فردوس بریں/فردوس بریں
حسین کو نہیںخبر کہ یہ غفلت کتنی دی تلک اُس پر طاری رہی،لیکن مدہوشی تھوڑی تھوڑی کم ہوئی تھی اور نشۂ غفلت اُترنا شروع ہوا تھا کہ ایک نہایت ہی دل کش اور وجد پیدا کرنے والے نغمے کی آواز کان میں آئی اور ایسا معلوم ہوا کہ گویا دل فریب و دلربا پری پیکروںکا ایک طائفہ عجیب و غریب اور انتہا سے زیادہ پر لطف باجوںاور مزامیر کے ساتھ اپنے نور کے گلوں سے ولولہ خیزی اور بہار کی مسرت انگیز دھن میںیہ ترانہ مبارکباد گا رہا ہے کہ "سلام علیکم طبتم فادخلوھا خالدین"۔ ایک جوش مسرت کی بے اختیاری سے اس نے گھبرا کے آنکھیں کھول دیں۔ ہر طرف ایسا سماںنظر آیا کہ جدھر نظر جاتی ہے " کرشمہ دامن دل میکشد کہ جا ایں جاست"۔ حسین نے اس وقت اپنے آُ پکو اس حالت میںپایا کہ ایک طلا کار اور مرصع کشتی میں سوار ہے اور نازک بدن پری جمال لڑکوں کی کوشش سے وہ کشتی ایک پتلی مگر بہت ہی دل کش نہر کے کنارے ابھی ابھی آ کے ٹھہری ہے۔ نرم اور نظر فریب سبزے کو شفاف اور پاک و صاف پانی اپنی روانی میں چومتا ہوا نکلا جاتا ہے۔ بعض مقامات پر گنجان اور سایہ دار درخت ہیںجو پیچیدہ اور خم دار زلفوںکی طرحنہر کی گوری مگر خم آلود پیشانی پر دونوںطرف سے جھک پڑے ہیں مگر جہاں پر کشتی آ کے کنارے لگی ہے وہاںایک کشادہ مرغزار ہے۔ ان خوبصورت ملاحوںکے کہنے کے بموجب وہ کشتی سے اتر کے سبزہ زار کی سیر کرنے لگا۔ وہاں جا کے دیکھا تو اور حیرت ہوئی۔ پانی کے پاس ہی سبزے کا ایک پتلا اور برابر حاشیہ چھوڑ کے شگفتہ اور خوش رنگ پھولوںکا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جو نہر کے دونوںجانب حد نظر تک پھیلتے چلے گئے ہیں۔ اگرچہ پھولوںمیںشادابی و خوش رنگی کی وہی شان ہے جو صرف خودرو پھولوںمیںنظر آتی ہے مگر اس قدرتی بہار کے ساتھ یہ لطف بھی ہے کہ نہایت ہی لیاقت بلکہ بظاہر مافوقالعادت ہوشیاری و دانائی سے چمن بندی کی گئی ہے۔ چمنوںکی بعضقطاریں تو ایسی ہیں جن میںایک ہی قسم اور ایک ہی رنگ کے پھول ہیںاور معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ایک ہی قوم اور ایک ہی وردی کی فوج مختلف کمپنیوں پر تقسیم ہوتی حد نظر تک چلی گئی ہے۔ مگر اکثر چمن ایسے ہیں جن میںمختلف رنگ کے پھولوںکو ترتیب دے کے زمین پر ایسی ایسی گلکاریاںکی گئی ہیںکہ عقل انسانی حیرت میں آ جاتی ہے۔ سارا مرغزار اور ساری وادی جو کوسوںتک پھیلی ہوئی ہے اور جسے خوب صورت ،متوازی اور سرسبز و شاداب پہاڑوںنے اپنے حلقے میںکر لیا ہے ، از سر تا پا ان ہی چمنوںاور پھولوں سے بھری ہے۔ اور مختلف نہریںجو آبشاروںکی شان سے اور پانی کی چادریںبن بن کے پہاڑوںسے اتری ہیں اور انھی ہی چمنوںاور پھولوںکے درمیانمیںجابجا بہ رہی ہیں۔ اور ان کے پانی نے خواہ پھولوںکو خوش بو سے متاثر ہوکے یا کسی اور وجہ سے گلاب اور کیوڑے کی شان پیدا کر لی ہے۔ یہ نہریںزبان حال سے پکار پکار کے کہہ رہی ہیںکہ ہم ہی تسنیم و سلسبیل ہیں۔ راستوںاور روشوں کی ترتیب میںیہ معجز نما کیفیت پیدا ہو گئی ہے کہ ہر چمن کے ایک پہلو کو نہر دھوتی ہے تو اس کے دوسرے پہلو کو ایک چھوٹی سی خوش نما سڑک اپنے آغوش میںلیتی ہے۔یہ سڑکیںچمن سے بھی زیادہ کمال صناعی دکھا رہی ہیں۔ مختلف قسم اور مختلف رنگ کے سنگریزوں سے ان سڑکوںکی تعمیر میںکام لیا گیا ہے اور ہر سڑک پر ایک خاص رنگ کے سنگ ریزے بچھا کے کوئی سڑک فیروزے کی،کوئی زمرد کی،کوئی یاقوت کی اور کوئی نیلم کی بنا دی گئی ہے۔ پھر ترتیب میںیہ لطف ہے کہ جس رنگ کے پھولوں کا چمن ہے اسی کے مناسب و موزوں رنگ کی پتلی خوش نما سڑک اس کے پہلو سے گزری ہے۔ نغمہ سجن طیور ان چمنوںمیںاڑتے پھرتے ہیں،پھولوںکے قریب بیٹھ بیٹھ کے عشق و محبت کی داستان سناتے ہیں اور خدا جانے کس کمال استادی سے تعلیم دی گئی ہے کہ اکثر آنے جانے والے جہاںدیگر اطراف سے پری پیکروں کے نوران گلوںسے خیر مقدم کا ترانہ سنتے ہیں،وہاںاس نغمہ سنج طیور کا بینڈ بھی اپےے قدرتی ارغنون سے یہی کلمۂ خیر مقدم سناتا ہے کہ " سلام علیکم طبتم فادخلوھا خالدین"۔ حسین نے نہایت ہی جوش و حیرت سے دیکھا کہ ان ہی چمنوںمیںجابہ جا نہروںکے کنارے کنارے سونے چاندی کے تخت بچھے ہیں جن پر ریشمی پھول دار کپڑوں کا فرش ہے۔ لوگ پر تکلف اور طلائی گاؤ تکیوںسے پیٹھ لگائے دل فریب اور ہوش ربا کم سن لڑکیوںکو پہلو میںلیے بیٹھے ہیں اور جنت کی بے فکریوں سے لطف اٹھا رہے ہیں۔خوب صورت خوب صوت آفتِ روزگار لڑکے کہیںتو سامنے دست بستہ کھڑے ہیںاور کہیں نہایت ہی نزاکت اور دل فریب حرکتوںسے ساقی گری کرتے ہیں۔ شراب کے دور چل رہے ہیں اور گزک کے لیے سدھائے یا قدرت کے سکھائے ہوئے طیور پھل دار درختوںسے پھل توڑ توڑ کے لاتے ہیں اور ان کے سامنے رکھ کے اڑ جاتے ہیں۔پھل ہی نہیں ، یہ خوش نما طیور کپڑوںمیںلپٹے کبابوںکی پوٹلیاںبھی لاتے ہیں اور ان لوگوںکے لیے مے کشی و شاہد پرستی کا پورا سامان فرام کر دیےر ہیں۔ سب سے زیادہ جس چیز نے حسین کو متوجہ کیا وہ یہ بات تھی کہ یہ سب لوگ بے غل و غش نہایت بے فکری و اطمینان سے ان لذتوںکے مزے لوٹ رہے تھے اور خبر بھی نہ ہوتی تھی کہ پاس سے کون گزرتا ہے اور انھیںکس نظر سے دیکھتا ہے۔ نہ کسی کو کسی سے حسد تھا اور نہ کسی کو کسی لطف کے چھپانے کی ضرورت تھی: بہشت آنجا کے آزارے نباشد کسے را با کسے کارے نباشد یہ عالم دیکھ کے حسین کے کے دل میںایک جوش و ولولہ پیدا ہوا۔ اس نے کسی قدر بلند آواز میں کہا: " بے شک فردوس بریںیہی ہے ! یہیںآکے نیکوںکاروں اور ایمان داروں کو اپنے اعمال نیک کا صلہ ملتا ہے۔ مگر افسوس! اے زمرد تو کہاں۔۔۔۔۔؟" یہ جملہ ناتمام ہی تھا کہ پاس کے چمن کے پھولوںکے نیچے سے ایک شیریں و دلکش آواز میںکسی نے کہا: "تو ابھی جنت کے چمنوںہی کو دیکھ رہا ہے ، ذرا محلوں اور قصروںکو بھی نظر اُٹھا کے دیکھ!" پہلو سے تو اس نے یہ آواز سنی اور سامنے سے ایک نہایت ہی نازک اندام اور قیامت خرام نازنین نے آ کے گلے میںبانہیں ڈال دیں اور مسکرا کے کہا:"میںبھی تیرے لیے ہوں۔" حسین ذرا جھجک کے اس سے علیحدہ ہوا اور غور سے اس کو صورت دیکھ کے کہا:"مگر میںپیاری زمرد کے سوا کسی کو نہیںچاہتا؛ بتاؤ وہ کہاںہے ؟" نازنین: وہ بھی مل جائیںگی۔ آُ پ کی خوشی کا پیمانہ تنگ ہے۔ ذرا ان سرمدی مسرتوںسے نگاہ اور دل آشنا ہولیںتو اُن سے ملیے گا۔وہ جو سامنے موتی کا قصر ہے ، آپ ہی کے لیے ہے اور زمرد اسی میں ہے۔ حسین نے نظر اٹھا کے اس رفیعالشان قصر کو دیکھا اور اس کے ساتھ ہی اس کی نظر دیگر عمارتوںپر بھی جا پڑی اور اُسے نظر آیٰا کہ یہ عمارتیں باغوںسے بھی زیادہ حیرت انگیز ہیں۔ بعض بالکل سونے کی،بعضچاندی کی،بعضمونگے کی اور بعضموتیوںکی نظر آتی ہیں۔ یہ تمام مکانات جو حسب حیثیت محل، قصر اور کوشک کے لفظ سے تعبیر کیے جا سکتے ہیں۔مذکورہ اشیا کے علاوہ ان میںکوئی فیروزے کا،کوئی زمرد کا،کوئی یاقوت کا اور کوئی ہیرے کا ہے۔ موتی کے محل جن میںسے ایک خاص حسین کے لیے ہے ،کچھ ایسے آب دار رنگ میںرنگے ہوئے ہیں کہ نیچے سے اوپر تک ایک ہی موتی میں ترشے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ان میںجابجا صدف صادق کے جھلکتے ہوئے ٹکڑے جڑے ہیں۔تمام محلوںپر علاوہ اس رنگ کے جس کی طرف وہ محل منسوب ہیں، ہر در و دیوار کے گرد بلور اور شیشے کے ٹکڑوںکا حاشیہ بنا ہوا ہے اور ان شیشیوںکے نیچے ڈاک دی ہوئی ہے۔ یہ آئینے دن کو آفتاب کی ضو میںاور رات کو ہزارہا کافوری شمعوں کی روشنی میںاس قدر جگمگا اٹھتے ہیںکہ تیز سے تیز نگاہ خیرگی کرنے لگتی ہے۔ اس کے علاوہ ان ہی دیواروںمیںاندر باہر جواہرات بھی جڑے ہیںجو اپنی کرنیںچمکا چمکا کے ایک عجیب لطف پیدا کرتے ہیں۔ بہر تقدیر اس مجموعی سامان ، سنہرے ،روپہلے اور رنگ برنگ قصروں، ان کے آئینوںاور جواہرات نے ہر چہار طرف ایک ایسی نور کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے کہ نظر پڑتے ہی انسان کے دل میں ایک جوش اور ولولہ پیدا ہو جاتا ہے۔ حسین ان محلوںکو دیکھ کے ذرا تھوڑی دیر تک تو مبہوت کھڑا رہا مگر ہوش آتے ہی اس خاصمحل کی طرف دوڑا جس کی نسبت اس پری پیکر حور کی زبانی سنا تھا کہ خاص اس کے لیے ہے اور جس میں پیاری زمرد کے ملنے کی امید تھی۔اب اس کے جذبات دلی اور اس جوش و خروش سے زمرد کی طرف متوجہ تھے کہ اس نے کسی چیز کی طرف نظر نہ اٹھائی، نہ کس سامان عشرت کو دیکھا اور سیدھا اس قصر دُری کے دروازے پر جا پہنچا۔ زمرد بھی استقبال کے لیے محل سے باہر نکل آئی تھی اور ایک غیر معمولی مگر نہایت دل ربا وضع سے بال کھولے اور زلفوںکو شانوںاورپیٹھ پر بکھرائے کھڑی تھی۔ آنکھیںدوچار ہونا تھیں کہ بے اختیاری جوش میںایک دوسرے کا نام نکلا اور دوڑکے لپٹگئے۔ حسین تو محو حیرت تھا ہی،زمرد کے چہرے سے بھی ایک غیر معمولی مسرت و جوش اور کسی قدر حیرت کے آثار نمایاںتھے۔ دیر تک دونوںلپٹے رہے اور حسین دل کی پر جوش حرکت سے بے اختیار ہوکے رونے لگا۔ اس کی سانس سے رونے کا پتا پا کے زمرد نے اپنے آپ کو علیحدہ کیا اور کہا: " حسین یہاںرونا حرام ہے ،بس اب آنسو پونچھ ڈالو۔" حسین: (آنسو پونچھ کے )زمرد! یہی فردوس بریںہے ؟ زمرد" یہی! حسین: تم یہاںچلی آئیںاور مجھے اسی درد و الم میں چھوڑ دیا؟ زمرد: یہ میرے اختیار کی بات تھی؟ مجھے تو ایک اتفاقی شہادت نے یہاںپہنچا دیا مگر تمہاری زندگی باقی تھی اور ضرور تھا کہ اتنے مدارج وہ مراحل طے کر کے یہاںآؤ۔ مگر سچ کہتی ہوںکہ اس جنت میں بھی تمھارے فراق نے کبھی چین نہ لینے دیا۔ کیا کہوںکن دشواریوں سے مجھے اتنی اجازت ملی ہے کہ تمھیںاپنے پاس آنے کا راستہ اور طریقہ بتاؤں۔ حسین: میرے تو ایسے اعمال تھے کہ شاید مر کے بھی یہاںنہ پہنچ سکتا؛ صرف تمھاری محبت تھی جو خضرِ طریقت بن کے لائی۔ زمرد: لیکن اگر تمھارے دل میںطلب صادق نہ ہوتی تو میں کیا کر سکتی تھی؟ حسین:مگر اس طلب سے یہ تھوڑا ہی ممکن تھا کہ میں اس ملاء اعلیٰ میں آ پہنچتا۔میںتو دل میںٹھان چکا تھا کہ اس قبر کے پاس اور اس چٹان کے سامنے جس پر تمھارا پیارا نام کندہ ہے ، پڑے پڑے دم توڑ دوںگا۔ زمرد: خیر یہ باتیںتو ہوتی ہی رہیںگی،اب اندر چل کے آرام سے بیٹھو، شراب طہور کے دو ایک جام پیو اور دیکھو اس خداوند جل و علا نے تمھارے لیے کیسے کیسے سامان راحت اور کیسی کیسی لذتیں فراہم کر رکھی ہیں۔۔ یہ کہہ کے زمرد حسین کو اندر لے گئی۔ جس وقت حسین نہر کے کنارے کشتی سے اُترا ہے۔ سر شام کا وقت تھا، مگر اب رات ہو گئی تھی۔ ہر طرف کافوری شمعیںروشن ہوئیں اور ایک خاص قسم کی ٹھنڈی روشنی جس کا پتا نہ چلتا تھا کہ کہاں سے آتی ہے اور کیوںکر پیدا ہوتی ہے ،دروازوں،بلند کھڑکیوںاور چھت کے روشن دانوںسے رہ رہ کے چمک اُٹھتی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ گویا یکایک ہزار ہا مہتابیاںچھوڑ دی گئیں۔اس تیز روشنی میں شمعیںماند پڑ جاتی تھیں اور پیارے ہم صحبتوںکا چہرہ ایک دوسرے کو زیادہ بھلا اور دل فریب نظر آنے لگتا تھا۔ اس غیبی روشنی کو حسین نے حیرت سے دیکھا اور دریافت کرنے کے لیے کہ یہ کیسی روشنی ہے ،وہ بار بار دروازے سے جھانک کے باہر دیکھتا مگر کچھ حال نہ کھلا؛ صرف اتنا معلوم ہوا کہ اس روشنی کا مرکز و منشا گرد کی پہاڑیوںکی چوٹیوںپر ہے ، جہاںوہ زیادہ چمکتی ہے اور وہیںسے اس کی کرنیں آ کے تمام مکانات کو روشن کر دیتی ہیں۔ ایک یہ بات بھی اس نے دیکھی کہ یہ روشنی جب پوری تیزی اور کمال پر آ جاتی تو چاروںطرف سے لوگ چلاّ اٹھتے : " ہٰذا الذی ما وعدی ربی" بلکہ سب کے ساتھ ایک بے اختیاری کے جوش میں یہی کلمہ خود حسین کی زبان سے بھی کئی بار نکل گیا۔ جب اس روشنی کا راز حسین کے حل کیے حل نہ ہو سکا تو اس نے زمرد سے پوچھا" یہ کیسی روشنی ہے ؟"۔ زمرد: تم نے نہیںپہچاناِ یہی تو وہ نور الٰہی ہے جو موسیٰ کو وادیِ ایمن میںنظر آیا تھا۔ تم نے قرآن و احادیث میںپڑھا ہے کہ جنت میںخدا کا دیدار ہو گا،اُس سے یہی نور عبارت ہے۔ حسین: تو یہی خداوند جل و علا ہے ؟ زمرد: یہ تو نہیںکہہ سکتے مگر ہاںاس کے تنوع اولیٰ کی سب سے زیادہ مکمل اور سچی تصویر یہی ہے۔ یہ جواب سن کے حسین اس نور کے سامنے سجدے مین گر پڑا مگر زمرد نے اُٹھایا اور کہا: " یہاںعبادت کی تکلیف نہیں؛ یہ نور صرف اس غرضسے ہے کہ لوگوںکے دل میں اطمینان کی مسرت پیدا ہو۔" اب حسین نے مکان کے فرش اور تمام سامان کو دیکھا اور اُسے یقین ہو گیا کہ یہ سب نوری سامان ہے جو دنیا میںنہ کبھی انسان کے دل میں گزرا ہے اور نہ کسی کے قیاس و گمان میں آ سکتا ہے۔زمرد اس کے ہاتھ میں ہاتھ دیے یہاںکی تمام عجوبہ چیزیں اُسے دکھاتی پھرتی تھی،اور ہر چیز پر وہ خدائے ذوالجلال والاکرام کی قدرت و مرحمت کا جوش و خروش سے اعتراف کرتا۔اور آخر پھرتے پھرتے ایک مقام پر رک کے وہ نہایت گرم جوشی کے ساتھ زمرد سے لپٹ گیا اور کہا: " یہ سب لطف اور یہ سارے سامان عیش ہیںمگر زمرد میرے لیے کوئی تجھ سے بڑی نعمت نہیں ہو سکتی۔" زمرد: یہی محبت تمھیںیہاںلائی ہے ،ورنہ یہ وہ مقام ہے جہاںکسی زندہ انسان کا بہت کم گزر ہوا ہے۔یہ تمھاری بڑی فضیلت ہے کہ اس جسم خاکی کے استھ اس نورستان میں آ پہنچے۔ حسین کو جنت میں پھرتے اور زمرد کے حسن و جمال سے فائدہ اٹھاتے ایک پورا ہفتہ گزر گیا اور یہ ہفتہ اس حالت میں گزرا کہ دل کش اور نشاط انگیز نغموںکی آواز اکثر کانوںمیںگونجتی رہتی،اور بہت سی حوریںاس کی خدمت کو حاضر تھیں اور سب پری جمال و زاہد فریب تھیں، مگر اُسے زمرد کے سوا کسی سے کچھ علاقہ نہ تھا۔ ہر وقت زمرد کی بغل میں ہاتھ رہتا اور دونوںہمیشہ فرحت بخش وادیوں اور روح افزا مرغزاروںمیںٹہلتے رہتے۔ زمرد نے اتنے ہی زمانے میں اسے یہاںکی تمام نزہت گاہیںاور سب دل چسپ مقامات دکھا دیے۔ ایک مرتبہ حسین نے کہا: " زمرد!میںتو سنتا تھا کہ جنت میںہمیشہ صبحکا وقت رہتا ہے مگر آ کے دیکھا تو یہاںبھی وہی دنیا کے سے تغیرات زمانہ موجود ہیں۔؟" زمرد:اس امر میںلوگوںسے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہر وقت صبحرہتی ہے اس کا یہ مطلب نہیںکہ اور کسی وقت کا لطف انساناٹھا سکتا ہی نہیں ایسا ہو تو جنت سے ایک بڑا لطف اٹھ جائے اصل مطلب یہ ہے کہ یہاںہر وقت کوئی ایسا مقام ضرور مل جائے گا جہاںانسان جس وقت کا چاہے لطف اٹھا لے۔ حسین: یہ کیوںکر؟ زمرد: زبان سے کہنے کی نہیں، میں چل کے تمھیںآنکھوںسے دکھائے دیتی ہوں۔ یہ کہہ کے زمرد اسے ساتھ لیے ہوئی قصر دُری سے باہر نکلی اور کہا: " دیکھو یہاںدوپر کا سماں، اب آگے چلو۔ تھوڑی دیر بعد دونوں ایک ایسے درختوںسے گھرے ہوئے سبزہ زار میں پہنچے جہاں آفتاب کی روشنی کو درخت روکے تھے۔ہر طرف سے اندھیرا جھکا ہوا تھا اور مشرق قلہ ہائے کوہ سے ایک ہلکی ہلکی روشنی نمودار تھی۔ زمرد یہاں پہنچ کے بولی: " دیکھو یہ صبح کا وقت ہے ؛ ہے نا؟" حسین:بے شک ہے۔ زمرد: آگے چلو۔ یہاںسے روانہ ہوکے تھوڑی دیر میںدونوںایک ایسی چھوٹی سے وادی میں پہنچے جو ہر طرف سے پہاڑیوںمیںگھری ہوئی تھی۔ یہاںبھی درختوںنے حفیف تاریکی پیدا کر دی تھی اور ذرا فاصلے کے مقامات پر ہلکا ہلکا دھواںاُٹھتا نظر آ رہا تھا؛ کہیںکہیںچراغ جلنے لگے تھے ؛ طیور کے چہچہانے کا شور بلند تھا۔ اور مغرب کے قلے پر آفتاب غروب ہونے کی سی شعاع نظر آ رہی تھی۔ زمرد نے یہاںرک کے کہا" اور یہ شام ہوئی۔" حسین: اس میںکسے شک ہو سکتا ہے ! زمرد : دن کا سماں دیکھ چکے ،صبح دیکھ چکے اور شام بھی دیکھ لی؛ صرف رات کالطف باقی ہے ، چلو وہ بھی دکھائے دیتی ہوں۔ یہاں سے واپس آ کے زمرد حسین کو لیے ہوئے ایک پہاڑکے غار میںداخل ہوئی جہاںنہایت خوبی سے ایک نشیبی راستہ بنا ہوا تھا۔ زینے نہ تھے بلکہ زمین جو پختہ،مسطح اور رنگ برنگ تھی، ساعت بہ ساعت نیچی ہوتی جاتی تھی۔ اسی زمین دوز راستے میں جاتے جاتے دونوںایک نہایت ہی عالی شان اور پر تکلف قصر میں پہنچے جس میںہر جگہ کافوری شمعیںروشن تھیں۔ جھاڑ اور فانوس کثرت سے لٹک رہے تھے اور درودیوار پر بلور اورشیشیے کے رنگ برنگ ٹکڑوںکو ان شمعوںکی شعاعیںکچھ ایسی عجیب و غیرب روشنی سے چمکا رہی تھیں کہ نظر خیرہ ہوئی جاتی تھی۔ زمرد: دیکھو یہ رات ہے اور کیسی پیاری رات! حسین: پیاری زمرد! اگر تو ساتھ ہوتو ہر چیز پیاری ہے۔ یہ سب سامان دیکھ کے دونوںاپنے قصر میں واپس آئے اور باہم عشق و محبت کی باتیں کرنے لگے ، مگر پیشتر کے برخلاف زمرد اکسی قدر افسردہ سی تھی۔ اس کے چہرے سے ظاہر ہواتا تھا کہ گو زبردستی کوشش کرکرے چہرے کو بشاش بناتی ہے مگر اندر سے دل بیٹھا جاتا ہے۔حسین نے اس امر کو حیرت سے دیکھا ور کہا: " زمرد! اس فردوس بریںمیںبھی آج تم مجھے ملول نظر آتی ہو؟" زمرد: نہیں، مگر ہاں! گزشتہ مفارقت کسی کسی وقت یار آ جاتی ہے تو خواہ مخواہ دل بھر آتا ہے۔ حسین: مگر خدا نے وہ مصیبت کاٹ دی اور اب امید ہے کہ ہم دونوںہمیشہ یوںہی ایک دوسرے کے وصل سے لطف اٹھاتے رہیںگے۔ زمرد:خرا کرے ایسا ہو، مگر حسین ابھی مجھے اس کی امید نہیں۔ حسین: (حیرت سے ) امید نہیں؟ یہ جنت ہے جس کے لطف سرمدی و ابدی ہیں۔یہاںکسی دشمن کا اندیشہ ہو سکتا ہے ،نہ کسی حاسد کا حسد۔ پھر نا امیدی و حسرت نصیبی کا کیا سبب؟" و لا تقنطوا من رحمۃ اللہ۔" زمرد: بے شک، مگر حسین تم یہاںقبل از وقت آئے ہو اور ابدی اور سرمدی لطف اُ ٹھانے کے لیے وہی لوگ آتے ہیں جو مرنے کے بعد دنیا سے قطع تعلق کر کے آئیں۔تم نے ابھی اسی مادی دنیا کے علائق قطع نہیں کیے اور اُس مادی جسم کو ساتھ لائے ہو جس کو وہیں دنیا میں چھوڑنے کے لے تمھیںایک دفعہ اس عالم میںضرور جانا ہے۔ دیکھو حضرت مسیح (ع) یہاںزندہ آئے اور اب تک ہیںمگر انھیں کبھی کسی لطف میںپوا مزہ نہیںآتا،اس لیے کہ جانتے ہیںیہ قفس عنصری چھوڑنے کے یے ایک مرتبہ دنیا میں پھر جانا ہے۔ اصل یہ ہے کہ کثافت مادہ اس نورستان میںرہ ہی نہیںسکتی۔ حسین: افسوس! پھر میںکب جاؤں گا؟ زمرد: جب حکم ہو جائے ، مگر مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جلدی جانا پڑے گا، اس لیے کہ وہاںکی کئی شدید ضرورتیں تمھیںبلا رہی ہیں۔ حسین یہ سن کے آبدیدہ ہو گیا اور نہایت ہی جوش دل سے ایک آہ سرد کھینچ کے بولا: " آہ! روئے گل سیر ندیدیم و بہار آخر شد! مجھے تو ابھی تیرے وصال کا بھی لطف نہیںحاصل ہوا۔ مگر زمرد مجھ سے تو اب نہ جایا جائے گا۔ اب اس وقت سے میں ہر وقت تیرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے رہوںگا تاکہ کوئی مجھے تجھ سے جدا نہ کر دے۔" یہ سن کے زمرد بھی آبدیدہ ہو گئی اور بولی: " حسین! یہ امر تمھارے اختیار سے باہر ہے۔ جب وقت آئے گا خبر بھی نہ ہو گی، اور ادنیٰ غنودگی تمھیںوہاںپہنچا دے گی۔" حسین: (روکر) پھر اب تو مجھ سے تمھارے فراق کی مصیبت برداشت نہ کی جائے گی۔ جاتے ہی اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالوں گا اور تم سے چھوٹے ایک گھڑی بھی نہ گزری ہو گی کہ تمھارے پاس آپہنچوںگا۔ زمرد: کہیں ایسا غضب بھی نہ کرنا۔ خود کشی کر لی تو جنت تم پر حرام ہو جائے گی۔ پھر تو قیامت تک بھی ملنے کی امید نہ رہے گی۔ حسین: ( زور سے سینے پر ہاتھ مار کے )ہائے مجھ سے کیوںکر زندہ رہا جائے ا۔ زمرد! خدا کے لیے کوئی تدبیر بتا ورنہ یہ سمجھ لے کہ ہمیشہ کے لیے مایوسی ہے ،اس لیے کہ اب میںدنیا میںجا کے زندہ نہیںرہ سکتا۔ ہزار روکوںمگر میرا خنجر میرے سینے پر اُٹھ ہی جائے گا۔اچھا! اگر یہ نہیںتو تم بھی میرے ساتھ چلو؟ زمرد: یہ تو کسی طرحممکن ہی نہیں۔ حسین! یہ نہ سمجھو یہ میںاپنے بس میں۔۔۔۔۔۔۔ اتنا ہی لفظ زبان سے نکلا تھا کہ کانپنے لگی اور اٹھ کے ادھر اُدھر دیکھا کہ کوئی سن تو نہیںرہا ہے ، مگر جب کوئی نظر نہ آیا تو اطمینان سے آ کے پاس بیٹھ گئی اور بولی: " حسین! اب ان باتوں سے کوئی فائدہ نہیں،تمھارا واپس جانے کا وقت آ گیا۔ حسین: (بے صبری سے چلاّ کے ) آ گیا؟ ابھی سے ؟ نہیںمیںابھی نہیں جاؤںگا۔ یہ کہ کے زمرد کودونوںہاتھوں سے بھینچ کے پکڑ لیا۔ زمرد: ان باتوں سے کوئی فائدہ نہیں۔ جتنی زیادہ بے صبری دکھاؤ گے ، اتنے ہی زیادہ خراب ہو گے۔ اس وقت تنہائی میں باتیںکرنے کا ذرا موقع مل گیا ہے ، غنیمت سمجھو اور جو کچھ کہتی ہوںسنو؛ کوئی آ گیا تو یہ موقع بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔ پھر عمر بھر کف افسوس ملو گے ؛ ساری دنیا میںبھٹتے پھرو گے اور مطلب نہ نکلے گا۔ حسین: ( اپنے آپ کو سنبھال کر) اچھا سنتا ہوں۔ پیاری زمرد تم ہی کوئی تدبیر بتاؤ گی تو کام چلے گا۔ ورنہ۔۔۔۔۔۔۔مگر یہ جملہ نہیںپورا ہونے پایا تھا کہ جی بھر آیا اور زار و قطار رونے لگا۔ زمرد: ( اپنے نازک ہاتھ سے اس کا منہ بند کر کے ) کیا غضب کرتے ہو! خدا کے لیے سنبھلو؛ دنیا میں جا کے جی بھر کے رو لینا، مگر ابھی میری ایک بات ذرا ہوش و حواس درست کر کے سن لو۔ حسین: ( نہ رکنے والے جوشِ گریہ کو روک کے ) کہو پیاری زمرد! دل و جان سے سن رہا ہوں۔ زمرد: یہاںسے جانے ک ے بعد پہلے تو تم کوشش کرنا کہ وہی لوگ جن کی مدد سے اس دفعہ یہاںآئے ، انھیںلوگوںکی اطاعت کر کے اور انھیںخوش کر کے پھر یہاںآنے کا موقع پاؤ۔اپنی حاجت روائی کے لیے تم ان کے کسی حکم سے انحراف نہ کرنا۔ لیکن اگر وہ تمھیںیہاںدوبارہ بھیجنے کا کسی طرحوعدہ نہ کریںاور سب طرف سے مایوس ہو جاؤتو پھر اسی وادی میں آ کے ٹھہرنا جہاںمیری قبر ہے اورجہاںخط بھیج کے میںنے تمھیںیہاں آنے کی تدبیر بتائی تھی۔ حسین: کوہ طالقان میں زمرد: ہاں ہاںوہیں۔ اگر تم ایک مہینے تک وہاںٹھہرو گے تو میںپھر کوئی تدبیر بتاؤںگی۔ دیکھو خبردار کسی کو خبر نہ ہو کہ میںنے وہاںبلایا ہے۔ حسین: مگر پیاری زمرد! وہ تدبیر اسی وقت نہ بتا دو کہ یہاںسے جاتے ہی اُس پر عمل درآمد شروع کر دوں؟ زمرد: افسوس! تم نہیںسمجھ سکتے۔ بس تمھیں وہی کرنا چاہیے جو میںبتاتی ہوں۔ وہ تدبیر اس وقت بتانے کی نہیں۔ حسین:دیکھوںاب کتنے دنوںٹھوکریںکھانی پڑتی ہیں۔ زمرد: صبر کرو اور ضبط سے کام لو! اور خبردار ایسی کم زوری اور بزدلی نہ دکھانا کہ خود کشی کا ارادہ کر لو۔ حسین: میںاسی کو ڈرتا ہوں۔ پیاری زمرد! تیرے عشق میںبعضوقت نہ اپنے ہوش میںہوتا ہوںاور نہ اپنا نیک و بد سمجھتا ہوں۔ یہ تیرے ہی لیے تھا کہ میں نے اپنے چچا اور شیخوقت امام نجمالدین نیشا پوری کو قتل کر ڈالا۔ زمرد: جانتی ہوں مگر اس میں مجھ کو نہ شریک کرو (کچھ آہٹپا کے )بس اب خاموش ہو رہو۔ ناگہاں چھ سات حوریںناز و انداز سے قدم رکھتی ہوئی سامنے آئیںاور محبت کے لہجے میں حسین سے کہنے لگیں: "اب چلے کے باہر کی سیر کیجیے اور ان نورانی تختوںپر جلوہ افروز ہو جےو جو چمنوںکے درمیانمیں میںہیں۔ اس وقت کی بہار دیکھنے کے قابل ہے اور شرابِ طہور کے جاموںمیںخاص مزہ ہے۔" حسین:میںتو یہاںتنہا ہی اچھا ہوں۔ زمرد:تو وہاںچلے چلنے میں کیا مضائقہ ہے ؟ چلو مین بھی ساتھ چلتی ہوں۔ حسین: اگر تمھاری بھی یہی مرضی ہے تو مجھے کا عذر ہو سکتا ہے ! رشتۂ در گردنم افگندہ دوست مہ برد ہر جا کہ خاطرخواہ اوست چلو! اتنی دیر میںاورسب حوریں بھی آ گئیں اور زمرد حسین کو ساتھ لیے قصر دُری کے باہر نکلی۔ سب کے سب لالہ زار کے درمیانمیان طلائی تختوںپر جا کے بیٹھے۔ تخت کے دونوںجانب دو حوضتھے جن میںایک میںمیٹھا دودھ بھرا تھا ور دوسرے میںشراب ارغوانی چھلک رہی تھی اور بغیر کہے صرف واقعات سے یقین دلایا جاتا تھا کہ ایک حوضکوثر اور دوسرا شراب طہور کا حوضہے۔ سامنے چند حوریں بیٹھ کے عجب دل ربا ور وجد میں لانے والی دھن میںگانے لگیں۔دو چار غلمان یعنی خوب صورت کم عمر لڑکے سونے کے جام و صراحی لا کے کھڑے ہو گےے اور نغمہ و سرود کے ساتھ دور بھی چلنے لگا۔ دو چار جاموںنے حسین پر از خود رفتگی کی کیفیت پیدا کر دی اور جب وہ اس عالم نور کو بے خودی کی نیم باز آنکھوںسے دیکھ رہا تھا،اُسے نظر آیا کہ زمرد ایک ہاتھ تو اس کے گلے میں ڈالے ہے اور دوسرے ہاتھ سے ایک چھلکتا ہوا جام اس کے منہ سے لگا رہی ہے۔حسین اس لطف صحبت کا دل ہی دل میںمزا اُٹھا کے اس جام کو پی گیا مگر پینے کے بعد معلوم ہوا کہ جیسے زمرد کی آنکھوںسے موتوںکی طرحآنسو ٹپک رہے ہیں۔ بے خودی کے جوش میںپیاری دل ربا کی دل دہی کے لیے بڑھنے ہی کو تھا کہ مدہوش گر پڑا۔ بس اس کے بعد اسے اپنے پرائے کی خبر نہ تھی۔