مرنے کی مجھ کو آپ سے ہیں اضطرابیاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مرنے کی مجھ کو آپ سے ہیں اضطرابیاں
by تاباں عبد الحی

مرنے کی مجھ کو آپ سے ہیں اضطرابیاں
کرتا ہے میرے قتل کو تو کیوں شتابیاں

میرا ہی خانماں نہیں ویراں ہوا کوئی
بہتوں کی کی ہیں عشق نے خانہ خرابیاں

خوان فلک پہ نعمت الوان ہے کہاں
خالی ہے مہر و ماہ کی دونوں رکابیاں

ہرگز خم فلک میں نہیں ہے شراب عشق
غنچوں کی خون دل سے بھری ہیں گلابیاں

حلقوں سے اس کی زلف کے رخسار ہے عیاں
تاباںؔ جتھے میں دیکھو ہیں کیا ماہتابیاں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse