بیگمات اودھ کے خطوط/دیباچہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

بیگمات اودھ کے خطوط

واجد علی شاہ کے زمانے میں مرزا رجب علی بیگ سرور اکبرآبادی کی طرز تحریر بالخصوص فسانۂ عجائب کی عبارت کے انداز کا چلن عام تھا۔ علی العموم شاہی خاندان کے مراسلات میں عام طور پر تقلید کی جاتی۔ بادشاہ کو خود قافیہ سنجی کا بے حد شوق تھا۔ اس قسم کی عبارت میں اگرچہ مطالب کے ادا کرنے میں سخت دقت تھی مگر انشا پردازی کا لطف ضرور تھا۔

بادشاہ اور بیگمات کے نامہ و پیام کا ایک مجموعہ میرے کتب خانہ میں بھی ہے۔ ادبی رسائل میں اکثر ایسے خطوط نظر سے گذرے۔ ان کی نقول اپنے مجموعہ میں اور شامل کرتا رہا۔ کتابیات جو ہندوستانی اکیڈیمی کے لیے ترتیب دے رہا تھا اس کے سلسلہ میں مخزن اسرار سلطانی (رقعات بیگمات) مرتبہ منشی امتیاز علی نجیب فرخ آبادی مطالعہ سے گذری جو سنہ 1902ء میں شائع ہوئی ہے۔ مکررات عبارت اور ایک ہی سا مضمون خطوط میں ہے۔ میرے مجموعہ میں ان بیگمات کے خطوط ہیں جن کا مخزن اسرار سلطانی میں ذکر نہیں۔ عموماً اشتیاق نامے جانبین کے ہیں۔ یہ خطوط اس عہد کے ہیں جب بادشاہ انتزاع سلطنت کے بعد اپنی تمام بیگمات کو چند کے سوا لکھنؤ چھوڑ گئے تھے۔

ان مراسلات میں ہجر و وصال اور اشتیاق و فراق اور سوز و ساز کے سوا ہنگامۂ سنہ 57ء کے مصائب اور حالات کا ذکر بھی ہے۔ بعض ایسی باتیں خطوط میں نظر پڑیں جن کا تاریخ ہند سے بڑا تعلق ہے۔ ان کی عموماً شہرت نہیں ہے۔ مگر یہ تاریخ کا گم شدہ ورق ہے اور قابل قدر ہے۔

میرے کرم فرما جناب سید آصف علی صاحب مالک مکتبہ ادب دہلی سے اس کا ذکر آیا۔ ان کا اصرار شروع ہو گیا کہ یہ مجموعہ ان کے لیے ترتیب دے دیا جائے۔ چنانچہ تعمیل کی گئی۔ مخزن اسرار سلطانی سے چند خطوط اپنے مجموعہ کے ساتھ اور شامل کر لیے کیونکہ ان خطوط میں اکثر توارد اور تکرار ہے اور اس کو قافیہ پیمائی اور عبارت آرائی کے کھٹکوں نے بد نما بھی کر دیا ہے۔ ضروری ضروری شستہ عبارت کے رقعہ نقل کر لیے گئے ہیں۔ ان خطوط کے القاب قابل دید ہیں۔ زبان بھی پیاری ہے۔ گو اردو قدیم ہے مگر لطف انگیز ہے۔ بعض منظوم رقعے بھی ہیں۔

غرض کہ "بیگمات اودھ کے خطوط" کا مجموعہ ہدیۂ ناظرین ہے۔

انتظام اللہ شہابی