جو میرے دل میں سہو تری یاد سے ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو میرے دل میں سہو تری یاد سے ہوا
by ناطق لکھنوی

جو میرے دل میں سہو تری یاد سے ہوا
نام اس کا محو عالم ایجاد سے ہوا

برباد خاک دل ہے تو احسان حسن کیا
میں سر بلند عشق کی افتاد سے ہوا

ایسے بھی ہیں کہ جن کو رہائی کی فکر ہے
شرمندہ میں تو زحمت صیاد سے ہوا

ناقوس اور اذاں کی بنا عشق سے پڑی
فریاد کا چلن مری فریاد سے ہوا

عشق و ہوس نے مل کے بنائی ہے بزم حسن
یہ اتحاد مجمع اضداد سے ہوا

دنیائے بے ثبات کا قصہ تھا مختصر
طول اتنا میری قید کی میعاد سے ہوا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2023, prior to 1 January 1963) after the death of the author.