تماشے کی شکلیں عیاں ہو گئی ہیں
Jump to navigation
Jump to search
تماشے کی شکلیں عیاں ہو گئی ہیں
بہاریں بہت یاں خزاں ہو گئی ہیں
خبر پس روؤں سے تم ان کی نہ پوچھو
جو روحیں عدم کو رواں ہو گئی ہیں
نکالی ہیں جو ہم نے اوج سخن سے
زمینیں وہ سب آسماں ہو گئی ہیں
انہیں فرض ہے تیر کا کس کے سجدہ
جو میوے کی شاخیں کماں ہو گئی ہیں
وہ بت قطع کرتا ہے زلفوں کو شاید
نزاکت پر اس کی گراں ہو گئی ہیں
ٹک اے باغباں رحم کر بلبلوں پر
خزاں میں یہ بے آشیاں ہو گئی ہیں
میں رویا ہوں یاں تک جدائی میں تیری
کہ آنکھیں مری ناوداں ہو گئی ہیں
جدائی میں اس زلف کی مثل شانہ
مری انگلیاں استخواں ہو گئی ہیں
رخ اس کا میں اے مصحفیؔ کیوں کہ دیکھوں
نگاہیں مری بد گماں ہو گئی ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |