فروغ مہر سے رندوں کا آخر کام کیا ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فروغ مہر سے رندوں کا آخر کام کیا ہوگا
by ناطق لکھنوی

فروغ مہر سے رندوں کا آخر کام کیا ہوگا
زمیں پر دور چلتا ہے فلک پر جام کیا ہوگا

یہ میں جانوں کہ میں نے کیوں کیا آغاز الفت کا
یہ وہ جانیں کہ اس آغاز کا انجام کیا ہوگا

ترا ترک ستم تمہید ہے ترک تعلق کی
مجھے اس دل شکن آرام سے آرام کیا ہوگا

پریشاں میں نہیں لیکن جفا پر تم پشیماں ہو
وفا پر میری اس سے بڑھ کے اور الزام کیا ہوگا

شرابی ہے وہی رگ رگ میں جس کی قدرتی مے ہو
نہ ہو کیف آفریں جو دل وہ مے آشام کیا ہوگا

خوشی ہوگی دوامی غم زدوں کو جب کبھی ہوگی
جسے ہر وقت ہو آرام اسے آرام کیا ہوگا

گماں تھا نیک مجھ پر نیک لوگوں کا سو اب تک ہے
مگر اب میں کہاں ناطقؔ مجھے الہام کیا ہوگا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2023, prior to 1 January 1963) after the death of the author.