دلی غدر سے پہلے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

لالہ سری رام صاحب ایم۔اے، خلف الرشید آنریبل رائے بہادر لالہ مدن گوپال صاحب دہلوی نے بعض پُرانے انگریزی علمی رسالوں سے غدر سے پہلے کی دہلی کی مغلیہ سوسائٹی کے متعلق کچھ دلچسپ حالات اخذ کر کے بھیجے ہیں۔

اول تو جس خاندان کے حالات انہوں نے لکھے ہیں، اس کی دلچسپی تاریخ ہند کے مطالعہ کرنے والوں کے لیے کبھی ختم نہیں ہو سکتی اور ایک انگریزی خاندان پر اس خاندان کی شاخ کا پیوند لگنے کے ذکر سے اور بھی دوبالا ہو گئی ہے۔

دوسرے اس مضمون میں اس وقت کی رسومِ شادی کی ایک دلآویز تصویر ہے اور جو لوگ ہندوستان کی رسوم سے ذاتی واقفیت رکھتے ہیں، وہ اب بھی ان تمام رسوم کے بقیے ہند و مسلمان اُمرا کے ہاں پائیں گے۔ ان رسموں میں سے اکثر ایسی تھیں جو مُغل اپنے ملک سے نہیں لائے تھے۔بلکہ جو انہوں نے ہندوستان میں اہل ہند کے ساتھ میل جول کے سبب اختیار کر لی تھیں اور جن کو پھر اُس انگریزی خاندان نے جو گارڈنر کے نام سے مشہور ہے، اختیار کیا۔ ان رسموں کا ذکر پڑھتے ہوئے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ابتدا میں ہندوستان میں باہر سے آنے والی اقوام اہل ہندکے رنگ میں کس آسانی سے رنگی جاتی تھیں اور اب زمانہ نے کیسا پلٹا کھایا ہے کہ اہل ہند کا کوئی رنگ کسی کو پسند نہیں آتا اور دوسروں کے سب انداز اہل ہند کی نظروں میں کُھبے جاتے ہیں۔

(ایڈیٹر مخزن لاہور)


اکتوبر ١٨٤٤ء؁ کے “ایشیاٹک جرنل” میں کرنل گارڈنر کے یہ حالات اور ایک دلچسپ مُغلیہ شادی کی کیفیت ایک لیڈی نامہ نگار کی طرف سے شائع ہوئی تھی:

“کرنل گارڈنر جو معزز خاندان نواب گارڈنر میں سے ہیں، سرکاری ملازمت کی تقریب سے ہندوستان میں آئے تھے۔ لیکن تھوڑے ہی روز بعد انہوں نے ملازمت ترک کر دی۔ اُس زمانہ میں اکثر انگریزی افسر ہندوستانی سرکاروں میں بڑے عہدہ پانے کی امید سے نوکری کر لیتے تھے۔ دوسرے اس وقت یہ خیال بھی نہ تھا کہ کبھی ایسا موقعہ آئے گا کہ افواج سرکارہائے روسائے ہند سے کمپنی کی فوج کا مقابلہ ہوگا۔ لیکن جب بعد میں ایسا موقعہ آیا تو مہاراجہ ہُلکر اور دیگر روسائے ہند نے جن کے ہاں انگریزی افسر ملازم تھے، اُن سردارانِ فوج کو اس امر پر مجبور کیا کہ وہ اپنے ہم وطن اور ہم قوم افواج انگریزی سے مقابلہ کریں۔ گارڈنر صاحب بھی ایک ایسے موقعہ پر مہاراجہ ہلکر کے ہاں ملازم تھے اور وہاں سے وہ بڑی پُھرتی، فطرت اور چالاکی کے ساتھ بچ کر نکل آنے میں کامیاب ہوئے۔ ایک روز یہ زیر حراستِ سوارانِ ہلکر ایک پُل پر گزر رہے تھے، اس وقت انہوں نے وہاں سے رہائی پانے کی یہ تدبیر سوچی کہ پُل پر سے دریا میں کود پڑیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور دریا کو چیر کر دوسرے علاقہ میں پہنچے، لیکن جب دشمنوں نے وہاں بھی ان کا تعاقب کیا تو ان کو سوائے اس کے کہ گھسیارے کے بھیس میں بھاگ کھڑے ہوں اور کوئی چارہ نظر نہ آیا۔ اس حالت میں انجام کار یہ ایک انگریزی چھاؤنی میں پہنچ گئے۔ اس قسم کی سرگردانی اور بے سر و سامانی کی حالت میں انہوں نے دکن کے ایک چھوٹے سے مسلمان جاگیردار کےہاں پناہ لی اور وہ ان پر یہاں تک مہربان ہوا کہ اس نے اپنی لڑکی کی شادی ان سے کر دی۔ یہ نواب زادی اب تک اپنے دین آبائی پر قائم ہے اور ان تمام رسومات کی جو کہ ہندوستانی محل سراؤں میں مروج ہیں، پابند ہے۔ کرنل صاحب نے بھی بہت سی عادتیں اور رسمیات جو ہندوستان میں مروج ہیں، اختیار کر لی ہیں اور ان کا طرز معاشرت بالکل ایشیائی طرز پر ہے۔ اگرچہ وہ انگریزی افسروں سے بڑی خندہ پیشانی اور شوق سے ملتے رہتے ہیں۔”

کرنل صاحب نے مندرجہ بالا بیان کی “مفصل اخبار” میں اس طرح پر تصحیح کی:

“جس وقت میں دریائے تاپتی میں کُودا، اس وقت میں فوج ہلکر کی زیر حراست نہ تھا بلکہ امرت راؤ قرابت دار پیشوائے پونا کے قبضہ میں تھا۔ جس وقت میں نے بیگم صاحبہ سے شادی کی، اس وقت ان کی عمر تیرہ سال کی تھی۔ میں نے ان کی والدہ سے اس امر کی التجا کی کہ وہ مجھے اپنی فرزندی میں لیں۔ اس درخواست کو انہوں نے منظور کیا اور غالباً یہ ان دونوں کی جان بچنے کی وجہ ہوئی۔ عیسائی شرفا کا مسلمان شریف زادیوں سے شادی کرنا پورے طور پر جائز ہے اور اس امر کا صاف طور پر فیصلہ اس وقت ہو گیا کہ جب میرے لڑکے جیمس کی شادی شاہ دہلی اکبر بادشاہ کی بھتیجی نواب ملکہ ممانی بیگم سے ہوئی۔ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ میرے خاندان کی مستورات کی عزت و توقیر بہت عرصے سے اس وجہ سے بہت بڑھ گئی ہے اور ہندوستانی رؤسا کی نظر میں مسلم ہو گئی ہے کہ شاہ متوفی ہندوستان نے میری بیوی کو اپنی صاحبزادی کے خطاب سے ممتاز فرمایا تھا۔ میری اکلوتی لڑکی کا ١٨٠٤ء؁ میں انتقال ہو گیا۔ میری پوتیاں اپنی دادی کی خاص رضا کےمطابق مذہب عیسوی کے پیرو ہیں۔ یہ امر خاص ان کی مرضی کے مطابق ہوا ہے کیونکہ نکاح نامہ کی شرائط کے بموجب یہ فیصلہ ہو گیا تھا کہ لڑکے اپنے باپ کے مذہب کے پیرو رہیں گے اور لڑکیاں اپنی والدہ کے عقیدہ پر پلیں گی۔”

اس خاندان کی ایک لڑکی سوسن کی شادی مرزا انجم شکوہ خلف مرزا سلیمان شکوہ سے ہوئی۔ مرزا انجم شکوہ ظفرؔ کے چچیرے بھائی تھے۔ اس کی کیفیت ایک لیڈی نے جو خود رسوم میں شامل تھی، یوں بیان کی ہے:

سوسن کی عمر اس وقت قریب بیس سال کے ہے اور اگر اس بات پر نظر کی جائے کہ وہ زنان خانہ کی چار دیواری میں رہی ہے تو اس کی تعلیم و تربیت اس لحاظ سے اعلیٰ درجہ کی ہوئی ہے۔ انجم شکوہ یعنی دولہا کی عمر بھی قریب بیس سال کے ہے۔ یہ ایک نہایت ہی حسین اور خوشرو جوان ہے۔ لمبے لمبے بھونرالے بال شانوں کے اوپر پڑے رہتے ہیں۔ آنکھیں بہت بڑی بڑی ہیں اور میانہ قد ہے اور نہایت دلکش شکل ہے۔ چار پانچ برس سے انجم شکوہ اِس منگنی پر زور دے رہا تھا۔ مگر کرنل صاحب اس کی فضول خرچی کی وجہ سے راضی نہ ہوتے تھے۔ انجم کے والد بزرگوار مرزا سلیمان شکوہ نے ان دولہا دلہن کے خرچ کی کفالت کرنے سے بالکل انکار کر دیا ہے اور طرفین کا خرچ کرنل صاحب کو اٹھانا پڑتا ہے۔ شاہزادے کو صرف سو (١٠٠) روپیہ ماہوار ملتا ہے۔ ہندوستان کی عورتیں شادی پر بیجا اسراف کرنا اور غیر معمولی تکلفات کرنا باعثِ فخر سمجھتی ہیں۔ کرنل صاحب کہتے ہیں کہ اگر میں سوسن کو دس بیس ہزار روپیہ جو آتش بازی اور ہو حق میں اس شادی پر صرف ہوگا، نقد دےدوں تو وہ اس کو بہت شرمناک خیال کرے گی۔ کیونکہ ہندوستانی عورتیں مدت العمر تک اپنی شادی کی دھوم دھام کا فخریہ تذکرہ کرنے کی شائق ہوتی ہیں۔

(١٢ مارچ ٣٥ء؁)

آج رسمیات شروع ہوئیں۔ براتی لوگ مسٹر جے گارڈنر اور ملکہ ممانی بیگم اور ان کے بھائی شریک ہیں۔ یہاں سے چار میل پر خیموں میں فروکش ہوئے اور ہم سب دلہن کی جانب والے یہاں کاس گنج میں ہیں۔ نواب کھمبے کے علاوہ مسٹر وی گارڈنر اور بہت سے اصحاب انگریز بھی دیوان خانے میں ٹھہرے پڑے ہیں۔ آج تین بجے سہ پہر کے، ملکہ بیگم بڑے جلوس کے ساتھ دلہن کی پوشاک لے کر آئیں۔ اس جلوس میں ہاتھی، رتھ، پالکیاں اور گھوڑے تھے اور ایک سو (١٠٠) کشتیاں مٹھائی کی تھیں۔ علاوہ اس کے دلہن کو نہلانے کے لیے اوبٹنا اور بیسن ایک طشت میں تھا۔ (کم حیثیت عورتیں یہاں کی رسم کے مطابق جب کسی محل سرا میں جاتی ہیں تو مالک خانہ کو بجائے سلام کرنے کے رسم قدم بوسی بجا لاتی ہیں۔ دائیں ہاتھ سے پیر کو ہاتھ لگا دیتی ہیں اور پھر ہاتھ کو چومتی ہیں۔ عموماً مہمان نواز اور خلیق بیگمات ذرہ نوازی فرما کر ہاتھ لگانے نہیں دیتیں اور یہ دعا دے کر بیٹھنے کا اشارہ کر دیتی ہیں “خدا تمہارا سوہاگ قائم رکھے”۔)

یہ لوگ پردے کے اس قدر پابند ہیں کہ سوائے قریبی رشتہ داروں کے اور کوئی رشتہ دار محل سرا میں جا نہیں سکتا۔ صرف باپ اور دادا بغیر روک ٹوک کے جا سکتے ہیں؛ چچا، تاؤ اور بھائی صرف خاص موقعوں پر۔ دلہن کو ایک دفعہ دولہا کے بھائیوں نے دیکھا تھا۔ دولہا نے اب کہلا بھیجا کہ سوائے کرنل صاحب اور مسٹر جیمس کے اب ہر ایک سے پردہ کرنا لازم ہے ۔ کشتیاں لونڈیاں باندیاں اپنے سروں پر اٹھا کر محل سرا میں لے گئیں اور وہاں بڑی بیگم اور شاہزادی ملکہ بیگم کے سامنے انہوں نے قرینے سے سب کو لگا دیا۔ دلہن دو شالہ سر سے پاؤں تک لپیٹے ایک چھپر کھٹ پر بیٹھی ہوئی تھیں اور رو رہی تھیں۔ میں نے یہ خیال کیا کہ شاید یہ شادی اس کی مرضی کے خلاف ہوئی ہے، مگر بعد میں معلوم ہوا کہ یہ رونا بھی رسمیات میں داخل ہے۔ملکہ بیگم نے ایک چاندی کا کٹورہ اپنے ہاتھ میں لیا اور اس میں چندن کا بُورا اور تیل ملِایا اور بیگم نے اور شہزادی نے دونوں طرف کے نام اور خطاب احتیاط سے دوہرانے شروع کیے۔ ان کا یہ خیال ہے کہ اگر کوئی نام یا خطاب سہو سے رہ جائے تو بڑی بدشگونی ہوتی ہے۔ اس کے بعد دلہن کے اوبٹنا ملا گیا۔ اس سے جسم بہت ملائم ہو جاتا ہے۔ پھر استعمال شدہ اوبٹنا اتار کر ایک پیالے میں رکھ کر دولہا کے بدن پر ملنے کے لیے باہر بھیجا۔ اس کے بعد شادی کا لباس دلہن کو پہنایا گیا۔ یہ زرد گاچ کا تھا اور روپہری گوٹا اس پر لگا ہوا تھا۔ پاجامہ سرخ ساٹین کا تھا۔ اس کے بعد ملکہ بیگم خیمے کو واپس چلی گئیں۔

اب سے دس روز تک دلہن کو چارپائی سے اٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کو مائیوں بٹھانا کہتے ہیں۔ دن میں دو بار روز اوبٹنا اور صابن اس کے بدن پر ملا جاتا ہے لیکن غسل نہیں کرایا جاتا۔ سوائے مٹھائی کے اور کوئی چیز حتیٰ کہ پان بھی نہیں کھلایا جاتا۔ ملکہ بیگم کے جانے کے بعد کرنل صاحب نے مجھے کہا کہ اب تم الیڈا کے ساتھ دولہا کا جوڑا لے کر اس کے خیمے پرجاؤ۔ اسی تکلف سے ہم گئے۔ ملکہ بیگم نے خیمے کے دروازے تک پیشوائی کی۔ دولہا چاندی کی چوکی پر بیٹھا ہوا تھا، ملکہ نے اوبٹنا لگایا اور پھر دولہا کو پوشاک پہنائی۔ زرد اور نارنجی رنگ کی ململ کا جامہ تھا اور گلابی ریشم کا پاجامہ اور سرخ مندیل تھی۔ دولہا کے سامنے ڈومنیاں گا اور ناچ رہی تھیں۔ تھوڑی دیر کے بعد ہم واپس چلے آئے۔ (موسم بسنت میں ہولی بڑی دھوم سے منائی جاتی ہے۔لوگ ایک دوسرے کے منہ پر گُلال ملتے ہیں اور رنگ ڈالتے ہیں اور طرح طرح کے مذاق اور دل لگیاں کرتے ہیں۔ عبیر اڑاتے ہیں اور رنگ پچکاریوں میں بھر کر اور قمقموں میں ڈال کر پھینکتے ہیں اور ڈومنیاں شادی اور منگنی کے موقعوں پر نہایت فحش اور بیہودہ گیت گاتی ہیں۔)

رنڈیاں اُمرا و شرفا کے زنان خانوں میں نہیں جانے پاتی ہیں۔لیکن بڑے گھرانوں میں مثلاً کرنل صاحب اور ان کے بیٹے کے ہاں لونڈیاں گانا بجانا عمدہ طرح پر جانتی ہیں۔ کیونکہ ان کو بیگمات کی تفریح کے لیے گانے ناچنے کی تعلیم دلوائی گئی ہے۔ کرنل صاحب کہتے ہیں کہ رنڈیاں جو گیت گاتی ہیں وہ ہرگز خلافِ تہذیب یا فحش نہیں کہے جا سکتے۔ سوائے ان موقعوں کے کہ ان سے فحش گیت گانے کی فرمائش خاص طور پر کی جائے (مثلاً کہروا)۔

(٢٨ مارچ ١٨٣٥ء)

ساچق کے دن سے لڑکی دلہن کہلانے لگتی ہے۔ آج ملکہ بیگم اور دولہا گاجے باجے کے ساتھ اور دیگر براتی بہت فوق البھڑک پوشاک پہنے ہوئے آئے۔ لڑکی والے پرانے اور میلے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور ان کے چہروں سے اداسی ٹپکتی تھی۔ چونکہ یہ بھی ایک دستور ہے، اس وجہ سے اس کی پوری پابندی کی جاتی ہے۔ جلوس میں کئی ہاتھی عماری دار تھے اور بیش بہا جھولیں ان پر پڑی ہوئی تھیں۔ نالکیاں اور پالکیاں بھی متعدد تھیں اور عربی گھوڑے اور رتھ تھے۔ اور دو سو آدمیوں کے سروں پر دو سو ٹھلیاں مٹی کی تھیں جن پر روپہری پنّی لگی ہوئی تھی۔ ان ٹھلیوں میں مٹھائی تھی۔ تخت رواں پر رنڈیاں ناچتی ہوئی آتی تھیں۔

تخت رواں پر شامیانہ لگا ہوتا ہے۔ ہر ایک تخت پر ایک طبلچیہ اور دو رنڈیاں ہوتی ہیں۔ تخت رواں کو بہت سے مزدور مل کر اٹھاتے ہیں۔ تخت رواں دس تھے جن میں بیس طائفے تھے۔ ملکہ کی پالکی کے آنے کے بعد صندل کا عطر سب لوگوں کے منہ پر لگایا گیا اور گوٹے کےہار سب کے گلوں میں ڈالے گئے۔ اس کے بعد ڈومنیوں نے پھر گالیاں دینی اور فحش گیت گانے شروع کیے۔ دولہا اور ملکہ کو اور مجھے بہت گالیاں ملیں مگر چونکہ خفا ہونا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس وجہ سے کسی نے خفگی ظاہر نہ کی۔ دولہا نہایت عمدہ پوشاک پہنےہوئے تھا۔ لیکن رواج کے مطابق وہی زرد لباس جو سسرال سے گیا تھا اس کے نیچے پہنے ہوئے تھا۔ عمامہ کے سامنے مرصّع جیغہ اور سرپیچ تھا اور بازؤں پر بیش قیمت بازو بند تھے۔

(٢٩ مارچ)

آج مہندی لگانے کی رسم تھی۔ دلہن کی طرف سے طشتریوں میں مہندی رکھ کر اور مخملی سرپوش ڈھک کر دولہا کے لیے بھیجی گئی۔ رات کے گیارہ بجے دلہن کے تمام رشتہ دار بڑے جلوس کے ساتھ کاس گنج سے دولہا کے خیموں کی طرف گئے۔ سب رشتہ دار نہایت مکّلف پوشاکیں پہنے ہوئے تھے۔ سڑک پر دو طرفہ روشنی کے لیے ٹھاٹر لگے ہوئے تھے اور جابجا آتش بازی چھوٹتی جاتی تھی۔ سڑک پر بیسیوں دروازے اور محرابیں نصب کی گئی تھیں اور سب پر روشنی کی گئی تھی۔ علاوہ ازیں پانچ ہزار کے قریب مشعلیں روشن تھیں۔ بڑی بیگم صاحبہ بذات خاص ایک نالکی پر اور ان کے گھرانے کی دیگر بیگمات رتھوں پر سوار تھیں۔ تاشہ والے اور زیبائشی تخت بھی ہمراہ تھے۔ یہ جلوس دولہا کے خیموں کے قریب جو چار میل کے فاصلہ پر تھے، دو گھنٹے میں پہنچا۔ ہزارہا آدمیوں کی بھیڑ جلوس کے ساتھ تھی۔ ملکہ بیگم کے خیمے زنانہ مہمانوں کے ٹھہرنے کے لیے آراستہ کیے گئے تھے۔ باریک چلمنیں جن پر رنگدار ململ لگی ہوئی تھی، سب دروازوں پر پڑی ہوئی تھیں۔ ان چلمنوں میں سے مستورات جو اندر تھیں باہر کی تمام سیر دیکھ سکتی تھیں۔ لیکن باہر سے کوئی شخص اندر کا حال بالکل نہ دیکھ سکتا تھا۔ خیمے کے سامنے ایک بہت بڑا شامیانہ لگا ہوا تھا اور اس میں چاندنی کا فرش تھا ۔ شامیانہ کے وسط میں ایک مکلف گدی پر دولہا نہایت عمدہ پوشاک پہنے ہوئے بیٹھا تھا اور نہایت خوبصورت معلوم ہوتا تھا۔ اس کے چار بھائی جو بہت بدصورت تھے اس کے پاس بیٹھےہوئے تھے۔ ان کے برابر ہی ایک سادی گدی پر کرنل گارڈنر بیٹھے ہوئے تھے اور دائیں بائیں دیگر صاحبان انگریز و ہندوستانی بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک سَو کے قریب رنڈیاں جو دور دور سےبلوائی گئی تھیں، یہاں موجود تھیں۔ آٹھ سات رنڈیاں ساتھ ناچ رہی تھیں۔ جب اندر تیاری ہو چکی تو کرنل گارڈنر میرے اور شاہزادوں کے ہمراہ خیمے میں گئے۔ خیمے کے بیچ میں ایک قنات کھڑی کر دی گئی تھی جس کے پیچھے مستورات بیٹھی تھیں۔ دولہا کو ایک چاندی کی چوکی پر بٹھا کر شکر کھلائی۔ اس میں یہ بات مزے کی تھی کہ جس وقت دولہا کھانے کے لیے منہ بڑھاتا تھا، اسی وقت ہاتھ سرکا لیا جاتا تھا اور اس پر قہقہہ پڑتا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک چاندی کی طشتری میں مہندی گھولی گئی ۔ ملکہ بیگم، الیڈا اور اس کی بہن نے شاہزادے کے ہاتھ پیروں میں یہ مہندی ملی اور پھر ایک نہایت ہی خوبصورت نُقرئی آفتابہ سے اس پر پانی ڈال کر دھویا۔ سنہری، سبز رنگ کا بیش قیمت دستار جس میں سبزہ اور دیگر جواہرات لٹک رہے تھے، دولہا کے سر پر رکھا گیا۔ اس کے بعد کمخواب کا جوڑا پہنایا اور سرخ کلابتونی کمر بند اور سبز پاجامہ پہنایا۔ اور ایک قیمتی انگشتری اور جڑاؤ بازو بند بھی دولہا کو پہنائے۔ پھر سب کو شربت پلایا گیا۔ شربت کے طشت میں ہر ایک نے ایک ایک مُہر ڈالی۔ یہ سب مُہریں بطور نیگ کے ان لڑکیوں کو جنہوں نے مہندی لگائی تھی، ملتی ہیں۔ پھر ایک لونڈی ایک چاندی کا برتن جس میں پانی بھرا ہوتا تھا، لے کر آئی اور اس میں سے پانی ہر ایک مہمان کے ہاتھ پر ڈالا گیا اور ہر ایک مہمان نے چار چار پانچ پانچ روپئے اس میں ڈالے۔ یہ روپئے ڈومنیوں کو جو ایک کونے میں بیٹھی ہوئی گا رہی تھیں، دیے گئے۔ چمبیلی کے تازہ ہار سب مہمانوں کے گلوں میں ڈالے گئے۔ اس کے بعد کرنل اور دولہا باہر چلے گئے۔

کھانا کھانے کے بعد تمام مہمانوں کو جو دیوان خانہ اور محل سرا میں جمع ہوئے تھے، نہایت خوبصورت گوٹے کے ہار تقسیم ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد مَیں بیگم سے رخصت لے کر کرنل گارڈنر کے پاس چلی گئی اور وہاں تین بجے تک ناچ دیکھتی رہی۔ تین بجے صبح کے وہاں سے پالکی میں سوار ہو کر خاص گنج چلی آئی۔

(مارچ ٣٠ ١٨٣٥ء؁)

کرنل گارڈنر نے مجھے کہا کہ آج دولہا برات لے کر آئے گا اور دلہن آج ہی رخصت ہو جائے گی۔ یہ ایک پرانا تاتاری دستور ہے کہ شادی کے لیے دولہا کولڑنا لازمی ہے۔ چنانچہ اس رسم کو اب تک برتا جاتا ہے۔ آج دروازوں پر چوکیدار اور برقنداز مسلح بٹھائے جائیں گے اور جس وقت دولہا اندر آنا چاہے گا تو اس کو روکیں گے لیکن جب دولہا ان کو چند مُہریں بطور انعام کے دے دے گا تو وہ اس کے اندر جانے میں مانع نہ ہوں گے۔ برات کے جلوس میں دلہن کے رشتہ دار شریک نہیں ہوتے۔ رات کے وقت دولہا بڑے تجمل و احتشام سے آیا۔ راستہ میں سڑکوں پر جابجا محرابیں بنائی گئی تھیں اور ان پر روشنی کی گئی تھی۔ علاوہ اس کے تمام قصبے میں چراغاں کیا گیا تھا۔ بہت سے جھنڈے اور طرح طرح کے باجے تھے۔ آتش بازی بھی بڑی کثرت سے چھوڑی گئی تھی۔ دولہا ایک عرب گھوڑے پر سوار تھا جس پر بہت قیمتی کلابتونی زین پوش تھا۔ گھوڑے کے سر پر جیغہ اور کلغی تھی اور گلے اور پیروں میں زیورات تھے۔ ایک خادم برابر میں چھتر لگائے ہوئے تھا۔ دولہا کی سواری کے پیچھے اس کے دوست رشتہ دار ہاتھیوں اور گاڑیوں پر سوار تھے۔ جب دلہن کے گھر برات پہونچی تو مصنوعی لڑائی کے بعد دولہا کو اندر جانے کی اجازت ملی۔ سونے کے تاروں کا سہرہ تھا اور اس میں موتیوں کا جال بُنا ہوا تھا۔ مسٹر ٹارٹ ڈھاکہ کی ململ کا انگرکھا پہنے ہوئے اور ڈوپٹہ باندھے ایک عرب گھوڑے پر سوار تھے۔ یہ پوشاک ان کو بہت سجتی تھی۔

کمبائت کے بڑے نواب صاحب بھی ایک تام جھام میں سوار تھے اور بہت خوش معلوم ہوتے تھے۔ ایک بہت بڑا شامیانہ مکان کے سامنے لگایا گیا تھا اور اس کے اندر مکلف فرش تھا۔ صدر میں کامدار مخملی گدی دولہا کے لیے بچھائی گئی تھی۔ بہت سے ہندوستانی شرفا وہاں موجود تھے۔ ان کے آسائش کے لیے بہت سے خیمے ادھر ادھر کھڑے کیے گئے تھے۔ شادی کے دنوں میں تمام مرد، عورت، بچہ، ہاتھی، گھوڑے کرنل صاحب کے مہمان تصور کیے جاتے تھے اور سب کو ان کے ہاں سے کھانا ملتا تھا۔ آج آتش بازی بہت چھوڑی گئی اور شامیانہ میں رات بھر ناچ رہا۔ دولہا نے گدی پر بیٹھ کر نکاح نامہ کی شرائط سُنیں۔ یہ ایک نہایت نفیس مطلّا کاغذ پر لکھا ہوا تھا۔ جس کے لیے کرنل صاحب نے ٤٥٠ روپیہ دیے تھے۔ دستخط ہونے سے پیشتر دلہن کی منظوری لی جاتی ہے۔ اس اجازت کے حاصل کرنے کے لیے جیمس صاحب مع قاضی اور دو اور ہندوستانی شرفا کے، زنانہ میں گئے ۔ میں بھی ہمراہ تھی۔ ہم سب ایک خالی کمرے میں بیٹھے۔ اس کے برابر کے کمرہ میں بیگم اور دلہن موجود تھیں۔ درمیان میں پردہ پڑا ہوا تھا لیکن آواز سنی جا سکتی تھی۔ قاضی نے دریافت کیا کہ “شبیہ(١) بیگم موجود ہیں؟” جواب ملا کہ “ہاں”۔

کیا وہ خوشی سے مرزا انجم شکوہ کی زوجیت قبول کرتی ہیں؟

اس کے جواب میں بہت دبی زبان سے “ہوں” کی آواز آئی۔

قاضی نے کہا کہ مرزا انجم شکوہ ٧ لاکھ روپیہ مہر کا باندھتے ہیں۔ اس کے جواب میں بیگم نے کہا کہ دو لاکھ ہم ان کو معاف کرتے ہیں، پانچ لاکھ کا مہر لکھا جائے۔ اس کے بعد مصری کی ڈلیاں دلہن کی طرف سے دولہا کو بھیجی گئیں اور ہم دستخط دیکھنے کے لیے باہر آئے۔

قاضی نے دولہا سے قرآن کی بعض آیتیں دوہروائیں اور اس سے دریافت کیا کہ کیا تم یہ شرطیں منظور کرتےہو۔ جس کے جواب میں دولہا نے کہا “منظور کرتا ہوں۔” اور اس کے بعد چند اور رسمیں ادا ہوئیں اور نکاح نامہ پڑھا گیا۔ شاہزادے نے غور سے سن کر دستخط کر دیے اور کئی اہل فرنگ نے بطور گواہ اپنے دستخط کیے۔ کرنل صاحب نے نکاح نامہ لے لیا اور کہا کہ “یہ میں اپنی تحویل میں رکھوں گا۔” میں نے اس کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ یہاں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ یہ کاغذ دلہن کے پاس رہتا ہے۔ چند ماہ تک دولہا اس کی بہت خاطر کرتا ہے اور جب یہ دیکھتا ہے کہ وہ اس سے بہت محبت کرنے لگی ہے تو بہلا پھسلا کر وہ کاغذ اپنے قبضہ میں کر لیتا ہے اور پھر یہ کاغذ ردی ہو جاتا ہے کیونکہ دولہا کہہ دیتا ہے کہ دلہن نے اپنی رضا سے کاغذ اسے دے دیا۔

اس عرصہ میں دولہا نے دلہن کو نتھ جس میں ایک لعل اور دو موتی پڑے ہوئے تھے، بھیجی۔ دلہن اب اپنی چارپائی سے اٹھی اور اسے غسل کرایا گیا اور بیش قیمت پوشاک اور زیور پہنائے گئے۔ لیکن ان سب کپڑوں کے اوپر دو دوشالے ایک زردوزی کا ایک روپہری اس طرح سے اس کو پہنائے گئے کہ سر سے پاؤں تک کوئی جُزوِ بدن اس کا نظر نہیں آتا تھا۔ دلہن کے سر پر بھی سہرا بندھا ہوا تھا۔ نکاح نامہ پر دستخط کر دینے کے بعد دولہا زنانہ مکان میں گیا۔ جیمس صاحب نے سوسن کو گودی میں اٹھا کر دولہا کے برابر مسند پر لا کر بٹھایا۔ دلہن اس طرح دبی ہوئی اور کپڑوں میں لپٹی ہوئی تھی کہ کوئی شخص یہ گمان نہیں کر سکتا تھا کہ ان کپڑوں میں کوئی جاندار ہے۔ دلہن کے سر پر، کندھوں پر اور پیروں پر مصری کے ٹکڑے مستورات نے رکھے اور دولہا سے یہ کہا گیا کہ تم اپنے منہ سے اٹھا کر ان ٹکڑوں کو کھاؤ۔ دولہا نے ایسا ہی کیا۔ پھر دلہن کی روگی کو کمخواب میں لپیٹ کر اس پر مصری کی ڈلی رکھی اور دولہا سے کہا کہ کھاؤ۔ یہ ایک بڑا بھاری مذاق سمجھا جاتا ہے اور جو دولہا اس طرح دھوکے میں آ جاتا ہے اُس کی بڑی ہنسی اُڑائی جاتی ہے۔

اس کے بعد قرآن کی چند آیتیں بلند آواز سے پڑھی گئیں۔ پھر ایک دوشالہ چار عورتیں دولہا دلہن کے سر پر لے کر کھڑی ہوئیں۔ ایک شیشہ دولہا کے ہاتھ میں دیا۔ اس کے بعد دولہا نے دلہن کی نقاب کو ہٹایا۔ اور اب دولہا دلہن نے پہلی مرتبہ ایک دوسرے کو آئینہ میں دیکھا۔ اس موقع پر اگر دولہا کو یہ معلوم ہو کہ اس کو کسی طرح کا دھوکا دلہن کے بارہ میں دیا گیا ہے تو وہ علانیہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میں شادی نہیں کرتا۔ لیکن دولہا اور دلہن دونوں کے چہرہ سے اس رسم کے بعد بشاشت ٹپکتی تھی۔ دولہا نے دلہن کو اپنی گود میں لے کر ایک چاندی کی پلنگڑی پر بٹھایا اور خود برابر بیٹھ کر پنکھا کیا۔ ان رسموں میں صبح ہو گئی اور ١١ بجے کے قریب تمام جہیز سامنے لا کر رکھا گیا اور ہر ایک چیز دیکھی گئی اور رخصت کی تیاری شروع ہوئی۔جب رخصت کا وقت قریب آیا تو تمام بیگمات دلہن کے پاس آئیں اور سب نے گلے مل مل کر رونا شروع کیا۔

کرنل بھی موجود تھے اور میں نے دیکھا کہ جب انہوں نے اپنی پوتی کو گلے لگایا تو ان پر بہت رقت طاری ہو گئی تھی اور وہ تھر تھر کانپ رہے تھے۔ کرنل نےشاہزادے کو بلا کر صاف طور پر کہا کہ اگر تم میری لڑکی کے ساتھ محبت سے سلوک کرو گے تو تم کو کسی بات کی کبھی کمی نہیں ہو گی۔ لیکن اگر تم اس سے بدسلوکی کرو گے تو تمہارے لیے بہتر نہ ہو گا۔ کرنل نے مجھ سے کہا کہ جب میں نے اپنی دوسری پوتی کی شادی گارڈنر سے کی تو مجھ کو کسی قسم کا اندیشہ اس کی بابت نہ تھا لیکن اس کی بابت میں اُسی پختگی سے نہیں کہہ سکتا۔ مگر چونکہ یہ لڑکی اور اس کی ماں اور دادی یہ چاہتی تھیں کہ شاہزادے سے اس کی شادی ہو، اس لیے مجھ کو مجبوراً ماننا پڑا۔ بیٹی تم جانتی ہو کہ جس بات پر عورتیں اڑ جاتی ہیں تو اسے کر کے چھوڑتی ہیں۔ کرنل صاحب مجھے ہمیشہ بیٹی کہہ کر پکارتے تھے اور زنانہ میں سب مجھ کو فینی بوا کہتے تھے۔ جب سب تیاری ہو چکی تو دولہا نے دلہن کو گودی میں اٹھا کر فنس میں سوار کر دیا اور کلابتونی ڈوریوں سے پردے کس دیے۔ دولہا گھوڑے پر سوار ہو کر فنس کے آگے آگے ہوا اور دلہن کی سواری کےپیچھے پیچھے تمام جہیز کا سامان روانہ ہوا۔ بہت سے بیش قیمت جوڑے دلہن کے لیے دیے گئے اور علاوہ تیار شدہ پوشاکوں کے بہت سے تھان مخمل، گورنٹ، ململ، زربفت وغیرہ کے بھی تھے۔ دو چاندی کے پلنگ تھے اور تمام ظروفِ خانگی بھی چاندی کے تھے۔ دو ہاتھی، کئی گھوڑے، کئی رتھ اور ایک پالکی بھی جہیز میں شامل تھی۔ الغرض ایک نیا گھر بسانے کے لیے جو جو چیزیں درکار ہوتی ہیں سب ایک امیرانہ ٹھاٹھ پر موجود تھیں۔ کئی لونڈی غلام بھی خدمت کے لیے ساتھ تھے۔ جواہرات اور زیورات بھی بہت قیمتی تھے۔

دلہن کو شاہزادہ اپنے خیموں میں لے گیا۔ مسٹر دگنی کہتے ہیں کہ یہاں میں نے ایک عجیب رسم دیکھی جو خاص خاندان تیمور میں برتی جاتی ہے ۔ جب دلہن خیمے کے دروازہ پر پہنچی تو اس کا ایک پیر باہر نکالا، اس پر مہندی لگی ہوئی تھی۔ دولہا نے انگوٹھے پر اپنے ہاتھ سے بکرے کا خون لگایا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دولہا نے اپنے ہاتھ سے اس کو ذبح کیا تھا۔ جب یہ ہو چکا تو دلہن نے پیر اندر کر لیا اور پھر اندر خیمہ میں چلی گئی۔ تین دن تک دولہا دلہن خیموں میں رہے، چوتھے روز چوتھی کی رسم کے لیے کاس گنج کرنل صاحب کے ہاں آئے۔

(٢ اپریل ١٨٣٥ء؁)

آج شادی کی رسموں میں سب سے آخر رسم چوتھی کی ادا ہوئی۔ جب دولہا دلہن زنانہ میں گئے تو وہاں مسند پر ان کو بٹھایا اور بہت سی کشتیاں جن میں میوہ جات اور طرح طرح کی تازہ ترکاریاں رکھی ہوئی تھیں، ان کے سامنے لائی گئیں۔ سوسن نے شادی کے کپڑے اتار دیے تھے اور بیگمات دہلی کی پوشاک پشواز جو بنارسی کپڑے کی تھی، زیب بدن تھی اور سب زیور پہنے ہوئے تھی۔ مختلف قسم کے توپھل ایک کپڑے میں لپیٹے اور اس کی کمر کے گرد پیش خدمتوں نے لٹکائے۔ دلہن مشکل سے اس بوجھ کو سنبھال کر اٹھی اور اس نے کمرے کے چاروں کونوں کو سلام کیا۔ پھر پھولوں سے اس کا سر گوندھا گیا اور دولہا دلہن نے روپیہ کے اوپر مصری رکھ کر کھائی۔ ایک چھڑی جس پر روپہری گوٹا چڑھا ہوا تھا، دولہا کو دی گئی اور ایک ایسی ہی دلہن کے ہاتھ میں۔ اور ان چھڑیوں سے انہوں نے ایک دوسرے کو مارنا شروع کیا۔ اور بیگمات کو بھی ایسی ہی چھڑیاں دی گئیں اور لونڈیوں باندیوں کوپھولوں کی چھڑیاں ملیں۔ چوتھی سے کئی روز پیشتر سے بڑی بیگم تمام بیگمات اور لونڈیوں کو ایک خاص قسم کا ناچ سکھا رہی تھیں جو ان چھڑیوں کو ہاتھ میں لے کر کیا جاتا ہے۔ سوائے شادی کے موقعہ کے اور ہر موقعہ پر ہندوستانی شریف زادیاں ناچ گانے کو بہت معیوب سمجھتی ہیں۔ یہ ناچ خاندان تیمور کے لیے مخصوص ہے۔

اس کے بعد ترکاریاں اور پھول ایک دوسرے کی طرف پھینکے جاتے ہیں اور اس میں بہت دل لگی ہوتی ہے۔ باندیاں بھی آزادی کے ساتھ اس رسم میں شریک ہوتی ہیں۔ آج شادی کی تمام رسمیں ختم ہوئیں۔ دولہا دلہن کرنل گارڈنر کی نیل کی کوٹھی میں جا کر رہیں گے۔ دلہن شادی کے بعد چار جمعہ متواتر اپنی ماں کے پاس گزارتی ہے اور ان چاروں موقعوں پر دولہا کو نئے کپڑے دیے جاتے ہیں۔

زنانہ میں ایک دستور یہ بھی ہے کہ ہر ایک بیگم ایک لونڈی کو گود لے کر اپنی بیٹی کے طور پر اسےپرورش کرتی ہے اور انجام میں حسب حیثیت اس کی شادی کرتی ہے۔ کرنل گارڈنر کے محل سرا میں لونڈیاں باندیاں بچے ملا کر میرے خیال میں دو سو جانوں سے کم نہ ہوں گے۔ شبیہ کی ماں بہت خوش و خرم ہے۔ اس کے خیال میں لڑکی کی شادی اس سے عمدہ جگہ ہونی ناممکن تھی۔ کاس گنج میں محل سرا کے اندر ایک وسیع پائیں باغ ہے اور اس کے وسط میں ایک خوشنما بارہ دری ہے اور چاروں طرف اس کے فوارے لگ رہے ہیں۔ بیگمات اکثر اس باغ میں ٹہلا کرتی تھیں۔ ان کو جھولا جھولنے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ چنانچہ اس باغ میں بھی کئی جھولے پڑے ہوئے ہیں۔

ایک دن کرنل صاحب کی طبیعت بہت ناساز ہو گئی۔ بیگم اس حالت میں بھی رواج کی اس قدر پابند تھیں کہ باہر نہ جا سکیں۔ آخر کرنل صاحب میرا سہارا لے کر اٹھے اور باغ کے کنارے پر ایلن کی قبر کی طرف آئے اور بولے کہ اب میری زیست کا بھروسا نہیں ہے۔ اے بیٹی! اب میں پھر تم سے نہ ملوں گا۔ میں نے جیمس سے کہہ دیا ہے کہ میری قبر ایلن کے برابر بنائی جائے۔ بیچاری بیگم مجھے پورا یقین ہے کہ اس صدمے سے جانبر نہ ہو گی اور میری وفات کے چند ہی روز بعد مر جائے گی۔ اس کا رنج زیادہ ظاہر نہ ہو گا لیکن دل بالکل ٹوٹ جائے گا۔ جب اس کا بیٹا ایلن مرا تھا تو اس کو اتنا رنج ہوا تھا کہ اس نے اپنے تمام زیور اور جواہر موسل لے کر کوٹ ڈالے تھے۔

کرنل نے مجھے ایک روز کہا کہ اگر تم دہلی جانا چاہو تو میں بادشاہ کی بہن نواب شاہ زمانی بیگم کے نام تمہیں خط دوں گا، وہ تم کو سب مکانات کی عمدہ طرح پر سیر کرا دیں گے۔

٢٩ جولائی کو کرنل صاحب کا کاس گنج میں انتقال ہو گیا اور ان کی لاش ان کے بیٹے کے برابر دفنائی گئی۔ ٦٥ سال کی عمر پائی۔ ان کی وفات کے روز سے ہی بیگم بیمار ہو گئی اور غم کھاتے کھاتے سوکھ گئی۔ اور اپنے خاوند کی وفات کے ایک ماہ اور دو روز بعد مر گئی۔


تمام شد

١۔ سوسن کا دوسرا نام ہے۔