دیوان ساغر
دیوان ساغر
ترتیب
نہ شان قیصر و کسری، نہ سطوت کے لا
تفریق نے جادو ہی جگایا ہے بلا کا
فضائے نیم شبی کہہ رہی ہے، سب اچھا
تیری نظر کا رنگ بہاروں نے لے لیا
اے حسن لالہ فام! ذدا آنکھ تو ملا
میں تلخئ حیات سے گھبرا کے پی گی
آج روٹھے ہوئے ساجن کو بہت یاد کیا
احتیاطا فقر کا ہر مرحلہ کٹتا رہا
میں کہ آشفتہ و رسوا سر بازار ہوا
اس درجہ عشق موجب رسوائی بن گیا
ہر مرحلۃ شوق سے لہرا کے گزر جا
محفلیں لٹ گئیں، جذبات نے دم توڑ دیا
یقین کر کہ یہ کہنہ نظام بدلے گا
مزاج شمع میں کچھ ذوق پروانہ بھی ہوتا تھا
کلیوں کی مہک ہوتا، تاروں کی ضیا ہوتا
اس میں شامل دشت و صحرا، اور ویراں اس کی بات
میں التفات بار کا قائل نہیں ہوں دوست
بگڑا جو نقش زیست، بنا شاہکار زیست
نگاروں کے میلے ستاروں کے جھرمٹ
زندگی رقص میں ہے جومنی ناگن کی طرح
چاک دامن کو جو دیکھا تو ملا عید کا چاند
ہنس نہیں سکتے شگوفے تازگی سے روٹھ کر
درد کے ماروں پہ ہنستا ہے زمانہ بے خبر
ہم بڑی دور سے آئے ہیں تمہاری خاطر
اگرچہ ہم جارہے ہیں محفل سے نالہء دل فگار بن کر
قریب وار کٹا دن تو رات کانٹوں پر
پھول چاہتے تھے، مگر ہاتھ آئے پتھر
سکوت غم سے جو گزرے نہ پھر ملی آواز
موجزن وقت کے دریا میں نوائے درویش
خیال ہے کہ بجھا دو یہ روشنی کے چراغ
مانگی ہے اس جہان میں دونوں جہاں کی بھیک
کھلتے رہیں گے صحن چمن میں ہزار پھول
دکھ درد کے طوفان میں آلام کے جنگل
لوگ لے لیتے ہیں یونہی شمع پروانے کا نام
ایک نغمہ، ایک تارا، ایک غنچہ، ایک جام
جب گلستاں میں بہاروں کے قدم آتے ہیں
پھول مسلیں تو انہیں نغمہ و جھنکار ملیں
متاع کوثر و زمزم کے پیمانے تری آنکھیں
جورو ستم کی رسمیں تقریب بن گئی ہیں
ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
سر مقتل ہمیں نغمات کی تعلیم دیتے ہیں
وقار انجمن ہم سے، فروغ انجمن ہم ہیں
تاروں سے میرا جام بھرو میں نشے میں ہوں
اچھال جام، کہ تسخیر کائنات کریں
ذرا کچھ اور قربت زہر داماں لڑکھڑاتے ہیں
ہیں کتنی سازگار زمانے کی تلخیاں
وسعت گيسوئے جاناں سے الجھ بیٹھے ہیں
آزاددیوں کے نام پہ رسوائیاں ملیں
آلام کی یورش میں بھی خورسند رہے ہیں
منزل غم کی فضاؤں سے لپٹ کر رو لوں
فریاد کے تقاضے ہیں نغمہ و سخن میں
ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں
چھپائے دل میں غموں کا جہان بیٹھے ہیں
بھنور آنے کو ہے اے اہل کشتی، ناخدا چن لیں
کچھ لوگ بچھا کر کانٹوں کو گلشن کی توقع رکھتے ہیں
صراحی جام سے ٹکرائیے برسات کے دن ہیں
تری دنیا میں یارب زیست کے سامان جلتے ہیں
ایسی تجلیّاں ہیں کہاں آفتاب میں
جمال انجمن ہم سے، وقار انجمن ہم ہیں
دیار لالہ و سرو و سمن سے گزرے ہیں
خیال یار میں ہم پربہار رہتے ہیں
چمن سے، برق و شرر سے خطاب کرتا ہوں
جلوے مچل رہے ہیں نظاروں کی آگ میں
یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
اشک رواں نہیں ہیں، ندامت کے پھول ہیں