سینہ کوبی کر چکے غم کر چکے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سینہ کوبی کر چکے غم کر چکے
by امداد علی بحر

سینہ کوبی کر چکے غم کر چکے
جیتے جی ہم اپنا ماتم کر چکے

دیکھیے ملتے ہیں کس دن یار سے
عید بھی کر لیں محرم کر چکے

دھیان ان آنکھوں کا جانے کا نہیں
یہ ہرن پالے ہوئے رم کر چکے

دل لگا کر دکھ اٹھائے بے شمار
دم شماری بھی کوئی دم کر چکے

اب کہاں مثل عناصر اتحاد
چار دن وہ ربط باہم کر چکے

اب تو زلفوں کو نہ رکھو فرد فرد
دفتر عالم کو برہم کر چکے

خاک اب ان آنسوؤں کو روکئے
یہ ہمیں رسوائے عالم کر چکے

دیدہ و دل کی بدولت عشق ہیں
روئے برسوں مدتوں غم کر چکے

وہ ہمیں ملتا نہیں کیا کیجیے
اپنی سی تو جست و جو ہم کر چکے

واعظو جو چاہو فرماؤ ہمیں
بیعت پیر مغاں ہم کر چکے

بحرؔ مستغنی ہیں فکر شعر سے
گوہر معنی فراہم کر چکے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse