حیات ماہ لقا/حواشی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

[1] ۔ لفظ کنور کے اختیار کرنے کے اسباب ان لڑکیوں کے دل میں یہ پیدا ہوئے کہ کنور کا لفظ عمدہ اور بہتر ہے کیونکہ جو راجا زادگان اور فرزندان راجا ہوتے ہیں، ان کو کنور سے مخاطب کرتے ہیں۔ چنانچہ اس وجہ سے انھوں نے اپنے نام کے ساتھ یہ عمدہ لفظ ایزاد کیا تھا اور آئندہ ہم بھی ان کو انھیں پیارے ناموں سے یاد کیا کریں گے۔

[2]۔ بہادر شاہ کی شہزادگی کے زمانہ میں ایک شخص ارسلان خاں نامی والیٔ مملکت کاشغر اپنے لڑکوں کی دست برد سے آوارہ ہو کر کابل میں آیا اور شاہزادہ محمد معظم کی ملازمت اختیار کی۔ عالمگیر بادشاہ نے بپاس سفارش فرزند ارجمند کے اس کو منصب دو ہزار و پانصدی اور دو ہزار سوار و علم و نقارہ سے سرفراز فرما کر بادشاہزادہ کے متعین فرمایا تھا اور بعد جلوس شاہ عالم بہادر کے تخت ہندوستان کے لیے فیما بین محمد اعظم شاہ اور بہادر شاہ کے خوب جنگ ہوئی۔ اور اس جنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ محمد اعظم شاہ مع اپنے فرزند بیدار بخت کے مقتول ہوا اور بہادر شاہ نے فتح پائی۔ چونکہ اس جنگ میں ارسلان خاں نے کمال درجہ کی جانفشانی اور بہادری دکھلائی تھی، اس لیے شاہ عالم بہادر نے اس کو منصب ہفت ہزاری اور سات ہزار سوار خطاب چغتائی خاں بہادر فتح جنگ وماہی مراتب و پالکی جھالردار سے سرفراز فرمایا تھا۔ مگر اس وقت چغتائی خاں کی جمعیت ساٹھ یا ستر سوار مغلیہ سے زیادہ نہ رہی تھی اور برائے نام فوج کا سردار کہلاتا تھا۔

[3]۔ مغل ہارسی کسی وقت میں محمد اعظم شاہ کی سرکار میں نوکر تھا اور بعد برطرف ہو کر ایک مدت تک مرہٹوں کے ساتھ رہزنی کرتا رہا۔ اس کے بعد کابل جا کر شہزادہ محمد اعظم کی سرکار میں نوکر ہوا۔ چنانچہ شاہ عالم بہادر نے اپنے جلوس کے بعد مغل ہارسی کو منصب سہ ہزاری اور خطاب مخلص خاں سے ممتاز فرمایا تھا۔

[4]۔ امیر الامرا کا یہ قاعدہ اور ضابطہ تھا کہ جب فرمان صادر ہوتا تو بسالت خاں کو کہتے کہ تم فرمان لے کر رو برو کھڑے رہو تاکہ میں تسلیمات بجا لاؤں اور تسلیمات بجا لانے کے وقت سوائے تمھارے اور کوئی مقابل نہ رہے۔

[5]۔ مملکت ہندوستان میں راجپوتوں کی قوم (جو راجگان اولوالعزم کی اولاد ہے) اپنے کو شریف و نجیب جانتی ہے، اصل میں تمام چھتری اور راجپوت کے دو گروہ ہیں۔ ایک اپنے کو آفتاب کی اولاد جانتا ہے اور اسی وجہ سے سورج بنسی کہلاتا ہے۔ اور دوسرا چاند سے منسوب کر کے چندربنسی کے نام سے موسوم ہے۔ راجپوتوں کے قبائل بہت ہیں جن کی تفصیل کتب براہمہ میں مندرج ہے۔ انھیں میں سے ایک قوم کوت کھندارا کہلاتی ہے جو علم موسیقی میں مہارت کامل رکھتی ہے۔ جلال الدین محمد اکبر بادشاہ کے زمانہ میں یہ قوم بہ ہدایت ایزدی مشرف باسلام ہوئی اور خطاب خانی و منصب سے سرفرازی پائی۔ کوت کے معنی نژاد و اولاد و احفاد کے ہیں اور اس لفظ کوت کھندارا سے یہ بھی قیاس لگایا گیا ہے کہ زمانہ سلف میں ایک نامور مشہور راجا قوم راجپوت سے گزرا ہے جس کی اولاد کو کوت کھندارا کہتے ہیں۔ زبان سنسکرت میں کوت کو کوتر کہتے ہیں جس کے معنی نژاد اور احفاد کے ہیں اور یہ قوم فن موسیقی میں ماہر ہونے کے باعث اکثر بادشاہوں کے مقرب و مصاحب رہی ہے اور کمال کی مناسبت سے کلاونت کے لقب سے ملقب ہوئی۔

کلاونت دو کلمے سے مرکب ہے۔ کلا بمعنی موجد و مخترع ترکیب سی شعبہ و شش مقام سرود ہندی۔ دوسرا معنی کلاکا روشنی اور ونت کا معنی مصاحب ہے جیسا کہ فارسی میں مند یعنی طالع مند و ہنر مند۔ صاحب ایجاد اور راگوں کی ترکیب دینے والا۔

اکبر بادشاہ کے عہد میں میاں تان سین (جو قوم کا راجپوت کوت کھندارا تھا) نے علم موسیقی میں کمال تجربہ حاصل کیا تھا۔ چنانچہ اس کمال کے بدولت بادشاہ کے بارگاہ سے کلاونت کا خطاب ہوا تھا اور اس کے بعد تان سین کا نواسہ میاں نعمت مشہور بہ سدا رنگ (جو میاں تان سین کا ثانی بلکہ اس سے بھی ممتاز تر کہنا چاہیے) محمد شاہ بادشاہ کے عہد میں فن موسیقی کی وجہ سے مقرب و مصاحب ہو گیا تھا اور منصب پنج ہزاری و خطاب خانی سے (بزمرہ کلاونت) بھی سرفرازی پائی تھی۔ گانے بجانے میں سدا رنگ کی تعریف و توصیف خارج از بیان ہے۔ چنانچہ محمد شاہ بادشاہ کی مصاحبت میں اس قدر اقتدار حاصل ہو گیا تھا کہ ہر وقت بارگاہ خسروی میں باریاب ہوتا تھا۔ بلا قید اوقات باریاب ہونے کی اجازت تھی۔ ان کے بعد فیروز خاں مشہور بہ ادارنگ جو میاں نعمت سد ارنگ کا شاگرد علم موسیقی میں بے نظیر اور شہرہ آفاق ہوا ہے۔

چنانچہ فیروز خاں ادارنگ کے نغمات مثل ابو نصر فارابی کے تھے۔ جس وقت چاہتا اپنے گانے سے روتے کو ہنسا دیتا اور اسی راگ کو ایسا مقلوب کرتا کہ ہنستے کو رلا دیتا۔ اس کے پانسو شاگرد تھے جو ہر ایک اپنے فن میں کامل تھا۔ لیکن ان میں کریم خاں قوم راجپوت کوت کھندارا (جو رشتہ میں تان سین کا نواسہ تھا) مستثنیٰ اور کامل تھا، جس کا شہرہ تمام ہندوستان میں پھیلا ہوا تھا۔ جس وقت حید علی خاں (حیدر نائک) ملک کرناٹک (دکن) پر حکمران تھا، اس کا ایک عزیز حلیم خاں افغان میانہ ساتور میں حاکم تھا جس نے کمال اشتیاق کے ساتھ کریم خاں کو معقول رقم بھیج کر ہندوستان سے طلب کیا۔ چنانچہ خان مذکور حسب آبخور وارد دکن ہو کر حلیم خاں کی ملازمت اختیار کی۔ چونکہ حلیم خاں علم موسیقی سے ماہر نہ تھا، صرف سننے کا شوق رکھتا تھا، اس لیے کریم خاں برداشتہ خاطر ہو کر حیدرآباد آیا اور نو سال تک راجا رگھناتھ داس و راجا بھوانی داس (جو راجا چندو لعل کے چچا زاد بھائی تھے) کے سرکار میں بوجہ جوہر شناسی و قدردانی کے ملازمت اختیار کی ۔ اس کے بعد دس سال تک نواب شکوہ جنگ بہادر (جو غفرانمآب کے پہلے داماد تھے) کے سرکار میں بسر کیا۔ بعد ازاں بقضاء الٰہی فوت ہوا جس کا مزار کوہ شریف کے رہگزر میں موجود ہے۔ مرحوم کے دو فرزند تھے، ایک رضا خاں دوسرا خوشحال خاں انوب تخلص۔ فرزند آخر الذکر علم موسیقی اور زبان ہندی مثل برج بھا کا و تصنیف کبت و دوہہ وغیرہ میں باپ سے بہتر اور کامل تھا جس کی تصدیق ہر ایک ماہر فن نے کی تھی۔ لیکن چند روز کے بعد برداشتہ خاطر ہو کر وطن مالوفہ کا ارادہ کیا، مگر ماہ لقا بائی نے بمقتضائے قدر دانی جانے نہ دیا۔ چنانچہ خان مذکور بھی اس کی قدر دانی پر حویلی (گزشتہ سے پیوستہ) خاصہ رنگ میں (جو ماہ لقا کا مکان تھا) سکونت اختیار کی۔ اگرچہ راجا چندو لعل بہادر نے خان مذکور کو پچاس سوار سے سرفراز فرمایا تھا لیکن سکونت ماہ لقا بائی کے پاس تھی۔ کبھی کبھی یاد آوری کے موقع پر مہاراجا بہادر کے پاس جاتا تھا۔ اس کے سوا کبھی نہیں۔ یا کبھی عیدین کے موقع پر نذر کے لیے حاضر ہوتا۔ اور مہ لقا بائی اس کی دلدہی اور دلجوئی میں کوئی دقیقہ باقی نہ رکھتی تھی اور ہزارہا روپیہ سے سلوک کرتی تھی۔ آخر خوشحال خاں نے ماہ لقا بائی کے گھر ہی میں انتقال کیا۔ جس کے محدثات سے اس وقت زنانی پھاٹک کے اندر ایک مسجد سر بفلک کشیدہ یادگار اور خوشحال خاں کی مسجد کے نام سے موسوم ہے۔

[6] ۔ اس کے قبل ہم نے بقول گلزار آصفیہ بیان کیا ہے کہ ماہ لقا بائی کا انتقال 1236؁ھ میں ہوا۔ مگر ایک سن رسیدہ صاحب (جو ماہ لقا بائی کے علاقہ دار ہیں) کا بیان ہے کہ ماہ لقا بائی نے 1240؁ھ میں انتقال کیا ہے اور اپنے بیان کی تصدیق میں انھوں نے ماہ لقا بائی کے مقبرہ کی کندہ تاریخ کے دو مصرعے حسب ذیل پیش کیے ہیں و ہو ہذا:

ہاتف غیبی ندا داد بتاریخ او

راہی جنت شدہ ماہ لقایٔ دکن

اور انھیں صاحب سے ہم کو راج کنور بائی کے مقبرہ کی تاریخ بھی دستیاب ہوئی جو نذر ناظرین ہے:

کنیز شاہ مردان راج کنور

چو محمل بست ازیں دنیائے فانی

بخوبی بہتر از لیلیٰ و شیریں

برائے انبساط روح مادر

بسالِ رحلتِ او گفت ہاتف



سخاوت پیشہ و اخلاق آرا

عجب بگذاشت دختر سر و بالا

خطابش مہ لقا و عرف چندا

بنا کرد ایں مکان فرحت افزا

بیامرزد خدا ایں عاجزہ را