑنے کے خوف کے باوجود لوگوں کو اپنے بچوں کو (قومی مدارس کے فقدان کی وجہ سے) انگر مدارس میں بھیجنے پر مائل کر رہا تھا کیونکہ بغاوت کے وقت ہزاروں مدارس عیسائی مشنری انجمنوں کے قائم کیے ہوئے موجود تھے اور ستر ہزار طلبہ ان میں شریک تھے۔ یہاں انگریزی کی عام تعلیم عام طور پر ہندوستانی کے توسط سے دی جاتی تھی۔

سسرو نے [لاطینی] میں کہا تھا:- "اب زرہ بکتر اور جبہ و عمامہ کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا چاہیے، اور فتوحات کو زبان کے لیے جگہ خالی کر دینی چاہیے۔ اسی کے مماثل ایک عرب شاعر نے کہا ہے:- "خدا کی مشیت یہ ہے کہ جب قلم کو تراشا گیا ہے، تلوار اپنی تیز دھار کے باوجود اس [قلم] کی لونڈی بنی رہے۔" مگر یہ فضول بکواس ہے۔ اس (ہندوستانی) لڑائی نے قلم کو بے کار بنا دیا اور گنگا کی شعر و ادب کی دیویاں گزشتہ دو سال سے عالم سکوت میں ہیں۔ بہرحال مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ ادبی تحریک جو لڑائی کی وجہ سے معطل تھی اب پھر جنبش میں آ چلی ہے اور اس کی پہلی بہار چند نظمیں، تاریخیں اور بعض رسالے ہیں جو حالیہ شورش کے متعلق تالیف کیے گئے ہیں۔ اس قصیدے کے علاوہ جس کا میں اس سے قبل ذکر کر چکا ہوں ایک رسالہ ایک مسلمان کا لکھا ہوا ہے جو آگرہ میں حقیقت الجہاد کے نام سے شائع ہوا ہے یعنی یہ کہ حالیہ بغاوت کے مدنظر "جہاد" اور "فساد" میں کیا فرق ہے۔ ایک ہندوستانی نظم بھی انگریزی کے دہلی پر قبضے کے متعلق لکھی گئی ہے جو "فتح دہلی" کے نام سے موسوم ہے۔ یہ راحت کی مصنفہ ہے جن کی اور بھی تصنیفات ہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مسٹر ای ڈی لوٹور E. De Loutour نے ایک اردو ترجمہ عدالتی اصولوں کی یادداشت (Notebook of Judicial Principles) کا شائع کیا ہے اور سنسکرت کے عالم بابو راجندر لال متر کے باپ کا ایک جدید ہندوستانی تذکرہ (اشخاص اور کتب کے حالات پر) اس وقت کلکتہ کے ایک مطبع میں زیر طبع ہے۔

اس کے ماسوا ایک رسالہ موسوم بہ "بامداد" (یعنی صبح) بمبئی سے اسی سال جاری ہوا ہے۔ یہ یورپین خیالات کا موید ہے۔ کیونکہ ایک قریبی اشاعت میں اس نے اپنے ناظرین سے جنہیں فرصت ہے اور تین ہزار روپے (ساڑھے سات ہزار فرانک) کے اخراجات کے متحمل ہو سکتے ہیں، انگلستان جانے پر زور کا مشورہ دیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ "جن لوگوں سے میں مخاطب ہوں ان میں سے بعض یہ اعتراض کریں گے کہ ہمارا مذہب معرض خطر میں پڑ جائے گا یا ہم اسے بالکل کھو بیٹھیں گے۔ لیکن وہ مذہب ہی کیا جسے تم زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ساتھ نہ لے جا سکو۔"

ہندوستانی اخباروں میں سے جن کے وجود کا میں اس سے قبل ذکر کر چکا ہوں، اکثر سنہ 1857ء میں بغاوت کے رونما ہونے پر ناپید ہو گئے۔ اخبار "خیرخواہِ ہند" جو مرزا پور سے سنـ 1837ء سے فارسی اور لاطینی ہر دو حروف میں شائع ہوتا تھا، بند ہو گیا۔ یہ رسالہ لندن کی مشنری سوسائٹی کے پادری ماتھر (Mather) کے زیر ادارت سترہ سال سے جاری تھا۔ یہ شخص بہت سی مذہبی کتابوں کا مصنف ہے جو ہندوستانی میں لکھی گئی ہیں۔ اور اب بائبل کو ایڈٹ کیا ہے جو ہندوستانی زبان رومن خط میں لکھی گئی ہے جس کی 3 ہزار کاپیاں لندن میں شائع ہو رہی ہیں اور اس کے حاشیے پر متوازی عبارتیں [عربی خط میں] ہیں۔ نہ صرف امریکن مشنری افراد اس اخبار کے مضامین لکھتے رہے جیسا کہ میں نے اپنے 1853ء کے لکچر میں بیان کیا تھا بلکہ ہر فرقے کے پراٹسٹنٹ مشنریوں کے مضامین بھی فراخ دلی سے شائع کیے جاتے تھے۔ اس رسالے کا مقصود تبلیغ مذہب اتنا نہ تھا جتنا کہ دیسیوں میں مفید معلومات کی اشاعت۔ ہمیں امید ہے کہ وہ پھر اسی طرح دوبارہ شائع ہونے لگے گا جس طرح دہلی گزٹ جس کا مدیر سال بھر کے وقفے کے بعد اس قابل ہو گیا کہ اس نے اپنے برباد شد مکان کی از سر نو تعمیر اور مطبع کی تجدید کر لی اور مطبوعات کی اشاعت پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے۔

صوبۂ پنجاب فساد سے بے تعلق رہنے کی وجہ سے وہاں ادبی اشاعت میں خلل نہیں پڑا۔ میرے دوست سید عبداللہ نے حال میں میرے پاس ایک فہرست دو سو مختلف مطبوعات کی بھیجی ہے جو لاہور سے شائع ہوئی ہیں۔ ان میں دو نئے دیوان ہیں؛ نیز تفتہ کی ایک تضمین ہے گلستان کی نظموں پر۔ امانت کا ایک مرثیہ اور مخزن العشق مصنفہ تلسی رام اور غنچۂ آرزو (ان دو آخری کتابوں کی حقیقت سے میں ناواقف ہوں) غالباً یہ منظوم افسانے ہیں لیکن کوہ نور جو لاہور سے ہفتے میں دو بار شائع ہوتا ہے بدستور جاری ہے اور اب دسویں جلد تک اس کی نوبت پہنچ گئی ہے۔ میرے روبرو 17 جنوری سنہ 1859ء کا پرچہ ہے جو سولہ صفحے کی چھوٹی تقطیع پر دو کالموں میں ہے لیکن اس میں خاص طور پر کوئی بات دلچسپی کی نہیں ہوتی۔

مجھے معلوم نہیں کہ دہلی کا بڈھا بادشاہ باوجود بغاوت کے ان نتائج کے جو اس کے لیے باعثِ تباہی ہوئے اور جس میں اس کی شرکت بحیثیت سرغنہ متصور کی جاتی تھی، اب بھی شعر و سخن سے شوق رکھتا ہے یا نہیں۔ بہرحال وہ اپنی قلیل المدت حکومت کے زمانے میں شاعری کا شغل رکھتا تھا۔ ذیل میں اس کے تین شعر درج ہیں جن کا انگریزی اخبارات کے ذریعے سے ہمیں علم ہوا ہے۔ "مجھے حق کی قوت کی ستائش کرنے دو۔ عیسائی اپنے ہی ہتھیاروں سے پسپا ہوئے۔ نہ روس سے نہ ترکی سے ہمیں کوئی مدد ملی بلکہ خود انگریزوں کے کارتوسوں نے انہیں ہلاک کیا۔ ہماری فوجوں نے انہیں گھیر لیا اب ان کے لیے نہ نیند ہے نہ چین۔ ان کی موت فیصل شدہ امر ہے وہ صبح انجام پائے یا شام میں۔"

یہ اشعار جون یا جولائی 1852ء میں لکھے گئے ہوں گے کیونکہ اگست میں سراج الدین بہادر شاہ بالکل ناامید ہو گئے تھے اور انہوں نے سیدھی سادی نثر میں نواب جھجر کو لکھا تھا کہ "میں مکہ جانا چاہتا ہوں، میں بڈھا ہو گیا ہوں اور میری صحت خراب ہے۔ دنیا الٹ پلٹ گئی۔ ہر جگہ بدعملی پھیلی ہے۔ کوئی کسی کا حکم نہیں مانتا اس لیے میں نے حج کرنے کا تہیّہ کر لیا ہے۔" انہیں تاحال حج تو نہ ملا مگر حکومت کی قید نصیب ہوئی ہے اور دہلی گزٹ نے ان کے اپنے محل کے دروازہ سے جو لاہوری دروازے کے نام سے موسوم ہے ان کے رنگون جلاوطن کیے جانے کی خبر شائع کی اور وہ کلکتہ سے جہاز پر سوار ہو کر 4 دسمبر گزشتہ کو وہاں پہنچے۔ اس اندوہناک سفر میں ان کی ملکہ بیگم زینت محل ایک اور بیوی بیگم تاج محل اور ان کے فرزند جواں بخت و شاہ عباس اور شاہی خاندان کے چند اراکین اور بہت سے حوالی موالی ان کے ساتھ تھے۔

بعض تصانیف ہندوستانی زبان کی تعلیم کے متعلق شائع ہوئی ہیں جن میں غلام محمد نے بمبئی میں ایک مکالمات شائع کی ہے۔ کلکتہ سے اجمیر کے مسٹر ایس ڈبلیو فیلن S. W. Fallon نے ایک انگریزی ہندوستانی لغت قانونی و تجارتی اصطلاحات کی شائع کی۔ یہ بہت مفید کتاب ہے جس کی ابتدا میں ایک مقدمہ ہے جس میں تاریخی و لسانی لحاظ سے انگریزی کا ہندوستانی سے مقابلہ کیا گیا ہے۔ لندن میں ریورنڈ مسٹر اسمال Rev. Mr. Small نے مسٹر ایسٹ‏وک Mr. Eastwick کی ہندوستانی قواعد کا جدید نسخہ مفید اضافوں کے ساتھ شائع کیا ہے۔ ہمارے مدرسے کے طلبہ کے استفادہ کے خیال سے پادری برٹراں (Abbe Bertrand) نے پیرس میں میری کتاب "کامروپ" کی ایک فرہنگ شائع کی ہے۔

حضرات! دوسری تصانیف جن کا ذکر مجھے آپ سے کرنا ہے رومن یعنی لاطینی حروف میں ہیں۔ مشہور ڈاکٹر کنگریسٹ ہندوستانی قواعد کے موجد کو اس صدی کے آغاز میں سب سے پہلے یہ خیال گزرا کہ ہندوستانی کو انگریزی حروف میں بالالتزام لکھا جائے۔ حروف علت کے متعلق اس نے انگریزی زبان کے رسم الخط کو اختیار کیا جو انگریزوں کے لیے تو بہت مناسب ہے لیکن یورپ کے دوسرے ممالک کی اقوام کے لیے کارآمد نہیں ہے۔ اس امر پر زبردستی اصرار کیا گیا ہے کہ u زبر کے لیے، ee یا کے لیے اور oo واؤ کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اور کسی فرانسیسی کے لیے Pundeet کو Pandit کی طرح اور Sutee کو Sati کی طرح اور Tippoo کو Tipu کی طرح پڑھنا پڑے گا۔ اس طرح زیادہ کوئی بات مضحکہ خیز نہیں ہو سکتی کہ فرانسیسی زبان میں مشرقی الفاظ لکھنے کے لیے انگریزی رسم الخط کو برتا جائے۔ یہ وہی صورت ہوئی کہ انگریزی اصوات کے مطابق لاطینی الفاظ تحریر کیے جائیں۔

چنانچہ ایک لاطینی جملہ لو:

Amicus Socrates, amicus Plato, sad major veritas.

(جس کے معنی ہیں "سقراط بھی میرا دوست ہے، افلاطون بھی میرا دوست ہے۔ لیکن صداقت اہم تر ہے) اور اس طرح لکھو جس طرح اس کا انگلستان میں تلفظ ہوتا ہے، یعنی I may cuss (curse) Socrates, I may cuss (curse) Plato, said Major Veritas. تو اس کے معنی ہو جائیں گے: "میجر ویرٹاس نے کہا؛ میں سقراط پر بھی لعنت بھیجتا ہوں اور افلاطون پر بھی"۔

خوش قسمتی سے یہ رسم الخط اب انگلستان میں سر ولیم جونس Sir W. Jones کے مجوزہ رسم الخط کے مقابلے میں ترک کر دیا گیا ہے۔ آخر الذکر رسم الخط یورپ کے دوسرے ممالک کے عادات سے زیادہ مطابق ہے تو ایشیا والوں کے لیے زیادہ مہمل۔ چنانچہ ہندوستانی کے سادہ اور مرکب (اعراب) حروف علت کو یوں لکھا جاتا ہے:-

ولیم جونس کے ہاں گلکریسٹ کے ہاں حروفِ علت
a u فتحہ
ā a الف
i i معروف
ī ee یائے معروف
u oo ضمۂ معروف
ū oo واو معروف
e e یائے مجہول
ai ue الف و یائے مخلوط
o o واو مجہول
au uo الف و واو مخلوط

لیکن یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ انگریزوں کو جس اس مجوزہ نظام علامت سے نامانوس ہیں، نیز ان ہندوستانیوں کو بھی جو انگریزی داں ہیں اور جن میں سے اکثر نے گلکریسٹ کے مجوزہ رسم الخط کو اختیار کر لیا ہے۔ اس میں مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہو گی۔ کیونکہ وہ ایسے رسم الخط سے غیر مانوس ہیں۔ اس نئے طریقے میں ایک اور دشواری طویل حروف علت یعنی الف، واؤ، یا کی آواز کے لیے انگریزی حروف پر ایک مقررہ نشان لگانے کی ضرورت ہوا کرے گی۔ جو قدیم طریقے میں نہیں تھی [گلکریسٹ اور ولیم جونس] دونوں کے نظام ہائے املا میں حلق اور تالو سے ادا ہونے والی ایسی آوازوں کے لیے جو لاطینی حروف تہجی میں نہیں ہیں، متقارب حروف سے ادا کر کے، امتیاز کے لیے نیچے ایک نقطہ دیا گیا ہے۔ [مثلاً ھ اور ح کو H اور Ḥ کے ذریعے سے]۔ عین کو الف ہی کی طرح لیکن نیچے ایک نقطہ لگا کر [Ạ] شین کے لیے انگریزی اصول Sh برقرار رکھا گیا ہے۔ نون غنّہ کے لیے N کے نیچے یا تو نقطہ لگایا گیا ہے، کھڑے خط سے کاٹا گیا ہے۔

انگریزی حکومت سے لازماً ہندوستانی ادب پر قومی اثر پڑے گا اور وہ صورت بدل کر آدھا تیتر آدھا بٹیر بن جائے گا۔ یعنی آدھا ہندوستانی آدھا انگریزی۔ انگریزی ترجمے اور انگریزی تقلید کی کثرت ہو جائے گی۔ بہت سے ہندوستانی عیسائی ہو جائیں گے اور ان کا خاص ہندی عیسائی ادب ہو گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ لاطینی حروف تہجی کی لازماً ترقی ہو گی اور وہ شاید دوسری دو اقسام کے حروف [یعنی عربی اور دیوناگری] کی جگہ لے لیں گے۔ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی روز افزوں اپنی اس حیثیت کا تحقق کرا لے گی کہ وہ ہندوستان کی عام زبان ہے۔ جیسا کہ لوگ خیال کرتے ہیں اور مختلف صوبوں میں بولی جانے والی کثیر بولیوں میں سے کم از کم بعض کو اپنے میں جذب کر لے گی۔

لندن میں 20 مئی گزشتہ کو زیر صدارت لارڈ سالسبری ایک جلسے میں یہ فیصلہ ہوا کہ انجمن جس کا نام کرسچین ورنیکولر ایجوکیشن سوسائٹی آف انڈیا Christian Vernacular Education Society of India (عیسائی انجمن ہند برائے تعلیم السنۂ ملکی) ہو، قائم کی جائے اور ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں درس گاہیں قائم کرے جن میں عیسویت کے اصول اس ملک کی زبان میں سکھائے جائیں اور وہ کتابیں عیسائی مذہب کو ملحوظ رکھ کر مرتب کی جائیں۔ شرکاء میں مہاراجہ دلیپ سنگھ سابق بادشاہ لاہور جو عیسائی ہو گئے ہیں، لارڈ جان رسل (John Russel) سر چارلس ٹریویلین (Charles Travellan) جو اب صوبۂ مدراس کے گورنر ہیں اور متعدد دیگر ممتاز اشخاص شامل ہیں۔ صرف ہندوستان ہی میں یوروپین لوگوں نے اپنے حروف تہجی رائج نہیں کیے ہیں بلکہ جاوا، امبائنے (Amboyne) اور ملحقہ جزیروں کے عیسائیوں نے جن کو ڈچ مشنریوں نے عیسائی بنایا تھا، ملائی زبان کی تحریر کے لیے لاطینی حروف اختیار کر لیے ہیں۔ جزیرۂ مڈگاسکر Malgaches والوں نے بھی جو پہلے عربی حروف استعمال کرتے تھے، اب ایسا نظر آتا ہے کہ لاطینی حروف کے استعمال کا قطعی فیصلہ کر لیا ہے۔ بات یہ ہے کہ خود اہل مشرق نے یورپ والوں کو اس راستہ پر لگایا ہے۔ عرب ہسپانی زبان کو عربی حروف میں لکھتے تھے۔ [عیسائیان] اہل شام اکثر عربی کو سریانی حروف میں لکھتے ہیں اور ارمنی اور یونانی ترکی زبان لکھنے کے لیے اپنے اپنے حروف تہجی سے کام لیتے ہیں۔ یہودیوں کا بھی یہی حال ہے جو عربی، جرمن اور ہسپانی زبانوں کو عبرانی حروف میں لکھتے ہیں۔

محولۂ بالا رسالہ "یادداشت دربارۂ استمال حروف رومن برائے السنۂ ہند" میں ایک خط موسومہ سر چارلس ٹریویلین شائع ہوا ہے جس میں مرزا پور کے پادری ماتھر Rev. Mathur نے یہ اطلاع دی ہے کہ لاطینی حروف ہندوستان میں اس درجہ مقبول ہیں کہ ناصرف صوبہ ہائے شمالی و مغربی کے ہندوستانی ہی اسے پسند کرتے ہیں جنہوں نے انگریزی سیکھی ہے بلکہ اور سب وہ لوگ بھی جن کا تعلق انگریزی زبان نہ جاننے کے باوجود مشنریوں سے ہے۔ یہ حروف تہجی [انگریزی متصور نہیں کیے جاتے بلکہ] صوبہ ہائے شمالی و مغربی کے عیسائیوں کے حروف تہجی سمجھے جاتے ہیں۔ دیسیوں کے متعدد مدارس میں ان کا رواج ہو چکا تھا اور بغاوت سے قبل 6 ہزار ہندی نوجوانوں نے اسے اختیار کر لیا تھا۔ منجملہ اوروں کے دہلی کالج میں بھی یہ رواج پا چکے تھے جہاں 260 طلبا اپنی زبان کو اس نئے یورپین لباس میں پڑھنے کے عادی ہو گئے تھے۔

انجیل اور کل بائبل کے متعدد ایڈیشن ان حروف میں شائع ہوئے اس طریقے پر جو کتابیں شائع ہوتی ہیں ان میں مشہور مذہبی رمز قصہ "پلگرمس پراگرس" (Pilgrim’s Progress) کا ایک خلاصہ ریورنڈ مسٹر باؤلی (Rev. Mr. Bowley) کا ہے۔ ایک مکمل ترجمہ اس کتاب کا بابو ہری نے مرتب کیا ہے۔ یہ صاحب ہندو مصنف ہیں جو اپنے متعدد ادبی تصانیف اور بعض عیسوی کتب کی وجہ سے بہت مشہور ہیں۔

ان کتابوں میں سے انجیل اور زبور کا وہ ایڈیشن سب سے زیادہ کارآمد ہو گا جو لندن بائبل سوسائٹی آج کل دوہرے کالم میں شائع کر رہی ہے۔ ایک کالم میں ہندوستانی اور دوسرے میں انگریزی۔ اس کے بیس ہزار نسخے طبع کیے جائیں گے اور اس کے ساتھ ایک فرہنگ ان تمام ہندوستانی الفاظ کی ہو گی جو ہندوستانی حصے میں استعمال کیے گئے ہیں۔ اس کی نگرانی مسٹر کاٹن ماتھر (Mr. Cotton Mather) کے تفویض ہے جو ایڈسکومب (Addis,combe) میں ہندوستانی کے پروفیسر ہیں اور اسی نام والے ایک مشنری کے بیٹے ہیں۔

کیتھولک مشنریوں نے بھی لاطینی حروف اختیار کر لیے ہیں۔ میرے پاس ایک مذہبی سوال و جواب کا رسالہ ہے جو سنہ 1852ء میں بمبئی میں حسب الحکم و کار اپاسٹلک آف پٹنہ نہایت عمدہ ہندوستانی زبان میں طبع ہوا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ عیسوی خیالات کا لاطینی الفاظ میں اظہار کیا ہے جو ہندوستانیوں کے لیے بالکل اجنبی اور غیر موزوں ہیں برخلاف اس کے عربی سے جو الفاظ مستعار لیے گئے ہیں وہ کثرت استعمال کی وجہ سے مشرق میں رائج ہو گئے ہیں اور ان خیالات کے اظہار کے لیے موزوں اور مناسب خیال کیے جاتے ہیں۔

ہندوستانی مطبوعات لاطینی حروف میں عام طور پر مشنریوں نے اپنے مدارس اور ہندوستانی عیسوی اداروں کے لیے تیار کی ہیں۔ بہرحال ان میں بھی بعض ایسی کتابیں ہیں جن کا تعلق دنیاوی ادب سے ہے مثلاً رومن حروف میں لکھی ہوئی "باغ و بہار" اور اردو کی "گلستان"۔ اس کے علاوہ "باغ و بہار" کا رومن حروف میں لکھا ہوا ایک اڈیشن جس کی مسٹر عنیر ولیمس (Mr. Monier Williams) نے نظرثانی کی ہے، زیر طبع ہے۔ نیز "پریم ساگر" کا ایک اڈیشن یہ ہندوستانی تصانیف میں شہ کار ہے اور اس کی اشاعت مسٹر ایڈورڈ بی ایسٹ وک (Ed. B. Eastwick) کر رہے ہیں۔ مسٹر ایڈورڈ بی ایسٹ‏وک کا احسان ہے کہ انہوں نے دیوناگری حروف میں بھی اس کا ایک نسخہ شائع کیا اور [ہندی میں] بہت اچھا ترجمہ کیا ہے۔ میرے لائق شاگرد پادری برٹران (Abbe Bertrand) رومن حروف میں لکھا ہوا ایک اڈیشن "کامروپ" کا شائع کر رہے ہیں تاکہ جو لوگ میرے زیرتعلیم تو رہیں لیکن ہندوستانی حروف پڑھنے کی زحمت گوارا نہ کر سکیں وہ مستفید ہو سکیں اور اس نظم کے مفہوم کے سمجھنے میں آسانی ہو۔

مبتدیوں کے لیے رومن حروف میں لکھی بعض کتابیں بھی اب شائع ہو چکی ہیں۔ اس ضمن میں مجھے مسٹر ولیمس اور ماتھر (Williams and Mather) کی کتاب Easy introduction to the study of the Hindustani (آسان طریقۂ تعلیم ہندوستانی) کا ذکر کرنا چاہیے جس میں قواعد کے علاوہ اقتباسات مع فرہنگ اور مکالمات درج ہیں۔ لاطینی حروف میں روزیریو (Rosario) ٹامسن (Thampson) اور ناتانیل برائس (Nathanial Brice) کی لغات پہلے سے موجود ہیں ان کے علاوہ متعدد ابتدائی کتب مثلاً Students’ Assistant (معین طلبہ) ہندوستانی ریڈر وغیرہ بھی لاطینی حروف میں ہیں۔ پروفیسر ڈی فاربس D. Forbes کی لغت اور اس لغت کا ایک خلاصہ بھی رومن حروف میں تیار کیے جا رہے ہیں۔ یہ بھی اعلان کیا گیا ہے کہ ملکۂ انگلستان نے اب فارسی حروف تمغوں اور دوسرے کتبوں میں استعمال کرنے کی ممانعت کر دی ہے۔

مسٹر ٹکر (Tucker) سابق کمشنر بنارس جو ایک مشہور و معروف شخص ہیں اور جو اس وقت کرسچین ورنیکولر ایجوکیشن سوسائٹی (عیسائی انجمن برائے تعلیم السنۂ ملکی) کے سکرٹری کی حیثیت سے کام انجام دے رہے ہیں جس کا ذکر میں اس سے قبل کر چکا ہوں، وزیر ہند لارڈ اسٹینلی Stanley کے پاس اس امر پر اصرار کر رہے ہیں کہ گورنمنٹ گزٹ نیز ضوابط و قوانین لاطینی حروف میں طبع ہوں فارسی حروف میں نہ ہوں۔ نیز دیسیوں کو اجازت دی جائے کہ ہندوستانی عدالتوں اور دوسرے سررشتہ جات میں اپنی درخواستیں اور دستاویزات ہندوستانی زبان لیکن لاطینی حروف میں تحریر کی ہوئی پیش کر سکیں۔

حضرات! ہندوستانی حروف تہجی کے ترک کرنے کا رجحان جیسا کہ آپ ملاحظہ فرمائیں گے، اعلانیہ پایا جا رہا ہے۔ نئے طریقے میں یقیناً دشواریاں ہیں لیکن اس میں فوائد بھی ہیں۔ میرے خیال میں اس کے رواج کے لیے جو امر بہت زیادہ موید ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستانی تحریر کے لیے کوئی ایک ہی حروف تہجی نہیں ہیں کیونکہ وہ مقامی حالات اور اشخاص کے مذاق کے لحاظ سے مختلف طریقوں پر فارسی اور شاستری یا دیوناگری حروف میں تحریر کی جاتی ہے۔ فارسی حروف بھی ہندوستانی زبان کے لیے ایسے ہی اجنبی ہیں جیسے لاطینی اور ہندوستانی حروف فارسی یا عربی الفاظ کو ہمارے (لاطینی) حروف سے کچھ بہتر طور پر ظاہر نہیں کرتے۔

لاطینی حروف میں لکھنے کی تحریک جو انگلستان و ہندوستان میں ظاہر ہوئی ہے، اس سے فرانس بھی گویا گونج گیا ہے۔ ایک بزلہ سنج فاضل نے جو شاعر و عالم بھی ہے Fleurs De LInde (ہندوستان کے پھول) کے نام سے ایک عمدہ منظوم ترجمہ فرانسیسی زبان میں راماین کے ایک حصے اور بعض دوسری نظموں کا کیا ہے اور ترجمہ کے ساتھ اصل کو لاطینی حروف میں دیا ہے جو نہایت صحت کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔ اس شخص کا اس اشاعت سے نیز اپنی تصنیف "اورینٹلزم راندیو کلاسک" (علوم شرقیہ کا ادبیات عالیہ میں شمول سے سب سے قابل تعریف مقصد یہ ہے کہ فرانس میں مشرقی زبانوں خصوصاً سنسکرت کے مطالعے کا مذاق پیدا ہو، تاکہ ناصرف پیرس میں ان کے سیکھنے کا موقع حاصل رہے بلکہ دوسرے بڑے صوبائی شہروں میں بھی ان کے منجملہ صوبہ لورین کا قدیم دارالسطنت بھی ہے، جو اس مؤلف کا وطن ہے اور جہاں اس کی تحریک پر عمدہ مثال قائم ہو چکی ہے، کیونکہ وہاں آج کل سنسکرت کی صرف و نحو رومن حروف میں شائع ہوئی ہے اور عنقریب سنسکرت کی لغت بھی انہی حروف میں شائع ہو گی۔

اس صدی کے آغاز سے جو شخص کامیابی کے ساتھ مشرقی ادب کی آبیاری کر رہا تھا، افسوس کہ ایسے فاضل کے وجود سے ہم حال میں محروم ہو گئے۔ یہ شخص ہندوستانی کو لاطینی میں لکھے جانے کا شدید مخالف تھا۔ میری مراد جان شکسپیر Shakespear سے ہے جس کا اس موقعے پر کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں جو ہندوستانی میں میرا استاد تھا، جس طرح مشہور ایس ڈی ساسی S. De Sacy میرا عربی و فارسی کا استاد تھا۔

جے۔ شکسپیر 4 اگست 1847ء کو اسٹینٹن ہولڈ (Staunton Harold) میں پیدا ہوئے جو لیسسٹر (Leicester) کا ایک قصبہ ہے۔ یہاں اس کے اجداد کئی صدیوں سے سکونت گزین رہنے کے مدعی تھے اور ان کے ہاں یہ روایت چلی آتی تھی کہ وہ لوگ اسی نام کے مشہور انگریز شاعر کے خاندان سے ہیں اور جیسا کہ عام طور پر معلوم ہے یہ شاعر اسٹریٹ فورڈ آن اے‏ون (Stratford on Avon) میں جو ضلع ہاروک شایر (Harwick Shire) سے متصل ایک قصبہ ہے پیدا ہوا تھا۔ اسی لیے یہ لوگ ولیم شکسپیر (William Shakespeare) شاعر کی اولاد میں سے نہ تھے اور وہ یقیناً اس خاندانی نام کے آخری وارث نہ تھے جیسا کہ بعض اخبارات کا بیان ہے کیونکہ اس مشہور المیہ نے کوئی اولاد ذکور نہیں چھوڑی۔

جان شیکسپیر نوعمری ہی کے زمانے سے مشرقی السنہ خصوصاً عربی و فارسی و ہندوستانی کے حصول کی جانب متوجہ ہوا تھا۔ سنہ 1805ء میں بحری فوجی کالج میں السنۂ مشرقی کی پروفیسری کے لیے اسے نامزد کیا گیا۔ اس خدمت کے موقوف ہو جانے کے بعد وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے فوجی کالج موقوعۂ ایڈسکومب Addiscombe میں ہندوستانی کی پروفیسری کی خدمت پر مامور ہوا۔ سنہ 1832ء تک وہ اس خدمت کو سرانجام دیتا رہا۔ اس کے بعد اولاً رچرڈ ہاٹن Richard Haughton اس جگہ پر مامور ہوا جو اسی مدرسے کے ایک طالب علم اور سر گریوس Sir Graves کا بھائی تھا جو ہمارے انسٹیٹیوٹ (فرانس کی اکادمی) کا رکن ہے۔ اس کے بعد اس کی بہن کے لڑکے مسٹر باولس (Bowles) کی ماموری عمل میں آئی بالآخر کرنل رولینڈسن (Col. Rowlandson) مامور ہوا جو اب تک اس خدمت پر فائز ہے۔ رائل ایشیاٹک سوسائٹی کے قیام پر وہ اس کا لائبریرین مقرر ہوا اور اس اعزازی خدمت کو اس نے اپنی وفات تک انجام دیا۔

سنہ 1829ء میں وہ پیرس آیا اور اس سال کے موسم سرما میں میرے سلسلۂ تعلیم کے آغاز کے دن حاضر رہا۔ میں نے ان کی موسیو دی ساسی (de Sacy) سے ملاقات کرائی جس نے اس سے قبل ہی اس کی تصانیف کے ذریعے سے اس سے واقفیت حاصل کی تھی اور اس کی علمیت کی وہ بے انتہا قدر کرتا تھا۔ ہم دونوں آرژاں توی Argenteuil گئے جہاں شہر کے قبرستان میں اس کے حقیقی بھائی کی قبر تھی۔ اس کا بھائی افواج برطانیہ کا اسسٹنٹ کمیسری جنرل (Asst. Commissary General) تھا اور اتفاقاً گھوڑے سے گرنے کے صدمے سے 20 ستمبر 1815ء کو ہلاک ہوا۔ اس کی قبر کی مرمریں لوح کے انگریزی کتبے سے ان حالات کا پتہ چلتا ہے۔ جے۔ شیکسپیر پیرس میں صرف اسی ایک وقت آیا۔ مجھے خاص طور پر انگلستان میں اس سے گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ اس کی پہلی تصنیف "اسپین کے عربوں کی تاریخ" ہے جو عربی سے ترجمہ کی گئی ہے۔ یہ تصنیف عریبین اینٹی‏یٹیز آف اسپین (اندلس کے عربی آثار) نامی سلسلۂ کتب میں لندن میں جے۔ سی۔ مرفی (J. C. Murphy) نے سنہ 1816ء میں طبع کرائی تھی۔ اس کے بعد اس نے اپنی ہندوستانی کی صرف نحو، ہندوستانی کے انتخابات، ہندوستانی لغت اور مقدمۂ تعلیم ہندوستانی متعدد بار طبع کرائے۔ اس نے شادی نہیں کی تھی۔ لینگلی پرائری (Langley Priory) واقع ایشبی ڈی‏لا‏سے‏زوش (Ashby De Lazouche) میں جو زمین اس نے چند سال قبل خریدی تھی وہیں 84 سال کی عمر میں 10 جون 1858ء کو اس کا انتقال ہوا۔ کہتے ہیں کہ اس نے 2 لاکھ پچاس ہزار پونڈ (ساڑھے باسٹھ لاکھ فرانک) ترکہ چھوڑا۔ یہ معلوم کرنا خالی از دلچسپی نہ ہو گا کہ اس رقم کے منجملہ اس نے ڈھائی ہزار پونڈ اسٹریٹ فورڈ آن اے‏ون (Strat Ford on Avon) کے اس مکان کی ترمیم و نگہداشت کے لیے چھوڑے جہاں مشہور [شاعر] شیکسپیر پیدا ہوا تھا۔ اپنی زندگی میں بھی تقریباً اسی قدر رقم اس نے اس کام پر صرف کی تھی۔ اس مرتبہ اس نے خاص طور پر یہ وصیت کی تھی کہ سوان آف ایون (Swan of Avon) کے مکان کے منتظمین سے اس امر کا فیصلہ کر لیا جائے کہ وہاں ایک شیکسپیر میوزیم قائم کیا جائے۔ اس کے علاوہ اس نے 60 پونڈ (ڈیڑھ ہزار فرانک) سالانہ اس مکان کے چوکیدار اور زائرین کے کتاب معائنہ کی نگہداشت کے لیے ویت کیے تاکہ جو لوگ وہاں آئیں وہ اس کتاب میں کوئی شعر یا جملہ اپنے نام کے ساتھ لکھ جائیں۔

اس قدر کثیر دولت جو اس مستشرق نے چھوڑی وہ اس کی ہندوستانی کے مبتدیوں کے لیے لکھی ہوئی تصانیف خصوصاً لغت کی کامیابی کی وجہ سے جمع ہوئی تھی۔ یہ لغت چار مرتبہ طبع ہوئی اور کئی ہزار کی تعداد میں۔ یہ مزید ثبوت ہندوستانی زبان کی عام مقبولیت اور اہمیت کا ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انگلستان اور ہندوستان دونوں ملکوں میں اس کی کیسی قدر ہے۔ شیکسپیر کی تصانیف گراں قیمت ہیں اور اپنی نوعیت میں منفرد بھی نہیں ہیں۔ اسی طرح کی اور تصانیف بھی ہیں جن کی اشاعت بھی شیکسپیر کی تصانیف کے ساتھ ساتھ بہت کامیابی سے ہوئی ہے۔

حضرات! ہمیں ہندوستان کی اس جدید دلپذیر زبان کا مطالعہ کرنا چاہیے اور جس طرح جان شیکسپیر نے اپنی صرف و نحو کے سرورق پر بطور ماٹو حسن کے دو شعر نقل کیے ہیں جو اس موقع کے حسب حال ہیں۔ ہمیں بھی اس کا اتباع کرنا چاہیے۔ وہ شعر یہ ہیں:-

سخن کے طلبگار ہیں عقل‏مند

سخن سے ہے نامِ نکویاں بلند

سخن کی کریں قدر مردانِ کار

سخن نام ان کا رکھے برقرار


رجوع بہ: خطبات گارساں دتاسی