حیات ماہ لقا/عشرہ شریف میں عزاداری اور سوز خوانی کا اہتمام

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

جس وقت محرم محترم کا مہینہ آتا تو ماہ لقا بائی حضرت امام حسین علیہ السلام کے غم میں لذیذ غذا کو ترک کرتی تھی اور بلدہ کے تمام عاشور خانوں میں (جن کا شمار ناممکن ہے) یہ راسخ الاعتقاد ایک روپیہ سے پانچ روپیہ تک بقدر مناسب نذر و نیاز گزرانتی تھی۔ سادات کرام و محبان اہل بیت علیہ السلام کو ہزاروں روپیہ کی بخشش ان کے رتبہ کے موافق کرتی تھی۔ چنانچہ غرۂ محرم سے زیارت تک اسی سرمایہ نجات کے جمع کرنے میں رہتی تھی۔ ماہ لقا بائی کا عالیشان محل ایلچی بیگ کی کمان میں واقع تھا جس کے تمام طاق و ر واق، سقف و کٹگر مذہّب و مطلّا تھے۔ چونکہ اس مکان میں اکثر تعلیم رقص و سرود کی ہوتی تھی، اس لیے بپاس ادب سید الشہدا علیہ السلام علم ہائے مبارک کے لیے محل کے محاذی ایک عاشور خانہ تعمیر کرایا گیا تھا اور عاشور خانہ کے سامنے نقار خانہ قائم کیا گیا تھا۔ غرہ محرم سے عاشور خانہ طرح طرح کے نقوش سے آراستہ ہوتا تھا اور وہاں بجز فاتحہ خواں یا باوضو شخص کے کوئی دوسرا جانے نہیں پاتا تھا۔ یہ بھی تاکید تھی کہ کوئی شخص سرخ لباس پہن کر نہ آئے۔ خطبۂ تعزیت پڑھنے کے لیے سیاہ مخمل منڈھا ہوا ایک منبر استادہ کیا جاتا تھا جہاں روضۃ الشہدا واقعات مقبل، بند ملا محتشم پڑھے جاتے تھے اور عاشور خانہ کے مقابل میں روشنی کے لیے کٹگر باندھا جاتا جس کے سامنے کے رخ پر سرخ کپڑا لپیٹ کر بند رومی کی جال وچار خانہ اور ابیات وغیرہ نمایاں کیے جاتے تھے۔ غرہ محرم سے شب عاشور تک اول شب سے صبح تک برابر روشنی رہتی تھی۔ سرشام مرثیہ خواں نہایت خوش الحانی سے سوز خوانی کرتے تھے۔ اس کے بعد روضہ خواں بحکم حدیث شریف من بکــا علی الحسین أو أبــکی أو تباکی وجبت له الجنة حدیث پڑھتے تھے۔ اس کے بعد تعزیہ داری اور سینہ زنی ہوتی تھی جس سے ہنگامہ محشر بپا ہوتا تھا۔ تعزیہ داری میں جب کوئی شخص بے ہوش ہو جاتا تو اس پر گلاب پاش سے گلاب چھڑکا جاتا تھا۔ اس کے بعد دسترخوان چنا جاتا اور تمام شرکائے مجلس کو اقسام اقسام کے کھانے کھلائے جاتے۔ چنانچہ دس روز تک برابر یہ عمل جاری رہتا تھا۔ جب رات زیادہ ہوتی اور خلائق کا ہجوم کم ہوتا تو خاص خاص لوگ تعزیہ داری اور سینہ زنی کے لیے آتے تھے۔


ترتیب جشن حیدری

13 رجب کو ہر سال انجمن جشن حیدری منعقد ہوتا تھا جس میں شاہ اولیا کی منقبت خوانی ہوتی تھی اور ہر قسم کا سامان ماکول و مشروب مہیا و موجود رہتا تھا۔


نیاز یاز دھم شریف

11 ربیع الثانی کو جناب سید عبد القادر جیلانی قدس سرہ العزیز کی نیاز یازدہم شریف نہایت تکلف و اہتمام سے انجام پاتی تھی۔ طرح طرح کی نعمتیں محتاجوں اور مساکینوں کو کھلائی جاتیں۔ علاوہ بریں فقرا و مساکین کو نقد روپیہ اور پارچہ تقسیم کیا جاتا۔


کھٹ درسن کا میلہ

سال میں ایک میلہ کھٹ درسن کے نام سے کیا جاتا جس میں پہلے روز فقرائے نو و کہن ملک ہند و دکن، حفاظ و قرا فصاحت فن و مشائخین معارف مسکن کی دعوت اور تمام مشائخین بلدہ کے گھروں میں ایک سیر مٹھائی بھیجی جاتی۔ اگر کوئی مشائخ صاحب اولاد یا اہل برادر ہوتے تو ہر ایک کے نام بنام (خواہ وہاں 20 شخص کیوں نہ ہوں) وہی سیر سیر بھر مٹھائی بھیجی جاتی۔ حفاظ و قرا کو بھی اسی موافق ایک ایک سیر شیرینی دی جاتی تھی۔ دوسرے روز تمام فقرا آزاد و مداری و قادریہ و چشتیہ و چاردہ خانوادہ و رفاعی و گزر والہ حبشیہ و فقرائے بابا پیاری کا میلہ جمع ہوتا تھا۔ ہر ایک کے لیے اکل و شرب کا انتظام کیا جاتا اور شیرنی وغیرہ کی تواضع کی جاتی۔ اس میں سو سو کوس کے فقرا جمع ہوتے تھے۔ تیسرے روز مساکین و غربا و مفلوج و معلول جمع ہوتے جن کی تعداد قریب ستر 70 ہزار کے ہوتی تھی۔ ان لوگوں میں فی کس آدھ سیر شیرینی تقسیم کی جاتی تھی۔ چوتھے روز جوگی اور بیراگی جمع ہوتے جن کو اچھی طرح مال پوری کھلائی جاتی تھی۔ بہر حال عجب عالی ہمت اور فیاض عورت تھی کہ جہاں کوئی قوم یا جماعت محروم نہ رہتی تھی۔

اگر سچ پوچھیے تو ماہ لقا بائی نے اپنی زندگی نہایت کامیابی سے گزاری۔ ہمیشہ اس کا ستارۂ اقبال اوج و ترقی پر رہتا تھا۔


ماہ لقا بائی کا انتقال

مگر افسوس ہے کہ یہ فرشتہ خصال، حور منظر، پری پیکر، حاتم دل 1236؁ھ میں بعہد میمنت مہد نواب سکندر جاہ بہادر چھپن سال کی عمر میں اس دار ناپائیدار سے بعارضہ و باراہی روضہ رضوان ہوئی اور اپنے تعمیر کیے ہوئے مقبرہ واقع پائیں کوہ شریف میں دفن کی گئی۔


محدثات ماہ لقا بائی

ماہ لقا بائی کے محدثات سے ایک عالیشان حویلی ایلچی بیگ کی کمان میں واقع تھی۔ دوسرا ایک حوض موسوم بہ فی سبیل اللہ کوہ شریف کی گزرگاہ میں تیار کیا گیا تھا۔ چنانچہ حوض کی تعمیر کی تاریخ جو کسی شخص نے کہی ہے، درج ذیل ہے :

انتخابِ زمانہ ماہ لقا

سال ایں چشمہ خضر گفت ہمیں

در جہاں شد بکار خیر کفیل

باد جاری بآب فیض سبیل

مگر اب نہ وہ عالیشان حویلی باقی رہی ہے او ر نہ وہ حوض ہی موجود ہے۔ یہ دونوں انقلاب زمانہ کے باعث دوسری حیثیت میں ہو گئے ہیں۔ البتہ اب صرف عاشور خانہ باقی ہے جہاں علم مبارک استادہ ہوتے ہیں۔