دوست جب دل سا آشنا ہی نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دوست جب دل سا آشنا ہی نہیں
by عیش دہلوی

دوست جب دل سا آشنا ہی نہیں
اب ہمیں غیر کا گلہ ہی نہیں

جس کا دل درد آشنا ہی نہیں
اس کے جینے کا کچھ مزا ہی نہیں

ایک دم ہم سے وہ جدا ہی نہیں
گر جدا ہو تو وہ خدا ہی نہیں

آشنائی پہ اس کی مت جانا
لے کے دل پھر وہ آشنا ہی نہیں

خاک چھانی جہان کی لیکن
دل گم گشتہ کا پتا ہی نہیں

لاکھ معشوق ہیں جہاں میں مگر
آہ وہ ناز وہ ادا ہی نہیں

سعی بے فائدہ ہے چارہ گرو
مرض عشق کی دوا ہی نہیں

درد دل ان سے ہم کہا ہی کیے
پر انہوں نے کبھی سنا ہی نہیں

سر پھراتا ہے کیوں عبث ناصح
میرا کہنے میں دل رہا ہی نہیں

اب وہ آئے تو آئیں کیا حاصل
طاقت عرض مدعا ہی نہیں

میں تو کیا گوش چرخ نے بھی عیشؔ
ایسا بیداد گر سنا ہی نہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.