دیوان ساغر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

دیوان ساغر


ترتیب



دیباچہ

نعت

نہ شان قیصر و کسری، نہ سطوت کے لا

تفریق نے جادو ہی جگایا ہے بلا کا

فضائے نیم شبی کہہ رہی ہے، سب اچھا

تیری نظر کا رنگ بہاروں نے لے لیا

اے حسن لالہ فام! ذدا آنکھ‍ تو ملا

میں تلخئ حیات سے گھبرا کے پی گی

جام پی کر جو دور تک دیکھا

آج روٹھے ہوئے ساجن کو بہت یاد کیا

خون بادل سے برستے دیکھا

احتیاطا فقر کا ہر مرحلہ کٹتا رہا

میں کہ آشفتہ و رسوا سر بازار ہوا

اے دل بے قرار چپ ہو جا

اس درجہ عشق موجب رسوائی بن گیا

عظمت زندگی کو بیچ دیا

ہر مرحلۃ شوق سے لہرا کے گزر جا

نالہ حدود کوئے رسا سے گزر گیا

دل ملا اور غم شناس ملا

محفلیں لٹ گئیں، جذبات نے دم توڑ دیا

کوئی نالہ یہاں رسا نہ ہوا

شعلہ رخ مست نظر یاد آیا

مضمحل درد غم ہے بے چارا

ایک مدّت ہوئی، اک زمانہ ہوا

ہر تمنّا کا چہرہ شفق فام تھا

کچھ‍ نہیں مدّعا فقیروں کا

یقین کر کہ یہ کہنہ نظام بدلے گا

مزاج شمع میں کچھ‍ ذوق پروانہ بھی ہوتا تھا

کلیوں کی مہک ہوتا، تاروں کی ضیا ہوتا

اس میں شامل دشت و صحرا، اور ویراں اس کی بات

میں التفات بار کا قائل نہیں ہوں دوست

بگڑا جو نقش زیست، بنا شاہکار زیست

سوکھ‍ گئے پت جھڑ میں پات

نگاروں کے میلے ستاروں کے جھرمٹ

زندگی رقص میں ہے جومنی ناگن کی طرح

چاک دامن کو جو دیکھا تو ملا عید کا چاند

غم کی تصویر غزل کے اشعار

ہنس نہیں سکتے شگوفے تازگی سے روٹھ‍ کر

بن گئے اشک جفا کی تصویر

درد کے ماروں پہ ہنستا ہے زمانہ بے خبر

ہم بڑی دور سے آئے ہیں تمہاری خاطر

اگرچہ ہم جارہے ہیں محفل سے نالہء دل فگار بن کر

قریب وار کٹا دن تو رات کانٹوں پر

پھول چاہتے تھے، مگر ہاتھ‍ آئے پتھر

سکوت غم سے جو گزرے نہ پھر ملی آواز

موجزن وقت کے دریا میں نوائے درویش

خیال ہے کہ بجھا دو یہ روشنی کے چراغ

مانگی ہے اس جہان میں دونوں جہاں کی بھیک

شعلے آنچ دھواں اور آگ

رہگزر کے چراغ ہیں ہم لوگ

کھلتے رہیں گے صحن چمن میں ہزار پھول

دکھ‍ درد کے طوفان میں آلام کے جنگل

چاندنی اور موتیے کے پھول

لوگ لے لیتے ہیں یونہی شمع پروانے کا نام

ایک نغمہ، ایک تارا، ایک غنچہ، ایک جام

گدا قناعت کو بیچتے ہیں

جب گلستاں میں بہاروں کے قدم آتے ہیں

پھول مسلیں تو انہیں نغمہ و جھنکار ملیں

ذرا گیسوئے یار کھولے گئے ہیں

متاع کوثر و زمزم کے پیمانے تری آنکھیں

گلوں کے اشارے دعا کر رہے ہیں

جورو ستم کی رسمیں تقریب بن گئی ہیں

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں

سر مقتل ہمیں نغمات کی تعلیم دیتے ہیں

وقار انجمن ہم سے، فروغ انجمن ہم ہیں

تاروں سے میرا جام بھرو میں نشے میں ہوں

اچھال جام، کہ تسخیر کائنات کریں

ترے غم کی تلاوت کر رہے ہیں

ذرا کچھ‍ اور قربت زہر داماں لڑکھڑاتے ہیں

ہیں کتنی سازگار زمانے کی تلخیاں

دھڑکنیں زندگی کے دامن میں

بزرگوں کی دعائیں مل رہی ہیں

غم کے مجرم خوشی کے مجرم ہیں

متاع دل سے خالی ہو گئے ہیں

سوچیے مے کشی کے بارے میں

وسعت گيسوئے جاناں سے الجھ‍ بیٹھے ہیں

آزاددیوں کے نام پہ رسوائیاں ملیں

آلام کی یورش میں بھی خورسند رہے ہیں

ہر تمنا کا لہو کرتے چلیں

تیرے دامن کی ہوا مانگتے ہیں

منزل غم کی فضاؤں سے لپٹ کر رو لوں

فریاد کے تقاضے ہیں نغمہ و سخن میں

ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں

چھپائے دل میں غموں کا جہان بیٹھے ہیں

بھنور آنے کو ہے اے اہل کشتی، ناخدا چن لیں

کچھ‍ لوگ بچھا کر کانٹوں کو گلشن کی توقع رکھتے ہیں

صراحی جام سے ٹکرائیے برسات کے دن ہیں

تری دنیا میں یارب زیست کے سامان جلتے ہیں

زہر قاتل ہے آبگینوں میں

ایسی تجلیّاں ہیں کہاں آفتاب میں

دو جہانوں کی خبر رکھتے ہیں

پھول جلتے ہیں، ہار جلتے ہیں

ستم جاگتے ہیں کرم سو گئے ہیں

جب تصور میں جام آتے ہیں

جھوم کر گاؤ میں شرابی ہوں

چاندنی کو رسول کہتا ہوں

جمال انجمن ہم سے، وقار انجمن ہم ہیں

دیار لالہ و سرو و سمن سے گزرے ہیں

خیال یار میں ہم پربہار رہتے ہیں

چمن سے، برق و شرر سے خطاب کرتا ہوں

مسکراؤ بہار کے دن ہیں

آوارگی برنگ تماشا بری نہیں

جلوے مچل رہے ہیں نظاروں کی آگ میں

یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں

مٹ گئیں روشنی میں تحریریں

اشک رواں نہیں ہیں، ندامت کے پھول ہیں

تری نظر کے اشاروں سے کھیل سکتا ہوں

جام حالات پر بہار کرو

نہ کشتیوں کا نہ کناروں کا احترام کرو