حیات شیخ چلی/دسواں باب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search


دسواں باب

شیخ کا مذہب



مذہب کے اعتبار سے کسی کو پتہ نہیں لگا کہ شیخ کا معتقد علیہ کون مذہب تھا۔ چونکہ وہ اطول کا یادگار تھا اور مضافات ماوراء النہر میں اس کے بزرگ رہتے تھے، اس نظر سے اس کا باپ یقیناً اُن بدوی عربوں کا ہم مذہب ہوگا جو اس نواح میں رہتے ہیں۔ مگر شیخ کی نسبت جہاں تک معلوم ہوا اُس نے اپنے مذہب کو کسی خاص طریقہ کے ساتھ پابند اور مقید نہیں کیا تھا۔ دربار اکبری میں پہنچنے سے پہلے وہ وحدانیت اور رسالت کے متعلق تو کبھی کچھ کہہ گذرتا تھا جس سے قیاس ہوتا ہے کہ وہ ان دونوں ارکان ایمان کا قائل ضرور تھا اور عملی طور پر بھی وہ نماز وغیرہ فرائض اسلامی ادا کر لیا کرتا تھا مگر کسی کی تقلید اُس نے نہیں کی اور نہ وہ پابندی کے ساتھ ائمہ اربعہ یا مذہب اثنا عشری کا معتقد تھا۔ اور جب کبھی ان امور کے متعلق اُس سے سوال کیا گیا اُس نے لاپروائی کے ساتھ جواب دیا کہ ہم کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بذاتہ قوت اجتہاد رکھتا تھا اور کسی امام یا مجتہد کی تقلید اُس کے لیے ضروری نہ تھی۔ اسی وجہ سے وہ ہر طریقہ میں عبادت اور عمل کیا کرتا تھا اور کبھی اُس کو ایک طریقہ پر اصرار یا قیام نہ تھا۔ اکبر آباد میں وہ ایک ایسے دربار سے تعلق رکھتا تھا جہاں ہر عقیدہ اور مذہب کے لوگ بلکہ اگر تاریخ صحیح ہے تو لامذہب بھی جمع تھے اور علوم و فنون کی معرکہ آرائیوں کے ساتھ ساتھ مذہبی مباحثے اور دینی مناظرے آئے دن ہوا کرتے تھے۔ خصوص اس زمانہ میں امام غزالی کے رسالہ تہافۃ الفلاسفہ پر زور شور سے نکتہ چینیاں اور اعتراض ہو رہے تھے اور امام صاحب کی مخالفت فلسفہ پر بڑی ناراضی پھیلی ہوئی تھی۔ ایسی حالت میں چونکہ وہ فطرتاً حکیمانہ خیال کا آدمی تھا، فیضی کی صحبت نے اُسے اور بھی چمکا دیا۔ اس لیے آخر آخر میں اُس کا رحجان فلاسفہ کی جانب بہت ہو گیا تھا اور گو وہ معتزلی تھا نہ مشائی کیونکہ وہ تقلید سے سخت متنفر تھا، تاہم فلسفی اصول اُسے کچھ ایسے پسند آ گئے تھے کہ ان کی دل سے قدر کرتا مثلاً وہ آگ کو جلا دینے والی چیز ہمیشہ تسلیم کرتا رہا اور برق کی تاثیر اُس کے ذہن میں بھی رہی کہ جب چمکے تو ضرور کانوں میں انگلیاں دے لینی چاہیے۔ اس طرح قضا و قدر کے مسئلہ میں اُس نے حجت قائم کی تھی کہ صرف مرنے کے لیے اُس کی ضرورت ہر شخص کو ہے۔ جبر و اختیار میں وہ مطلق سکوت کرتا تھا۔ کسی نے اس اہم مسئلہ کے متعلق ایک حرف کبھی نہیں سُنا۔ صرف ایک بار فیضی کو اُس نے یہ نکتہ بتا دیا تھا کہ کسی کا مال چھین لینا جبر ہے اور دے دینا اختیار۔ علت العلل کے مسئلہ میں اُس کی دقت نظر نے ایک نئی بات پیدا کی تھی کہ جب خدا کے متعلق ایسی بات کہی جائے تو بہت چپکے سے کہنی چاہیے تاکہ وہ سُن نہ لے۔

جزا و سزا کے بارہ میں اُس کا قطعی فیصلہ یہ تھا کہ مٹی کے نیچے نہ آگ زندہ رہ سکتی ہے جو انسان کو بعد مرنے کے جلائے گی، نہ باغ پیدا ہو سکتے ہیں جس کے مزے لوٹیں گے۔ دوزخ کا لفظ اُس نے اچھی طرح جی لگا کے نہیں سُنا کیونکہ بجز دل پریشان ہونے کے اس میں دھرا ہی کیا تھا۔ جنت کا جب حال سننے میں آیا تو اس کو ہمیشہ قصبہ چلہ کی جامن، امرود، بیر، آم یاد آ جاتے تھے۔ حوروں کا ذکر سُن کے جی ضرور للچاتا تھا کہ اللہ! اتنی دور آسمان پر چڑھ کے اُن کے لیے کون جائے۔ ہمارا یہیں سے سلام ہے۔ بندہ ایسا طوطا نہیں پالتا۔ چونکہ فلسفہ کا شیدائی تھا اس لیے حکمت کے بعض مسائل میں جزء لا یتجزیٰ پر خاص دلچسپی کے ساتھ غور کیا کرتا تھا اور کبھی باور نہیں آتا تھا کہ چھوٹے چھوٹے ذرے جو اُس کو اپنے گھر کے روشن دان کے سامنے اُڑتے نظر آتے ہیں یہ بھی کوئی چیز ہیں۔ اکبری دربار میں مذہب ہنود کی بڑی آؤ بھگت تھی اور حکماے دربار میں جید شاستری ویدانت لوگ جمع تھے مگر آواگون کے متعلق اُس نے ایک لحظہ کے لیے یقین نہ مانا کہ آدمی مر کے پھر کتا یا گدھا ہو کے پیدا ہو۔ وہ کہتا تھا کہ مرنے کے بعد خاک ہو گئے چلو چھٹی ملی۔ مگر یہ خیال اُس کا اُس وقت سے ہوا تھا جبکہ اُس نے کئی آدمی مرتے اور قبر میں رکھے جاتے دیکھے تھے؛ ورنہ پہلے وہ صرف اس لیے کہ میں نہیں مرا ہوں، مرنے ہی کا قائل نہ تھا تو آواگون کجا۔ اس کا خیال تھا کہ بتوں کے سامنے پوجا کرنے میں بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ کسی بات کا جواب نہیں دیتے۔ البتہ آفتاب کی پرستش پر اُس کا دھیان تھا، وہ اس لیے تھا کہ جب اس کو پوجتے ہیں تب ہی تو جاڑوں میں دھوپ کھانے کا موقع ملتا ہے اور سردی سے وہ ہم کو بچاتا ہے، ورنہ خفا ہو جائے اور نہ نکلے تو مارے جاڑے کے اکڑ جائیں۔ ندیوں کی پوجا کو بھی وہ اچھا جانتا تھا کہ اُن کا پانی گرمیوں میں بہت شفاف اور ٹھنڈا ہوتا ہے۔ برگد کے درخت کے پوجنے سے وہ متفق نہ تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ اس کے پھل صرف چڑیوں کے کام آتے ہیں وہی پوجا کریں، آدمیوں کو اُس سے کچھ فائدہ نہیں ہے۔ گئو ماتا کا وہ بہت ادب کرتا تھا کہ سیروں دودھ دیتی ہے۔ گھی الگ چکھنے میں آتا ہے۔ دہی میں گُڑ ملا کے کھانے کا مزہ کچھ نہ پوچھو۔ اس وجہ سے ایسی عمدہ چیز کو ضائع کرنا حماقت ہے۔ وہ تو بکریوں کے ساتھ بھی ہمدردی کرتا مگر اُس کا گوشت پوست انھیں سے بنا تھا اس لیے کچھ زیادہ خیال نہ کیا۔ علاوہ اس کے دودھ دہی ان میں اس افراط سے کہاں جو گائے میں ہے۔

الغرض اس کا مذہب کچھ عجیب سمویا ہوا تھا اور حق یہ ہے کہ اُسے ہر طرح کے اجتہاد کی قدرت حاصل تھی۔ وہ جو مذہب اختیار کرتا یا خود موجد بنتا اُس کے حق بجانب تھا۔ مگر اُس نے عمداً ان جھگڑوں میں پڑنا پسند نہ کیا اور ایک گومگو حالت میں بسر کر دی۔ ورنہ آج شیخ چلی کا مذہب بھی بہتر میں ایک نمبر لیے ہوتا۔ اُس کو درحقیقت ایسی پڑی ہی کیا تھی کہ اس درد سری کو مول لیتا۔ وہ بجاے خود یہ تسلیم کر چکا تھا کہ انسان کو جہاں تک ممکن ہو آزادی اور سادگی سے بسر کرنا چاہیے اور جس ڈھب سے کام چلے چلا لیا جائے۔ زیادہ غور کرنے سے دماغ الگ تھکتا ہے، طبیعت جدا پست ہو جاتی ہے۔ پھر نیتجہ معلوم کہ کچھ نہیں۔ اور اس استغنا کی خاص وجہ یہ تھی کہ اُس کی ذہنی قوت کے مبادی دوسروں کے انتہائی معقولات کے مساوی تھے۔ پس وہ جانتا تھا کہ میری سرسری انتقالات ذہنی کے نتائج کا تو کوئی متحمل ہو ہی نہیں سکتا۔ دقیق باتوں کو کیسے سمجھاؤں۔ اسی وجہ سے اس نے اپنے دماغ کو اس حد تک استعمال ہی نہیں کیا جس کی دوسروں کو ضرورت ہوتی ہے اور اس میں وہ سچا بھی تھا۔