سمنستان کی شہزادی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

“اس وقت سے کہ کرۂ ارض نے رقص خورشیدی کا مطالعہ شروع کیا، تمام عالم میں شاہزادی سمنبر سے زیادہ حسین اور لطیف بچہ پیدا نہیں ہوا۔”

دربارشاہی کا مورخ جو واقعات کے انضباط میں بہت زیادہ محتاط واقع ہوا تھا؛جس وقت حکومتِ سمنستان کی تاریخ قلمبند کرنے لگا تو بے ساختہ یہ فقرہ اس کے قلم سے نکل گیا۔

شاہزادی سمنبر نے اُس ساعت میں جب گلاب اپنی پنکھڑیاں کھول دیتا ہے، اُس لمحہ میں جب کلیاں یک جرعۂ صبا کے عوض میں اپنا جامۂ احرام اتار ڈالتی ہیں اور ٹھیک اس وقت جب ستارے اس محشرِرنگ و نور کا تماشا دیکھ کر آخری شعاعِ نظر دنیا پر ڈالتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں ،اِس عالم میں قدم رکھا۔

شاہی مورخ نے بھی اسے ایک نظر دیکھا تھا جب دایہ شاہزادی کو اپنی آغوش میں لیے ہوئےجھروکے میں اس لیے لائی تھی کہ اس پارۂ ماہ کے نظارے سے رعایاکے ہجوم کی شادمانی مکمل ہوجائے۔ مورخ اس کے بعد سیدھا اپنے مکان پرپہونچا کہ اپنے فرائض میں مصروف ہو۔ چنانچہ چاشت سے قبل اس نے اپنے موضوع پر جس کا عنوان “شاہزادی سمنبر” تھا تین ابتدائی باب مکمل کرلیے اور تمہیدی ابواب میں اس نے اپنے قلم کا پورا زور صرف کرکے نہایت شاندار وحسین الفاظ میں شاہزادی سمنبر کے واقعاتِ پیدائش منضبط کیے۔ان صفحات کے لکھنے میں وہ ایک مورخ کی حیثیت سے بڑھ کر ایک شاعر کا درجہ رکھتا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ ایسا کرنے میں اسے کوئی الزام بھی نہیں دیا جاسکتا۔

سمنستان میں ہفت روزہ جشن پرپاتھا، سات روز تک وقت کا شمار معطل ہوگیا تھا اور کسی کو خبر نہ تھی کہ طلوع وغروب کا مفہوم کیاہے اور ان سے کون کون سے فرائض انسانی علاحدہ علاحدہ متعلق ہیں۔ وہاں کے باشندوں کو ان محبوب ترین ایامِ جشن ومسرت میں کوئی کام نہ تھا، سوائے اس کے کہ ہر خیال میں آسکنے والا طریق طرب اندوزی وطرز عشرت افروزی کام میں لائیں اور سرور و انبساط میں غرق ہوکر رہ جائیں۔ لیکن وزیرِ تشریفات ضرور مصروف تھا کہ تمام انتظامات جشن اسی کے سپرد تھے ۔دربار شاہی کا مورخ یقیناً منہمک تھا کہ اب اسے اپنی تاریخ سے زیادہ دلچسپی ہوگئی تھی۔ کنیزیں بیشک مشغول تھیں کہ ان میں سے ہرایک حسین شاہزادی کو اپنی گود میں لینے کےلیے بے قرار نظر آتی تھی اور گلزار شاہی کا باغباں بھی حقیقتاً بہت عدیم الفرصت تھا جسے ہرہر گھنٹے کے بعد تازہ گلاب کی پنکھڑیاں تمام راستوں میں بچھادینا پڑتی تھیں۔ سارا شہر، تمام ملک ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہاں کے باشندے کبھی کوئی کام کرتے ہی نہیں مگر عیش وطرب کے جلسے اور لطف ومسرت کی تلاش۔

“ہمیں یاد رکھنا چاہئے” سمنستان کے باشندوں کا مقولہ تھا “کہ یہ عیش ومسرت کے دن ہیں اور ایسے مواقع ہمیشہ حاصل نہیں ہوسکتے”۔ یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ تمام ملک سمنستان میں کوئی متنفس کام نہ کرتا تھا اور وہاں کے باشندے صفحۂ عالم پر سب سے زیادہ مسرور، سب سے زیادہ عیش پرست تھے ۔وہ صرف سیروتماشا میں محو ہوجانے کو ہی مقصود زندگی سمجھتے تھے اور کچھ نہ کرنا ہی ان کا کام تھا ۔ان کا اگر کوئی مشغلہ تھا تو صرف یہ کہ باغوں میں جاکر(اور سمنستان کا ہرہرچپہ باغ تھا) رقص کرتے اور جب خستہ و مضمحل ہوجاتےتو گلاب کی بچھی ہوئی پنکھڑیوں پرگرپڑتے، اپنی گودوں کو ان سے بھرتےاور پھر تازہ دم ہوکر محو رقص ہوجاتے۔ ان کا مدار حیات صرف خوبانیاں تھیں کیوں کہ سمنستان میں پھولوں اور خوبانیوں کے سواکوئی چیزپیدا نہ ہوتی تھی اور یہ نتیجہ تھا وہاں کے موسم کا ۔اس موسم کو سدابہار کہا جا سکتاہے مگر یہ سدابہار موسم اپنے اندر وہ تمام لطافتیں رکھتاتھا جوموسم گرما میں ہوتی ہیں اور جن سے پھلوں میں پختگی کاگدازپیدا ہوتاہے۔یہ موسم سمنستان میں گیارہ مہینہ کا ہوا کرتا تھا اوربارھواں مہینہ سرماکا سمجھاجاتاتھا۔ہرچند کہ اس موسم میں وہاں کے باغات باشندوں کے لیے اذوقہ بہم پہنچانے سے عاری ہو جاتے تھے۔لیکن چونکہ اس موسم کی عمر بہت مختصرہواکرتی تھی، اس لیے سمنستان والوں کے لیے یہ ایام بھی غیرمعمولی مسرت سے معمور ہوتے تھے۔ان کی شامیں اپنے اندر نئےاسباب عیش اور ان کی صبحیں جدید مشاغلِ مسرت لے کر آتی تھیں۔موسم سرما میں جب کہ خوبانیوں کی بہم رسانی موقوف ہوجاتی، جو اُن کی تنہا غذاتھی، تووہ قرب وجوار کے لوگوں سے اخروٹ اس شرط پہ قرض لےلیا کرتے تھےکہ جس روز چاند آسمان پراپنے پورے دائرے کو لیے ہوئے طلوع ہو گا، اس کے دوسرے روز خوبانیوں کی شکل میں ادا کردیں گے۔ اور یہ لوگ اس تبادلۂ تجارت کے لیے اخروٹوں کی معقول مقدار ایک دوسرےقطعۂ ملک سے لایا کرتے تھے۔

اہل سمنستان نے اپنے ملک میں ریشم کے کیڑوں کو یہ فن سکھا دیاتھا کہ صرف ریشم پیدا کرنے پر ہی بس نہ کریں بلکہ اس سے نفیس ریشم کی چادریں بھی تیار کیا کریں اوراس طرح وہ کیڑے اس لطیف آبادی کے لیے رنگین، خوبصورت، ریشمی ملبوس تیار کیا کرتے تھے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ انھیں ریشمی کیڑوں کی یہ صنعت تھی جس نے اس ملک کی آبادی کی لطافت کو مکمل کیا ورنہ اس کے پاس کوئی اور ذریعہ تن پوشی کا نہ تھا۔

ساتواں دن تقریب کا خاص دن تھا اورجشن کا مخصوص یوم مسرت ۔جس دن ساتویں صبح صادق طلوع ہوئی تو تمام سمنستان تر نم آباد نظرآتاتھا اورہرشخص قصر شاہی میں اک مہمان کی حیثیت سے موجود۔ ہر متنفس شوق و ولولہ سے لبریز تھا مگر وزیر تشریفات متردد۔ وزیر تشریفات بولا “میری تمنا ہے کہ ہر کام باقاعدہ وخوش اسلوبی سے انجام پاجائے”۔ مگریہ کیونکر توقع کی جاسکتی تھی ،جبکہ مہمانوں کے شوق کا یہ عالم تھا کہ وہ بجائےانتظار کے جو عوائدشاہی کے لحاظ سے ضروری تھا، جوق جوق ہنگامہ کناں آرہے تھے اور مستِ مسرت ہو کر باہم گلبازی کرتے ہوئے “حلقۂ گل” کے رقص میں منہمک ، وزیر تشریفات کو اپنے ہجوم میں لپیٹتے ہوئے قصر میں داخل ہو رہے تھے ۔وزیر تشریفات بھی خوش تھااورعلی الخصوص اس وقت جب کہ اس نے ہمسایہ سلطنتوں کی شاہزادیوں کو محل میں داخل ہوتے دیکھا۔ وہ اس لیے آئی تھیں کہ شاہزادی سمنبر کی منہ بولی مائیں بنیں۔ہر منہ بولی ماں اپنے زریں ہوا دار سے جن میں ہوائی گھوڑے جُتے ہوئے تھے، محل کے دروازے پر اتری۔ وزیر تشریفات ان کو آتے ہوئے دیکھ کربے انتہا مسرور ہوا اور ان کی پذیرائی کے لیے دروازہ تک آیا اور تعظیم میں اس قدر جھکا کہ اس کا چشمہ بھی زمین پر گر پڑا۔

ان شاہزادیوں نےجب اپنے منہ بولے بچہ کو دیکھا تو بیتابانہ سراپاشوق و ابتہاج بن کر اس کےگرد حلقہ کرکے آگئیں۔ شاہزادی سمنبر اس وقت گویا ایک کلی تھی جس کے گردتیتریاں اپنا ہنگامۂ رقص قائم کیے ہوئے تھیں۔ ہر شاہزادی اپنے منہ بولےبچے کے لیے بیش بہا تحائف لائی تھی اور ان میں سے ہر ایک کی یہی خواہش تھی کہ سب سے پہلے وہی اپنے تحائف پیش کرے۔ چنانچہ جوش محبت اورشوق اولیت میں سب کی سب ایک ہی وقت میں شاہزادی سمنبر سے مخاطب ہوئیں، گویا شاہ دانہ کے درخت میں چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ دربارشاہی کا مورخ اپنے قلم کی کی انتہائی سرعت کے باوجود اُن نوادروتحائف کی نصف فہرست بھی مرتب نہ کر سکاجو شہزادی کواس وقت دیے گئےتھے۔

مراسم ختم ہوئے اور منہ بولی مائیں ایک ایک کرکے رخصت ہوئیں، ہنوزآخری منہ بولی ماں شہزادی کا رخصتی بوسہ لےہی رہی تھی کہ ایک شورسنائی دیا۔ ہر شخص اس کی طرف متوجہ ہو گیااور چشم زدن میں لطف ومسرت کاتبسم جو ہر چہرہ کا ایک مستقل جزونظر آرہا تھادفعۃً مفقود ہوگیا اوررقص و سرور موقوف ۔کیونکہ شاہزادی قاہرہ بھی منہ بولی ماں بننے کے لیے آئی تھی اور لوگ اسے منحوس سمجھتے تھے۔اس کے ہوادارکا رنگ سیاہ تھا اور سیاہ گھوڑے اس میں جُتےہوئے تھے۔سمنستان کے شاہی خاندان کے لیے پرانےتعلقات کی بناپر اس کی پذیرائی ناگریز تھی ۔

وزیرتشریفات کے لیے از روئے عوائد، نوید بھیجنا ضروری تھا اگرچہ سب واقف تھے کہ اس کا شریک ہونا خوشگوار نہ تھا ۔چنانچہ اس تقریب کا نوید شہزادی قاہرہ کے نام لکھا تو ضرور گیا مگر ملکہ سمنستان نے اس کے نام کا خریطہ نکلوا کر درباری کمرے کے ایک طاق میں ڈال دیاتھا ۔ “ہم ہمیشہ کہہ سکیں گے” ملکہ نے کہاکہ “نوید کا رہ جانا ایک اتفاقی امر تھا”۔

قاہرہ کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا تھا اور وہاں کوئی عذر پذیرا نہیں ہوتاتھا ۔اس نے شہزادی کے پیدا ہونے کی خبر سنی اور آ موجود ہوئی ۔ملکہ نے مصنوعی عذر پیش کیا لیکن قاہرہ نے غضبناک نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر کہا کہ “میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ اب میں ضعیف ہوتی جارہی ہوں اور کوئی مجھ سے محبت نہیں رکھتا۔ تاہم مجھے اصرارہے کہ نوزائیدہ کی منہ بولی ماں بننے کے فخر سے نہ روکی جاؤں اور جو ادنی تحفہ میں لائی ہوں وہ اپنی منہ بولی بیٹی کو دےسکوں”۔ یہ کہتی ہوئی وہ شہزادی سمنبر کے نفیس و نازک گہوارہ کی جانب بڑھی،جہاں شہزادی ہمک رہی تھی اور ایک مایوسانہ انداز میں جھک کر کہنے لگی “سرزمین گلاب میں پیداہونے والی میری سمنبر! تو ایک گلاب کی طرح ہمیشہ سینچی جائےگی”۔ ملکہ ایک طمانینت آفریں ٹھنڈی سانس لےکر خودہی کہنے لگی “کیاواقعی قاہرہ اس مرتبہ ایساعمدہ سلوک کرنا چاہتی ہے” مگر نہیں وہ ہرگز ایساارادہ نہ رکھتی تھی کیونکہ آخری آہِ سردکےساتھ اس نے کہا “ایک گلاب کے مانند پرورش کی جائے گی کیونکہ تیری شادی ایک باغبان کے لڑکےسے ہونےوالی ہے”۔ بادشاہ، ملکہ اور مورخ دربارشاہی نے (جوہروقت گوش برآوازرہتاتھا ) یہ جگر خراش کلمات سنے اور شاہزادی قاہرہ جلدی جلدی قدم مارکراپنی گاڑی میں سوار ہوئی اور چلی گئی۔

یہ تھا اُس حسین بچے کا مقسوم، یہ تھی شاہزادی سمنبر کی قسمت۔




یہ واقعہ جگر خراش تھا اور ایسا جگر خراش کہ بادشاہ نے اسی غم میں جان دے دی، اس نے خوبانیوں کا کھانا ترک کر دیا اور گلاب کا سونگھنا موقوف، کیونکہ اس کی غیور طبیعت اس بات کو برداشت نہ کر سکی کہ اس کی بیٹی ایک باغبان کے لڑکے سے منسوب ہو۔جب وزیر تشریفات نےعوائدِ خاندانی کی کتابِ زریں میں سے وہ دفعہ پڑھ کر سنائی جس میں درج تھا کہ “سمنستان کی شاہزادی صرف ان چھ شاہی خاندانوں میں سےکسی ایک شاہزادہ کے ساتھ بیاہی جا سکتی ہے جن کو شاہنشاہ اعظم کا لقب حاصل ہے”، تو بادشاہ کے چہرے کا رنگ اڑ گیااور آخر کار دو دن اس صدمہ میں مبتلا رہ کراس نے جان دےدی۔ بادشاہ کے بعد ملکہ بھی زندہ نہ رہ سکی اور گلاب کے جھنڈ میں بادشاہ کی قبر کے برابر میں دفن کر دی گئی۔

اب صرف ایک شخص یعنی مورخِ دربارِ شاہی باقی تھا،جسے شہزادی کے متعلق اس پیشینگوئی کا علم تھا۔ اس نے اپنی کتاب میں یہ واقعہ لکھا تو ضرورمگر اسے بالکل راز رکھا ۔چونکہ سمنستان کے لوگ تاریخ سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے اور انہیں یا کسی کو بھی اس حقیقت کا علم نہ تھا، اس لیے شاہزادی سمنبر کو دایہ نے محل شاہی کے باغات میں باغبان کے لڑکے کے ساتھ کھیلنے سے نہ روکا، کیونکہ کوئی اور بچہ اس کے کھیلنے کے لیے موجود نہ تھا۔شاہزادی اس لڑکے کے ساتھ کھیلتی رہی اور بڑھتی رہی ۔سمنستان کے قریب قریب جو سلطنتیں تھیں وہ اس قدر دور تھیں کہ وہاں کے شہزادےکھیل سے فارغ ہوکر غروب آفتاب کے وقت تک اپنےمکان واپس نہ پہنچ سکتے تھے۔ ایک ریاست کا ولی عہد شہزادی کے ساتھ کھیلنے کےلیے منتخب بھی کیاگیا مگر وزیر تشریفات نےیہ شرط لگا دی کہ وہ شہزادی کے ساتھ کھیل میں شریک ہو سکتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ جب شہزادی اس کی طرف گیند لینے کو آئے تو وہ تعظیماً ایک مرتبہ جھک جائے اور جب وہ شہزادی کی طرف گیند پھینکےتو اسی طرح سات بار تعظیم دے کر،کیونکہ عوائد شاہی کی “کتاب زریں” کا یہی حکم ہے،مگر اس نواب زادے کےاتالیق نے ان شرائط پر اعتراض کیا اور شاہزادی پھر اسی طرح تنہا رہ گئی۔ وزیر تشریفات نےشہزادی کی اس تنہا حالت پربہت افسوس کیا کیونکہ وہ رحم دل بھی تھا،اور اسی لیے جب اس نے شہزادی کو باغبان کے لڑکے کےساتھ خوبانی کی جھاڑیوں میں آنکھ مچولی کھیلتے دیکھاتو مزاحمت نہ کی کیونکہ کتابِ زریں میں جوقانون دربارشاہی کی حیثیت رکھتی تھی یہ کہیں نہ لکھا تھا کہ شاہی بچےباغبان کے لڑکوں کے ساتھ نہ کھیلیں اور چو نکہ باغبان کے لڑکےکوئی خاص معاشری حیثیت نہیں رکھتے،اس لیے اس کے خیال میں اُن کا کوئی ایسا وجود نہ تھاجو نقصان رساں ثابت ہو۔

سمنبر ہر روز باغباں کے لڑکے کے ساتھ کھیلتی تھی۔ یہ لڑکا خوش روتھا اور ذہین بھی،پھر یہ کہ کھیلنے کے لیے ہر وقت تیار۔آخرکار شہزادی کو اس کے ساتھ دلچسپی پیدا ہو گئی۔اس نے شہزادی کو سکھایا کہ جب بلبل گلاب کے جھنڈ سے شاہزادی کی گود میں دفعۃًآجائے تو شاہزادی کوکیا کہنا چاہیے اور جب ممولانظر آئے تو کیونکر وقت کا شمار کرنا چاہیے۔ اگر کسی پھلی میں بار ہ دانہ نکل آئیں تو اسے مبارک سمجھنا چاہیے اور ماہ نو کو دیکھ کر کیا کہنا چاہیے ۔وہ شاہزادی کے ساتھ کھیلتا تھا، اس سے باتیں کرتا تھا اور اس کے ساتھ باغوں میں گھوما کرتا تھا۔ وزیر تشریفات جب ان دونوں کو ساتھ دیکھتا تومتبسم ہوتااور اس مسئلے پر جس قدر زیادہ غور کرتا اسی قدر زیادہ اس نتیجے پر یقین کرتاکہ باغباں کے لڑکےکی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

ایک دن شہزادی کے کمرہ میں ایک بھونراچلاآیا،دایہ اس کو نکالتی ہوئی درباری کمرے تک جا پہنچی جہاں دربار شاہی کی تاریخ،جسے شاہی مورخ نے مرتب کیا تھا میز پر رکھی تھی۔ دایہ نے یہ کتاب ہاتھ میں لے لی تاکہ بھونرے کو اس سے مار ڈالے،لیکن اس کے بعد جب اس نےاس کتاب کو کھول کر دیکھا اور اس کی نظر ان فقروں پر پڑی جہاں مورخ نے قاہرہ کی پیشینگوئی درج کی تھی تو دایہ اس کو پڑھ کرسہم سی گئی اور وہاں سے نکل کر سیدھی باغ میں پہنچی جہاں شاہزادی مالی کے لڑکے کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ چنانچہ اس نے مالی کے لڑکے کو فوراً چلے جانے کا حکم دیااور وہ باغ کے دروازےسے باہر نکل گیالیکن بہت ملول وغمگین۔ دوسرے دن شہزادی سمنبر کے کھیلنے کے لیے کوئی نہ تھا،شاہزادی نہ کھیل سکتی تھی اور نہ کوئی اور کام کرسکتی تھی سوائے اس کے کہ ایک شاہزادی بنی بیٹھی رہے ۔

اس واقعے کے بعد شاہزادی سمنبر کی شاہانہ سواری شہر میں دو بار نکلی۔ اس کی گاڑی ہمیشہ عنبر بیز اور رنگین پھولوں سے آراستہ اور مخملی اور قاقمی پردوں سے مزین ہوا کرتی تھی۔ وہ گاڑی کے اندرانجم افشاں چترکےسایہ میں اپنے شاہانہ حسن کی تمام لطافتوں کے ساتھ بیٹھا کر تی تھی اور جب گاڑی حرکت کرتی تھی توچاروں طرف سے عبیروگلال اُڑاُڑکر ساری فضا کو رنگین بنا دیا کرتا تھا۔ آخری مرتبہ قبل از وقت اور خلاف دستور اس نے سواری کو محل واپس جانے کا حکم دیا اور وہاں بیٹھ کر خوب روئی۔ وہ روتی رہی حتی کہ اس کے خیال و اضطرار میں کچھ سکون ہوا،لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے ملکہ (اپنی ماں) کے طلسمی آئینہ کے راز کو بھی پالیا۔ یہ آئینہ ایک پورے پرانے چاند سے بنایا گیا تھا اور زر و مروارید سےمرصع کیا گیا تھا۔اس آئینہ کا یہ طلسم تھاکہ جب کوئی رنجیدہ و ملول ہوتا اوراثر غم سے آنسو نکل کر اس آئینہ پر پڑتے تو وہ آئینہ ایسے مناظر پیش کرتاجس سے خستہ ومضمحل ہستی مسرور ہوجاتی تھی۔ شہزادی کے آنسوسے وہ آئینہ پرنم ہو چکا تھا اور جب اس نےآئینہ پر نگاہ ڈالی تو اس کے سامنے دو مرواریدی آنکھیں تھیں ۔شہزادی نے انہیں دیکھتے ہی پہچان لیاکہ یہ اسی باغبان کے لڑکے کی ہیں ۔شہزادی کو اس وقت احساس ہواکہ وہ باغبان کے لڑکے سے محبت کرتی ہےاور وہ لڑکا بھی اس کو چاہتا ہے۔اب اس نے اپنی آنکھوں کو خشک کیا اور آئینہ کو مکرر دیکھا مگر اب آئینہ اس عکس سے خالی تھااور اب وہ کچھ نہ تھامگر کہنہ ماہتاب کا ایک ٹکڑا۔ شاہزادی اس واقعے سےبہت مضمحل ہوگئی اوراس کی غم آگینی چہرہ سے ظاہر ہونے لگی۔

دایہ کمرے میں داخل ہوئی اورشاہزادی کی حالت دیکھ کر سمجھیں کہ میری سمن آساشاہزادی کو کسی ایسی چیز کی ضرورت ہے جو اسے مسرور کرے۔ چنانچہ دوسری صبح طلوع آفتاب کے ساتھ ہی وہ کچھ اسباب تفریح بھی لے کر آئی، جو اس کے نزدیک شاہزادی کا دل بہلا سکتے تھے، مگروہ اس میں کامیاب نہ ہوئی۔




سمنستان میں تاریخی واقعات رونما ہونا شروع ہوئے، جہاں کوئی نہ چاہتا تھا کہ ان کا وقوع ہو۔

سمنستان کے باشندے شاہزادی کی پیدائش کےبعد سترہ سال تک دنیا کے کسی نئےواقعہ سے خبردار نہیں ہوئے، سوائے اس کے کہ موسم غیر معمولی طور پر پر لطف انگیز تھے اور وہ لوگ بھی ان سے غیر معمولی طور پر بہت مسرور رہے۔ شاید وہ لوگ باخبر تھے کہ تاریخ نام ہے غیر خوشگوار واقعات کاجن کےاعتراف سےوہ مکدرہونا پسند نہ کرتے تھے۔

افسوس ہے کہ شاہزادی سمنبر کی سترھویں سالگرہ میں مسرت اندوزولطف آفریں سرزمین سمنستان کے لیے واقعاتِ تاریخ کا ناخوشگوار دخل شروع ہوگیا۔ ایک سہانی، دلفریب صبح کو (سمنبر کے اقلیم حکمرانی میں ہر صبح نہایت دلفریب اور سہانی ہوا کرتی تھی) سب سے پہلے شاہزادی سمنبر نے جس سے ملاقات کی وہ شاہزادی دلرس تھی۔

شاہزادی دلرس نے اپنے آنے کی کوئی اطلاع شاہزادی سمنبر کو نہیں دی تھی، صرف اتنا کہا کہ وہ شاہزادی دلرس ہےاور کسی کو اس میں شک نہ ہوا کیونکہ وہ نہایت حسین وجمیل تھی اور شاہزادیوں کی طرح شاہانہ لباس زیب تن کیے ہوئے تھی، مگر حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وہ زارزار رو رہی تھی ۔ وزیر تشریفات خود اس کو درباری ایوان میں لے گیا جہاں شاہزادی سمنبر، وزیر تشریفات کی نہایت مودّبانہ التماس و اطلاع کے بموجب شاہزادی دلرس کی پذیرائی کے لیے تخت شاہی پر ریشمی تکیوں کے سہارے سے منتظر بیٹھی تھی۔ وزیر تشریفات خوش تھا اور وہ ہمیشہ خوش ہوا کرتا تھا، اگرآداب دربار پورے طور پر ملحوظ رکھے جائیں ۔شاہزادی دلرس جب خمِ تعظیم دینے لگی تو اس کے آنسو فرش پر گرے اور شاہزادی سمنبر جو خود بھی باغبان کے لڑکے کی گمشدگی سے مغموم و متالم تھی یہ دیکھ کر اپنی آنکھوں کے بڑے بڑے موتی بکھیرنے کے لیے آمادہ ہو گئی ۔ اس وقت ساری فضاحسرت والم کی زبان بنی ہوئی تھی ۔ایوان کے فوارے کی تراوشِ قطرات بھی اشک ریزی کا حکم رکھتی تھی اور فوارہ پر جو طوطی بیٹھا تھا وہ بھی اپنی دردناک آواز سے گویا غمزدگی کا اظہار کررہاتھا۔

ہرچند تاریخ اہل سمنستان کے لیے ایک غیر دلچسپ موضوع تھا اور وہ کبھی کوئی ایسی بات نہ کرتے تھے جس میں تلمیحی اشارے پائے جائیں، لیکن ملکہ سمنبر کچھ نہ کہہ سکی ۔شاہزادی دلرس نے تاریخ سے زیادہ خشک باتیں جغرافیہ کے متعلق شروع کردیں۔ منجملہ اور وجوہ کے کہ شہزادی سمنبر اور اس کی رعایا کیوں جغرافیہ سے متنفر تھی، ایک یہ بھی تھی کہ ان کے یہاں جغرافیہ کی کتاب جس کی آخری جلد انھوں نے اپنے ردی اسباب کی تہ میں دبادی تھی، اس فقرہ سے شروع ہوتی تھی کہ “سمنستان کی شمالی سرحد پر سنگستان واقع ہے”۔ ہرمتنفس جانتا تھا کہ وہ اگرجانب شمال جائےگا تو سنگستان میں پہونچے گا ۔ لیکن وہاں پہونچنا کس کو گوارا تھا اورایسا بےوقوف کون ہوگا جو وہاں جانا چاہے گا۔ان کے لیے تو اس ملک کا ذکرتک جام سرور میں تلخابۂ غم ملا دینے کا مصداق ہواکرتاتھا۔ سمنستان کے عجائب پسندطبقہ کے لوگوں کو، جو تیتری کی طرح صرف “رقص رنگیں” میں زندگی بسر کرنے کے عادی تھے، وہاں کا خیال بھی سخت اذیت رساں تھا۔ سمنستان اور سنگستان کے درمیان آہنی ستونوں کی ایک قطار سے حد فاصل مقرر کردی گئی تھی اوریہ ستون باہم خاردار تاروں سے ملاکر چھپا دیے گئے تھے۔ یہ تعمیر حدود سنگستان کی سلطنت کی جانب سے ہوئی تھی اور سمنستان کی حکومت نے عشق پیچاں کی بیلوں سے اس کو چھپا دیا تھا کہ اگر کوئی سمنستان کا باشندہ اس حد تک جا نکلے تو اس حد بندی کا نظارہ اس کے نظر و تخیل کو صدمہ نہ پہونچائے۔





سنگستان ایک نہایت ویران وغیرشاداب ملک تھا اور حد درجہ خوفناک۔ وہاں کا قانون ہراس شخص کوجو “براہ کرم” یا “شکریہ” یا ایسے اور الفاظ کا استعمال کرتاجن سے شائستگی وسلامت، تہذیب وملامست اور تعظیم وتکریم کے پہلو نکلتے ہیں سزاکا مستحق قرار دیتا تھا۔ عقابِ سیزدہم ،سنگستان کا حکمران ایک کریہ المنظر مکان میں رہتاتھا، جہاں نہ کوئی صفائی تھی نہ آراستگی اور جو سوائے کرختگی و درشتگی کے کوئی اور منظر پیش نہ کرتا تھا۔سنگستانیوں کی تعلیم میں بدمزاج بنادینےوالاعنصر بیش از بیش ہوتا تھا۔ یہاں کا بادشاہ اگر کسی تقریب کے موقع پر کوئی تقریر کرتا تو وہ اپنے خاندان کےحکمرانوں کے واقعات عقاب اول سے لےکر عقاب سیزدہم تک مفتخرانہ بیان کرتا، جن سے انتہائے درشتی ظاہر ہوتی تھی ۔ لیکن اسی سلسلہ میں جب وہ عقاب ہفتم کا ذکر کرتا تو نہایت ذلت وتحقیر کے ساتھ، کیونکہ اس نے ایک بار کسی مسافر سے نرمی کے ساتھ گفتگو کی تھی۔ شاہ سنگستان تمام تمام دن ایک ناتراشیدہ پتھر کے تخت پر چمڑےکے لباس میں بیٹھا رہتا اور کچا گوشت اپنے پالے ہوئے عقابوں کو کھلاتارہتا۔ سنگستان میں ہرشخص کچاگوشت کھاتاتھا ۔وہاں پھول کے درختوں کا پتہ نہ تھا، پھل پیدا ہی نہ ہوتے تھے اور گانے والا کوئی پرند اس فضامیں زندہ نہیں رہتاتھا، وہاں کےمکانات کبھی صاف نہ کیے جاتے تھے ۔عقاب سیزدہم کی خواہش تھی کہ تمام دنیا کو اپنے ملک کی وضع پر آباد کرے۔ اس کا خیال تھا کہ تین لاکھ خونخوار اور غضب آلود فوج سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتا ہے ۔اس کے پاس اس قسم کی صرف ایک لاکھ فوج تیار تھی اور دولاکھ کی کمی پورا کرنے کے لیے وہ سمنستان پر قابض ہو جانا چاہتا تھا کیونکہ وہاں سے اسے دولاکھ آدمی اور مل سکتے تھے۔ بالکل یہی حیثیت علاقہ عسلستان کی تھی جو سنگستان کی دوسری جانب واقع تھا اور ایک ملکہ کی زیر حکومت تھا ۔عقاب سیزدہم نے پہلے ملکہ عسلستان کو اپنی شادی کا پیغام بھیجا ۔ملکہ عسلستان اس خبر کے سنتے ہی سراسیمہ و پریشان ہوگئی ۔ چند روز تک وہ بہت متردد رہی اور کوئی لمحہ اس کا ایسا نہ گزرتا کہ وہ اسے گریہ و زاری میں صرف نہ کرتی ہو ۔بالآخر اس نے جزائر ارغواں کے نواب کو جو عسلستان کے قبضہ کا متمنی تھا، تمام علاقہ سپرد کردیا اور خود شاہزادی دلرس کا لقب اختیار کرکے روپوش ہوگئی اور سمنستان کی شہزادی سمنبر کے پاس تمام واقعات کی اطلاع دینے پہونچ گئی ۔یہاں وہ ایک گھنٹہ کے قریب ٹھہری تاکہ سمنبر کو ہوشیار کردے کہ اب اس کی باری ہے اور اس کے بعد رخصت ہوگئی۔

دوسرے ہی دن عقاب سیزدہم کا پیغامِ شادی ایک بھدے سے لفافہ میں، جس پر عقاب کی تصویر بنی ہوئی تھی اور جس سے کچے گوشت کی بو آ رہی تھی، پہونچا ۔ اس نے القاب و آداب میں کاغذ ضائع نہیں کیا تھا اور لکھ دیا تھا کہ “خط کے پہونچنے کے ۲۴ گھنٹہ کے بعد اس کی فوجیں سرحد پر منڈلا رہی ہوں گی”۔

سمنستان کی آبادی اس جسارت سے بہت برہم ہوئی ۔شاہزادی سمنبر کے ہاتھ میں عقابِ سیزدہم کے خط کا جو انجام ہوا وہ یہ تھا کہ اس خط کے پرزے پرزے کر ڈالے گئے اور قدموں کے نیچے مسل دیا گیا ۔ لیکن اس کے بعد نتیجہ کے خیال سے شاہزادی بہت متردد ہوئی ۔ وہ ہر شخص سے بہترین مشورہ کی طالب ہوئی مگر سمنستان والے کوئی مشورہ اِس کے سوا نہ دے سکے کہ ایسا مبارک و خوشنما دن اِس فکر میں ضائع نہ کرنا چاہیے بلکہ کوئی خاص اور نئی قسم کے سیر و تماشے کا انتظام کرنا چاہیے کہ ہم اس غم کو بھلا سکیں۔

لیکن وزیر تشریفات اور شاہی مورخ نے موقع کی اہمیت کا اندازہ کر کے صلاح دی کہ قبل اس کے کہ عقاب سیزدہم سرحد میں داخل ہو، شاہزادی کا عقد کسی اور شخص کے ساتھ ہو جانا چاہیے اور یہی ایک صورت پناہ کی ہو سکتی ہے۔ شاہزادی سمنبر نے کہا کہ “اگر میرے لیے ایسا کرنا ضروری ہے تو میں تیار ہوں مگر سوائے اُس باغبان کے لڑکے کے میں کسی اور کے ساتھ شادی نہیں کر سکتی”۔ دونوں کے چہروں کا رنگ فق ہو گیا، مورخ کو پیشینگوئی یاد آئی اور وزیر تشریفات خاموش ہو گیا۔ وزیر نے نہایت ادب و احترام کے ساتھ کہا کہ “شاہزادی! یہ تو بالکل ناممکن ہے کیونکہ اگر شاہزادی نے سوائے اُن سات حکمراں خاندانوں کے، جن کے نام کتاب زریں میں درج ہیں، کہیں اور شادی کی تو حکومت سے دست بردار ہونا پڑے گا اور قانون سلطنت کے مطابق شاہزادی کے تمام حقوق ساقط ہو جائیں گے، حکومت ہمسایہ سلطنت کو تفویض ہو جائے گی اور وہ ہمسایہ حکومت عقاب سیزدہم ہی کی ہو سکتی ہے”۔

شاہزادی بے حد غمگین اور محزون ہوئی اور اس کے گل آسا رخساروں پر آنسو کے مصفّا موتی بکھرنے لگے ۔ وزیر تشریفات بہت متأثر ہوا اور کہنے لگا “کم سے کم ہمیں پیغامات تو ضرور روانہ کرنے چاہئیں۔ ممکن ہے کوئی حسین اور لطیف مزاج شاہزادہ ایسا مل جائے جس کے ساتھ شاہزادی سمنبر کی شادی ہو سکے”۔ چنانچہ چھ سریع السیر کبوتروں کے ذریعہ سے یہ پیغام روانہ کر دیے گئے۔ سمنبر اس وقت سے برابر روتی رہی اور خواب و خور اپنے اوپر حرام کر لیا ۔ صبح کے وقت، جب مورخ دربار شاہزادی کے پاس آنے کی اجازت حاصل کرکے شاہی کمرے میں داخل ہوا تو وہ نہایت خوف زدہ اور پریشان تھا۔ بار بار باہر دیکھتا جاتا تھا کہ عقاب کے آنے کی اطلاع تو نہیں آئی۔ لیکن تھوڑے عرصہ کے بعد اُس نے دیکھا کہ بجائے عقابی علامتوں کے سات امرا ہلکے آسمانی رنگ کے ریشمی لباسوں سے آراستہ ایک جلوس کی صورت میں محل کے صدر دروازہ سے داخل ہوئے۔ ان کے گلے میں نہایت حسین و آبدار مرواریدی ہار پڑے ہوئے تھے، ہاتھوں میں نقرئی چوبیں اور پھولوں کے گلدستے تھے اور ان کے جلو میں ایک نوجوان شاہزادہ تھا جو نہایت عجلت سے محل کے اندر داخل ہوا۔ شاہزادے نے تمام مراسم آداب شاہی کے نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ شاہزادوں ہی کی طرح ادا کیے اور ان تمام جزئیات کا خیال رکھاجن کی توقع ایک شاہزادے سے کی جاتی ہے جب وہ کسی شاہزادی کو پیغامِ محبت دینے آئے۔ اس نے ایک میز پر ایک خوبصورت صندلی صندوقچہ جو بڑے بڑے عقیق احمر، الماس تاباں اور زمرد اخضر سے لبریز تھا اس طرح رکھا گویا ان چیزوں کی اس کی نظر میں کوئی وقعت نہ تھی۔ جس وقت وہ شاہزادی کے نزدیک پہونچا تو خمِ تعظیم میں اپنا سر گھٹنوں سے ملا دیا۔ شاہزادے کی شادمانی و خوشی کا اظہار اس کی خفیف سے خفیف حرکت سے عیاں تھا اور ایسی حرکات بے شمار تھیں کیونکہ یہ آنے والا شاہزادہ ہی باغبان کا لڑکا تھا۔

وزیر تشریفات اور مورخ بیک وقت کچھ پوچھنا ہی چاہتے تھے کہ شاہزادہ ان کا منشا سمجھ گیا اور بولا کہ “ہاں میں باغبان کا لڑکا ہوں”۔ وزیر تشریفات نے کہا “شاہزادی سمنبر تو کسی ایسے شخص سے شادی نہیں کر سکتی جس کا تعلق شاہنشاہان عظام کے خاندانوں سے نہ ہو”۔

شاہزادہ نے جواب دیا “میں انہیں خاندانوں میں سے ایک خاندان کا فرد ہوں ، کیونکہ میں کوہستان کی سلطنت کا جہاں سیوتی کے پھول کھلتے ہیں اور جہاں بلبلیں پیدا ہوتی ہیں، ولی عہد ہوں۔ ہمارا خاندان ساتوں خاندانوں سے زیادہ قدیم ہے اور ہم اپنے جد اعظم کی یادگار میں اپنے بیرقوں پر ایک ورق زر کو ہلال کی شکل بنا کر لگاتے ہیں۔ میرے باپ کے خطابات میں ایک خطاب “نواب اعظم ارم آباد” بھی ہے۔ ہمارے خاندان کی ایک قدیم رسم ہے کہ ولی عہد سات سال تک باغبان کے لڑکے کی حیثیت سے زندگی بسر کرتا ہے، چنانچہ میں نے بھی اس کی تعمیل کی اور تمہارے باغ میں رہنا پسند کیا کیونکہ وہ بے حد خوبصورت و دلچسپ باغ ہے۔ شاہزادی کیا تم باغبان کے لڑکے کے ساتھ شادی کرنا پسند کروگی؟”

شاہزادی سمنبر نے ایک ابتسام شیریں کے ساتھ اظہار پسندیدگی کیا۔ مورخ نے نہایت خوش ہو کر قاہرہ کی پیشینگوئی کا اعادہ کیا اور وزیر تشریفات نے کہا کہ یقیناً عقاب، شام سے قبل یہاں پہونچ جائے گا۔

شاہزادی سمنبر کی شادی کے مراسم ادا کیے گئے اور تھوڑی دیر میں اُن سے فراغت ہو گئی۔ سمنستان کے باشندے مدعو ہوئے اور رقص و سرور کی رنگینیوں میں مصروف و محو ہو گئے، کیونکہ ان کو تو ایسے مواقع کی تمنا و جستجو کرنے کے سوا اور کوئی کام ہی نہ تھا ۔ گویا وہ وہیں کہیں چھپے ہوئے اس گھڑی کا انتظار ہی کر رہے تھے۔

عقاب سیزدہم سمنستان تک کبھی نہ پہونچا کیونکہ وہ بھی ایک پیشینگوئی میں مبتلا تھا ۔ اس کو بتایا گیا تھا کہ عقابِ سیزدہم، اگر عقاب اعظم کا لقب حاصل کرنا چاہے تو نو منزل کے ایک مکان سے جست کرے، اس حال میں کہ اس کے ہاتھ پر ایک جوڑا عقاب کا بیٹھا ہو۔ اگر وہ بجائے نیچے آنے کے صعودی حالت اختیار کر سکے تو عقاب اعظم کا لقب اختیار کر سکتا ہے ۔ چنانچہ اُس نے اُس کا تجربہ ٹھیک اس وقت کیا جبکہ وہ سمنستان کو روانہ ہو رہا تھا۔ جب وہ زمین پر گرا اور اس کا جسم پاش پاش ہو گیا تو عقاب کا وہ جوڑا جو اس کے ہاتھ پر بیٹھا تھا اس کا گوشت لے کر ہوا میں صعود کر گیا۔