حیات ماہ لقا/چندا بی بی کو بارگاہ خسروی سے ماہ لقا بائی کا خطاب اور نوبت و گھڑیال کا عطا ہونا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

جب بندگان عالی مع الخیر سفر پانگل سے معاودت فرمائے تو 1217؁ھ میں حیدرآباد پہنچ کر ایک جشن عشرت افزا مرتب فرمایا اور تمام امرا و منصب دار خطاب و منصب، علم و نقارہ سے سرفراز و ممتاز کیے گئے اور بمناسبت نام کے چندا بی بی کو ماہ لقا بائی کا خطاب اور نوبت و گھڑیال (جو لازمۂ منصب داری ہے) سے سرفراز فرمایا۔ چنانچہ عطائے نوبت کی تاریخ ایک صاحب نے حسب ذیل لکھی ہے:

قطعہ

نوید آمد بعالم مہ لقا را

ترانہ ساز سالش گفت ناہید

نوازش کرد از نوبت شہنشاہ

بلند آوزہ نوبت باد دلخواہ


انتقال پرملال نواب نظام علی خاں بہادر

نواب نظام علی خاں بہادر بعمر 72 سالہ 18؍ ربیع الثانی 1218؁ھ کو راہی روضۂ رضوان ہوئے۔ 44 سال حکمرانی کی اور بعد انتقال غفران مآب لقب ہوا۔ اس صدمۂ جانکاہ سے رعایا برایا، امیر و غریب ہر ایک متاسف و متالّم ہوا اور مرشد زادۂ آفاق نواب میر اکبر علی خاں سکندر جاہ آصفجاہ ثالث مسند نشین ریاست ہوئے اور ارسطو جاہ بہادر حسب سابق مدار المہام ریاست رہے۔ چنانچہ آصف جاہ ثالث کے عہد میمنت مہد میں بھی اس نادرۂ روزگار کا طالع عروج پر رہا اور وہی نوازشات شاہی و الطاف خسروی شامل حال رہے۔ اکثر چوبدارِ شاہی خیریت و مزاج پرسی کے لیے آتا رہتا تھا۔


ماہ لقا بائی کو میر عالم بہادر کی مصاحبت کا حاصل ہونا

جب ارسطو جاہ نے رحلت پائی اور میر ابو القاسم نواب میر عالم بہادر مدار المہام ریاست ہوئے تو یہ عجوبۂ روزگار ان کی مصاحب خاص ہو گئی۔ چونکہ میر عالم بہادر کا مزاج قدردان اہل کمال تھا اور فصاحت و بلاغت میں حسان و سحبان پر گوئے سبقت لے جاتے تھے۔ اس لیے ماہ لقا بائی کی صحبت اور لطیفہ گوئی اور حاضر جوابی سےکمال محظوظ ہوتے تھے اور اکثر شعر گوئی کی صحبت رہا کرتی تھی۔ میر عالم بہادر کا مقولہ تھا کہ ایسا جلیس و انیس اور تلمیذ ارشد، تیز فہم، طبع رسا مثل ماہ لقا بائی کے کم دیکھنے میں آیا ہے۔ چنانچہ آپ نے ماہ لقا بائی کے حسن و جمال کی تعریف میں ایک سراپا تصنیف فرمایا تھا جو بخوف طوالت اور زبان فارسی میں ہونے کے نظر انداز کیا گیا۔


ماہ لقا بائی کی شاعری

ماہ لقا بائی کو شعر گوئی سے بے حد شوق تھا اور امیر علیہ السلام کی جناب میں کمال اعتقاد رکھتی تھی۔ چنانچہ اس کا طبعزاد ایک مختصر سا دیوان ہندی ہدیۂ ناظرین کیا جاتا ہے اور تمام غزلیات بالالتزام پانچ شعری ہیں۔ ہر ایک مقطع میں امیر علیہ السلام کا اسم مبارک موجود ہے۔ ماہ لقا بائی کو میر عالم بہادر کی شاگردی کا فخر حاصل تھا۔ چنانچہ خود بہادر موصوف کو اس کی شاگردی کا اعتراف ہے۔


ماہ لقا بائی کے خصائل و عادات

باوصف سامان ثروت و حشمت ماہ لقا بائی کا اخلاق اور تواضع بہت بڑھا ہوا تھا۔ اکتساب علم کے لیے اکثر فصحا، علما، شعرا کی صحبت رہتی تھی۔ چونکہ طبیعت موزوں پائی تھی، اس لیے ضلع جگت میں طاق، لطیفہ گوئی اور حاضر جوابی میں شہرۂ آفاق تھی۔ محاورہ درست روزمرہ چست تھا۔ ہمیشہ مکمل لباس سے آراستہ و پیراستہ رہتی تھی۔ بروقت طلبی بارگاہ خسروی پر حاضر ہوتی تھی۔ باقی اوقات کتب سیر و کتب متداولہ کے مطالعہ میں گزرتے تھے۔ کتاب خانہ ہر ایک علم و فن کی کتب سے مملو تھا۔ چونکہ اس زمانہ میں مطبع نہ تھا اس لیے اکثر کتابوں کی نقل کر لی جاتی تھی، چنانچہ متعدد کاتب ملازم تھے۔ کوئی کتاب نظم و نثر کی تازہ نظر آ جائے تو فوراً اس کی نقل کر لی جاتی۔سخن سنجی اور قدر دانی میں اس محبوبۂ روزگار کی ذات مغتنمات سے تھی۔ ہر روز ہزاروں فقرا اور مساکین کا ہجوم رہتا تھا۔ سادات کرام و مشائخین عظام کو بعنوان نذر و نیاز بہت کچھ عطا کرتی تھی۔