منزل سفر عشق کی زنہار نہ ٹوٹے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
منزل سفر عشق کی زنہار نہ ٹوٹے
by کرامت علی شہیدی

منزل سفر عشق کی زنہار نہ ٹوٹے
جب تک کمر قافلہ سالار نہ ٹوٹے

اس پند سے دل ناصح دیں دار نہ ٹوٹے
بت توڑنے میں کعبے کی دیوار نہ ٹوٹے

بے فکر رہے بندہ نقاب رخ جاناں
ہم سے کبھی قفل در گلزار نہ ٹوٹے

جب تک نہ گوارہ ہو تجھے نزع کی تلخی
پرہیز ترا اے دل بیمار نہ ٹوٹے

ہر روز ہو جب سیکڑوں عشاق کا چورنگ
اے شوخ کہاں تک تری تلوار نہ ٹوٹے

سر پٹکوں جو دیوار سے کہتا ہے وہ ظالم
بس بس مرے گھر کی کہیں دیوار نہ ٹوٹے

بے جا ہے تری گرمئ بازار کا شکوہ
کیوں جنس نئی پا کے خریدار نہ ٹوٹے

قسمت میں ہو گو منزل مقصد کا پہنچنا
پر آبلۂ پا میں سر خار نہ ٹوٹے

آساں ہے شہیدیؔ کی اگر دل شکنی ہو
پر شرط یہ ہے خاطر اغیار نہ ٹوٹے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.