ساتواں خطبہ، 4 دسمبر 1856ء

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

گارساں دتاسی

ساتواں خطبہ


حضرات! ہمارے گزشتہ جلسے کے انعقاد کے بعد ہندوستان کی ایک ایسی سلطنت میں جہاں تمام تر ہندوستانی زبان ہی بولی جاتی ہے، ایک نہایت اہم واقعہ پیش آیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اس زمانے میں ہندوستان کی انگریزی حکومت نے سری رام چندر جی کی گدی کے مالک، اودھ (قدیم اجودھیا) کے فرمانروا علیٰ حضرت واجد علی شاہ کو تخت سے اتار دیا ہے۔ مجھے اس موقع پر اس خالص سیاسی انقلاب پر تبصرہ یا بحیثیت بادشاہ کے واجد علی شاہ کی اچھائیوں یا برائیوں سے بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ مجھے واجد علی شاہ کے ساتھ اس وجہ سے ضرور دلچسپی ہے کہ وہ ایک ممتاز ادیب اور بلند پایہ شاعر ہیں۔ اختر ان کا تخلص ہے، اور وہ آج کل ہندوستان کے آسمان شاعری کے چند درخشاں ستاروں میں سے ہیں۔ میں اس سے پہلے دوسرے موقعوں پر آپ سب کے سامنے ان کی تصنیفات اور نتائج افکار کا ذکر کر چکا ہوں۔ وہ اپنے خاندان کے شاہان سلف کی روایتوں کے حامل اور تخت و تاج کے ایک لائق وارث ہیں۔ ان کا سارا خاندان ہندوستانی ادبیات کا محسن تھا، اور اس کے اکثر افراد خود بھی ادبی ذوق رکھتے تھے۔ صفدر جنگ، شجاع الدولہ، آصف الدولہ، جو ہندوستانی زبان کے شاعر تھے اور آصف تخلص کرتے تھے، سعادت علی خاں، غازی الدین حیدر، جو مشہور فارسی لغت "ہفت قلزم" (یعنی سات سمندر) کے مؤلف تھے، اور جن کی کتاب کا یہ نام اس وجہ سے ہوا ہے کہ وہ سات جلدوں پر مشتمل ہے۔ ناصر الدین حیدر، ناصرالدولہ اور خود واجد علی شاہ معزول کے والد امجد علی شاہ، ان سب کے احسانات ہندوستانی ادبیات پر ہیں۔ واجد علی کو ایسی شریف اور باہمت ملکہ کے بیٹے ہونے کا شرف حاصل ہے، جس نے اگرچہ اپنی عمر میں کبھی سمندر نہ دیکھا تھا، اور جہاز کا نام تک نہ سنا تھا لیکن محض اپنی نسل کے حقوق کی حفاظت کے لیے سات سمندر پار کا سفر کیا، اور انگلستان پہنچ کر حکومت کے اس طرز عمل کے خلاف احتجاج کیا، جس کا شکار ان کا واجد علی بنایا گیا تھا۔

اس تمہید کے بعد اب میں اپنے سالانہ خطبے کے موضوع کی طرف متوجہ ہوتا ہوں، یعنی ہندوستان کی اس ادبی تحریک کا بیان جو ہندوستانی زبان کے توسط سے ہوئی ہے۔ میں نے کسی موقع پر ہندوستانی زبان کو فرانسیسی کی بہن کہا ہے۔ لیکن دراصل وہ اس کی خالہ زاد بہن ہے، جس طرح اطالوی زبان فرانسیسی کی خالہ زاد بہن ہے، اور سنسکرت لاطینی کی بہن اور ہندوستانی یا ہندی یا جدید ہندوستانی کی ماں ہے۔

حضرات! لفظ ہندوستانی جیسا کہ میں متعدد بار آپ سے عرض کر چکا ہوں، اسم جنس ہے اور اس سے ہندوستان کی اور خصوصاً شمالی و مغربی صوبوں اور پنجاب کی زبان مراد لی جاتی ہے۔ اردو، جسے فارسی و عربی آمیز ہندوستانی کہا جانا چاہیے، تمام ہندوستان کے مسلمانوں کی زبان ہے، اور ان کی راجدھانیوں مثلاً دہلی، آگرہ، لکھنؤ اور حیدرآباد میں نہایت کھری اور خالص میں بولی جاتی ہے۔ ہندی کو ہندوؤں کی ہندوستانی کہا جانا چاہیے اور یہ زیادہ تر سنسکرت لفظوں سے، خواہ خالص ہوں یا بگڑے ہوئے، بھری ہوئی ہے۔

ہندی کے لیے عام طور پر دیوناگری رسم الخط استعمال کیا جاتا ہے، جس کے معنی ہیں دیوتاؤں (کے شہر) کی تحریر اور جسے عرف عام میں محض ناگری کہتے ہیں لیکن اس کے علاوہ ہندو دوسرے رسم الخط بھی استعمال کرتے ہیں مثلاً کایستھی اور صرافی جو دونوں کی دونوں ناگری کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں، صرافی رسم الخط متھرا، علی گڈھ اور مین پوری کے اضلاع کی ہندی تحریر میں استعمال کیا جاتا ہے۔ آگرے میں ناگری مدرسوں کی تعداد کایستھی سے کسی قدر زیادہ ہے، لیکن دوسرے اضلاع میں زیادہ تر کایستھی ہی کا استعمال ہوتا ہے۔ کایستھی تحریر کو کایتھی ناگری بھی کہتے ہیں، یعنی کایتھوں کی تحریر۔ کایتھ، مقامی بولی میں کایستھ کو کہتے ہیں، یعنی وہ ذیلی ذات جس میں محرر داخل ہیں، مثلاً پٹواری وغیرہ۔ صرافی رسم الخط کا دوسرا نام مہاجنی ہے، اور اس کا استعمال زیادہ تر مہاجنوں اور صرافوں میں ہوتا ہے۔ مہاجن کے معنی ہیں بڑے لوگ اور یہ بنک کا کام کرتے ہیں۔ یہ رسم الخط صرف تجارتی اغراض کے لیے مخصوص ہے اور ایک قسم کے آنکڑوں میں لکھا جاتا ہے جسے صرف جاننے والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص ناگری کی زود نویسی کے خط سے تھوڑا بہت واقف ہو تو اس کو صرافی کا حرف شناس بننے میں کچھ زیادہ دقت نہ ہو گی۔ ہاں ایک ایسے ہندیات کے ماہر کو جس نے بجز خوشنما اور نوک پلک سے درست سنسکرت تحریر کے اور کچھ نہ پڑھا ہو، دیہات کے بنیے کی بدخط گھسیٹ پڑھنے میں البتہ بہت دقت ہو گی۔ اردو کی خوش خط تحریروں میں عام طور پر نستعلیق کا استعمال ہوتا ہے جو دو لفظوں نسخ اور تعلیق سے مرکب ہے۔ معمولی اردو تحریروں میں زیادہ تر شکستہ کا استعمال ہوتا ہے۔ خود اس لفظ شکستہ ہی سے اس کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہ تحریر کتنی بے احتیاطی کے ساتھ ہوتی ہو گی۔

سنہ 1844ء میں شمالی و مغربی صوبوں اور پنجاب میں اہل ہند کے 27 مطبع اور 23 اخبار تھے۔ اخباروں کی اشاعت 2216 تک پہنچ گئی تھی۔ اخباروں میں سب سے زیادہ مقبول اور کثیر الاشاعت لاہور کا اردو اخبار کوہ نور تھا۔ لیکن اس کے خریداروں کی تعداد بھی 349 سے زیادہ نہ تھی۔ اس کے اڈیٹر لالہ ہرسکھ رائے تھے جو مطبع کوہ نور کے مالک بھی تھے۔ میں اس موقع پر ان اخبارات کا ذکر نہیں کر رہا ہوں جو سال زیر بحث میں انگریزی زبان میں نکلتے تھے۔ اگر ان کی تعداد بھی دیسی زبانوں کے اخبارات میں شریک کر لی جائے تو اس سال سب کی اشاعت مل کر ایک لاکھ باسٹھ ہزار چار سو آٹھ ہو جاتی ہے۔ یعنی پچھلے سال کی اشاعت سے اٹھاون ہزار سات سو ترانوے زیادہ، اس لیے کہ پچھلے سال کی تعداد صرف ایک لاکھ تین ہزار چھ سو پندرہ تھی۔ جن مطبعوں کا میں نے ذکر کیا ہے، ان میں سال زیر بحث کے اندر اخباروں کے علاوہ دو سو سات کتابیں مشرقی زبانوں میں چھپ چکی ہیں۔ سنہ 1855ء کے متعلق میرے پاس صحیح اعداد موجود نہیں ہیں، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ کتابیں پچھلے سالوں سے زیادہ اس سال شائع ہوئی ہیں۔ گزشتہ سالوں کی طرح غالباً ان کتابوں میں انگریزی زبان کی ادبی تصانیف کے جو ترجمے آئندہ کیے جائیں گے، وہ مستحق تعریف ضرور ہوں گے، لیکن اس شرط پر کہ وہ ہندوستانی ادبیات میں اصلاح کے نام سے کوئی ایسی ترمیم یا اصلاح نہ کریں، جس سے اس ادبیات کی اپنی خصوصیت میں کوئی تبدیلی واقع ہو جائے۔ بقول ملٹن اتنے زیادہ نفیس مذاق نہ بنو کہ غیر یقینی برائیوں کا فیشن ہو جائے۔

چند ہفتے ہوئے، مسٹر فرانسس ٹےلر (Francis Taylor) نے جو دہلی کالج کے ایک لائق پرنسپل ہیں مجھے ان ہندوستانی تصانیف کی ایک فہرست بھیجی ہے جو حال میں سلطنت مغلیہ کی راجدھانی (دلی) میں شائع ہوئی ہیں۔ اس فہرست میں چند ایسی کتابوں کا بھی ذکر ہے جن کا میں نے اب تک آپ حضرات سے ذکر نہیں کیا ہے۔ یہ کتابیں اردو ادب کے لیے ایک قابل قدر اضافے کا حکم رکھتی ہیں۔ آگرہ گورنمنٹ نے بھی فرانس کی اکاڈیمی (Institute of France) کو ایک سو پچھتر کتابوں کا ایک ذخیرہ تحفتاً بھیجا ہے، اور اس میں بھی مجھے چند نئی کتابیں نظر آئی ہیں۔ یہ ذخیرہ میرے قابل فخر احباب مسٹر ولیم میور (William Muir) معتمد حکومت صوبہ ہائے شمالی و مغربی اور مسٹر ایچ ایس ریڈ (H. S. Ried) ناظم تعلیمات صوبہ ہائے شمالی و مغربی کے توسط سے وصول ہوا ہے۔ یہ دونوں حضرات ہندوستانی ادبیات کے جو ایک نہ ایک دن ہندوستان میں سنسکرت اور فارسی ادبیات کی جگہ لے کر رہے اچھا ہو گا، بڑے سرگرم معاون اور سرپرست ہیں۔ اگرچہ ان کتابوں کو انگریزی حکومت نے دیسی کالجوں اور مدرسوں کے نصاب میں شریک کرنے کی غرض سے شائع کیا ہے، لیکن یہ یورپی حضرات اور خصوصیت کے ساتھ سیول اور فوجی محکموں کے اعلیٰ افسروں کے لیے بھی بہت زیادہ مفید ہیں، جن کے لیے بنگال جیسے صوبے میں رہ کر بھی جہاں کے اکثر اضلاع میں بنگالی بولی جاتی ہے، ہندوستانی زبان سے واقف ہونا ضروری ہے۔ اس لیے کہ یہ زبان (ہندوستانی) ناصرف بنگال کے اکثر مقامات میں بولی جاتی ہے بلکہ کلکتہ، نیز صوبۂ بنگال کے دوسرے شہروں کی عدالتوں میں صرف یہی زبان استعمال ہوتی ہے۔

حضرات! جن دو فہرستوں کا میں نے ابھی آپ کے سامنے ذکر کیا ہے، اب ان میں سے میں ایک نئے تذکرے کا حال آپ کو سناتا ہوں۔ اس تذکرہ کا نام گلستان سخن ہے، اس کے مصنف مرزا قادر بخش المتخلص بہ صابر ہیں۔ جو دہلی کے خاندان شاہی کے ایک شہزادے مرزا مکرم بخت کے لڑکے ہیں۔ اس خاندان کا سربرآوردہ شخص سراج الدین اب تک شاہ بلکہ بادشاہ یعنی شہنشاہ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ صابر مولوی امام بخش صہبائی کے شاگرد ہیں جو آج کل کے اعلیٰ درجے کے ہندوستانی مصنفین میں سے ہیں۔

شعر کا شوق آج تک ہندوستانیوں میں بدستور باقی چلا آتا ہے، لیکن اس پر کسی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ ارسطو اپنی کتاب شعریات، باب نہم میں لکھتا ہے کہ شاعری بمقابلہ تاریخ کے کہیں زیادہ فلسفیانہ اور سبق آموز ہوتی ہے۔ لیکن جو فہرستیں اس وقت میرے پیش نظر ہیں ان میں، نظم کی بہت کم کتابیں نظر آتی ہیں۔ یعنی ایک تو گیان چالیسی (چالیس اقوال) جو ہندی دوہوں کی شکل میں ہے اور پنڈت شری لال کی لکھی ہوئی ہے جو بہ کثرت مفید کتابوں کے مصنف ہیں، اور دوسری "پشپ باٹیکا" (گلستان) جو گلستان کے باب اول دربارۂ سیرت بادشاہاں کا ترجمہ ہے اور بنسی دھر کا کیا ہوا ہے۔ یہ کتاب آگرے میں طبع ہوئی ہے اور اشاعت اول میں تین ہزار نسخے چھاپے گئے ہیں۔ ایک مصنف قمرالدین نامی نے گلستان اردو کے نام سے گلستان کی تلخیص کی ہے اور ساتھ ساتھ فارسی عبارت بھی دے دی ہے۔ انہوں نے بوستان کے اقتباسات کا بھی اسی طرح ترجمہ کیا ہے۔ ان کا ترجمہ فصیح بھی ہے اور صحیح بھی۔

ان فلسفیانہ اور اخلاقی کتابوں میں جو حال میں صوبہ ہائے شمالی و مغربی میں چھپی ہیں۔ سب سے زیادہ قابل ذکر صفات رب العالمین مصنفہ بابو شری داس ہے۔ ان مصنف کا نام اگرچہ ہندوؤں کا سا ہے اور اس کے معنی شری یعنی لکشمی کے غلام، کے ہیں، لیکن وہ دراصل عیسائی ہیں اور جن چند ہندوستانی عیسائی مصنفین کا ذکر میں نے ابھی کچھ زمانے ادھر آپ سے کیا تھا، ان میں ان کے نام کا بھی اضافہ کر لینا چاہیے۔

ایک اور قابل ذکر کتاب بھوج پربندسار ہے، یعنی بھوج کے اقوال کا انتخاب۔ اس پر بنسی دھر نے حاشیہ بھی لکھا ہے۔ آپ سب واقف ہیں کہ بھوج، جسے ہندوستان کا سلیمان کہنا چاہیے، مالوے کا اک مشہور راجہ تھا۔ اس نے پانچویں صدی عیسوی میں اجین میں حکومت کی، اور ہندوستانی تصنیفات میں اس کا ذکر اکثر آتا ہے۔

بدھی و دیو و دیوت، (کتاب دربارۂ علم و حکمت) ایک ہندی کتاب ہے اور اس میں تعلیم و تربیت کے فوائد کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ شکشا منجری (گلدستۂ معلومات) یہ چند اقتباسات کا ہندی ترجمہ ہے جو ایچ سی ٹرنر (H. C. Turner) نے تاڈ (Tod) کی کتاب Hinson Self-Improvement سے لیے ہیں۔ ہندی ترجمہ بنسی دھر کا کیا ہوا ہے۔

میں اس موقع پر ان اخلاقی قصوں کا بیان بھی مناسب سمجھتا ہوں جو حال میں شائع ہوئے ہیں۔ مثلاً فرخ آباد کی کہانی "سورج پور کی کہانی" اور "بدھ پھل ودیا" (ثمرۂ عقل کا مظہر)۔ یہ آخری کتاب جو پنڈت کشن دت، اسسٹنٹ پروفیسر سنٹرل اسکول آگرہ کی تصنیف ہے، مسلمانوں کے لیے لکھی ہوئی ایک اردو کتاب کبدھی سبدھی کا ہندی ترجمہ ہے جو ہندوؤں کے لیے کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا ذکر میں پچھلے سال کر چکا ہوں۔

میری پیش نظر فہرستوں میں سب سے ممتاز تاریخی کتابیں حسب ذیل ہیں۔ ایک تو میر خوند کی مشہور کتاب "روضۃ الصفا" کا اردو ترجمہ ہے۔ اس کتاب میں نہایت قدیم زمانے سے لے کر مصنف کے زمانے میں یعنی سولہویں صدی عیسوی کے اواخر تک کی ایرانی تاریخ بیان کی گئی ہے۔

ایک اور کتاب جو ایک مسلمان عالم مولوی عبید اللہ ابو مسلم کی تصنیف ہے، تحفۃ الہند ہے۔ اس میں ہندوؤں کے مذہب کی تشریح کی گئی ہے۔ یہ جاننا خالی از دلچسپی نہ ہو گا کہ مسلمان مؤلف ہندو عقائد کی تشریح کس طرح کرتے ہیں۔ وہ اگرچہ ان عقائد کی شکل کو بالکل نہیں بدلتے، لیکن ان کو بہت کامیابی کے ساتھ اپنے ذاتی عقائد میں ضم کر دیتے ہیں۔ میں تاریخی سلسلے کی دو اور کتابوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ان میں سے ایک تو تذکرۃ المشائخ ہے، جس کے مصنف سدا سکھ لال ہیں۔ یہ کتاب سوانح سے تعلق رکھتی ہے، اور انگریزی سے ترجمہ کی گئی ہے۔ دوسری کتاب ولسن کی Manual of Ancient History کا اردو ترجمہ ہے۔ جو تاریخ عالم کے نام سے کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا ایک ہندی ترجمہ بھی جگت ورِتّانت (تاریخ عالم) کے نام سے شائع ہوا ہے۔ جدید مطبوعات میں تعلیمی تصانیف کا حصہ بھی اہم ہے۔ میں سب سے پہلے چھند دیپک (عروض کا چراغ) کا ذکر کروں گا۔ یہ رسالہ ہندی عروض پر ہے، اور سنـ 1854ء میں آگرے میں چھپا ہہے۔ اب تک ہندی زبان کے عروض سے کوئی واقف بھی نہ تھا، اور جس طرح اردو عروض فارسی عروض کی کسی قدر بدلی ہوئی شکل ہے اسی طرح ہندی عروض تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ بالکل سنسکرت عروض کی طرح ہے۔ لیکن اس موضوع (ہندی عروض) پر ایک رسالے کی پھر بھی ضرورت تھی، اور بنسی دھر نے اس کو پورا کر دیا ہے۔

صرف و نحو کی ان کتابوں کا ذکر جو حال ہی میں ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں شائع ہوئی ہیں، طوالت سے خالی نہ ہو گا۔ یہ قواعد جتنے اردو اور ہندی سے متعلق ہیں اتنے ہی فارسی اور سنسکرت سے، پھر بھی مجھے امید ہے کہ یورپی حضرات انہیں پڑھیں گے تو انہیں ان سے کئی نئی باتیں حاصل ہوں گی۔

مذکورۂ بالا کتب کے بعد انشا کی کتابوں کا نمبر ہے۔ ان میں حسب ذیل کتابیں نظر آتی ہیں۔ پتر مالیکا (پتیوں کا ہار) مصنفۂ شری لال ہندی زبان میں، انشائے خود افروز (جس کے معنی ہیں خطوط کے عقل کو روشن کرنے والے نمونے) مصنفۂ قمرالدین، اردو میں اس کتاب کے متعدد ایڈیشن نکل چکے ہیں، اور ہزاروں نسخے فروخت ہو چکے ہیں۔ انشائے خلیفہ، یہ فارسی کتاب انشائے شاہ محمد کا اردو خلاصہ ہے۔ فارسی عبارت بھی ساتھ ساتھ دی گئی ہے۔ انشائے شاہ محمد، ہندوستان میں بہت مستند مانی جاتی ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ صوبہ ہائے شمالی و مغربی کے فاضل ناظم تعلیمات مسٹر ریڈ نے جب 1853، 1854 میں دیسی مدارس کا دورہ کیا، تو انہیں تین سو تینتالیس مدرسوں کے طلبا کے ہاتھوں میں یہی کتاب نظر آئی۔

ایک اور کتاب شدھ درپن (پاکی کا آئینہ) ہے۔ یہ ہندوستانی زبان میں ہے اور اس میں آداب و اخلاق کے متعلق ہندوؤں کے نقطۂ خیال کا بیان کیا گیا ہے۔ اس کے مصنف سیٹھ بدھی چند نارائن انسپکٹر مدارس متھرا ہیں۔ یہ صاحب دیگر کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ بدیا نکار (یعنی علم و حکمت کا ملکہ) ہندی زبان میں شری لال کی تصنیف ہے اسی کو بنسی دھر نے "حقائق الموجودات" کے نام سے اردو کا جامہ پہنایا ہے۔ اس میں موجودات عالم، ستاروں، نظام شمسی، حرارت، روشنی، کرہ ہوا، کہر، بادل، دنیائے حیوانات نباتات، معدنیات وغیرہ کا ذکر کیا گیا ہے۔

اب میرا فرض ہے کہ فن زراعت پر جو چند کتابیں تصنیف ہوئی ہیں، ان کا بھی ذکر کروں۔ ان کا مطالعہ ہماری ذراعتی انجمنوں کے لیے یقیناً پر از معلومات ہو گا۔ یہ کتابیں حسب ذیل ہیں۔ "کھیت کرن" اس کے مصنف کالی رائے ڈپٹی کلکٹر فتح گڈھ ہیں۔ یہ آج کل کے ایک مشہور مصنف ہیں۔ کتاب ہندی میں ہے اور اس مین صوبہ ہائے شمالی و مغربی کے ہندوستانی کاشتکاروں کی ضرورتوں کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ یہ رسالہ آگرہ اور دہلی دونوں میں کئی بار چھپ چکا ہے ہندی دونوں میں چھپ چکا ہے اس میں مختلف قسموں کی مٹی طرح طرح کے ناگر کرنے کے اوزاروں اور آب پاشی کے مختلف طریقوں وغیرہ کا بیان کیا گیا ہے۔ نیز تحصیل مالگزاری کے طریقوں کا حال اور زائد تحصیل کے خلاف چارہ جوئی کرنے کی ہدائتیں بھی کی گئی ہیں۔ اس رسالے میں نقشے بھی ہیں اور اصطلاحیں بھی فارسی اور دیوناگری دونوں میں دی گئی ہیں۔

کسان اپدیش اس کے مصنف بنسی دھر ہیں۔ کتاب ہندی میں ہے، اور اس میں بھی دیہی آبادی، ملکیت کے کھاتوں، نیز پٹواریوں کے سالانہ حساب وغیرہ کی تشریح کی گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ وہی کتاب ہے جو موہن لال اور روشن علی متفقہ کوشش سے اردو میں پندنامہ کاشتکاراں، کے نام سے چھپ چکی ہے۔ یہ دونوں حضرات تعلیم یافتہ اور آج کل کے ممتاز اہل قلم ہیں، اس کتاب کا ایک فارسی اردو ایڈیشن بھی ہے۔

اگرچہ مجھے اس کا احساس ہے کہ اختصار کی بہت کچھ کوشش کے باوجود بھی اسمائے کتب کی فہرست بہت طویل ہو گئی ہے، لیکن میں اس میں ایک کتاب کے اضافے کی جسارت اور کروں گا۔ اور وہ میری کتاب "ہندوستانی زبان کے مصنفین کا تذکرہ" کا اردو ترجمہ ہے، یہ ابھی حال ہی میں دلی سے شائع ہوا ہے اور اس کے مترجم محمد ذکاء اللہ ہیں۔ ابھی تین دن ہوئے اس ترجمے کی چند جلدیں مجھے وصول ہوئی ہیں مجھے اعتراف کرنا پڑتا ہے اور مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ دلکش ہندوستانی زبان میں ترجمہ کیے جانے کا یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ چند سال پہلے میری ایک اور کتاب "تاریخ ادبیات ہندوستان" (Histoire de la literatterature Hindustanie) طبقات شعرائے ہند کے نام سے اردو ترجمہ ہو چکا ہے۔

دیسی مدارس کے لیے جو کتابیں لکھی گئی ہیں وہ بہ یک وقت ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں شائع ہوئی ہیں تاکہ ہندو اور مسلمان دونوں یکساں طور پر ان سے مستفید ہو سکیں۔ بعض وقت تو یہ فارسی زبان میں بھی شائع ہوئی ہیں، جسے ہندوستانی مسلمانوں کی لاطینی سمجھنا چاہیے اور جسے مدارس مین (اور ہندوؤں کے مدارس میں بھی) اردو کے ساتھ سکھایا جاتا ہے، اصلیت یہ ہے کہ اردو سیکھنے کے لیے فارسی زبان سے واقف ہونا ناگزیر ہے۔

حضرات میں نے آپ کا ان مذہبی کتابوں کا حال نہیں بتایا جو سرگرم مبلغین دیسیوں میں اپنے مذہب کی تبلیغ کے لیے شائع کرتے رہتے ہیں ایسی کتابوں میں عہدنامۂ قدیم اور خصوصیت کے ساتھ عہدنامۂ جدید کے ترجمے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ چاہے ان مقدس کتابوں کو پڑھ کر بہت کم ہندوستانیوں نے اپنا مذہب تبدیل کیا ہوتا ہمیں اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جن لوگوں نے انہیں پڑھا ہے ان کی زندگی پہلے سے بہتر اور زیادہ خوشی کی ضرور ہو گئی ہو گی، کیونکہ بقول شاعر ینگ (Young) "کش مکش حیات سے گوشہ نشین ہونے کے بعد انجیل پڑھو اور خوش رہو، اس میں حقائق کی کثرت ہے، اس سے (زندگی کا) سکون بدرجہ اتم حاصل ہوتا ہے، اس کے مقدس صفحے کو پڑھو، اور اس کا احترام کرو، وہ ایک ایسا صفحہ ہے، جہاں "ابدیت" کی فحت نظر آتی ہے، ویسا ایک صفحہ ساری مخلوقات مل کر بھی کوشش کرے تب بھی پیدا نہیں کر سکتی۔ اور زبردست سے زبردست آگ بھی اسے برباد نہیں کر سکتی۔"


رجوع بہ: خطبات گارساں دتاسی