حیات شیخ چلی/چھٹا باب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search


چھٹا باب

امتحان روزگار



شادی ہوئے پانچ برس بھی نہ گذرے تھے کہ تین چار بچے شیخ کے یہاں ہو پڑے۔ شیخ کے ماں باپ دونوں شادی کے قبل ہی انتقال کر گئے تھے۔ اثاثہ خاندانی میں بڑی چیز کچھ غلہ چند بیل تھوڑی زمین ایک مکان شیخ کو ملا تھا۔ غلہ تو پہلے ہی سال ہو ہُوا گیا۔ بیلوں کو اُس نے اپنی جبلی رحم دلی کی وجہ سے آزاد کر دیا اور زمین کی نسبت اُس کو ہمیشہ اپنی ایمانی قوت سے یہ شبہ رہا کہ ذرا بھی میں نے اس میں تردد کیا یا اس کو کھودا تو یقیناً خزانہ نکل آئے گا جو دوسرے لوگ مفت مجھ سے چھین لیں گے۔ مکان اس نے اپنے قبضہ میں رہنے دیا اور اپنی محبوبہ بیوی اور بچون کے ساتھ اُس میں بسر کرتا تھا۔

گھی کے گھڑے کا مشہور قصہ اہل زمانہ کی نافہمی یا شوخ مزاجی سے شیخ کی طرف بہت ہی بڑے اور قابل نفرت نتیجہ کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس سچے قصے کے رموز اور غوامض پر اگر غور کیا جائے تو وہ ایک محنتی دنیادار، ایک اصولی تاجر، ایک متمدن دانش مند، ایک بلند نظر اور مہربان افسر خاندان تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً ضرورت وقت کے لحاظ سے اُس نے گھی کا گھڑا اُجرت پر پہنچا دینے میں جو آمادگی ظاہر کی اُس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ کام چور اور محنت سے بھاگنے والا اسامی نہ تھا اور زمانے کی نگاہ اور ضرورت کی ہوا پہچاننے میں بڑا ہی صاحب نظر تھا۔ پھر جب اس نے یہ منصوبہ باندھا کہ اس اُجرت سے میں مرغی لوں گا اور مرغی کے انڈے بیچ کے بکری خریدوں گا، بکریوں کو ترقی دے کے گائے اور پھر بھینس اور پھر گھوڑوں کا سوداگر بنوں گا۔ اس کے بعد ہاتھیوں کا بیوپار کروں گا۔ اس حد تک وہ ایک ماہر تاجر اور تجارت کے تمام جزئی و کلی امور پر کامل بصیرت رکھنے والا انسان تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ دنیا میں آج اور آج سے ہزاروں برس پہلے تجارت کے یہی اصول مانے جاتے ہیں کہ یورپین تجارت کو دنیا بھر میں اس وقت جو کامیابی اور فتح حاصل ہے اُس کی ابتدا یوں ہی ہوئی ہے۔ انگریزوں کا ابتدائی داخلہ ہندوستان کی تاریخ کے ورقوں میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے، اس سے ذرا بھی الگ نہیں ہے اور اسی طرح تجارت کے ساتھ ایک ایک قدم بڑھتے بڑھتے آج تمام ہندوستان کی سلطنت انگریزوں کے ہاتھ میں ہے۔ پس شیخ کی یہ خیالی ترقیِ تجارت ہرگز مضحکہ کے قابل نہیں ہے اور اگر اتفاقی اور تقدیری حرکت سے گھڑے کو گردن کی غصہ آمیز جنبش نے زمین پر نہ پٹک دیا ہوتا تو ہم دکھا دیتے کہ شیخ الغنم ملک التجار کے یادگار خاندان کا عروج اقبال کہاں تک پہنچا ہے۔ ہاتھیوں کی تجارت کے بعد جو خاکہ اس نے کھینچا تھا اس کے اعتبار سے اس کی تدبیر منزل اور تمدنی قوت کا اندازہ کرنے میں بڑے بڑوں کا وہم و قیاس قاصر ہے۔ چونکہ وہ ایک پُرمحبت شوہر اور مہربان باپ بننے کی استعداد رکھتا تھا، لہذا اس نے اپنی خیالی دولت کو پہلے ایک امیرانہ عمارت کی طرف صرف کرنے میں پسند کیا اور ہونا بھی یہی چاہیے تھا۔ اس عمارت کے نقشے اور ایوان امارت کی تقسیم میں جو کچھ اس نے قابلیت دکھائی اُس سے اُس کی خلقی ریاضی دانی اورفن انجینری میں اعلیٰ مہارت ثابت ہوتی ہے اور پھر اس کے سجنے اور آرائش میں تدبیر منزل کی تمام ضرورتیں اس کے پیش نظر تھیں۔ اسی سلسلہ میں اس نے ان تمام ضروریات کو مکمل تسلیم کر کے شادی کی تجویز بھی کر لی اور اُس کے نتائج یعنی توالد و تناسل کی اصلی غایت پر کس قدر صحت اور عجلت کے ساتھ اُس کا ذہن منتقل ہوا ہے جس کی مثال ہر متمدن اور متاہل دانش مند میں پائی گئی ہے۔ الغرض اس نقل کو ابناے روزگار نے نے جس حد تک نقل محفل بنا رکھا ہے اس سے کہیں زیادہ اُس کی شان ارفع اور اعلیٰ ہے۔ اگر شیخ کا یہ منصوبہ جو شادی کے قبل زمانہ کا ہے پورا ہو جاتا تو اس وقت جبکہ وہ بچوں کی ضروریات اور جورو کی فرمائشوں سے باوجود کمال مستقل مزاجی کے کسی قدر کسی وقت پریشان نظر آتا ہے، ہرگز اس کی نوبت نہ آتی مگر سوء تدبیر بڑے بڑے مدبران سلطنت کو بھی مٹا چکی ہے۔ وہی سلوک اس غریب شیخ کے ساتھ ہوا کہ بچوں پر گھرکنے کی خیالی ادا نے بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا اور گھڑے کے گرنے سے اُس کی تمام امیدیں خاک میں مل گئیں۔

میرے نزدیک اہل کمال کی وہ عام پریشان حالی جو ضرب المثل ہے اور جس کی حکایتیں تاریخ عالم میں اس قدر کثرت سے موجود ہیں کہ کوئی نظیر پیش کرنے کی ضرورت نہیں، اسی کلیہ میں ہمارا شیخ بھی پابند تھا اور کچھ نہیں کہ اس کی غیر معمولی خلقت اور غیر معمولی صداقت ذہنی اور اعلیٰ درجے کی طباعیاں خود اس کی کامیابیوں کے لیے سد راہ ہو جایا کرتی تھیں۔

بیچارہ شیخ بال بچوں کی کثرت سے اُکتا گیا اور اس کی حکیمانہ طبیعت نے اپنی آزادی پر مضبوط پھرے تو اُس کو بہت الجھن ہوئی۔ ہرچند یوں بھی کہ وہ اپنی بے قید فطرت کے اعتبار سے کچھ زیادہ بال بچوں کے دھندوں میں پھنسنا پسند نہ کرتا اور نہ کبھی اس نے خود داری کو ہاتھ سے جانے دیا۔ بلکہ بارہا اُس نے بچوں کے ہاتھ سے روٹی چھین کے صرف اس خیال سے کھالی کہ بچہ اگر ایک وقت بھوکا رہا تو مضائقہ نہیں، میں بھوکا رہوں گا تو دوسرے وقت کی روٹی کما لانے کی قوت ہی نہ رہے گی۔ اس فعل میں اس کو کبھی کبھی طبی اصول کا بھی لحاظ رہتا تھا۔ وہ جانتا کہ بچوں کی نازک امعا میں خشک روٹی سُدّوں کی تولید کا باعث ہوگی جس کے روکنے کی ہر مہربان ماں باپ کو ضرورت ہے۔

یہ زمانہ شیخ کے لیے انتہا کے کڑے امتحان کا تھا اور دنیا داروں میں شاید ہی کوئی اس امتحان سے بچا ہو۔ مگر اس عالی ہمت بلند نظر نے جس خوبی اور خودداری سے اس امتحان کو پاس کیا ہے اور اس مسئلہ کو طے کر گیا ہے وہ دوسرے کا حوصلہ نہ تھا۔ بیوی کی فرمائشیں تو کیا دھیان میں لانے والا تھا، مگر چڑچڑے پن اور زبان درازی سے البتہ بہت گھبراتا تھا۔ مگر ہمیشہ اس نے ایک غیرت مند شوہر کی طرح اُس کی بدمزاجیاں برداشت کیں۔ گو بیوی اس کی پسند کی اور خلقتاً اس سے موافق مزاج تھی مگر غیرت اور تکلیف اچھے اچھے صابرین اور غم خوار لوگوں کا قدم ڈَگا دیتی ہے۔ اِسی وجہ سے اس کی محبوبہ بیوی اس کے دق کرنے پر مجبور تھی اور بچوں کی چل پوں الگ جان کھائے جاتی تھی۔ گو شیخ خود بچوں کے ساتھ اتنا زیادہ مانوس نہ تھا کہ اُن کی سرشوریاں سہے مگر بیوی کی آزردگی اور دلگیری کا خیال سب کچھ برداشت کرا رہا تھا۔ مگر با ایں ہمہ اس نے نہ کبھی قرض لیا نہ چوری کی۔ محنت مزدوری سے جب تک کام نکلا۔ مگر جب اُس سے بھی پورا نہ پڑا تو وہ بے تکلف کسی بنیے بقال کی دکان پر چلا جاتا اور جو کچھ اناج پانی نقد جنس اس کے ہاتھ لگتا اٹھا لیتا۔ لالا جی یوں ہی بڑے بہادر ہوتے ہیں اس پر شیخ کی معمولی آزادی کی دھاک سے مجال نہ تھی کہ اس کو کوئی روک سکے بلکہ شیخ کی آمد دیکھ کے وہ دست درازی یا دست اندازی کی نوبت ہی نہ آنے دیتے اور ہنسی خوشی خاطر مدارات کر دی جاتی۔ شیخ کی نسبت ان افعال سے یہ گمان پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ سینہ زور اور مفت خور آدمی تھا۔ مگر یہ گمان انھی لوگوں کا ہوگا جو سطحی اور اوپری باتوں کو دیکھتے ہیں ورنہ شیخ اصول سے باہر کبھی قدم نہیں رکھتا تھا۔ اور درحقیقت غور سے معلوم ہوگا کہ یہ فعل اس کا کچھ بھی بدنما اور قابل ملامت نہیں ہے، کیونکہ وہ اس بات کا سچے دل سے قائل تھا کہ جو کچھ انسان کو ملتا ہے خدا ہی دیتا ہے اس میں کسی کے باپ کا اجارہ نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ تمدنی قاعدہ سے سمجھا ہوا تھا کہ ہر انسان دوسرے انسان کا محتاج ہے اور ممکن نہیں کہ دنیا میں اکیلا آدمی کچھ کر سکے۔ جب یہ کلیہ تسلیم کر لیا گیا تو ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بنی نوع انسان ایک دوسرے کی مدد پر مجبور ہیں اور کچھ فرض نہیں ہے کہ امداد کے لیے ظاہری رضامندی یا معمولی ارادہ اور قصد پیدا ہونے کے بعد ہی امداد بھی تسلیم ہو چکی تو ہر شخص کے مال و ملک میں دوسرے شخص کا حصہ ضرور ہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ میں بنیے بقال سے اپنے حق اور حصہ کے حاصل کرنے میں ان کی رضامندی اور اجازت کا منتظر رہوں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ قرضہ کے ناقابل برداشت بار اور اُس کے نفرت انگیز عزت باز نتائج سے ہمیشہ محفوظ رہا اور نہ اس کو ضرورت وقت اور احتیاج نے چوری وغیرہ سقیم جرائم پر متوجہ اور مائل کیا۔ مگر اس امداد غیر اختیاری یا خود مختاری کا سہارا کچھ ایسا مستحکم او دوامی تو تھا نہیں کہ اس کو بہت عرصہ تک فارغ البال اور بے فکر رکھے۔ بلکہ ابناے روزگار کی تنگ دلی اور کم ہمتی یا مہمل بخل نے اُس کو ایسے قابو اور دست رس کے موافق سے دوسرے طور پر محروم اور مایوس کر دیا اور اس بدخلقی اور بے مروتی سے وہ ایسا متاثر ہوا کہ گھر چھوڑنے پر پوری آمادگی ہو گئی۔