حیات ماہ لقا/ماہ لقا بائی کے اوقات کی پابندی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

ماہ لقا بائی جب صبح میں بیدار ہوتی تو پرستاران یاسمین اندام و کنیزان سوسن فام (جو خدمت گزاری پر مامور تھے) آفتابہ اور سیلابچی وضو کے لیے حاضر کرتے اور بعد از فراغ وضو مُصلا بچھا کر نماز ادا کرتی تھی۔ اس کے بعد وظائف میں مشغول ہوتی اور صحیفۂ کاملہ جناب سید الساجدین امام علی زین العابدین علیہ السلام پڑھ کر طلوع آفتاب تک اپنے دل کو جناب کبریا کے طرف رجوع کرتی۔ بعد ازاں کلام مجید کی تلاوت ببر علی مشہور بہ لاڈلے صاحب سے کرتی تھی۔ چاشت کے وقت دسترخوان چنا جاتا، اقسام اقسام کے کھانے موجود رہتے۔ خود بہت کم خوراک تھی، تھوڑا کھانے کے بعد تمام باقی حواشین و رفقا میں تقسیم کر دیا جاتا۔ اس کے بعد بالا خانہ پر قیلولہ کے لیے جاتی۔ وہاں سے فارغ ہو کے ظہرین کی نماز ادا کر کے تسبیح و تہلیل میں مشغول ہوتی اور ٦ گھڑی دن رہے دیوان خانہ میں بڑا قالین بچھایا جاتا اور اس پر مسند آراستہ کی جاتی۔ منشی، متصدی اور اہلکار کارخانہ حاضر ہو کر افراد مداخل و مخارج ملاحظہ میں گزرانتے۔ جب اس سے فراغت پاتی تو ایک دو بزرگ قابل و سخندان مجالست و ہم بزمی کے لیے حاضر ہوتے۔ چنانچہ علم سیر میں روضۃ الصفا، حبیب السیر، جلاء العیون، نادر نامہ وغیرہ کا مطالعہ رہتا اور دواوین فارسی و ہندی نہایت مرغوب خاطر تھے۔ جب شام ہوتی تو نماز مغرب و عشا ادا کرتی۔ بعد ازاں فن موسیقی کے اساتذہ حاضر ہوتے۔ رقص و سرود کی تعلیم ہوتی۔ چنانچہ کنیزان مہ پارہ مردنگ و سارنگ اور قانون و جلترنگ بجاتے اور خوش الحانی میں ہم آواز رباب و چنگ تھے۔


(بقیہ اگلے صفحہ پر)

گو خود علم موسیقی میں کامل الفن تھی لیکن پھر بھی خوشحال خاں کلانونت([5]) سے اس کے نکات و دقیقہ دریافت کرتی رہتی تھی۔

یوں تو ماہ لقا بائی کے تین سو کنیزیں اور متعدد خانہ زاد تھے۔ ازاں جملہ دو چھوکریاں موسوم بہ حسین افزا بائی اور حسین لقا بائی سربرآوردہ ممتاز نکلیں۔ چنانچہ بعد انتقال([6]) ماہ لقا بائی کے یہ دو نوچیاں تمام مال و اسباب کی مالک ہوئیں۔ کہتے ہیں کہ علاوہ عمارات و باغات وغیرہ کے صرف نقدی و جواہر و پشمینہ و اسباب وغیرہ ایک کڑوڑ روپیہ کا تھا۔ مزید برآں مواضعات پنپال، سید پلی، حیدر گوڑہ، چندا پیٹھ، پلے پہاڑ، مقطعہ علی باغ، مقطعہ اڈی پیٹھ جاگیرات بھی تھیں۔ چنانچہ بعد انتقال ماہ لقا بائی کے نواب سکندر جاہ بہادر کا حکم مہاراجا چندو لال بہادر کے نام یہ صادر ہوا کہ ماہ لقا بائی کی تمام جائیداد اور جاگیرات نگرانی میں لے لیے جاویں اور کنیزکوں و خانہ زادوں کو حسب مناسب تنخواہ کر دی جائے۔ پس مہاراجا بہادر نے حسب فرمان شاہی ماہ لقا بائی کا تمام مال و اسباب جواہر و نقدی وغیرہ کو منگا لے کر جاگیرات پر ضبطی بھیج دی اور خالصہ کا عمل کر لیا گیا۔ اس کے بعد کنیزکوں اور خانہ زادوں کو فی نائکہ دس روپیہ، فی کنیز پانچ روپیہ، فی خانہ زاد سات روپیہ کے حساب سے تنخواہ اجرا فرما دی۔

ایک مدت تک یہی عمل جاری رہا۔ لیکن جب نواب سکندر جاہ بہادر مغفرت منزل نے 1224؁ھ میں انتقال فرمایا اور نواب ناصر الدولہ بہادر سریر آرائے سلطنت دکن ہوئے تو حسین افزا اور حسین لقا مثل ماہ لقا بائی کے باریاب بارگاہ خسروی ہوئیں اور روز بروز نوازشات شاہی مبذول ہونے لگیں اور ماہ لقا بائی کا تمام مال و اسباب ان دونوں کو واپس ملا اور جاگیرات وغیرہ بھی ان دونوں کے نام بحال کر دیے گئے۔ چنانچہ یہ دونوں اپنے اپنے زمانہ زندگی تک نجیب پرور، صاحب سلوک و قدردان و فیاض رہیں جو اب تک ان کی فیاضی اور قدر دانی کا فسانہ بعض بعض کبیرسن حضرات کے زبان زد ہے اور ان دونوں کی احداثات سے نام پلی کے راستہ میں ایک عالیشان باغ و مکان حسین لقا کے باغ سے موسوم اور لنگم پلی میں ایک عمدہ باغ و مکان حسین افزا کے نام سے اب تک مشہور ہے۔

حسین افزا اور حسین لقا کے پاس بھی پروردہ لڑکیوں کی تعداد بے حد و بے شمار تھی۔ مگر ان میں سے حسین افزا کے تین پروردہ نگینہ بائی، کامنی بائی، سالو بائی اور حسین لقا کے دو پروردہ موتی بائی، دلا رام بائی داخل محلات نواب افضل الدولہ بہادر مغفرت مکان ہوئیں۔ چنانچہ اس وقت حضرت سالو بائی صاحبہ و حضرت دلا رام بائی صاحبہ (محلات حضرت مغفرت مکان) زندہ وحی القائم ہیں۔ باقی نگینہ بائی صاحبہ و کامنی بائی صاحبہ و موتی بائی صاحبہ انتقال کر گئیں۔

حسین افزا نے 1260؁ھ میں انتقال کیا اور حسین لقا نے 1262؁ھ میں وفات پائی۔ جب ان دونوں کا انتقال ہو گیا تو بمصداق اس کے کہ آں قدح بشکست و آں ساقی نماند کے طائفہ کا وجود باقی نہ رہا اور سب مثل اوراق پریشاں کے ادھر اُدھر ہو گئیں اور ان دونوں کے بعد کوئی ایسی لائق و قابل نائکہ نہ رہی کہ ان اوراق پریشاں کو اکٹھا کر کے شیرازہ باندھتی اور ماہ لقا کے نام کو زندہ کرتی۔ بہرحال ماہ لقا بائی کے واقعات اس وقت ایسے ہیں کہ ؏ خواب تھا جوکچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

یہاں یہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ حسین لقا و حسین افزا کے انتقال کے بعد مہاراجا بہادر نے محمد مقبولہ مرحوم (جو ماہ لقا بائی کے پرورش یا فتہ متبنیٰ بہ نسبت دوسروں کے لائق و سربرآوردہ تھے) کو ایک زنجیر فیل، ایک مادہ اسپ، ایک منزل میانہ، ساٹھ روپیہ ماہوار اور مواضعات پنپال و ٹرچرلہ و مقطعہ اڈی پیٹھ و علی باغ عطا و سرفراز کر کے ماہ لقا بائی کے عاشور خانہ و مقبرہ و عرسیات کا انتظام و اہتمام تفویض فرمایا۔ چنانچہ محمد مقبولہ بعہد نواب ناصر الدولہ بہادر صاحب عرض اور باریاب بارگاہ سلطانی تھے اور خوب عروج و ترقی پائے۔ جب 19 ذی الحجہ 1271؁ھ کو محمد مقبولہ کا انتقال ہو گیا، ان کے چار بیٹوں کے نام فی کس پندرہ روپیہ کے حساب سے پورے ساٹھ روپیہ اجرا ہوا۔ ایک مدت کے بعد تین بیٹوں کا انتقال ہو گیا۔ اب ایک بیٹا مسمی غلام علی اس وقت زندہ وحی القائم ہے۔ چھبیس روپیہ ماہوار ملتی ہے، جن کو دو لڑکے ہیں۔ اب بھی ماہ لقا بائی کے عرس کو سرکار سے پانچ سو روپیہ اور عاشور خانہ کو ایک سو روپیہ سالانہ ملتے ہیں۔

اس کے قبل ہم لکھ چکے ہیں کہ ماہ لقا بائی لطیفہ گوئی اور بذلہ سنجی میں یکتائے روزگار تھیں۔ چنانچہ اس وقت بھی ماہ لقا بائی کے لطیفے اکثر معمر اشخاص کے نوک زبان ہیں، جن میں سے ایک دو ناظرین کی دلچسپی کے لیے ہم یہاں نقل کرتے ہیں۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جب ماہ لقا بائی دربار شاہی میں پہنچیں تو ان کے اکلائی کے پلّو سے ایک جوتی اٹک کر آنے لگی۔ ایک ظریف امیر دربار میں موجود تھے۔ انھوں نے کہا کہ بائی جی صاحبہ! آپ کا جوڑا تو آپ کے ساتھ ساتھ رہتا ہے، جس کا جواب فوراً ماہ لقا بائی نے یہ دیا کہ واقعی ہم غریبوں کا جوڑا ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ مگر آپ جیسے امیروں کا جوڑا خدمتگار کے بغل میں رہتا ہے۔

ایک بار ماہ لقا بائی کی سواری راستہ سے جا رہی تھی۔ چہار مینار کے متصل پالکی میں سے چونےکی ڈبیا نیچے گری۔ ایک ظریف وہاں موجود تھے، انھوں نے کہا کہ بائی جی صاحبہ کا انڈا گر گیا۔ ماہ لقا بائی نے پلٹ کر جواب دیا کہ کیا خوب، گرتے ہی بانگ دینے لگا۔

ایک وقت ماہ لقا بائی دربار خسروی میں حاضر ہوئیں تو وہاں نواب بہرام الملک بہادر مع اپنے چار صاحبزادوں کے (جو نہایت ہی عظیم الجثہ اور زبردست تھے) تشریف رکھتے تھے۔ نواب صاحب نے ماہ لقا بائی سے مزاحاً کہا کہ بائی جی صاحبہ! آپ نے ان شیر بچوں (اپنے فرزندوں کی طرف اشارہ کر کے) کو دیکھا؟ تو ماہ لقا بائی نے کیا برجستہ جواب دیا کہ ہاں نواب صاحب شیر بچوں کو تو میں نے دیکھا، مگر اول اس گوی کی تعریف کرنا چاہیے کہ جس سے یہ شیر بچے برآمد ہوئے۔ اس جواب سے نواب صاحب بہت خفیف ہوئے۔

بہر حال اسی قسم کے اور لطیفے بھی موجود ہیں مگر بلحاظ طوالت نظر انداز کیے جاتے ہیں اور انھیں مختصر حالات پر ماہ لقا بائی کی سوانح عمری ختم کی جاتی ہے۔ فقط۔


تمام شد