دوسرا خطبہ، 4 دسمبر 1851ء

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

گارساں دتاسی

دوسرا خطبہ 4 دسمبر 1851ء حضرات! مجھے دلی مسرت ہے کہ اس تعلیمی سال کے افتتاح پر میں اپنے لکچروں میں اپنے نئے اور پرانے شاگردوں کو اپنے گرد دیکھتا ہوں۔ آپ نے ہندوستانی زبان کے مطالعہ کا جو شوق کیا ہے وہ میری رائے میں بہت مستحسن ہے۔ یہ دنیا کی نہایت وسیع الاشاعت زبانوں میں سے ہے۔ کیونکہ آٹھ کروڑ سے زیادہ اشخاص اسے بولتے ہیں اور سیاسی اور تجارتی لحاظ سے خاص طور پر قابل لحاظ اور لائق وقعت ہے۔ لیکن اس کے علاوہ ایک بڑی بات یہ ہے کہ اسے حقیقی ادبی حیثیت حاصل ہے اور اسی نقطۂ نظر سے براعظم یورپ میں اس کا مطالعہ مفید ہو گا۔ اس زبان کی ہندو شاخ سنسکرت کی ایک سادہ اور سلیس صورت ہے اور اس کا ہندوستانی زبان سے تقریباً وہی تعلق ہے جو جدید یونانی زبان کا قدیم یونانی زبان سے اور اطالوی کا لاطینی سے ہے۔ لہذا اس کا علم السنہ ہندوستان کے محقق کے لیے نہایت کارآمد ہو سکتا ہے۔ وہ جدید صورتوں میں کہیں تو قدیم شکلوں کا اختصار اور کہیں ان کی توسیع دیکھے گا۔ اس کی اسلامی شاخ ان لوگوں کے لیے بہت مفید ہے جو فارسی زبان کا مطالعہ کر رہے ہیں۔

فارسی اور ہندوستانی دونوں کی اصل ایک ہی ہے، لیکن ہندوستانی کی ساخت اور طرز ادا زیادہ سلیس اور سادہ ہے۔ اگر فارسی کے طویل جملے ہندوستانی کی ساخت کے مطابق ادا کیے جائیں تو مطلب زیادہ آسانی سے سمجھ میں آ جاتا ہے۔ آپ صاحب جو ان شیرین اور دلپذیر زبانوں کا مطالعہ کر رہے ہیں، میرے اس بیان کی تصدیق خود فرما لیں گے۔ ان میں سے ایک سنسکرت ہے جو ہمارے تمام یورپی زبانوں کی اصل ہے اور اس کا تعلق اب تو سامی زبانوں سے بھی بیان کیا جاتا ہے کیونکہ معلوم ہو گا کہ عربی کا سہ حرفی مادہ مصنوعی ہے اور ان میں کے بہت سے مادے یک وتدی (Monosyllabique) ہیں۔ اسی طرح وہ سہ حرفی مادے بھی سنسکرت کے نظام میں داخل ہو جاتے ہیں اور یہ بھی ہویدا ہو جاتا ہے کہ سنسکرت اور عربی کے چند مادوں کی اصل بھی مشترک ہے۔ دوسرے فارسی زبان ہے جو تاریخی تصانیف سے مالا مال ہے اور اس کا ادب خاص امتیاز اور خصوصیت رکھتا ہے جس میں اسلامی صوفیوں کی روحانی تالیفوں نے نئی جان ڈال دی ہے۔

ہندوستانی زبان کی ہندوی اور اسلامی ہر دو شاخوں کا علم ادب صرف کثیر ہی نہیں بلکہ مختلف نوعیت کا بھی ہے۔ مزید برآں ہندی میں سنسکرت کی اعلی تصانیف کے ترجمے موجود ہیں یا کم سے کم ان کا تتبع کیا گیا ہے اور اردو اور دکھنی میں ہم فارسی کی اعلی تصانیف کے ترجمے یا ان کے نمونے Reproduction دیکھتے ہیں۔

اس سال کے دوران میں آپ کو ان مختلف زبانوں کی بعض ادبی تالیفات کا درس دوں گا۔ سنسکرت مکتب خیال سے ماخوذ چیزوں میں ہمیں شکنتلا کا دلچسپ قصہ ملے گا جسے یورپ میں تقریباً ہر خاص و عام جانتا ہے۔ علاوہ اس کے ہم اوشا (Uscha) کا قصہ بھی پڑھیں گے جو اگرچہ اس قدر معروف نہیں مگر اتنا ہی دلکش ہے۔

فارسی مکتب خیال ہمیں ولی کا دیوان پیش کرے گا۔ ولی ہندوستان کا حافظ ہے۔ اگرچہ اس کی غزلوں میں کسی قدر تکلف پایا جاتا ہے لیکن ان میں حقیقی خوبیاں بھی موجود ہیں۔ اور اس کی غزلیں خوبی میں کسی طرح فارسی غزلوں سے کم نہیں۔ نثر میں ہم شیر شاہ کی تاریخ کا ایک حصہ پڑھیں گے، جس میں ہم علاوہ دوسری باتوں کے، ہندوستان کی اسلامی حکومت کے انتظامات کے متعلق بھی عجیب معلومات دیکھیں گے۔

اب رہا خالص ہندوستانی فریق، جو ہندوی، ہندی، اور ہندوستانی ہی کے مواد پر مشتمل ہے۔ میں اس سے ایک کتاب "مہر و ماہ" لے کر آپ کو سناؤں گا۔ یہ ایک تاریخی افسانہ ہے جس میں آپ مختلف نسلوں کی قوموں کے متعلق مفید اور پر از معلومات تفصیل پائیں گے جو جدید اور انوکھے استعاروں سے اور پرلطف ہو گئی ہے۔ مثلاً اس میں ایک شادی کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے: "برات کی تیاریاں جلد از جلد کی گئیں۔ جھٹ پٹ ہر چیز قرینے سے لگ گئی تقریب ٹھیک وقت پر شروع ہوئی اور باجے نے اس کے آغاز کا اعلان کیا۔ چنانچہ آلات موسیقی کی دور سے صدا آنے لگی۔ خود فضا بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس سے گونج گئی۔ ہر طرف خوشی کی چہل پہل تھی۔ باجے کی سریلی آواز میں ہر طرف قہقہوں کا امتزاج ہو رہا تھا۔ درخت مسرت پھلنے اور گل بہار پھولنے لگا۔ مہندی کے دانوں کو جلا کر دھونی دی گئی تاکہ بھوت پریت اور نحوست دور ہو، اور اس کا دھواں کیا اٹھا کہ آسمان تک پہنچ گیا۔ ساری کائنات اس مسرت میں شریک نظر آتی تھی اور اس کے دل کی کلیاں کھل گئی تھیں۔ پودوں پر کلیوں کا نام نہ تھا، ساری ہی بوٹیاں کھل گئی تھیں۔ جن آوازوں کی صدا آ رہی تھی، ان میں ایک سے ایک سریلی تھی۔ کہیں نۓ، کہیں چنگ، کہیں طبل تو کہیں رباب سنائی دے رہی تھی، ان سے جن ہوں کہ انسان، سب پر سکتہ سا طاری ہو گیا تھا۔ ناچ کا تماشا کرانے کے لیے کنچنیں بلائی گئی تھیں یہ سروقد نازنینیں عجب نزاکت سے اپنا قدم دھرتیں، اور ایک پاؤں کی پنڈلی پر کچھ اس طرح چکر لگاتیں کہ سبک خرامی حیرت میں ڈال دیتی تھی۔ اور کنکھیاں بھی ایسی مارتیں کہ بجلی کی سی تاثیر پیدا ہو جاتی۔ اس اثنا میں مہر گھوڑے پر سوار ہوا تاکہ دلہن کے ہاں جائے۔ یہ اسپ راہوار جب سرپٹ دوڑا تو ٹاپوں سے ایسی گرج پیدا ہوئی کہ قیامت آنے گمان ہونے لگا۔ یہ اسپ صبا رفتار ہوا سے باتیں کرتا تھا۔ آہنی نعلین تھیں کہ ہلال کی طرح مسلسل نظر کے سامنے تھیں۔ شہزادے کے ساتھ اس کے ساتھی تھے جو جلو میں چل رہے تھے ان کا حسن کیا کہنا، غلمان جنت معلوم ہوتے تھے۔ شام کو زردوز لباس میں ملبوس سب ہی تقریب کے لیے تیار تھے۔ لاتعداد مشعلیں تاریکی کو رخصت کر رہی تھیں در و دیوار پر آئینوں کا دھوکا ہو رہا تھا، یہ مشعلیں کیا تھیں، گلنار تھیں، بلکہ کوکب ہائے درخشاں، آتش بازی سے رات تھی کہ دن بنی جا رہی تھی۔ کاغذی پھول ہوا میں اڑائے جا رہے تھے، جو فرنگیوں کی طرح تتر بتر ہو کر اڑتے پھرتے تھے۔ پھر جب ایک پہر رات گزر گئی تو ماہ ایک جلوسی گھوڑے پر سوار ہوئی، جو شیریں کے گھوڑے کے مماثل تھا۔ اس کا چہرہ ایک نقاب میں اسی طرح ڈھکا ہوا تھا جس طرح سطح آب پر چاند کی کرنیں۔ شہزادہ دلہن کے مکان کی طرف بڑھ رہا تھا اور جدھر سے گزر رہا تھا راستے پر زر پاشی کرتا جا رہا تھا طبل کیا بج رہا تھا کہ بادل کی گرج میں بھی اس کے سامنے تھرتھری پیدا ہو جاتی تھی۔ نفیری کی آواز تھی جو حور و ملائک کے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔ آخر دونوں جلوس یکجا ہوئے، اور سب ماہ کے محل پر پہنچے اور اندر داخل ہوئے۔ وہاں ضیافت کا سامان تھا۔ نئے سرے سے ناچ شروع ہوا، ساغر چھلکنے لگے اور گردش میں آئے۔ وہاں فرنگستان کا سماں تھا۔ مۓ ناب پیالوں میں کچھ ایسی چمکنے لگی کہ آفتاب کو بھی جلن ہونے لگی۔ تقریب فجر تک چلتی رہی۔ جب رات ختم ہوئی اور صبح کی آمد آمد ہوئی تو فرائض و لوازم انجام پائے دلہن نے ایک نیا زردوز جوڑا زیب تن کیا۔ کانوں پر اوپر سے نیچے تک زیور آویزاں کیے اور ناک میں ایک دلربا نتھ ڈالی، گلے میں موتیوں کا ایک ہار ڈالا جو کہکشاں کو مات کر رہا تھا۔ بازوؤں میں وہ زرین زیور پہنے کہ قلم ان کے حسن نگارش سے عاجز ہے۔ کلائیوں میں جڑاؤ کنگن ڈالے جس کی چمک سے دور دور تک آنکھیں خیرہ ہو رہی تھیں۔ انگلیوں میں حسین سے حسین انگوٹھیاں اور پاؤں میں خلخال و پازیب۔ اس نے ایک پان چبایا جس سے ہونٹوں کی قدرتی سرخی اور بھی بڑھ گئی۔ چشم فلک نے آج تک ایسی دلہن نہ دیکھی ہو گی۔ وہ شمع تو اس کے جلو میں چلنے والی سہیلیاں پروانہ بنی ہوئی تھیں۔"

آخر میں آپ کو کلجگ (سیاہ دور) کا شاعرانہ بیان سناؤں گا۔ کلجگ وہی ہے جسے یونانی دیومالا میں لوہ جگ (لوہے کا زمانہ) کہتے ہیں۔ یہ نظم ہو بہو انگریزی شاعر ڈرایڈن کی نظم سے ملتی ہے۔ اس نے بھی اسی مضمون پر طبع آزمائی کی ہے۔

ان میں سے اکثر تالیفات نظم میں ہیں۔ لیکن آپ یہ خیال نہ فرمائیں کہ چونکہ یہ کتابیں نظم میں ہیں تو نثر مشکل سے ہوں گی۔ یہ بات نہیں ہے۔ اگرچہ نظم میں زبان کی ساخت اور ترکیب کے معمولی قواعد کی پابندی نہیں کی جاتی اور بعض اوقات ایسی ترکیبیں آ جاتی ہیں جو مصنوعی اور خلاف روزمرہ معلوم ہوتی ہیں یا نثر کے مقابلے میں اس کی تشبیہات و استعارات زیادہ مبالغہ آمیز ہوتے ہیں، تاہم نظم میں ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں صاف طور سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ مطلب یہاں ختم ہوتا ہے۔ کیونکہ نظم میں مطلب گڈمڈ نہیں ہونے پاتا اور ایک جگہ سے پھاند کر دوسری جگہ نہیں پہنچ جاتا۔ اکثر تو یہ ہوتا ہے کہ مطلب ایک ہی شعر میں ختم ہو جاتا ہے اور کسی حالت میں ایسا نہیں ہوتا کہ دو یا تین شعروں سے آگے نکل جائے۔ جس طرح ہندوستانی کے لکھنے کے دو طریقے ہیں، ایک فارسی حروف میں اسلامی ہندوستانی کے لیے اور دوسرا دیوناگری میں ہندوی ہندوستانی کے لیے۔ اسی طرح عروض بھی دو ہیں، یعنی شعر کی تقطیع کے بھی دو طریقے ہیں۔ ہندوستانی کی اردو اور دکھنی شاخوں کے لیے عربی عروض کا استعمال کیا جاتا ہے (البتہ زبانوں کے فرق کی وجہ سے اس میں مناسب تغیر و تبدل کر لیا گیا ہے) اور ہندی کے لیے سنسکرت عروض کو سہل بنا کر استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، عرب شعر کو خیمہ کے مثل سمجھتے تھے، اور یہی وجہ ہے کہ اس کا نام عربی میں بیت ہے، جس کے معنی خیمہ کے ہیں اور بعد ازاں گھر کے ہو گئے۔ خیمہ میں دو دروازے ہوتے ہیں ان دروازوں کو مصرع کہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ شعر کے دو ٹکڑے مصرعے کہلاتے ہیں۔ خیمہ تھموں (ارکان) پر کھڑا ہوتا ہے۔ یہ شعر کے مختلف اجزا کا نام ہے۔ جن میں دس اصل ہیں اور بہتر فروع۔ خیمہ کا اندرونی حصہ اوٹ (فاصلہ) سے الگ الگ کر لیا جاتا ہے اور خیمہ کھونٹیوں (وتد) اور رسیوں (سبب) سے باندھا جاتا ہے۔ یہ وہ نام ہیں جو کسی بیت کے ان چھ بڑے یا چھوٹے اجزا کو دیا جاتا ہے۔ جن میں وزن و تقطیع کے لیے بیت کو تقسیم کیا جاتا ہے۔ منظوم کلام کی ترکیب جن بنیادی اور ثانوی یا فرعی اجزاء سے ہوتی ہے، ان کی الٹ پھیر سے بے شمار بحریں پیدا ہو گئی ہیں۔ لیکن اردو اور دکھنی میں بہ مشکل بیس استعمال کی جاتی ہیں۔ اشعار ہمیشہ مقفیٰ ہوتے ہیں، اگر قافیہ ہر مصرع میں پایا جائے (جیسے مثنوی میں) تو قافیہ ہر بیت میں بدل جاتا ہے اور اگر قافیہ بیت کے صرف آخر میں آئے تو تمام نظم میں وہی رہے گا۔

ہندو طریقہ زیادہ سادہ ہے۔ اس میں اوتاد (Syllable) کا خیال رکھا جاتا ہے خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے۔ جیسا انگریزی میں ہے اور بعض اوقات جیسا انگریزی میں ہوتا ہے ضرورت شعری کے لیے بولوں (اوتاد) کو مختصر کر کے ایک کر دیتے ہیں یا کبھی اس کے برعکس کرنا پڑتا ہے۔ اسے "ماترا" کہتے ہیں، سنسکرت میں بھی اس کا یہی نام ہے۔

مسلمانوں کی شاخ (اردو) ہی کی طرح ہندوؤں کی (ہندی) میں بھی نظم مقفیٰ ہوتی ہے البتہ ہمیشہ دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ ہندی میں چوپائی کا بہت رواج ہے جو سنسکرت کے اشلوک سے بہت ملتی جلتی ہے اور اس کے ہر مصرع میں آٹھ بول (وتد) ہوتے ہیں۔ "دہرہ" عربی کے "فرد" یعنی منفرد بیت کے مماثل ہے، اس کے ہر مصرع میں بارہ سے چودہ بول (وتد) تک ہوتے ہیں۔ حضرات! میں مطالعہ کے دوران میں اس کا خیال رکھوں گا کہ آپ کو اوزان بتاتا جاؤں اور جن اصول کا بیان آپ کے سامنے کیا گیا ہے ان کے مطابق تقطیع کرتا جاؤں۔

جس زبان کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ واقعی طور پر زندہ زبان ہے۔ کیونکہ جس وقت ہم پیرس میں وہ کتابیں پڑھ رہے ہوں گے، جن کا نام میں نے لیا ہے۔ اس وقت ہندوستان میں سینکڑوں مطبوعات شائع ہو رہی ہوں گی۔ یورپ میں بیٹھ کر انسان ہندی اور ہندوستانی کتابوں، پمفلٹوں، اور وقتی رسالوں اور اخباروں کی تعداد کا جو ہندوستان میں شائع ہوتے ہیں صحیح اندازہ نہیں کر سکتا۔

گزشتہ سال میں نے آپ سے بیان کیا تھا کہ صوبہ ہائے شمالی و مغربی میں جسے سرکا انگریزی ایک بڑا صوبہ بنانے والی ہے اور جس کا دارالحکومت لاہور ہو گا اور جہاں کی زبان صرف ہندوستانی ہے، جنوری 1850ء میں 23 سنگی طابع تھے جن میں ہندوستانی کتابیں چھپتی تھیں۔ گزشتہ سال ہی لاہور میں ایک اور مطبع قائم ہوا۔ گویا اس سال یکم جنوری کو مطبعوں کی تعداد چوبیس ہو گئی، یعنی سات آگرہ میں، پانچ دہلی میں، پانچ میرٹھ میں، دو لاہور میں، چار بنارس میں، ایک بریلی میں، ایک کانپور میں، ایک شملے میں، اور ایک اندور میں۔ لیکن ہندوستان کا یہی ایک حصہ نہیں ہے جہاں ہندوستانی کتابیں اور رسالے چھپتے اور شائع ہوتے ہیں۔ اس قسم کے مطبعے مدراس، بمبئی، کلکتہ کے تین موجودہ احاطوں کے دارالحکومتوں میں نیز بہت سے دوسرے شہروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ صرف ایک لکھنؤ ہی میں تیرہ ہیں جو مصروف بہ کار ہیں۔ چند ہی روز ہوئے میرے پاس ہندوستانی کتابوں کی ایک مفصل فہرست پہنچی ہے۔ اس میں بہت سی کتابیں ہیں اور ہر قسم کی ہیں۔ کچھ جدید تصنیفات ہیں اور کچھ ترجمے۔ یہ سب کتابیں 1850ء میں صوبہ ہائے شمالی و مغربی میں شائع ہوئی ہیں۔

حضرات! میں ان میں سے چند کتابوں کے نام پیش کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ آپ ان کا ذکر فلسفیانہ یا ادبی دلچسپی کی وجہ سے شوق سے سنیں گے۔ علاوہ دوسری کتابوں کے قرآن شریف کے متعدد ایڈیشن عربی اور اردو میں شائع ہوئے ہیں۔ جن میں سے ایک اٹھارہ ورقی فارموں پر چھپا ہے۔ ایک نعت جس میں محمد رسول اللہ صلعم کے معجزات کا ذکر ہے۔ فرقۂ وہابی پر ایک رسالہ، کئی رسالے ہندوؤں کے بدعقیدہ فرقہ جین پر ہندی میں چھپے ہیں۔ آگرے کے نظیر (اکبرآبادی) کی نظموں کا مجموعہ بھی چھپا ہے۔ ان کا حال ہی میں انتقال ہوا۔ اور ہندوستان میں بہ حیثیت شاعر کے ان کی بڑی شہرت اور عزت تھی۔ مشہور صوفی علی حزیں کی سوانحعمری، جو علاوہ اور باتوں کے بعض بہت دلچسپ کتابوں کے مصنف بھی تھے جن کا ترجمہ انگریزی میں بھی ہو چکا ہے۔ تاریخ پنجاب مصنفہ دیبی پرشاد ساکن بنارس، تاریخ خاندان سندھیا مصنفۂ دھرم نرائن ساکن اندور، ایک قصہ نظم میں جس کا نام "لختِ جگر" ہے بال مکند سکندر آباد کے رہنے والے نے لکھا ہے۔ اگرچہ یہ شخص ہندو ہے جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے مکر اس نے یہ تصنیف اردو میں کی ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ یہ اردو وہی ہے جو شمال میں 'مسلمانوں کی ہندوستانی' ہے۔ ہندوستانی ادب کے شعبوں میں سب سے مقدم شاعری ہے اور اسے بڑی کامیابی اور ذوق و شوق کے ساتھ ترقی دینے کا سلسلہ جاری ہے اور اس مقدس آگ کو خاص و عام ادبی جلسوں کے ذریعہ سے جن کا نام شاعرہ ہے، زندہ رکھا جاتا ہے۔ ہندوستانیوں میں اس قسم کے ادبی جلسوں کا خاص ذوق ہے یہاں تک کہ اور اصحاب ذوق Amateurs شوقیہ طور پر معینہ ایام میں عموماً پندرہ روز میں ایک بار اپنے گھروں پر شام کے وقت ایسے جلسے کرتے ہیں، جس شخص کے مکان پر یہ جلسہ ہوتا ہے وہی میر مشاعرہ بھی ہوتا ہے۔ وہ شہر کے ان تمام اصحاب کو جو شعر کا ملکہ رکھتے ہیں دعوت دیتا ہے اور ان سے درخواست کرتا ہے کہ اس موقع کے لیے فلاں بحر میں (مصرع طرح پر) شعر کہنے کی زحمت فرمائیں۔

اس وقت کے نہایت مشہور زندہ شاعروں میں دو بادشاہ بھی ہیں۔ ایک شہنشاہ دہلی دوسرے بادشاہ اودھ۔ سابق ہندوستان کے مسلمان بادشاہ اور فرمانروا فارسی ہی بولتے اور فارسی ہی لکھتے تھے اور معمولی (بول چال کی) زبان کو حقیر سمجھتے تھے لیکن آج وہ رعایا کی تقلید میں اپنے خیالات کے اظہار کے لیے خواہ تحریر میں ہوں یا تقریر میں، ہندوستانی زبان استعمال کرتے ہیں۔

حضرات! ان دو بادشاہ شاعروں میں سے پہلے بہادر شاہ ثانی ہیں جو شاہ عالم کے پوتے ہیں جن کا ہندوستانی شعراء میں شمار ہوتا تھا۔ بادشاہ کے بیٹے شاہزادۂ دارا بھی بہت اچھے شاعر ہیں۔ بادشاہ کا تخلص ظفر ہے اور جب ان کا ذکر شاعر کی حیثیت سے ہوتا ہے تو اسی نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ دوسرے واجد علی شاہ ہیں۔ ان کا تخلص اختر ہے۔ وہ صرف شاعر ہی نہیں، موسیقی میں بھی ماہر ہیں۔ جو غزلیں لکھتے ہیں ان کے راگ راگنیاں بھی وہ خود ہی تجویز کرتے ہیں ان دونوں بادشاہ شاعروں کا کلام ہندوستان میں بہت مقبول ہے۔ اور جو کلام میں نے ان کا پڑھا ہے، اگر انصاف سے دیکھا جائے تو وہ اس کے مستحق ہیں ان کے حق میں کسی بڑے مبالغے کے بغیر عربی کی یہ مثل بالکل صادق آتی ہے "کلام الملوک ملوک الکلام"۔

رجوع بہ: خطبات گارساں دتاسی