دلی کی گلیاں اور قلعہ معلی کا عجائب خانہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

دلّی کی گلیاں


خواجہ نصیر دہلوی کو راجا چندو لال نے کئی دفعہ حیدرآباد دکن بلایا، زاد راہ کے واسطے جو رقم وہاں سے آتی خواجہ صاحب دہلی سے دو ایک منزل نکل کر خرچ کر ڈالتے۔ پھر منگاتے، راجا چندو لال غایت قدردانی سے خرچ ہمیشہ بھیج دیا کرتے، آخر کو حیدرآباد پہنچے تو سہی، مگر جناب امیر و داغ کی طرح جاں بر نہ ہوئے۔ دکن کی قدردانی پر استاد ذوق کو بھی خیال آیا مگر یہ کہہ کر رہ گئے:

ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدرِ سخن

کون جائے ذوقؔ پر دلّی کی گلیاں چھوڑ کر

اسی سے یہ سرخی میں نے اس مضمون کی تمہید کے لیے پسند کی جو دلی کی قدیم گلیوں کی تحقیق میں شاہجہاں آباد دہلی کے نام سے صلائے عام میں شائع ہورہا ہے۔

دلّی والے دلی پر اس طرح مرتے ہیں جس طرح لیلیٰ مجنوں پر کہ لیلیٰ نے مجنوں پر جان دے دی، ماں بچے پر کہ بچے کے لیے ماں جان دینے میں تامّل نہیں کرتی، مچھلی پانی پر کہ مچھلی پانی بغیر رہ نہیں سکتی۔ دلی والوں کے لیے دلی کی فصیل کے اندر پیدا ہوجانا ایک خاص فضیلت رکھتا ہے جو اور کسی شہر کو نصیب نہیں۔ قدیم وضع کے لوگوں نے ازروئے شہریت (اگر شہر سے شہریت بنا لینا ناجائز نہ ہو) دلّی کو تمام شہروں سے ترجیح دی ہے۔ دلی والوں کے روزمرہ میں کسی کو باہر والا کہہ دینا حقارت کا لفظ ہے، کسی سے کوئی ناموزوں حرکت ہو جائے تو دلی والے یہ کہہ کے چپ ہو جاتے ہیں کہ “باہر والے ہیں جانے دو”، گویا دلی سے باہر آدمیت کی امید رکھنی غلط ہے۔ برخلاف اس کے مجھے علامہ ابو ریحان محمد کے لقب کا خیال آیا جو البیرونی کے نام سے مشہور ہے۔ یہ شخص یوں تو خوارزم کا باشندہ تھا لیکن شہر خوارزم کے اندر نہیں پیدا ہوا، نواحِ شہر میں پیدا ہوا، اس لیے بیرونئ شہر مشہور ہوا۔ البیرونی عربی ترکیب ہے فارسی میں بیرونی یا البیرونی کے معنی باہر والا، ابو ریحان کے لیے البیرونی امتیاز کا لفظ سمجھا جاتا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ دلی والے دلی پر جس قدر ناز کریں زیب دیتا ہے، دلی والوں کے لیے دلی ان کی زندگی کا جزوِ اعظم ہے، دلی بغیر انہیں چین نہیں نہ دلی کو ان کے بغیر چین ہے۔ دلی والے دلی میں تھوڑی بہت گزارے کی صورت بھی باہر کی دولت مندی سے بہتر سمجھتے ہیں، ان کے لیے گندی گلی کوئے جاناں سے اچھی اور گندا نالا فرہاد کی جوئے شیر سے بہتر۔ یہاں کے بازار، بازارِ مصر سے بڑھ کر معرکے دیکھ چکے ہیں کہ مصر کی گرمئ بازار حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے سے ہے، یہاں کے بازاروں نے نادر و احمد شاہ درّانی کے قتل عام دیکھے۔ وہاں کا ایک قصہ زلیخا کا مشہور ہے، یہاں کے معرکوں سے تاریخیں بھری پڑی ہیں۔ عاشقانِ خونیں کفن کی طرح یہاں کے گلی کوچے خدا جانے کتنی بار خون میں نہا چکے، ایک ایک گلی نے وہ انقلاب دیکھے جو گردشِ دوراں کو نصیب نہیں۔ یہاں کی صحبتیں نیرنگِ روزگار کا جواب ہوئی ہیں۔ یہاں کے سال و ماہ ملکوں کی صدیوں اور قرنوں سے عروج و اقبال میں بازی لے گئے۔ سمندر کی طرح جس قدر طوفان و آندھیاں اٹھیں، سطح آب کی طرح اوپر اوپر گزر گئیں، سمندر کی تہہ کو خبر نہ ہوئی۔ دلی کی قدر واقعی دلی والوں ہی کو ہے، یہاں غریب کو وہ آرام ہے جو دوسری جگہ امیر کو میسر نہیں۔ جس شہر میں جو چیز پیدا ہوگی دلی میں ضرور آئے گی، جہاں کی جو چیز ہے اگر وہاں نہ ملے دلی میں ضرور ملے گی۔ نواب علاء الدین خاں بہادر رئیس لوہارو ایک دن کا ذکر کرتے تھے کہ رام پور میں نواب کلب علی خاں بہادر کے دربار میں نارنگیوں کی ضرورت ہوئی، نارنگیوں کا موسم نکل چکا تھا، سب جگہ تلاش ہوئی کہیں نہ ملی۔ نواب علاء الدین خاں بہادر کی زبان سے نکلا کہ یہ بات دلی والوں کو میسر ہے کہ جو نعمت امیروں کو میسر نہیں دلی کے غریبوں کو نصیب ہے، اس پر سب کو تعجب ہوا۔ ہندوستان کے اور مشہور مقاموں سے جہاں نارنگیوں کا ملنا ممکن سمجھا گیا تھا تار بھیج کر دریافت ہو چکا تھا کہ نارنگیوں کا پتا نہیں۔ دلی میں تلاش ہوئی تو معمولی حیثیت کے ایک بھلے آدمی نارنگیاں لیے جا رہے تھے، انہوں نے پتا دیا کہ اس بازار میں فلانی جگہ سے نارنگیاں لے آئیے۔غرض یہ شہر عجیب و غریب ہے، اس کی تحقیق جس قدر ہو سکے کرنی چاہیے، شاہی عمارات کی طرف سے تو اچھی تحقیق ہوئی اور ہو رہی ہے؛ اس کے گلی کوچوں کا حال بھی لطف سے خالی نہیں۔


شاہجہاں آباد۔ دہلی

مزاج یار کی طرح اس شہر نے بھی عجیب عجیب رنگ بدلے، ایک رنگ سے دوسرے رنگ میں آنے تک جو صورتیں بدلتی رہیں ان کا حال بسانِ رنگِ رخِ عاشقاں کبھی کچھ رہا اور کبھی کچھ کہ ؏

ایک رنگ آتا تھا ایک جاتا تھا

یار کے عروج حسن میں جس طرح روز بروز کیا سے کیا فروغ نمایاں ہوتا ہے، اسی طرح چاہنے والوں کی ناتوانی سے ان کا پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے ؏

نہ من شناختم او را نہ او شناخت مُرا

کا معاملہ سمجھیے۔ یہی حال بعینہ اس شہر کا ہے کہ اس کا نقشہ طرح طرح کے رنگ بدلتا رہا۔

تاریخوں میں بادشاہوں کی لڑائیوں کے حال، ایک خاندان سے دوسرے خاندان میں ملک و اقبال کے عروج و زوال، ان کے انتظامِ سلطنت کے کارنامے، ملک کے محاصل و ضوابط کے تذکرے اکثر کتابوں میں درج ہیں، مگر اس شہر کی صورت کہ اس کے گلی کوچوں نے، اس کی عمارتوں اور مکانوں نے اور در و دیوار نے جو جو انقلاب دیکھے، ان کی تفصیل بہت کم دیکھنے میں آئی۔

مدت سے مجھے اس تحقیق کی تلاش ہے، مگر اس کا مسالا ہاتھ نہیں آتا۔ جس قدر میں دریافت کر سکا اس کو وقتاً فوقتاً عرض کیا چاہتا ہوں کہ جن کی معلومات مجھ سے زیادہ ہے وہ میری اور اپنی تحقیق کے نتیجے جمع کر کے اس شہر کے قدیم گلی کوچوں اور مشہور مکانوں کی تاریخ یادگار کے طور پر لکھ ڈالیں۔شاہ جہاں آباد کے قدیم گلی کوچوں اور پرانی حویلیوں اور مشہور مکانوں کی تاریخ جس قدر جلدی لکھی جا سکے اچھا ہے کہ اگلے مقامات اور اگلے لوگ اب روز بروز مٹتے جاتے ہیں۔ دلی کے گلی کوچوں میں پرانی حویلیوں اور عمارتوں میں بہت فرق آ گیا جس کا پہچاننا بھی مشکل ہے۔

یہی جگہ شاہ جہاں کا مرکز سمجھی گئی۔

مرزا سنگین بیگ نے سیر المنازل میں جو جناب مٹکاف صاحب بہادر رزیڈنٹ دہلی کے لئے لکھی گئی، لکھتے ہیں کہ جامع مسجد کے شرقی دروازے کی سیڑھیوں پر شام کو گزری بازار لگتا ہے جہاں کبوتر اور لال وغیرہ چڑیاں ہر موسم میں فروخت ہوتی ہیں (یہ بات اس وقت بھی جاری ہے)، دکھن کی سیڑھیوں کی طرف بزاز کپڑا فروخت کرتے ہیں (اس وقت بزاز شرقی دروازے کے نیچے شام کو دکانیں لگاتے ہیں)۔ شمالی طرف کی سیڑھیوں پر قصہ خواں شام کو قصہ خوانی کرتے ہیں اور سننے والوں سے اجرت کے طور پر کچھ وصول ہو جاتا ہے (یہ بات اب نہیں رہی، نہ قصہ خواں ہیں نہ قصہ خوانی ہے)۔ جنوبی دروازے کی طرف پہر دن سے پرانی کتابیں اور ہتھیار بکنے آتے ہیں اور مسجد کی پشت پر دال والوں اور غلّے والوں کی دکانیں ہیں (یہ دکانیں اب بھی موجود ہیں)، اسی رخ کے سامنے چاوڑی بازار ہے جس کے بارے میں راسخ کا شعر ہے:

چاوڑی قاف ہے یا خُلد بریں ہے راسخ

جمگھٹے حوروں کے پریوں کے پرے رہتے ہیں

جامع مسجد کے ایک سمت شاہجہاں نے مسافروں اور طالب علموں کے علاج معالجے کے لیے شفا خانہ تعمیر کرایا تھا جس کا نام دارالشفا تھا۔ اس کے مقابلے میں دارالبقا نامی دوسرا مکان تھا، یہاں محتاجوں اور مسکینوں کو بادشاہ کی طرف سے خیرات تقسیم ہوتی تھی۔ ١٨١٧؁ء میں دارالشفا نامی مکان میں مرشد زادہ مرزا منعم بخت سکونت پذیر تھے، اسی طرح دارالبقا والے مکان میں بھی اور لوگوں کی سکونت تھی (یہ دونوں عمارتیں جس غرض سے بنی تھیں اس غرض سے عرصہ ہوا خارج ہو چکیں)۔ اس کے آگے نواب بہادر علی خاں کی حویلی تھی اور چھتہ شاہ نظام الدین کے دروازے کا راستہ تھا اور انہی دونوں کے مکانات تھے۔ ان کے مقابل میں جنوب کی طرف چتلہ دروازہ تھا جس میں نامور رئیسوں کے مکان تھے، یہ جگہ گڑھیا کے نام سے بھی مشہور تھی۔ اس کے بائیں ہاتھ کو امام کے کوچے کو راستہ جاتا تھا۔ اس کوچے میں اکبر بادشاہ کے ماموں میر جھبّو کی حویلیاں تھیں اور میاں عبدالمجید اور احسن وغیرہ کی حویلیاں تھیں۔

چتلہ دروازے چاوڑی بازار میں شاہ بولا کا بڑ قدیم الایام سے مشہور ہے، شاہجہاں کے عہد سے شاہ بولا درویش کی قبر اُسی بڑ کے درخت کے نیچے ہے۔ اس کے متصل کوچہ محلہ روشن پورہ اور نواب محمد میر خاں بن شاہ نظام الدین کا اصطبل اور کوچہ نائی واڑہ ہے۔

روشن پورہ کے سامنے بتاشے والوں کا کوچہ اور چرخے والوں کا کوچہ اور کسیروں کی دکانیں ہیں۔ بازار کے بیچ میں کھاری کنواں ہیں اور نئے بازار کے مقابل میں کوچہ حمام سیتل داس ہے جہاں راجا کِدار ناتھ کی حویلی ہے، یہیں گاڑی بانوں کا کڑہ ہے جہاں سے چوڑی گروں کے محلے کو راہ جاتی ہے۔

کھاری کنویں سے آگے کوچہ چنّی بیگم اور کوچہ مکانات حکیم بقا اور پیپل مہادیو واقع ہیں، ان کے مقابل دکھن رخ کو کوچہ سیدی مرجاں ہے جس کو عوام غلطی سے کوچہ مُرغاں کہتے ہیں۔

اس کے آگے وسط بازار میں قاضی کا حوض ہے جو ان دنوں بند پڑا ہے (یہ حوض میں نے کھلا دیکھا تھا اب پھر بند ہو کر اس پر دکانیں مارکیٹ کے طور پر بنادی گئی ہیں)۔ قاضی کے حوض سے چاروں طرف کو راستہ جاتا ہے۔ شمال کو سرکی والوں کی دکانیں ہیں اور راجا سیڈہمل و نواب تزک جنگ و بدل بیگ خاں وغیرہ کی حویلیوں کو راستہ جاتا ہے۔ یہاں رجنا بیگم کی حویلی کے دروازے پر مکان پولیس ہے جو “گزر الہ آباد” کے نام سے مشہور ہے اور کوچہ شاہ تارا بھی اسی سمت ہے۔

کوچہ شاہ تارا کے مقابل میں نواب قمرالدین خاں کی حویلی ہے جو محمد شاہ بادشاہ کے وزیر تھے۔ ان دنوں اس میں شہر کے اور لوگ بستے ہیں۔

اس کے آگے بڑھ کر جوتے والوں کا بازار ہے جس کے سامنے محلہ جاٹاں ہے۔ اس سے آگے اجمیری دروازے کے قریب خلیل اللہ خاں کی مسجد بنی ہوئی ہے، اس پر یہ تاریخ کندہ ہے:

تاریخ مسجد

حبَّذا مسجدے کہ شُد زشرف سجدہ گاہِ گدا و شاہنشاہ شد بنایش اراد عالمگیر بطفیل نبی رسول اللہ گفت تاریخ ایں حرم ہاتف کرد کعبہ بِنا خلیل اللہ

حوض قاضی کے اتّر طرف سرکی والوں کی دکانوں سے آگے ریوڑی فروش کی دکان مشہور ہے اور راجا سیڈہمل کی حویلی کے متصل کوچہ مکانات جے سنگھ رائے ہے اور صوفی اللہ یار خاں بن طہماسپ خاں رومی کا مکان ہے۔ صوفی اللہ یار خاں اکبر شاہ بادشاہ کی سرکار کے میر تزک تھے۔ یہیں اور رئیسوں کی بھی حویلیاں ہیں۔

اس کے آگے تزک جنگ کی حویلی ہے، یہیں عبدالرحمان خاں کی بھی حویلی ہے جو مرشد زادہ مرزا نیلی کی سرکار کے مختار تھے اور مرزا نیلی اکبر شاہ بادشاہ کے بھائی تھے۔

اسی کے متصل مسماۃ نجبا طوائف کا مکان ہے کہ عشرہ محرم میں دیو کی شکل تیار کرا کر دروازے کے آگے کھڑا کرتی تھی، اس وجہ سے نجبا طوائف کی شہرت ہوگئی۔ اس بازار میں ٹھٹھیرے اور دیگر اہل حرفہ کی بھی دکانیں ہیں۔ اس کے آگے شادل خاں کی حویلی ہے جس میں آج کل مرزا مغل بیگ خاں عرب رہتے ہیں۔ اس سے آگے مکان خواجہ نور اللہ خاں اور کوچہ پنڈت ہے، یہیں پسند خاں وسربلند خاں رسالدار شاہی کی حویلیاں ہیں، ان کے علاوہ یہاں مرزا مینا بیگ وکیل راؤ راجا کی بھی حویلی ہے اور دیگر رئیس واہل حرفہ کے مکانات ہیں۔ پنڈت کے کوچے کے دروازے کے سامنے میرجان صاحب کا مکان و مسجد ہے، علاوہ اس کے چوڑی گروں کی دکانیں اور ہیجڑوں کا کڑا اور محلہ سبزچاہ اور دنیہ بیگ خاں کا کڑہ اور مسجد بھی یہیں ہے، مسجد پر یہ تاریخ کندہ ہے:

تاریخ

بکارِ نیک خدا بسکہ داد توفیقش بنا نمود چو باغِ ارم یکے مسجد چنانچہ کعبہ نوشتن سزد تعریفش خط کتابہ او را ببیں کہ میگوید بیا بخانہ دین است سالِ تاریخش

فتح اللہ بیگ خاں کا مکان اور بالا خانہ اور دکانیں بھی اسی جگہ ہیں۔ کوچے کا دروازہ نواب سہراب جنگ قاسم علی خاں کی حویلی کی طرف ہے، اس کے اندر محمد خاں کروڑہ کا مکان و مسجد اور فتح اللہ بیگ خاں بن عارف جان کا مکان ہے، ان کے بیٹے نواب فیض اللہ خاں کی حویلی و دیوان خانے کے علاوہ تیرانداز خاں کا مکان اور نواب احمد بخش کی حویلی ہے۔ قاسم جان کی مسجد بھی اسی جگہ ہے اس کے شمالی پہلو پر یہ تاریخ کندہ ہے:

تاریخ

مسجدِ مثل روضۂ رضواں شد بنایش زدستِ قاسم جان آب شیرین و چاہ چوں زمزم وقف او کردہ چاہ و چار دکاں

٩٦ ١١ ھ

از رفیع خواست چوں زتاریخش گفت سہراب جنگ قاسم جان

اس کوچے کا راستہ فتح اللہ بیگ خاں کے مکان و بالا خانے کے پاس سے کوچہ بلیماراں میں جاتا ہے، قاسم جان کی گلی کا کنواں حال ہی میں اٹوا دیا گیا۔

اس کے آگے خلیفہ بخشو رحمۃ اللہ علیہ و استاد بندہ کی مسجد ہے، کوچہ کھڑکی فراش خانہ بھی اسی جگہ ہے، فراش خانہ آج کل خوب آباد ہے۔ مسلمانوں کے محلوں میں اس کی آبادی سب سے زیادہ ہے (صلائے عام کا دفتر یہیں ہے)۔ میر جملہ وقطب الملک کے مکانات بھی یہیں ہیں، میرزا شرف الدولہ کا مزار بھی اسی جگہ ہے، اس کے نیچے یہ شعر کندہ ہے:

بمددگارئ توفیق خداوند جہاں کہ شد از قدرت او گنبد گردوں گرداں

مکان خواجہ کمہاری صاحب و حویلی کا کواں صاحب ومکان میر کلن صاحب “کمبل پوش” بھی اسی جگہ ہے۔ میر صاحب موصوف درویش صفت اور عامل و کامل شخص ہیں، ان کے بزرگوں نے احمد شاہ درانی کی فوج کا خوب مقابلہ کیا تھا۔

دروازے کے قریب خلیل اللہ خاں کی مسجد اور تیر انداز خاں کا مکان ہے، بازار کے عین وسط میں ایک کنواں ہیں جس کو لال کنواں کہتے ہیں، اس کے متصل اسد خاں کا چوک اور شیخ چاند کا کڑہ ہے۔ میر جملہ کی حویلی اور جائداد اور رعایا بھی اسی جگہ ہے۔ مکان پولیس یعنی تھانہ گزر قاسم جان بھی یہیں ہے۔ ان سب کے علاوہ کوچہ سموسہ میں حکیم ذکاء اللہ خاں اور ان کے رشتے داروں کے مکانات ہیں۔

عبد الرحیم اور فیض اللہ چابک سوار کی حویلی بھی یہیں ہے۔ ناظر لطافت علی خاں خواجہ سرا اور نواب نجف خاں کے مکان کے علاوہ مولوی قطب الدین صاحب ابن حضرت فخر المشائخ فخر عالم جناب فخر الدین رحمۃ اللہ علیہ کا مکان بھی اس کوچے میں ہے۔ میر حامد علی صاحب پٹہ باز (پھکیت) کا مکان بھی یہیں ہے جو اس فن میں استادِ کامل ہیں۔ خال بیگ خاں عرب کا مکان اور کھڑکی فراش خانہ شہر پناہ کا راستہ بھی اس کوچے سے ہے۔ اس کوچے میں گل فروش کی دکان کے علاوہ چابک سواروں اور گھوڑے کے دلالوں کی ایک بیٹھک (نشست) بھی ہے۔

اس سے آگے فتح پوری کی مسجد کی طرف ایک کوچہ ہے، اس کوچے میں گوندنی اور بڑیوں کے کڑوں کے علاوہ کلال خانہ (شراب خانہ) اور رعایا کی حویلیاں ہیں۔ اس سے آگے نواب شہ نواز خاں مختار شاہ عالم بادشاہ کی حویلی ہے اور تہوّر خاں کی مسجد بھی اسی جگہ ہے، مسجد کے دروازے پر یہ کندہ ہے:

ہرکہ آمد زاِرادت بہ یقیں شام و سحر خانہ از غیب ندا داد، بیا فیض بہ بر

مسجد کی سقف بالائی میں یہ کندہ ہے:

١١٤٠

بدورانِ محمد شاہ تہوّر خاں تاشکندی (تشقندی یعنی ساکن تاشقند) بنافرمود مسجد را بتوفيق خداوندی

ہزار ویکصد وچل بود تا شد ایں بنائے خیر بسعئ خاں عالی شاں مرتب شد بخور سندی

اس کے آگے کہاری باوڑی کا کوچہ اور نیا باس ہے، یہاں بھی ایک مسجد ہے۔ باوڑی کے دروازے پر یہ کتبہ کندہ ہے:

یا الله لا اله الا الله محمد رسول الله یا الله

باوڑی کے دروازے کے اندرونی رخ کی طرف چوکھٹ کی پیشانی پر خطِ ثلث میں یہ عبارت کندہ ہے:

“بسم اللہ الرحمن الرحیم وبہٖ تنقنی یارب بعونت تمام شد این باورے وچاہ در ماہ رمضان سنہ نہ صد وپنجاہ وہشت ہجری بروح مصطفیٰ رسول درگاہ حضرۃ الہ در زمانِ عادل اسلام شاہ بن شیر شاہ بنا کردہ کار کردین از جملہ بیشے خواجہ عمادالملک عرف لاذر قریشی بندہ کارکرد باورے امید وار عنایت وبرحمتک کردد بابر سرے بالتسک”۔

(پرانی دلی جو پٹھانوں کے وقت میں تھی اس کی صرف دو عمارتیں شاہ جہاں آباد میں ہیں، ایک کھاری باؤلی، دوسری کالی مسجد)

کھاری باوڑی کی دوسری منزل کی جنوب رویہ دیوار پر گیارہویں سیڑھی کے بعد جنوبی دروں کے قریب سنگ مرمر پر خط ثلث میں یہ کتبہ کندہ ہے:

“بسم اللہ الرحمن الرحیم در عہد و زمان شاہ سلطان السلاطين ومظفر الاسلام شاہ بن شیر شاہ سلطان خلد اللہ ملکہ وسلطانہ بنا کرد این جا بتوفیق اللہ وبروح رسول اللہ ملک عمادالملک عرف خواجہ عبداللہ لاذر قریشی بدادالملک حضرت دہلی فی سنہ اثنی وخمسين وتسعمآت”۔

یہی کتبہ باوڑی کی مغربی دیوار پر بھی شرق رویہ کندہ ہے۔ یہاں بہت سے رئیسوں کی حویلیوں کے علاوہ حلوائیوں کا ایک بازار بھی ہے، یہ حلوائی بتاشے نبات و الائچی دانے کے علاوہ سب قسم کی مٹھائیاں فروخت کرتے ہیں۔

قاضی کے حوض کے جنوب کی طرف سے ترکمان دروازے تک ایک بازار ہے، اس بازار کے دونوں جانب اہل حرفہ کی دکانیں ہیں۔ محلہ املی، کوچہ پاتی رام، بنگلہ حافظ فدا اور نمد گروں کا محلّہ بھی اسی جگہ ہے۔

یہاں سے کوچہ مرجان کو بھی راستہ جاتا ہے، اس کوچے میں زیادہ تر کشمیری پنڈت رہتے ہیں۔ پنڈت نرائن داس اور دیگر کشمیری رئیسوں کے مکان بھی اسی جگہ ہیں۔ کوچے کے سامنے باہر کی طرف چھیپیوں کی دکانیں اور گھوسیوں کے گھر ہیں۔ تحصیلدار گلاب رائے کا مکان اور ماہی داس کا کوچہ اور پنج میراں کا تھان بھی اسی بازار میں ہے (بازار کے عین وسط میں ایک چبوترہ اور پیپل کا درخت ہے جو عام طور پر تھان پنج میراں کہلاتا ہے)۔

اس جگہ ایک اور کوچہ بھی ہے اور اس کا راستہ کوچہ پاتی رام اور فصیل شہر کی طرف جاتا ہے۔ اس کوچے میں زیادہ تر کھٹیک اور چرم ساز بستے ہیں۔ تنسکھ رائے کاغذی کا باغ اور نواب مظفر خاں کا حوض اور مکان اور رعایا اور دیگر اہل حرفہ کے مکان بھی یہاں ہیں۔ ان کے مقابل کشمیریوں کی جائداد کے علاوہ راجا سوہن لعل کا مکان اور بستی رام اور پنڈت سدا سکھ کی حویلی اور سیتارام کا بازار جانی خاں کا کڑہ ہے۔ اس کوچے کے مقابل شاہ جی کا چھتہ اور بہادر جنگ خاں والئ بہادر گڑھ کی حویلی ہے۔ یہاں ایک دورہا ہے جو ایک طرف محلہ چوڑی گراں میں اور دوسری طرف سیتل داس کے حمام اور مرتضی خاں کے طویلے کی جانب جاتا ہے۔ یہاں سے سید فولاد خاں کے بنگلے اور امام کے کوچے کو بھی راستہ جاتا ہے، جانی خاں کے کڑے میں سے ایک تراہا پھٹتا ہے جو ایک طرف کالی مسجد کے پیچھے اور مظفر خاں کے حوض پر پہنچتا ہے، حوض کے نواح میں زیادہ تر ڈفالی اور جلاہے بستے ہیں جو نواب مظفر خاں کی رعایا ہیں۔ دوسری طرف یہ راستہ میر میرزا کی حویلی کو (جس میں اب میں مینڈھو خاں رہتے ہیں) جاتا ہے، یہیں سے میر نقی علی کی مسجد کو راہ جاتی ہے جو حضرت سید حسن رسول نماؒ کے نواسے ہیں اور بھوجلا پہاڑی اور بلبلی خانے کو بھی راہ جاتی ہے۔ اسی جگہ جبار بیگ خاں داروغہ توپ خانہ شاہی کی حویلی اور کشمیریوں کے مکانات ہیں، اب ان کو منشی شیر علی صاحب نے خرید لیا ہے۔ اس محلے کے دروازے کے باہر شاہ حسین صاحب واعظ کی مسجد ہے، مسجد پر یہ شعر کندہ ہے:

٩٤ ١١ ھ

سال و مکان بزرگ ساختہ بازیب وزین مدرسہ و مسجدے کرد بنا شاہ حسین

مسجد کے دروازے کے قریب شاہ جی کا مقبرہ ہے۔

اس کے آگے حسن علی خاں عرف حسنو کی پہاڑی پر حویلیاں ہیں اور میر فتح علی شاہ صاحب کا مزار ہے۔ روشن موچی کا مکان اور معماروں کا چھتہ اور محمد خاں اور حافظ خیراتی کی حویلی بھی یہیں ہے۔ یہاں سے پہاڑی کے دیگر مکانات کی طرف بھی راستہ جاتا ہے۔ تیسرا راستہ میر علی نقی صاحب کے مکان کے پاس سے ترکمان دروازے کے مغرب کی طرف جاتا ہے۔ اس بازار میں جنوب کی طرف کالی مسجد ہے، یہ مسجد شاہ جہاں آباد کی آبادی سے پہلے فیروز شاہ بادشاہ کے عہد میں تعمیر ہوئی، اس میں بتیس سیڑھیاں اور چونتیس گنبد ہیں۔ مسجد کے صحن میں دو قبریں ہیں جن میں سے ایک خان جہاں کی اور دوسری اس کے باپ بانئ مسجد کی ہے، خان جہاں نے اس کی سات منزلیں تعمیر کرا کر اس کا نام کلاں مسجد رکھا تھا لیکن بہت عرصہ گزرنے کے بعد کالی مسجد زباں زد عوام ہوگئی کہ پرانی عمارت ہونے سے سیاہ رنگ ہوگیا۔ مسجد کے دروازے پر یہ کتبہ کندہ ہے:

“بسم اللہ الرحمن الرحیم بفضل عنایت آفریدگار در عہد دولت پادشاہ دین دار الواثق بتائید الرحمن ابوالمظفر فیروز شاہ از سلطان خلداللہ ملکہ و سلطانہ ایں مسجد بنا کردہ بندہ زادہ درگاہ جونانشہ مقبول المخاطب خان جہاں ابن خان جہان خدا برآن رحمت کند، ہرکہ دریں مسجد بیاید بدعائے خیر بادشاہ مسلمانان وایں بندہ را بفاتحہ واخلاص یاد کند حق تعالیٰ آں بندہ را فرزد بحرمۃ النبی وآلہ مسجد مرتب شد بتاریخ دہم ماہ جمادی الآخر تسع و ثمانین وسبعمآت ہجری”۔

اس سے آگے حضرت شمس العارفین ترکمان بیابانی کی درگاہ ہے، جن کی تاریخ وفات ٤ رجب ٦٣٧؁ ہجری بیان کی جاتی ہے۔ در گاہ سے آگے سید نور علی خاں داروغہ توشک خانہ شاہی کے مکانات اور رعایا ہے، یہاں سے نواب مظفر خاں کے حوض کو بھی راستہ جاتا ہے اور اس جگہ ڈکوت برہمن اور غریب لوگ بستے ہیں۔ شہر پناہ کے ترکمان دروازے کے قریب ایک مسجد قدیم ہے۔ مسجد کی پیشانی پر یہ کتبہ کندہ ہے:

“بسم اللہ الرحمن الرحیم لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ بنائے مسجد صالح بن بہادر حسین بدور سلطان عالمگیر ١٩ ؁ہجری”

اس کے مقابل شہرپناہ کا ترکمان دروازہ اور نواب سلیمان خاں کی حویلی ہے جس کو اب میر بھکاری نے نیلام میں خرید لیا ہے۔

جامع مسجد کی جنوبی سیڑھیوں کے نیچے ایک بازار ہے جو دونوں طرف سے آباد ہے۔ بساطیوں اور بانس اور بلی اور ہتھیار بیچنے والوں کی دکانوں کے علاوہ جوتے بیچنے والوں (جفت فروشوں) کی دکانیں بھی اسی بازار میں ہیں۔

اسی بازار میں کشمیری فتح جیو کریم جیو پگڑی بندو پگڑی فروش کی دکان بھی ہے۔ امام جامع مسجد کی جائداد اور کوچہ امام بھی یہیں ہے، امام صاحب اسی کوچے میں رہتے ہیں۔ نواب فیض علی خاں و اکبر علی خاں کے بزرگ نواب نجابت علی خاں و فیض علی خاں کے ملازم شیخ منگلو کی حویلی بھی یہیں ہے، اسی جگہ ٹوکری بنانے والوں کی دکانیں اور دیگر رئیسوں کے مکانات بھی ہیں۔ نواب بہادر خاں دوراں خاں کی حویلی کا کوچہ اور مٹیا محل اور نواب احمد علی خاں محتسب کی حویلی بھی یہیں ہے۔ مٹیا محل کے دروازے کے مقابل کلاں حویلی کا بھی دروازہ ہے، اس سے آگے لالہ زار بیگ کی حویلی ہے جس کو اب مفتی صاحب صدر الصدور مولوی صدر الدین خاں نے خرید کر از سر نو تعمیر کرلیا ہے۔ شیدی فولاد خاں کا بنگلہ بھی یہیں ہے جو محمد شاہ بادشاہ کے وقت میں شہر کا کوتوال تھا۔ بنگلے کا اب کوئی نشان باقی نہیں ہے، اس کی جگہ اور رئیسوں کے مکانات بن گئے ہیں۔ نواب عزیزآبادی بیگم کی حویلی بھی یہیں ہے، بھوجلا پہاڑی کو یہاں سے بھی راستہ جاتا ہے، راستے کے پیچھے فیض اللہ رکاب دار کا مکان اور دیگر رئیسوں کی حویلیاں ہیں۔

اس کے آگے نواب مرتضی خاں کا مکان اور دکانیں ہیں، سید رفاہی صاحب کی مسجد بھی یہیں ہے۔ چتلی قبر کا تراہا بازار یہاں سے شروع ہوتا ہے، شہر کے ترکمان دروازے کی طرف ایک چھوٹا سا سہ درہ ہے جس میں ایک قبر ہے، جس پر پچی کاری ہوئی ہے اور اس کو چتلی قبر کہتے ہیں۔ یہاں سے بھوجلا پہاڑی کو بھی راستہ جاتا ہے، پہاڑی پر معماروں اور دیگر رئیسوں کے مکانات ہیں، یہ مقام شہر کی اور عمارتوں کی بنسبت زیادہ بلند ہے۔ بلبلی خانہ کو بھی یہاں سے راستہ جاتا ہے۔ یہاں سے پیرومرشد میر محمدی صاحب و مرزا سلیم مرشد زادے کے مکانوں کو بھی راستہ جاتا ہے۔ ان دونوں مرشدوں کے مزار اسی جگہ ہیں، اس سے آگے میر ہاشم کی حویلی اور حضرت شاہ آفاق رحمۃ اللہ علیہ کا مکان ہے۔ حکیم قدرت اللہ کا مکان اور مسجد بھی یہیں ہے، مسجد کی پیشانی پر خود حکیم صاحب نے یہ تاریخ کندہ کی ہے:

چو نوگشت ایں معبد دلکشا بتائیدِ لطفِ امام الوریٰ خطیب خرد گفت از سالِ او زہے مسجد پر زنورِ خدا

حکیم صاحب کا دیوان خانہ اور حضرت شاہ غلام علی صاحب کا مکان بھی یہیں ہے، اسی جگہ میرزا جان جاناں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مزار اور شاہ صاحب کا مزار بھی ہے، میاں ابوسعید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مزار اور خانقاہ بھی یہیں ہے۔ شاہ صاحب کی مسجد بھی یہیں ہے، مسجد کے متصل سہ درہ ہے اور اس میں دو یا تین قبریں ہیں، دالان کے پیچھے ہندی زبان کے شاعر حکیم عزت اللہ عشق کا مکان ہے۔ حکیم صاحب کی غزل کے چند شعر جو مجھے یاد آگئے ہیں لکھتا ہوں:

گلشن میں جو کل خنداں وہ مست شراب آیا
گل ہاتھ پہ رکھ اپنے جام مئے ناب آیا

مجلس میں وہ شیریں لب جب گرم عتاب آیا

لب بند ہوئے سب کے کچھ بھی نہ جواب آیا

خاموش جو ہے شاید لے کر نہ جواب آیا

ہے خیر تو اے قاصد کیوں چشم پُر آب آیا
بے چین ہو کیوں بیٹھے لو چین کرو مشفق
اے راحتِ جاں دیکھو وہ خانہ خراب آیا

اس کے آگے حضرت شمس العارفین کے مزار کے نواح میں قبرستان ہے، یہاں سے ایک دوراہا جاتا ہے جو ایک طرف محلہ کلیان پورہ میں اور دوسری طرف گنج نواب میر خاں کی طرف پہنچتا ہے۔

دوسرا راستہ جو چتلی قبر سے جاتا ہے، وہ قبر سے لے کر دہلی دروازے تک پہنچتا ہے۔ اعظم خاں کی حویلی اسی جگہ ہے۔ یہاں دیگر رئيسوں کے مکانات اور چرینے کی منڈی بھی ہے، کلو بادشاہی خواص کی حویلی بھی یہیں ہے اور آج کل اس میں مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مکان اور مدرسہ ہے، اس مدرسے میں مولوی محمد اسحاق صاحب تعلیم دیتے ہیں۔


قلعہ معلّی کا عجائب خانہ


پچھلے مہینے میں مجھے اس عجائب خانے کا حال لکھنے کی فرصت نہ ہوئی۔ یہ عجائب خانہ جشن دربار دہلی کی تقریب میں حسب ایماء والا عالی جناب نواب لفٹننٹ گورنر بہادر پنجاب بالقابہم قلعہ معلّی (لال قلعہ) میں جمع کیا گیا اور بڑی عزت کی بات ہے کہ اس عجائب خانے کی اشیاء نادرہ دی ا مپر یل میجسٹیز اعلی حضرت قدر قدرت شہنشاہ معظم قیصر ہند اور علیا حضرت حضور ملکہ معظمہ قیصر ہند کی نظر اقدس سے گزریں اور پسند خاطرِ والا ہوئیں۔

یہاں کی عجیب و نادر اشیا کا ذخیرہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، مگر ان چیزوں کی فہرست اور ان کی تحقیق و تاریخ کا حال جو انگریزی میں علیحدہ لکھا گیا ہے، ایک کارنامہ ہے۔ یہ تصنیف از روئے معلومات فنون لطیفہ وآثار الصنادید، دہلی دربار کی بہت پاکیزہ یادگار ہے۔ اس کو عجائب خانے کی محض فہرست نہ سمجھیے بلکہ یہ کیٹلاگ ایسا نادر تذکرہ ہے جس میں قدیم اسلحہ، ماہی مراتب، خلعت شاہی، فنِ مصوّری وسنگ تراشی وخوشنویسی، فر امین شاہی، ایام غدر یعنی ١٨٥٧؁ء کے متعلق یادگار چیزیں، خاندان مغلیہ کے رسم و رواج کی از روئے تحقیق ایسی اچھی تاریخ ہے جس کا اہل علم کے کتب خانوں میں موجود ہونا سامان لیاقت و پاکیزہ مزاجی میں داخل ہے۔

سنگ تراشی کے نمونے اکثر مسلمانوں سے پہلے اہل ہنود کی سلطنت کے زمانے کے ہیں۔ مسلمانوں کے وقت کے کتبے نہ صرف خوش خطی کا کمال ظاہر کرتے ہیں، بلکہ پاکیزگی کلام کے اچھے نمونے ہیں۔

(اللہ اکبر) بحکم پادشاہ ہفت کشور

(جل جلالہ) شہنشاہ بعدل وداد و تدبیر (یافتاح)

(یا ناصر) جہانگیر ابن شاہنشاہ اکبر

(یافیاض) کہ شمشیرش جہاں را کرد تسخیر (یاحی)

(١٢ء ؁ )چو ایں پُل گشت در دہلی مرتب

(جلوس) کہ وصفش را نشاید کرد تحریر

(باہتمام) پئے تاریخ اتمامش خرد گفت

(حسین حلبی) پُل شاہنشہ دہلی جہانگیر ( کعبہ شریف)

کتبوں کا ذخیرہ ١١٩٣ ؁ءسے ١٨٥٧؁ء تک کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ ان میں محمود رکابدار گورخانی کا کتبہ، قلعہ سلیم گڑھ کی تاریخ، فرّخ سِیَر کے زمانے کے پتھر کا کتبہ اور سنگ تراشی کے کام اچھے اچھے ہیں۔ سنگ تراشی میں فرہاد کا نام مشہور ہے کہ:

ترا شُد چوں شود دستش سُبک پے زلعل دلبراں آلایش مے

پتھر میں مسلمانوں نے جو گل بوٹے اور خوش خطی دکھائی اس کے سامنے فرہاد کا ذکر محض افسانہ رہ گیا۔

اسلحہ قدیم و نادر اسلحہ کا ذخیرہ نہایت عجیب ہے کہ تیر و خنجر سے لے کر توپ و تفنگ کے عجیب عجیب نادر نمونے ہیں، ہر ایک ہتھیار کا حال کہ کس طرح کام آتا ہےاور اس کی اصل کیا ہے، بڑی خوبی سے لکھا گیا ہے۔

ابوالفضل نے آئین اکبری میں اپنے زمانے کے ہتھیاروں کی تفصیل لکھی ہے۔ اس عجائب خانے میں اُس سے زیادہ عجیب عجیب قدیم ہتھیار دیکھنے میں آئے۔ نادر کی تلوار، اودے پور کے مہاراجا پرتاب سنگھ کی زرہ بکتر، ایران کی تلواریں، نامور لوگوں کے خنجر کی کٹار پیشِ قبض وغیرہ، اورنگ زیب کا ظفر تکیہ، چار آئینے کا نمونہ؛ چار آئینہ میں نے دیکھا نہ تھا، صرف کتابوں میں ذکر سنا تھا کہ:

“نوع از لباس جنگ کہ چہار تختہ از آہن ساختہ ودر بنات یا مخمل گرفتہ گرد پشت وسینہ کشند”۔ ماہی مراتب

ماہی مراتب اور نشاناتِ شاہی کا حال بہت مفصل لکھا گیا ہے۔ مسلمانوں میں حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کو ید اللہ کا لقب ہے، ید یعنی ہاتھ سے پنجے کا تعلق سمجھا جاتا ہے۔ آفتاب و شیر و ماہی ایرانیوں کے نشان میں جو اُن کے ہاں قدیم سے رائج تھے اور جس طرح سلطنت انگریزی کی تعریف میں ہے کہ اس پر آفتاب غروب نہیں ہوتا، فارسی میں وسعت عملداری کی نسبت مشہور ہے کہ از ماہ تا بہ ماہی کہتے ہیں کہ زمین سے آسمان تک حکم جاری ہے، ماہ اونچی چیزوں میں اور ماہی نشیب کی چیزوں میں ظاہر ہے۔

“نشان کوکبہ چو بے باشد بلند وکج کہ از سرآں گوئے فولادی مصیقل آویزند وپیشِ سوارئ ملوک مے برند وآن از لوازم بادشاہی است”۔

قمقمہ “ظرف کوچک کہ آنرا کوزہ گویند”۔


خلعت

“خلعت جامہ باشد کہ از تن کشیدہ بردیگرے دہند”

خلعت کی بڑی عزت یہ ہے کہ بادشاہ کا پہنا ہوا لباس کسی کو عطا ہو۔ بہادر شاہ کے اخبار قلعہ معلّی سراج الاخبار نامی ہفتہ من ابتدائے روز پنجشنبہ لغایت شارم چہار شنبہ شعبان المعظم ١٢٥٧؁ھ (مطابق ١٨٤١؁ء) کی خبروں میں لکھا ہے کہ:

“فرزند ارجمند معظم الدولہ بہادر جناب صاحب رزیڈنٹ بہادر دہلی معہ سکتر صاحب بآستان بوسی فائز شدہ صیقل آئینہ اعزاز ورنگ چہرہ امتیاز گردیدہ بعرض رسانید کہ فدوی ارادہ روانگی کوہ شملہ برسمِ دورہ دارد۔ ۔ ۔ ۔ چوں محمول ایں خاندان رفیع الشان است کہ ہنگامِ رجعتِ امراء بعطائے خلعت سرفراز میگردند بہادر موصوف بعنایتِ دوشالہ ملبوسِ خاص ممتاز گردیدہ نذرِ تہنیت گزرایند ۔۔۔ ۔ ۔ ۔خلعت شاہی تین پارچے سے کم کا نہیں ہوتا تھا”۔

اسی طرح کھانے کی عزت اس بات کی تھی کہ خاصے سے بھیجا جائے جس کو اُلش کہتے تھے۔


فرامین

فرامین شاہی کی تحقیق میں صاحب فہرست نے کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا۔ سلطنت مغلیہ میں فرمان نویسی کا صیغہ ہی علاحدہ تھا، جو مسلمانوں کے وقت میں ایک خاص فن کے مرتبہ کو پہنچ گیا۔ اچھے سے اچھے خوشنویس اور اہل کمال اس صیغے کے متعلق تھے، ایک ایک کاغذ پانچ چھ جگہ اور دس بارہ معزز اہلکاروں کی نظر سے گزرتا تھا۔ ان کی تصحیح و نقل کی اصلاحیں جدا جدا تھیں، مُہر ثبت کرنے کی تاریخ بھی بالتحقیق لکھی جاتی تھی۔ اہل علم و تحقیق کے واسطے فرامین شاہی بڑے دلکش اسباب میں سمجھیے۔

ان فرمانوں میں سلطان غیاث الدین بلبن کے عہد کا ایک فرمان خط نسخ میں ہے کہ اس وقت نستعلیق کا رواج نہ تھا۔ ہندوستان میں خط نسخ پٹھانوں کے زمانے تک جاری رہا، خاندان مغلیہ کے فرمان سب نستعلیق خط میں ہیں اور خط نستعلیق کے بہت اچھی طرز کے۔ بقول صاحب فہرست جوں جوں سلطنت مغلیہ میں ضعف آتاگیا، فرمانوں کی حالت میں بھی زوال کی صورت نظر آتی ہے۔

دکھن میں عالمگیر کا فرمان پہنچنے پر مرہٹوں کا سردار راجا تین لعل مع لشکر شہر سے باہر استقبال کو آیا تھا۔ اس وقت کے فرامین شاہی کی شان ایسی تزک و احتشام کی تھی جس کے لیے ایک کتاب علاحدہ لکھی جائے تو مناسب ہے۔ فرمان نویسی میں قدیم تعلیم کا کیسا اچھا ثبوت ہے کہ بڑے کے نام کا بڑا ادب تھا۔ خدا، رسول، بادشاہ اور بڑوں کے نام ہمیشہ اوپر لکھے جاتے تھے اور اگر کوئی نام عبارت میں کہیں نیچے آجاتا تو وہ جگہ خالی چھوڑ کر اوپر لکھا جاتا تھا، یہ حفظ مراتب ہماری گھٹّی میں پڑا ہوا ہے۔ فرامین کے ساتھ جرنیل پر ان صاحب کا ایک قول (عہدنامے کے طور پر) ہے جس میں جناب حضرت عیسی علیہ السلام کا نام آیا تو نیچے جگہ خالی چھوڑ کر اوپر لکھا۔

اُس وقت کی طرز تحریر اور تاریخ لکھنے کے لیے یہ فرامین اور خطوط جو اس عجائب خانے میں جمع کئے گئے، بڑے کام کے ہیں۔


خوش خطی

یہ فن ہندوستان اور ایران کا حصہ ہے چھاپے خانے کی وجہ سے یورپ میں اس کا رواج نہ ہوا۔

خوش خطی کی قدر ہندوستان میں سلاطین مغلیہ کے زمانے میں زیادہ ہوئی اور جوں جوں چھاپے کا رواج ہوا کم ہوتا گیا، اس فن کے صاحب کمال اور شوقین روز بروز گھٹتے جاتے ہیں؛ لیکن اب بھی گو چھاپے خانوں کی کثرت ہے مگر نستعلیق ہاتھ ہی سے لکھا جاتا ہے۔ اس کا ٹائپ اب تک کسی سے بن نہ سکا کہ نستعلیق خط کے لیے کم و بیش چار سو پانسو توڑ چاہئیں۔

مجھے اس فن کا شوق ہے اور شوق کے موافق اگر خوش خطی کا ذکر کیے جاؤں تو ایک کتاب ہو جائے۔ فارسی میں اس فن کی کتابیں موجود ہیں، اس لیے زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ تصویریں

تصویروں کا ذخیرہ واقعی لاجواب ہے جن کی فہرست تیار کرنے اور ترتیب دینے میں بڑی لیاقت دکھائی گئی ہے۔ اکثر تصویریں ایسی بے مثل ہیں جنہیں فن مصوری کی جان کہیے۔ یہ فن مسلمانوں نے باوجود شرعی ممانعت کے کمال کو پہنچادیا۔ حکام کا ہم پر احسان ہے جن کی پرورش سے ایسی پاکیزہ تصویریں ہمارے دیکھنے میں آئیں، فن مصوری اب ہندوستان سے مٹا جاتا ہے۔ اول تو اس فن کے اہل کمال نہیں رہے، دوسرے شوخ رنگ کے وہ مسالے جو مچھلی کے پوٹے سے تیار ہوتے تھے، شنجرف کا برسوں گھوٹنا اب کہاں۔ ہمارے ہاں کے مصور چہرہ تو ایسا پاکیزہ بناتے ہیں کہ اور ملکوں میں یہ بات میسر نہیں اور تصویر بھی جس قدر چھوٹی بنائی اسی قدر خوبصورت۔ شروع میں تو مغلیہ اسکول میں تاتاریوں کی تقلید رہی، جن میں مانی و بہزاد کا نام ہر شخص کی زبان پر ہے۔ پھر ہندوستان کے خط و خال کا اسکول علاحدہ پیدا ہوا، دہلی میں ہندوستانی خط و خال کی تعریف سمجھی جاتی ہے اور لکھنو میں یورپ کے مصوروں کی تقلید زیادہ پائی جاتی ہے، آخر میں دہلی اور لکھنؤ دونوں جگہ یورپ کے مصور زیادہ آ گئے۔ بہادر شاہ کے زمانے میں مسٹر سوفٹ صاحب بہادر نامی مصوّر انگریزی نے سواری کی تصویریں اچھی کھینچیں۔ ہمارے ہاں کے مصوروں کو ہاتھی گھوڑے کی تصویریں کھینچنے میں کمال نہیں ہوا۔ مصوری کا فوٹو گرافی کی طرح گو اہل علم سے بہت تعلق نہیں سمجھا جاتا لیکن قدیم تصویروں کی بڑی خوبی یہ ہے کہ بیش قیمت تصویروں کے ساتھ فارسی کلامِ نظم موقع کے مناسب ضرور ہوتا ہے یا ایک طرف خوش خطی کا کوئی نمونہ قطعے کے طور پر اور دوسری طرف تصویر کہ متقی اور مولوی لوگ جو تصویر دیکھنا ناجائز سمجھتے ہیں ان کے لیے قطعہ کا رخ کافی ہے۔ خوبصورتی میں تصویر اور خوش خطی و پاکیزہ کلامی میں قطعہ دونوں لاجواب سمجھیے۔

میں دیکھتا ہوں کہ یہ مضمون بہت بڑھا جاتا ہے اور واقعی مصوری اور تصویروں کا حال اس مضمون میں آنا مشکل ہے؛ اس لیے تصویر اور مصوروں کی نسبت میں پھر عرض کروں گا۔ لیکن اس وقت اس مضمون کو ختم کرنے سے پہلے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ واقعی ان مختلف اور متعدد فنون کی تحقیق میں اس قدر کمال اور واقف کاری جو عجائب خانے کے کیٹلاگ (فہرست) سے ثابت ہوتی ہے، ہزار تحسین کے قابل ہے۔ اس فہرست میں بعض مَدوں کا ذکر مَیں جان بوجھ کر چھوڑ گیا کہ مجھے ان میں دَخل نہیں اور جن میں کچھ دخل ہے ان کے لکھنے کی رسالے کے مضامین میں زیادہ گنجائش نہیں۔