حیات شیخ چلی/بارھواں باب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search



بارھواں باب

شیخ کی علمیت اور شاعری اور دیگر فنون

شیخ کی تعلیم کا حال ہم اس کی ابتدائی عمر کے حالات میں لکھ چکے ہیں۔ مگر وہ صرف رسمی بات تھی کہ اس کے باپ نے زبردستی اس کو پڑھوایا۔ خیر اچھا کیا۔ درحقیقت اس کی استعداد علمی بہت کم تھی مگر وہ خداداد قابلیت جو فطرتاً اس کی ذات میں ودیعت کی گئی تھی اس کے سامنے رسمی علوم کی نہ حقیقت تھی نہ ضرورت۔ اس کا جی حساب میں کبھی نہ لگا، گویا اسے طبعی نفرت تھی۔ گو وہ سو تک گنتی بے تکلف جانتا تھا مگر اپنی ایجاد و اختراع کو اس نے کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا یعنی بیس تک تو وہ فر فر گن جاتا اس کے آگے اکیس کے عوض بیس پر ایک بیس پر دو، اسی طرح بیس پر نو کے بعد وہ تیس کہتا اور تیس پر نو کے بعد بجاے چالیس کے دو بیس اور ساٹھ کو تین بیس۔ اسی کو چار بیس، اس کے بعد پورے سو اور پھر سو پر دس یا بیس اسی طرح شمار کرتا۔ مگر حق یہ ہے کہ اس فن میں اس نے مطلق بے توجہی کی اس لیے ہم کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔

فن انشا میں اس کی لیاقت کا حال معلوم نہیں۔ اس وقت ڈاک کی یہ آسانیاں تو موجود نہ تھیں، اس لیے خط لکھنے کا موقع ہی نہ ملا۔ البتہ وہ کچھ علمی مسائل یا حکمت کے معرکہ آرا مباحث لکھ لیا کرتا تھا جس کو زمانہ نے مٹا ڈالا پھر کیونکر اندازہ کیا جائے کہ اس کی فصاحت و بلاغت کا کیا رتبہ تھا۔

نظم میں البتہ اس کو زیادہ دلچسپی تھی اور شعر خوب کہتا تھا۔ اس وقت کی زبان تو نہ تھی خاص دربار شاہی میں فارسی بولی جاتی تھی۔ عوام کچھ بھاکا ملی ہوئی بولی بولتے تھے۔ اس لیے اس کی شاعری میں ان دونوں خصوصیتوں کی جھلک پائی جاتی ہے اور یہ صنعت سب سے زیادہ مشکل ہے۔ جب شہزادہ سلیم کی شادی نواب جودہ بائی مہاراجا بھگوان داس راجا جودھپور کی بیٹی سے ہوئی ہے، دربار اکبری کے شعرا نے بڑے صنائع و بدائع کے قصیدے، مبارکبادیں، سہرے وغیرہ لکھے۔ شیخ صاحب نے بھی یہ مبارک ؏

ہمیشہ دلبرے سو جان مبارک باشد​

لکھ کے پیش کی۔ اکبر نے اس کو اس قدر پسند کیا کہ اسی وقت نور بائی رقاصہ خاص کو یاد کرائی گئی اور عین نکاح کے بعد بزم طُویٰ میں گائی گئی۔ اس کی خوبی اس کی مقبولیت ہی سے ظاہر ہے کہ آج تک جشنوں میں ضرور گائی جاتی ہے۔ ہزار روپیہ روز کا طائفہ بھی اس مبارکباد کو ضرور گائے گا۔ تذکرہ نگاروں کو اختلاف ہے کہ یہ شعر ؎

ضمنا ضمنی بہم آؤتے ہیں

تو چھپر اٹھانے کو کم آؤتے ہیں​

شیخ چلی کا ہے یا لال بجھکڑ کا۔ مولانا غلام علی آزاد بلگرامی تو خزانہ عامرہ میں شیخ چلی ہی کا ثابت کرتے ہیں۔ مگر صاحب آتش کدہ لال بجھکڑ کے طرف دار ہیں اور میں حضرت آزاد سے متفق ہوں کیونکہ ایسی سلاست اور برجستگی، نشست الفاظ، طرز ادا حضرت شیخ کا خاص حصہ ہے۔ افسوس ناقدر دانیِ زمانہ نے جہاں اور ہزاروں گنج شائگاں خاک میں ملا دیے، اسی طرح شیخ کا دیوان اور دوسرا کلام یعنی یہ بے بہا لعل و گہر اس کے ساتھ ہی زمانہ سے ناپید ہو گئے۔ چند اشعار متفرق طور پر جو زبان زد خاص و عام ہیں درج کیے جاتے ہیں۔ ہم نے انتخاب کو دخل نہیں دیا ہے ؎

اکہتر بہتر تہتر چوہتر

پچھتر چھیتر ستہتر اٹھتر



حسین آباد بنا بن کے نمودار ہوا

گلشن تو ایسا کہ بادشاہ کا نام ہوا



آغا تقی کے باغ میں اک توپ کھڑی ہے

بندر کی شکل ہو کے مچھندر سی لڑی ہے



آغا تقی کے باغ میں گچھا انار کا

چھاتی پٹک کے مر گیا لونڈا سنار کا



چندا ماموں آجا آجا

دھا جا دھپا جا سونے کا ٹیکہ دے جا



اگر ہم باغباں ہوتے تو گلشن کو لٹا دیتے

اگر ہم پتنگ ہوتے لگا کر پیچ عشق کا فلک پر کٹا دیتے



زلف اس مکھڑے پہ اس طرح سے لہرا رہی ہے

بھینس جس طرح سے کونڈے میں کھلی کھا رہی ہے



موسیقی میں شیخ کا وہی پایہ ہے جو بغداد میں اسحق موصلی کا تھا۔ ڈفلی اور ڈفالیوں کا ربانہ آپ ہی کی ایجاد سے ہے۔ کنکڑی جو سرکیوں کی بنا کے بچے بجایا کرتے ہیں، اس کے اختراع کا فخر بھی اسی یگانہ روز کو حاصل ہے۔ حضرت امیر خسرو(مجھ کو تاریخ میں کس قدر عبور اور ید طولیٰ ہے۔ داد دیجیے۔ مولف) نے اسی کو دیکھ کے ستار بنایا۔ سچ تو یہ ہے کہ خسرو کا ستار شیخ کی کنگڑی کا ہمیشہ ممنون رہے گا۔ ایجاد کا حق کبھی زائل نہیں ہوتا اور موجد کی دماغی قوت ہر زمانہ میں قابل احسان سمجھی جائے گی۔ میرے نزدیک ڈیوٹ کا موجد اور چرخہ کا بانی صدہا قطع کے لیمپوں اور ہزارہا شکل کی مشینوں کے بنانے والوں سے بدرجہا قابلِ عزت ہیں کہ اُنھوں نے ایک صورت قائم کی۔ اب تم تکلفات سے جو چاہو کر لو۔ شیخ خوش گلو ہو یا نہ ہو کیونکہ ہم نے اُس کا گانا نہیں سُنا۔ مگر اصول موسیقی کا بہت بڑا ماہر تھا۔ گدھے کی نہیق میں وہ ہمیشہ تال سم قائم کر لیا کرتا تھا اور زیر و بم اسی سے اُس نے حاصل کیا۔ نکھاد اور پنجم کے سروں میں ایسے جوڑ لگائے کہ اچھے اچھے کلاونت کان پکڑتے ہیں۔ ٹھیکہ پر سم اور دُون میں گٹکری اسی کی ایجاد ہے۔ سارنگ وہ آدھی رات کو اور بہاگ دوپہر کو اس طرح چھیڑتا کہ بے وقت کی راگنی کا الزام ممکن نہیں اُس پر کوئی لگا سکے۔ دیپک عمر بھر میں ایک دن جب وہ سفر میں تھا گائی تھی، آج تک مہابن میں آگ لگی ہوئی ہے۔ مشہور راگنیوں کے علاوہ اپنی اختراعی راگنیاں خوب ادا کرتا تھا۔ مثلاً ایک دُھن اُس نے صوت الحمیر نکالی تھی، اُس میں ایسے ایسے لہرے نکالے کہ آج تک نام ہے۔ اُس کا قول تھا کہ حنجرہ سے جو آواز نکل سکتی ہے وہ لے میں ڈوبی ہوتی ہے خواہ کسی کی ہو۔ طبلہ میں ٹکڑے بجانا تو اُس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ چوتالہ ایسا بجایا کہ منے خان اُس کا نام لے کے کان پکڑتا ہے۔ نغمۃ البعیر اس کا رسالہ اس فن موسیقی میں بہت مشہور ہے۔ اُس میں تھا پر سم کھانے کی ایسی باریک باتیں بتائی ہیں کہ سمجھنا دشوار ہے۔ اکبری دربار میں اس فن کے صلہ میں اُس کو اتنا کچھ ملا کہ اسحٰق کو مامون رشید نے بھی نہ دیا ہوگا۔

علم ہیئت میں بھی اُس کو کسی قدر ملکہ تھا۔ دربار اکبری میں ایک حکیم نے بڑا سا برنجی کرہ پیش کیا جو نہایت عجیب و غریب تھا۔ مگر شیخ نے اُسی وقت ایک زبردست غلطی ثابت کر دی۔ اس برنجی کرہ میں درجوں اور دقیقوں کے خطوط مرکز سے قطر کی تقسیم کے لیے برابر کھچے تھے۔ ثابت یہ کیا جاتا تھا کہ زمین گول ہے اور خط استوا کے دو جانب قطبین کی طرف اس کو بتدریج تدویر ہوتی جاتی ہے۔ شیخ نے اعتراض کیا کہ زمین گول کیونکر ہو سکتی ہے۔ اگر گول ہوتی ایک آدمی یا ایک چیز اُس پر قائم نہ رہ سکتی۔ ادھر اُدھر لڑھکتی پھرتی، گولے پر کہیں ٹھہرا جاتا ہے۔ قطع نظر اس کے سارے دریا سمندر اسی زمین پر جاری ہیں، اگر زمین گول ہوتی تو تمام زمین پر پانی پھیل جاتا گولا آپ ہی ڈبکیاں کھاتا پھرتا۔ یہ کیسی بد عقلی کی باتیں ہیں۔

شیخ باجرے کا ملیدہ اتنا خوش ذائقہ اور لطیف بناتا تھا کہ حلواے مسقطی اور نان بشیر کی حقیقت نہ تھی۔ دوسرے کھانے بھی وہ پکا لیتا تھا اور اچھے پکاتا تھا۔ مگر ماش کی دال میں بتھوے کا ساگ اس کے واسطے مخصوص تھا۔ کھچڑی بغیر ادھن کے اُس نے کبھی نہیں پکائی اور نہ ارہر کی دال بغیر پالک کے ساگ کے اُس کو اچھی معلوم ہوئی۔ کیری کی چٹنی اور املی کا کچھا بہت ہی لذیذ اور چٹ پٹا بناتا تھا۔ کچے کیتھے کو نمک کے ساتھ کھانا اُسی کی ایجاد ہے۔ جنگلی بیروں کو جوش دے کے وہ ایک قسم کی شراب بناتا تھا۔ اُسی کا نام شراب الصالحین ہے۔

شیخ نہایت سادہ مزاج تھا۔ اُس کو ہلکے ہلکے صوفیانہ رنگ بہت پسند تھے۔ ملتانی مٹی میں وہ ہمیشہ اپنی لنگی اور چادرہ بہت ہی تکلف کے ساتھ رنگ لیا کرتا تھا۔ ببول کی چھال کا رنگ کاٹ کے وہ ایسا پائدار رنگ رنگتا تھا کہ کپڑا پھٹ جائے مگر رنگ نہ جائے۔ ایک بار اُس کے یہاں ایک بکری بیمار ہو گئی جس کو ذبح کرنے کے بغیر چارہ نہ تھا۔ شیخ کو خون دیکھ کے اُس کا شوخ رنگ ایسا پسند آیا کہ اپنا کرتہ پاجامہ دونوں اُس میں رنگ لیے۔ گوالیار کے اکثر رنگ اُسی کی ایجاد سے ہیں۔

حقائق اشیا کا ماہر اتنا بڑا کوئی ہوا ہی نہیں۔ غلہ کے تمام اقسام کو وہ بلا تردّد پہچان لیتا تھا اور سب کے نام اُس کو حفظ تھے۔ اُن کی ترکیب استعمال میں بھی اُس نے کبھی غلطی نہیں کی۔ مثلاً گیہوں وہ ہمیشہ پسوا لیا کرتا تھا۔ چنوں کو بھون کے کھانے کی ترکیب اُس نے نکالی۔ تانبے، پیتل، لوہے کو وہ الگ الگ تمیز کر لیا کرتا تھا اور اُن کے رنگ صاف بتا دیتا تھا۔ معدنی اشیا کو ہمیشہ فلزی چیزوں سے برابر تبادلہ کر لینے میں اُس کو اہتمام رہا۔ سونے چاندی کے متعلق اُس کو یہ بحث تھی کہ صرف رنگ کے فرق سے کیوں قیمت میں تفاوت ہے۔ اس کے متعلق دربار اکبری سے زیادہ امتحان کا کون میدان تھا۔ وہاں جب اُس نے مناظرہ کیا ہے تو کسی کو جواب دینے کی مجال نہ تھی اور وہ اس بات پر اڑا رہا کہ صرف ایک ذہنی فرق پر ایک چیز کو کم حقیقت دوسری کو گراں قیمت کیوں قرار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ اسی بنا پر اُس نے بارہا اشرفی کو روپے کے ساتھ برابر برابر تبدیل کرا لیا اور صراف کو ماننا ہی پڑا۔

منطق الطیر میں بھی اس کو کچھ ملکہ تھا۔ سویرے سویرے کوے کے بولنے پر وہ دن بھر مہمان کا انتظار کرتا رہتا۔ صبح کو مرغ بولتے ہی وہ سمجھ جاتا کہ تڑکا ہو گیا۔ مرغیوں کے کڑکڑانے کے ساتھ ہی وہ بیوی کو بتا دیتا کہ اب انڈے دیں گی۔ گھر کے پلے ہوئے طوطے کی بولی وہ بہت ہی جلد اور صفائی کے ساتھ سمجھ جاتا تھا اور گھڑیوں اُس کی لغت میں باتیں کیا کرتا۔

اسی طرح اور جانوروں کی زبان جانتا تھا۔ گھر کی بکریاں جب رات کو غیر معمولی طور پر پکارتیں، وہ کہہ دیتا کہ بھیڑیا یا کتا آیا ہے۔ جب بکری باہر سے چر کے آتی اور بچہ پکارتا تو وہ ہنس کے بیوی کو بتا دیتا تھا کہ دیکھو یہ دودھ مانگتا ہے اور ماں بھی اُس کا جواب دے رہی ہے کہ ٹھہر جا پلاتی ہوں۔ کتوں کی بات چیت چوروں کے آنے پر اُسے برابر معلوم ہو جاتی اور بے تحاشا وہ پڑوسیوں کو پکار کے اس خطرے سے آگاہ کر دیتا تھا۔ گھوڑا اُس نے پالا ہی نہیں۔ مگر سراے وغیرہ میں کسی کا گھوڑا رات کو ہنہنایا کہ اُس نے بھٹیاری یا سائیس کو ڈانٹا کہ گھاس مانگتا ہے گھاس۔

بیل اُس کے گھر میں جب تک رہے وہ ان کی منطق ہی میں اُن سے بات چیت کیا کرتا۔ مثلاً بیل کو دھیما اور قابو میں کرنے کے لیے وہ ایک خاص آواز اور ادا سے چمکارتا اور وہ فوراً مان جاتا۔ یا چلنے کے لیے جو الفاظ بیل کی زبان میں معین تھے شیخ وہ ہی لفظ بولا کرتا اور بیل چل پڑتا۔ پانی پیتا باتیں اور ہی کچھ تھیں جس سے بیل فوراً متوجہ ہو جاتا اور گھٹ گھٹ پانی پی لیتا۔

بھینس کی آواز چونکہ زیادہ سُریلی اور خوش ہوتی ہے، شیخ کو بہت مرغوب تھی، خصوص جب وہ اپنے بچے سے دُلار کی باتیں کرتی تو شیخ زیادہ متوجہ ہو کے سُنتا۔ اور خود زبان دان تھا، اس کو لطف بھی بہت ملتا اور ہنسا کرتا۔

ہاتھی اکبر آباد میں بارہا دیکھا اور تمام اراکین سلطنت اُس کے یار تھے۔ سب نے اُس کو چڑھنے پر مجبور کیا۔ مگر وہ دانش مند ایسی جوکھم میں پڑنا پسند نہ کرتا تھا کہ ایک چلتے پہاڑ پر بیٹھ کے اپنی تشہیر کر آئے اس لیے کبھی ہامی نہ بھری اور دور ہی سے اُس کالی بلا کو سلام کیا۔ مگر زبان اُس کی بھی جانتا تھا اور اس فرق کے ساتھ کہ افریقہ کے ہاتھی عربی بولتے ہیں اور کجلی بن کے بھاکا۔ اس کا ثبوت اس طرح ہوا کہ ایک افریقہ کا دوسرا کجلی بن کا ہاتھی دونوں ایک مقام پر موجود تھے۔ پہلے ہاتھی کے فیل بان نے کہا میل میل اور ہاتھی فوراً بڑھ گیا۔ شیخ نے تڑ سے بتا دیا کہ یہ عربی سمجھتا ہے۔ میل اور مائل ایک ہی مادہ سے ہیں۔ فیل بان نے آگے بڑھنے کو کہا وہ چل نکلا۔ دوسرے ہاتھی کو دھت دھت کہا گیا وہ پیچھے ہٹا۔ شیخ نے بتایا کہ دھت کلمہ زجر کا ہے اور ہاتھی سمجھ گیا کہ مجھ پر ملامت ہوتی ہے وہ ہٹ گیا۔

بندر سے وہ بہت خفا رہتا کیوں کہ اس کی متانت کو اس مسخرے کی بے ہودگیوں اور شرارتوں سے کوئی مناسبت ہی نہ تھی۔ اکبر آباد کے سفر میں جب اس کا گذر بندرا بن سے ہوا، چاہا راستہ ہی چھوڑ دیں اور باہر باہر نکل جائیں۔ چنانچہ اُس نے جہاں سے سنا تھا کہ آگے بندرا بن ہے وہ وہیں سے کترا گیا اور داہنے ہاتھ کو مُڑ کے ایک طرف چل نکلا۔ شام تک چلا اور کچھ اس ترکیب سے چلا کہ جہاں سے مُڑا تھا اور جہاں شام کو پہنچا، نیم دائرہ کی شکل میں راستہ قطع کیا اور جب بستی میں پہنچ کے نام پوچھا تو معلوم ہوا کہ بندرا بن ہے۔ لا حول و لا قوة! یہ تو کچھ نہ ہوا۔ اخیر رات کو سرا میں سو رہا۔ صبح کو اُٹھا تو پہلے سامنے کھپریل پر ایک جغادری بندر ہی پر نظر پڑی اور اُس نے وہیں سے شیخ کو گھورا۔ یہ مُنہ پھرا کے پلٹے ہی تھے کہ اپنی کوٹھری کے سائبان پر دس پانچ دھوپ کھاتے نظر پڑے۔ آپ بہت چکرائے مگر حواس تو اس کے کبھی جاتے نہ تھے کوٹھری میں پلٹ کے چارپائی پر لیٹ گیا اور سوچنے لگا۔ ہزاروں ترکیبیں ذہن میں آئیں مگر سب بیکار۔ آخر ایک بات سوجھ گئی اور شیخ نے فوراً بھٹیاری کو بلا کے حکم دیا کہ ہمارے لیے جو کھانا پکے وہ دو آدمی کا ہو۔ بھٹیاری نے تعمیل کی اور جلد جلد کھانا تیار کر دیا۔ جب تک شیخ اندر ہی بیٹھا رہا تھا۔ کھانا پک کے آیا تو بندر پیچھے پیچھے وہ تو سمجھ ہی گئے تھے آج بڑے بھاگوان کا منہ دیکھا ہے، دعوت چکھیں گے۔ غرض شیخ ایک طرف سائبان میں کھانا رکھوا کے پھرتی کے ساتھ کوٹھری سے باہر ہو گیا اور آناً فاناً سرا سے نکل کے یہ جا وہ جا۔ اپنا راستہ لیا۔ بندر کھانے میں ایسے مصروف ہوئے کہ شیخ کا شکریہ تک نہ ادا کر سکے۔