در باب نظم اور کلام موزوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
در باب نظم اور کلام موزوں
by محمد حسین آزاد

(حسب الفرمائش)

مولوی صاحب کی یہ تقریر رسالہ انجمن شمارہ ماہ اگست 1868ء سے ماخوذ ہے۔ ’’حسب الفرمائش‘‘ کے الفاظ انہوں نے اپنے قلم سے بعد میں تحریر کئے ہیں۔ اسی مضمون نے نظر ثانی سے نور حاصل کیا ہے۔ بعض مقامات پر کچھ الفاظ تبدیل کئے ہیں۔ مثلا چھپا ہوا فقرہ تھا، ’’نظم در حقیقت ایک شاخ گلریز فصاحت کی ہے۔‘‘ اسے کاٹ ’’نظم در حقیقت ایک پھولوں بھری شاخ فصاحت کی ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی دوسرا فقرہ تھا، ’’پھولوں کی بو سے مختلف خوشبوئیاں محسوس دماغ ہوتی ہیں۔‘‘ اسے قلم زد کر کے لکھا ہے، ’’پھولوں کی بو سے الگ الگ خوشبوئیاں محسوس دماغ ہوتی ہیں۔‘‘ اس سے ذرا آگے لکھا تھا۔ ’’کسی کی بو تیز ہے کسی کی بو مست۔ کسی بو میں نفاست و لطافت ہے کسی میں سہانا پن ہے۔‘‘ نظر ثانی کے کرشمہ سے یہ فقرہ اس طرح بنا، ’’کسی کی بو تیز ہے کسی کی میٹھی، کسی کی مست ہے کسی میں لطافت ہے کسی میں سہانا پن ہے۔‘‘یہ مضمون بغیر کسی تبدیلی کے مجموعہ نظم آزاد میں چھپ چکا ہے۔ اسے سامنے رکھ کر پڑھنے سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ نظر ثانی سے اس مضمون میں کیا کیا خوبیاں پیدا ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ رسالہ بعض مقامات سے کرم خوردہ تھا۔ کٹے ہوئے الفاظ کو پر کرنے میں مجموعہ نظم آزاد سے مدد لی گئی ہے۔اس موقع پر میں یہ عرض کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ عرصہ دراز سے کچھ لوگ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نیچر کی شاعری کے موجد مولانا آزاد نہیں تھے۔ یہ مضمون پڑھنے کے بعد ثابت ہو جاتاہے کہ مولانا مرحوم کے دل میں یہ خیال بہت مدت سے پرورش پاتا رہا تھا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کرنل ہالرائڈ ڈائریکٹر تعلیم کی تحریک سے نیچر کی شاعری کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس معاملہ کی اصل صورت یہ ہے کہ اس تحریک میں کرنل صاحب بھی محض ایک معاون کی حیثیت سے شامل ہوئے تھے اوراصل محرک صرف مولانا اور مولانا کی ذات گرامی تھی۔‘‘فلاسفہ یونان کا قول ہے دنیا میں دو چیزیں نہایت عجیب اور حیرت انگیز ہیں۔ اول نبض انسانی کہ بے گویائی حال باطن بیان کرتی ہے۔ دوم شعر کہ انہیں الفاظ کے پس پشت سے کلام موزونیت اور اس سے ایک تاثیر عجیب دل پر پیدا ہوتی ہے۔ کتابوں میں اکثر شعر کے معنی کلام موزوں و مقفیٰ لکھے ہیں لیکن درحقیقت چاہئے کہ وہ کلام مؤثر بھی ہو ایسا کہ مضمون اس کا سننے والے کے دل پر اثر کرے۔ اگر کوئی کلام منظوم تو ہو لیکن اثر سے خالی ہو تو وہ ایک ایسا کھانا ہے جس میں کوئی مزا نہیں، نہ کھٹا نہ میٹھا، جیسا کہ شعر کسی استاد کا ہے۔دندان توحبلہ در دہان استچشمان تو زیر ابر دانستجب انسان کے دل میں قوت گویائی اور جوشش مضمون مجتمع ہوتے ہیں تو طبیعت سے خود بخود کلام موزوں پیدا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جس قدر اس قوت اور اس قوت کا جوش و خروش زیادہ ہوگا اسی قدر کلام پر تاثیر ہوگا۔ روئے زمین پر پہلا غم ہابیل کا تھا کہ قابیل کے سبب سے حضرت آدم کے دل پر طاری ہوا۔ نتیجہ اسے جوش غم کا سمجھنا چاہئے کہ اگرچہ اس وقت تک شعر و شاعری کا نام نہ تھا مگر جوش طبیعت سے جو کچھ کلام اس وقت اون کی زبان سے نکلے (نکلا) موزوں تھے (تھا) چنانچہ سریانی میں (اب تک) موجود ہیں (ہے)۔ جبکہ اصل کلام موزوں کی حضرت آدم سے ہوئی تو فرزند رشید وہی موزوں طبع ہے کہ جو باپ کی میراث سے بہرہ ور ہوا۔ اس میں شک نہیں کہ آدمی اور حیوان میں فرق گویائی کا ہے۔ پس قوت انسانی بھی اسی میں کامل تر سمجھنی چاہئے جس میں قوت گویائی کا مل تر ہو۔چونکہ نظم بہ نسبت نثر کے زیادہ تر زور طبیعت سے نکلتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ بہ نسبت نثر کے مؤثر بھی زیادہ ہوتی ہے۔ کوئی مضمون، کوئی مطلب، کوئی خیال جو انسان کے دل میں آئے یا مخاطب کو سمجھانا چاہے تو تکلم سے نقش مدعا کو رنگ تقریر میں لاتا ہے تاکہ ظاہر ہو۔ پس شاعر گویا ایک مصور ہے لیکن نہ وہ مصور کہ خرد اشر درخت اور پتھر کی تصویر کاغذ پر کھینچے۔ بلکہ وہ ایسا مصور ہے کہ معنیٰ کی تصویر صفحہ دل پر کھینچتا ہے۔ اور بسا اوقات اپنی رنگینی فصاحت سے عکس نقش کو اصل سے بھی زیادہ زیبائش دیتا ہے۔ وہ اشیا جن کی تصویر قلم مصور نہ کھینچے، یہ زبان سے کہہ دیتا ہے۔ چنانچہ ہزاروں صفحات کاغذ بھیگ کر فنا ہوگئے مگر صدہا سال سے آج تک ان کی تصویریں ویسی کی ویسی ہی ہیں۔ کبھی تصویر غم صفحہ دل پر کھینچتا ہے۔ کبھی مضامین فرحت و عیش سے طبیعت کو گلزار کرتا ہے۔ انتہائے مرتبہ یہ ہے کہ جب چاہتا ہے ہنسا دیتا ہے۔ جب چاہتا ہے رلا دیتا ہے۔اہل عرب معرکہ ہائے قتل میں رجز خوانی کرتے تھے۔ سلاطین ہند کے ہاں صف جنگ میں سور ویر، راوت، بھاٹ و ہ وہ کڑ کے، کوٹ کہتے تھے کہ لوگ جانیں اپنی موت کے منہ میں جھونک دیتے تھے۔ اور اب تک یہ عالم ہے کہ جب سنے جاتے ہیں بدن پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سکندر اعظم کتاب ہو مرکو دیکھتا ہے اور سوتے میں بھی جدا نہ کرتا ہے۔ شاعر اگر چاہے تو امور عادیہ کو بھی بالکل نیا بنا کر دکھائے۔ پتھر کو گویا کر دے۔ درختان پادر گل کو رواں کر دے۔ ماضی کو حال، حال کو استقبال کر دے۔ دور کو نزدیک کر دے۔ زمین کو آسمان، خاک کو طلا، اندھیرے کو اجالا کر دے۔ اگر غور کر کے دیکھو تو اکسیر اور پارس اسی کو کہنا چاہئے کہ جسے چھو جائے سونا ہو جائے۔ زمین اور آسمان اور دونوں جہان شعر کے دو مصرعوں میں ہے۔ ترازو اس کی، شاعر کے ہاتھ میں ہے، جدھر (چاہے) جھکا دے۔نظم در حقیقت ایک پھولوں بھری شاخ فصاحت کی ہے۔ پھولوں کے رنگ و بو سے دماغ جسمانی ترو تازہ ہوتا ہے۔ شعر سے روح ترو تازہ ہوتی ہے۔ پھولوں کی بو سے الگ الگ خوشبوئیاں محسوس دماغ ہوتی ہیں۔ کسی کی بو تیز ہے، کسی کی میٹھی، کسی کی بو مست ہے، کسی میں لطافت ہے، کسی میں سہاناپن ہے، اسی طرح مضامین اشعار کا بھی حال ہے۔ جس طرح پھول کی کبھی چمن میں کبھی ہار میں کبھی عطر کھینچ کر کبھی عرق میں جا کر کبھی دور سے کبھی پاس سے مختلف کیفیتیں معلوم ہوتی ہیں، اسی طرح مضامین شعری مختلف حالتوں اور مختلف عبارتوں میں رنگا رنگ کی کیفیتیں عیاں کرتے ہیں۔عالم جسمانی میں انسان کے لئے غذا مادۂ حیات ہے۔ اسی طرح عالم معنی میں روح کے لئے غذا درکار ہے۔ چونکہ اشعار و مضامین لطیف سے روح قوت کمال اور طاقت بلند پردازی پاتی ہے۔ یہی اس کی غذا ہے۔ روح کی لطافت اور نفاست تو خود ظاہر ہے کہ خاص روح القدس کے آفتاب قدرت کا پر تو ہے۔ اسی سے شعر کی جواہر لطافت کو خیال کرنا چاہئے کہ نفاست میں کس مرتبہ عالی پر ہوگا۔ شاعر کو ایک نسبت خاص عالم بالا سے ہے کہ بے وساطت اور بے اسباب ظاہری کے ادھر سے اپنا سلسلہ جاری کرتا ہے۔ فی الحقیقت شعر ایک پرتو روح القدس کا اور فیضان رحمت الہی کا ہے کہ اہل دل کی طبیعت پر نزول کرتا ہے۔یہی سبب ہے کہ ظاہراً اپنے کلبۂ احزان میں پڑا رہتا ہے مگر تمام عالم میں اس طرح پر حکومت کرتا ہے جیسے کوئی صاحب خانہ اپنے گھر میں پھرتا ہے۔ پانی میں مچھلی اور آگ میں سمندر ہو جاتا ہے۔ ہوا میں طائر بلکہ آسمان میں فرشتہ کی طرح نکل جاتا ہے۔ جو مضامین چاہتا ہے بےتکلف لیتا ہے اور بہ تصرف مالکانہ اپنے کام میں لاتا ہے۔ زہے سعادت اس کی جسے ایسے ملک معنیٰ کی سلطنت نصیب ہو۔شعر گلزار فصاحت کا پھول ہے، گلہائے الفاظ کی خوشبو ہے۔ روشنی عبارت کا پرتو ہے۔ علم کا عطر ہے، قوائے روحانی کا جوہر۔ تاثیر معنوی کا ست ہے۔ روح کے لئے آب حیات ہے گرد غم کو دل سے دھوتا ہے، دل بڑھاتا ہے۔ طبیعت کو پھیلاتا ہے۔ خیال کو عروج دیتا ہے۔ دل کو استغنا اور بے نیازی، ذہن کو قوت (پرواز دیتا ہے) گرد افکار سے دامن دل کو بلند رکھتا ہے۔ تنہائی میں دل لگی پیدا کرتا ہے۔ وحدت ( میں کثرت) اور کثرت میں وحدت، سفر در وطن اور خلوت در انجمن کے یہی معنی ہیں۔ اگرچہ شاعر ہمیشہ فکر و تردد میں غرق رہتا ہے لیکن ایک شعر کہہ کر جیسی اس کے دل کو فرحت حاصل ہوتی ہے، بادشاہ کو تسخیر ہفت کشور سے نہیں ہوتی۔دل میں سوز گداز اور طبیعت میں ایسی قبولیت اثر کی پیدا کرتا ہے کہ بات بات میں ایک لطف اور کیفیت حاصل ہوتی ہے۔ اور وہ لطف طاقت تحریر و تقریر دونوں سے باہر ہے۔ اس کے اثر سے جو رنگ دل پر طاری ہوتا ہے صاحب درد ہی اسے خوب جانتا ہے کہ ہزار خوشیوں سے زیادہ لطف حاصل ہوتا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ یہ فضیلت اختیاری نہیں۔ یعنی موزونیٔ طبع جوہر خدا داد ہے اور اسی نعمت کو خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔رباعیسر مد غم عشق بوالہوس راند ہندسوز دل پر وانہ مگس را ندہندعمر ے باید کہ یار آید بکنارایں دولت سرمد ہمہ کس راندہندجنون بھی ایک طرح سے لازمہ شاعری ہے۔ بعضے محققوں کا قول ہے کہ دیوانہ اور عاشق اور شاعر کے خیالات بعض بعض مقامات پر متحد ہو جاتے ہیں۔ شاعر کو لازم ہے کہ سب طرف سے مطمئن اور سب خیالات سے منقطع ہو کر اسی کام میں متوجہ اور غرق ہو جائے اور یہ بات سوائے مجنون کے یا عاشق کے کہ وہ برادر مجازی اس کا ہے، ہر ایک شخص سے نہیں ہو سکتی۔ مجنون کو اپنے جنون اور عاشق کو معشوق کے سوا دوسرے سے کچھ غرض نہیں۔ خدا یہ نعمت سب کو نصیب کرے۔اکثر لوگ ایسے ہیں کہ جسمانی محنت سے مر کھپ کر انہوں نے پڑھنا لکھنا سیکھ لیا ہے مگر لطف شعر سے بہرہ نہیں۔ اگر تمام عمر ضائع کریں ایک مصرعہ پر درد ان کی زبان سے نہ نکلے۔ ان کا ذکر بھی انشاء اللہ اسی سلسلہ میں آئےگا۔ بعضے ایسے ہیں کہ ان سے کلام موزوں پڑھا بھی نہیں جاتا۔ بلکہ انہیں موزوں و ناموزوں میں (فرق بھی) نہیں معلوم ہوتا۔ یہ غضب الہی ہے، خدا اس سے محفوظ رکھے۔ بعضے شاعر مضمون خوب (نکالتے ہیں) مگر زبان صاف نہیں پائی کہ بیان فصاحت کر سکیں۔ بعضے ایسے ہیں کہ زبان ان کی صاف ہے مگر مضامین عالی نہیں ہاتھ آتے۔ چنانچہ ہر ایک کی جگہ پر بجائے خود اشارہ کیا جائےگا۔یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ جوش مضامین اور شگفتگی طبع کے لئے بعض بعض موسم خاص ہیں۔ چنانچہ فصل بہار اور موسم برسات میں طباع موزوں زیادہ تر شگفتہ ہوتی ہیں۔ بلکہ ناموزوں اور مردہ دلوں کی طبیعت میں بھی ایک حرکت مذبوحی پیدا ہوتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کے لئے اوقات اور مقامات خاص ہیں۔ اول خلوت کہ جہاں ذہن اور طرف نہ بٹے۔ خواہ گھر میں گوشہ عافیت ہو، خواہ باغ، خواہ صحرا، خواہ کنار دریا اور دل ہمہ تن اسی میں مصروف ہو۔ وقت اکثر وقتِ شب کہ جب خلق خدا اپنے اپنے کاموں سے تھک کر سو جاتی ہے، تب شاعر اپنے کام میں مصروف ہوتا ہے۔ جب تمام عالم سنسان ہو جاتا ہے، تب اس کی طبیعت میں شور پیدا ہوتا ہے۔، جوں جوں رات ڈھلتی جاتی ہے، خیال زیادہ تر بلند ہوتا ہے اور مضمون میں پیرتا جاتا ہے۔ خصوصاً پچھلی رات اور قریب صبح کہ عالم چپ چاپ اور خاطر مطمئن، طبیعت صاف، ہوا لطیف ہوتی ہے، دل شگفتہ ہوتا ہے۔ مضمون کی کاوش سے دل کو ایک لذت حاصل ہوتی ہے۔ مضامین عالی طبیعت سے اور الفاظ پر معانی زبان سے متراوش ہوتے ہیں۔شاعر کو چاہئے کہ طبیعت اس کی زیادہ تر قابل، صاحب قبولیت اور اثر پذیر ہو۔ جس حالت کو بیان کرے اس کا اثر پہلے اس کے دل پر چھا جائے۔ مثل آب رواں کہ جو رنگ اس میں پڑ جاتا ہے وہی اس کا رنگ ہو جاتا ہے اور جس چیز پر پڑے اسے ویسا ہی رنگ دیتا ہے۔ جب دوسروں کے دل کو نرم کرےگا، اگر لوگوں کی طبیعت خوشی کی حالت میں لانی چاہے تو چاہئے کہ پہلے آپ مار ے خوشی کے باغ باغ ہو جائے۔ جو کچھ کہنا ہے جبکہ اس کے اپنے دل پر اثر نہیں تو دوسروں پر کیا ہوگا۔ مائل کی رباعی اس مقام پر مجھے یاد آئی، چنانچہ لکھتا ہوں۔رباعیکعبہ میں بھی ہم نے اسے جاتے دیکھااور دیر میں ناقوس بجاتے دیکھاشامل ہے بہفتاد و دولت مائلہر رنگ میں پانی سا سماتے دیکھااس کی اپنی ہی طبیعت کا اثر ہوتا ہے کہ مضمون فرحت یا غم، رزم یا بزم کا باندھتا ہے، جتنی اس کی طبیعت اس سے متاثر ہوتی ہے اتنا ہی اثر سننے والے کے دل پر ہوتا ہے۔ دنیا میں بعضے لوگ ایسے ہیں کہ جب وہ شعر سنتے ہیں تو دل بے قرار اور طبیعت بے اختیار ہو جاتی ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ ان کا دل مثل آئینہ صاف اور طبیعت آب زلال کی مانند اثر پذیر ہے اور بعضے ایسے ہیں کہ ان کے سامنے اگر طلسمات معانی کے دریا کو شیشہ میں (بند) کر کے رکھ دو تو بھی انہیں خبر نہو۔ سبب اس کا کدورت دل ہے کہ نور معنی و مضمون کا اس میں اثر نہیں کر (سکتا) روشن دلان اہل درد کے نزدیک طلوع و غروب آفتاب اور انقلاب صبح و شام ہزاروں باغ نو بہار قدرت الہی کے شگفتہ کرتا ہے۔ اور تیرہ دلان کور باطن کے نزدیک کارگاہ عالم ایک خراس یا دولاب ہے کہ دن رات چکر میں چلا جاتا ہے۔علم موسیقی کا لطف اور گلزار بو قلموں کی کیفیت ظاہر ہے کہ بیان سے باہر ہے لیکن جو لوگ بینائی سے محروم یا کانوں سے معذور ہیں، وہ بیچارے ان کے لطفوں سے بہرہ یاب نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح جو لوگ لطف طبیعت اور صفائی دل سے محروم ہیں وہ کیفیت شعر و فصاحت کلام سے محروم ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ بعضے طبائع شعر سے متنفر پائے جاتے ہیں اور دلیل اس کی یہ پیش کرتے ہیں کہ اس سے کچھ حاصل نہیں۔ اگر فائدے سے یہی مراد ہے کہ جس کے عمل سے چار پیسے ہاتھ آئیں تو بے شک شعر بالکل کار بے فائدہ ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ ابنائے زمانہ نے آج کل شعر کو ایک ایسی حالت میں ڈال دیا ہے لیکن باوجود اس کے بھی جو لوگ طبع موزوں رکھتے ہیں اگر زور طبیعت کو علوم اور تواریخ و قصص میں صرف کریں تو فائدہ و کسب دنیاوی بھی خاطر خواہ دیوے۔ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ اکثر اشخاص علی العموم فن شعر کو گمراہی خیال کرتے ہیں۔ اور فی الحقیقہ حال ایسا ہی ہے لیکن جو لوگ سر معنیٰ اور اصل سخن کو پہنچے ہوئے ہیں وہ جانتے ہیں اگر صناع خبث طبیعت سے صنعت کو بری طرح کام میں لائے تو اصل صنعت پر الزام نہیں آ سکتا۔ شیطان نے معلم الملکوت ہو کر گمراہی اختیار کی۔ پس اس کے لئے ہر گز علم کو ضلالت نہیں کہہ سکتے۔مسائل فلسفہ و حکمت جن سے اہل ہدایت ثبوت باری تعالی اور تصدیق وحدت الہی کرتے ہیں، اسی سے اہل ضلالت دہر و الحاد پر استدلال کرتے ہیں۔ پس جس طرح ان کی ضلالت سے فلسفہ و حکمت پر الزام نہیں آ سکتا، اسی طرح شاعروں کی بدزبانی و بدخیالی سے شعر بھی تہمت کفر سے بد نام نہیں ہو سکتا۔ درحقیقت ایسے کلام کو شعر کہنا ہی نہیں چاہئے کیونکہ شعر سے وہ کلام مراد ہے جو جوش و خروش (خیالات) سنجیدہ سے پیدا ہوا ہے اور اسے قوت قدسیہ الہی سے ایک سلسلہ خاص ہے۔ خیالات پاک (جوں جوں) بلند ہوتے جاتے ہیں مرتبۂ شاعری کو پہنچتے جاتے ہیں۔ابتدا میں شعر گوئی حکما اور علماء متبحر کے کمالات میں شمار ہوتی تھی اور ان تصانیف میں اور حال کی تصانیف میں فرق بھی زمین و آسمان کا ہے۔ البتہ فصاحت اور بلاغت اب زیادہ ہے مگر خیالات اکثر خواب ہو گئے ہیں۔ سبب اس کا سلاطین و حکام عصر کی قباحت ہے۔ انہوں نے جن جن چیزوں کی قدر دانی کی، لوگ اس میں ترقی کرتے گئے ورنہ اسی نظم و شعر میں شعرائے اہل کمال نے بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں۔ جن کی بنا فقط پند و اندرز پر ہے اور ان سے ہدایت ظاہر و باطن کی حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ بعض کلام مثلاً سعدی، مولوی روم و حکیم ثنائی و ناصر خسرو اسی قبیل سے ہیں۔پس اس انجمن کے تقریر اور آپ صاحبوں کی برکت اجتماع سے یہ بھی امید ہے کہ جہاں اور محاسن و قبائح کی ترویج و اصلاح پر نظر ہوگی، فن شعر کی اس قباحت پر بھی نظر رہےگی۔ گو آج نہیں مگر امید قوی ہے کہ انشاء اللہ کبھی نہ کبھی اس کا ثمر نیک حاصل ہو کہ یہ فن شریف مدت دراز سے خرابی میں پڑا ہے اور روز بروز تباہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse