تماشے کی شکلیں عیاں ہو گئی ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تماشے کی شکلیں عیاں ہو گئی ہیں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

تماشے کی شکلیں عیاں ہو گئی ہیں
بہاریں بہت یاں خزاں ہو گئی ہیں

خبر پس روؤں سے تم ان کی نہ پوچھو
جو روحیں عدم کو رواں ہو گئی ہیں

نکالی ہیں جو ہم نے اوج سخن سے
زمینیں وہ سب آسماں ہو گئی ہیں

انہیں فرض ہے تیر کا کس کے سجدہ
جو میوے کی شاخیں کماں ہو گئی ہیں

وہ بت قطع کرتا ہے زلفوں کو شاید
نزاکت پر اس کی گراں ہو گئی ہیں

ٹک اے باغباں رحم کر بلبلوں پر
خزاں میں یہ بے آشیاں ہو گئی ہیں

میں رویا ہوں یاں تک جدائی میں تیری
کہ آنکھیں مری ناوداں ہو گئی ہیں

جدائی میں اس زلف کی مثل شانہ
مری انگلیاں استخواں ہو گئی ہیں

رخ اس کا میں اے مصحفیؔ کیوں کہ دیکھوں
نگاہیں مری بد گماں ہو گئی ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.