بیگمات اودھ کے خطوط/خطوط

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search


شیدا بیگم کا خط

بنام جان عالم



شہ ہند رشک قمر جان عالم

کر اب مہر کی اک نظر جان عالم

سفر سے جلد آؤ جان عالم

جمال اپنا دکھاؤ جان عالم

شمع شبستان موانست و موافقت، رنگ افزاے اورنگ مصادقت و مرافقت، نغمہ سنج ریاض خوش بیان زمزمہ پرداز حدیقۂ سخن دان زید اللہ حسنہ

حالت ہے اس کی نار کی برق و شرار کی

کیا کیا تڑپ سناؤں دل بے قرار کی

نیرنگیِ گردوں حد سے افزوں ہے۔ زندگی سے دل تنگ ہے۔ حالت زبوں ہے۔ ترقیِ وحشت ہے۔ اپنوں بیگانوں سے نفرت ہے۔ آتش فراق سے سینہ پکتا ہے۔ کبھی حیرت ہے کبھی سکتہ ہے۔ سیماب وار دل بے قرار ہے۔ گریہ و زاری بے شمار ہے ؎

تپ جدائی سے اب اس طرح نزار ہوں میں

نظر میں خلق کی رشک خط غبار ہوں میں

رہ رہ کے اگلی یاد اٹھتی ہے۔ کیا زمانہ تھا۔ دن عید رات شب برات تھی، فلک کو یہ آرام بھایا نہیں۔ کج رفتاری دکھا ہی دی۔ جب سے آپ گئے ہیں، روتے دھوتے دن رات گذرا ہے۔ اپنی خیریت سے شاد کام کرو۔ میرا کہا دلہ رام کرو ؎

جب سے ہم کو الفت ملی دیوانے ہوئے

اپنے بیگانے سے بیگانے ہوئے



خط سلیمان محل

بنام جان عالم



یہی کہتا ہے رو رو کر دل رنجور سینے میں

دم سوزاں سے آخر پڑ گیا ناصور سینے میں

طوطی شکر خاے صدق و صفا، عندلیب خوش نوا، چمنستان دلہ رام مدام، مہر پیشانی، چہرہ نورانی، ابرو کمان، تیر مژگان، گل کی خوشبو، بلبل کی گفتگو، بے آراموں کے چین، استاد تان سین، محفل کی زیبائش، مہر دل کی آرائش زاد اللہ محبتہ

مثل گل اپنا گریباں چاک کر دوں تو سہی

اس دل بے تاب کو میں خاک کر دوں تو سہی

دست جنوں نے بے طرح پنجے جھاڑے ہیں۔ سر سے پیر تک عقل و خرد کے کپڑے پھاڑے ہیں۔ نالہ و آہ سے رعد و برق کا دم بند ہے۔ ہمارے رونے کا تمھارے فراق میں ابر مطیر سے مرتبہ بلند ہے۔ اب رنج و محن کا وفور ہے۔ کلیجہ میں ناصور ہے۔ آتش دوری پردۂ چشم جلاتی ہے۔ آنکھیں حسرت سے ڈبڈبا کر رہ جاتی ہیں۔ اپنی خیریت سے آگاہ کیجیے ؎

نہیں دونوں جہاں سے کام ہم کو

اک فقط تیرے مبتلا ہیں ہم

سلیمان محل



شیدا بیگم کا منظوم خط

بنام جان عالم



ساقی ہو، صحن باغ ہو، ابر بہار ہو

پہلو میں تم ہمارے بعز و وقار ہو

ساون کا تو مہینہ ہو اور دن ڈھلا ہو

اور ننھی ننھی بوندوں کی پڑتی پھوار ہو

جھولا پڑا ہوا ہو کسی شاخ نخل میں

اک سمت خوش گلو کوئی گاتا ملار ہو

کوئل کہو کہو کی صدا دے ہر ایک بار

ٹپکا لگا ہو آنبہ کا، فصل بہار ہو

اس وقت بول اٹھے جو پپیہا کہ پی کہاں

اک تیر عاشقوں کے کلیجہ کے پار ہو

بنگلہ صنوبری بھی صحن میں ہو وہ پڑا

فردوس جس کے دیکھنے سے شرم سار ہو

جز گفتگوے راز نہ کچھ ہو خیال اور

باتوں کی چھیڑ چھاڑ ہو بجتا ستار ہو

مہندی ہو ہاتھوں پاؤں میں اپنے رچی ہوئی

اور عطر میں بسا ہوا ہر تار تار ہو

جوبن وہ تم پہ ہم پہ ہو اُس وقت نور کا

حور و پری بھی آن کے جن پر نثار ہو

خالی ہو بزم، دخل نہ ہو واں پہ غیر کا

دل خوب کھول کھول کے بوس و کنار ہو

لب پر جو لب دھرے ہوں تو ہاتھوں میں ہاتھ ہو

سینہ ملا ہو سینے سے، دل کو قرار ہو

شیداؔ تمھاری آٹھ پہر رہتی ہے ملول

اب دیکھیے یہ آرزو کب آشکار ہو





(ادبی دنیا)





ذی الحجہ سنہ 1271ھ

شہنشاہ بیگم کا خط

بنام جان عالم

میری تو سن لے کہ مانند بزم شمع آخر

پگھل چکا ہے سراپا زبان باقی ہے

آیتِ مصحفِ آشنائی، حدیث مشکوۃ دلربائی، عکس آئینہ اختصاص، نقش نگار خانۂ اخلاص مدام ادام اللہ جمالہ و اقبالہ

بوے کباب سوختہ آئی دماغ میں

شاید کہ دل کو آتش غم نے جلا دیا

جان عالم جب سے سدھارے، خبر تک نہ لی۔ یہاں سینۂ تنگ میں دل گھبراتا ہے۔ فرط آہ و نالہ سے جان جاتی ہے، کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ یہاں محلات میں ہر ایک خوش و خرم ہے، مگر یہ جان عالم تیرے فراق میں سوزشِ آتش سے مثل ہیزم ہے۔ تپ فراق نے تنِ زار میں آگ لگا دی ہے ؎

اب زباں پر تو آہ و نالہ ہے

اور دردِ جگر دو بالا ہے

جلد خیریت سے مطلع کیجیے، فقط اب ملنے کی دعا ہے۔ اگر امید وصال نہ ہو تو تن بدن جل کر خاک ہو، دوری و مہجوری کا قصہ پاک ہو ؏

اپنی صورت ہم کو دکھلاؤ خدا کے واسطے

ذی الحجہ ؁1271ھ

سلطان جہاں محل کا خط بنام جان عالم



مجنوں کا دل ہوں محمل لیلی سے ہوں جدا

تنہا پھروں ہوں دشت میں جوں نالۂ جرس



دواے درد مندان الفت و اتحاد، شفاے مستمدّان محبت و وداد، کلبدِ گنجۂ مہر و وفا، خورشید مطلع صدق و صفا جان عالم ہمیشہ سر بلند رہو ؎

چمن کا نام سنا تھا ولے نہ دیکھا ہاے

جہاں میں ہم نے قفس ہی میں زندگانی کی

حضرت عشق کا عمل ہے۔ تشنہ لبی ہے۔ گریۂ نیم شبی ہے۔ آنکھوں میں دریا کی روانی ہے۔ جسم زار کی ناتوانی ہے۔ موج اشک نے کشتیِ چرخ کو ڈبو دیا۔ حضرت عشق نے دونوں جہاں سے کھو دیا ؎

شکوہ کیا کیجیے ناتوانی کا

کھو دیا لطف زندگانی کا

لوگوں نے مجھ رنجور پر اتہام باندھے، حضور کو بھی یقین آ گیا۔ حضرت عباس علم بردار کی سوگند، میں آپ کا نام لیے بیٹھی ہوں۔ نہ غم خوار ہے نہ دم ساز ہے، صرف آپ کی یاد ہے ؎

رفتہ رفتہ ہوئی ہوں سودائی

دور پہنچے گی مری رسوائی

بخدا آپ کی تپ جدائی سے بہت تباہ حال ہے۔ ضعف کے باعث آہ تو آہ سانس لینا بھی محال ہے۔ تمناے ہم آغوشی میں دونوں ہاتھ پھیلے ہوئے ہیں ؎

دردِ فرقت نے ہم کو مارا ہے

ستمِ چرخ آشکارا ہے



رقیمہ

سلطان جہاں محل



۱۵ محرم الحرام سنہ ١٢٧٢ھ



بنام نواب شیدا بیگم صاحبہ



طوطیِ شیریں تقریر چمن مودت، بلبل خوش نوید گلشن الفت، غنچۂ مقصد تمھارا ہمیشہ شگفتہ رہے ؎

اس گردش افلاک سے پھولے نہ پھلے ہم

جوں سبزہ روندے اگتے ہی پاؤں کے تلے ہم

بہن شیدا بیگم! میراں جی کی ٢٧ تاریخ سنہ ١٢٧١ھ پنچ شنبہ کا دن عمر بھر نہ بھولے گا جب کہ سلطان عالم کو جنرل اوٹرم صاحب نے باپ دادا کی سلطنت چھوڑنے اور حکومت سے دست بردار ہونے کا حکم دیا اور لکھنؤ سے ہم لوگ جدا ہوئے، جیسے بلبل گلزار سے چھوٹی، یوسف مصر سے نکلے، بوے گل چمن سے جدا ہوئی۔ پیا جان عالم کا سکوت اور تمام عملہ کا مسرت بھری نگاہ سے دیکھ کر بے کسی کے آنسو بہانا، کمال ادب سے رومال میں غم کے موتیوں کو سمونا۔ اعزا کو ہچکیاں لگی ہوئی تھیں، ہم آخرش محلات میں ماتم بپا کرتے ہوئے سلطان عالم کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ اس وقت جان عالم کا یہ کہنا: "تم پر دس برس تک میں نے سلطنت کی، اس عرصہ میں جو کچھ صدمہ اور رنج میری ذات سے تم کو پہنچا ہو اس کو بخوشی معاف کر دو۔ اس وقت میں معزول ہوں اور تم سے چھٹتا ہوں۔ خدا جانے زندگی میں پھر ملوں یا نہ ملوں۔" بہن! اس جملے نے تمھیں یاد ہے مجمع کو مجلس ماتم بنا دیا تھا۔ حضرت منور الدولہ احمد علی خاں نے کہا: سرکار! ایسے وقت میں غلام کو قدموں سے جدا تو نہ کرو۔ سلطان عالم خاموش ہو گئے۔ حضور ملکہ کشور آرا بیگم صاحبہ اور بھیا سکندر حشمت سلمہ اور لخت جگر نور نظر ولی عہد بہادر سلمہ، میں اور چار اور سرکار کی خادمہ ہمراہ تھیں۔ رجب کی پانچویں کو لکھنؤ سے چلے تھے، کانپور پہنچے۔ میرا روتے روتے برا حال ہوا۔ پرون صاحب کے بنگلہ میں ہم لوگ مقیم ہوئے۔ رجب بھر مہینہ وہیں بیتا۔ شعبان کی پہلی کو الہ آباد رخصت ہوئے۔ آٹھ دن وہاں ٹھہرے۔ پھر بنارس آئے۔ راجا پرانا نمک خوار تھا، اپنی سی اس نے اچھی خدمت کی۔ رانیاں حضور ملکہ کی بڑی تواضع کرتیں۔ ہر وقت ہاتھ باندھے چاکری میں کھڑی رہتیں۔ مجھ مغموم کی پوچھ بھی بہت تھی۔ میں ہر وقت سلطان عالم کی دل جوئی میں لگی رہتی۔ ان کا باتوں میں دل بہلاتی۔ مگر وہ غم میں گھلے جاتے ہیں۔ میں واری جاؤں یہ حال دیکھ کے دل کڑھتا ہے۔ بنارس سے دخانی جہاز پر سوار ہوئے۔ رمضان کی 27 کو کلکتہ ہمارا قافلہ پہنچا۔ سب پر تکان کا اثر ہے۔ اس وقت تم کو راستہ کی مختصر کیفیت لکھ رہی ہوں۔ تم بھی حال لکھنا، ہمارے پیچھے کیا بیتی۔

راقمہ

نواب خاص محل، کلکتہ

29؍ رمضان سنہ 1271ھ



بنام حضرت سلطان عالم



کیا یاد آئے گا یہ چمن روزگار کا

دیکھا نہ آنکھ سے کبھی موسم بہار کا

مہر سپہر یک رنگی، ماہ سیماے دل تنگی، میدان دل ربائی، ملاح دریاے آشنائی، مہر گستری، ما دام گوہر مراد ہم کنار باد ؎

اس چرخ نے طفلی ہی سے دیوانہ بنا کر

مجنوں کی طرح مجھ کو دبستاں سے نکالا

مجھ رنجور کو تو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے تھے کہ فلک نے ستایا اور رنجور بنایا۔ چند روزہ بھی صحبت میسر نہ آئی، قسمت نے یہ جدائی کی صورت دکھائی۔ دل بے قرار ہے، سینہ فگار ہے۔ دل صدمۂ ہجر سے بے ہوش ہے، دنیا اور ما فیہا سے بالکل فراموش ہے۔ زندگی کا قصہ تمام ہے، ملک الموت کا پیام ہے، ہر دم نالہ و آہ ہے، یہی کام ہے۔ دن کا یہی چین ہے، یہی آرام ہے ؎

وحشتِ طبع روز افزوں ہے

حال دل کا مرے دگرگوں ہے

اگر وصل ہو تو آرام پائیں گے ورنہ گور میں چلے جائیں گے۔ بلانے کا انتظام کیجیے اور خط کے جواب سے دل شاد کام کیجیے۔

راقمہ خرد محل

صفر سنہ ۱۲۷۲ھ



بنام سرفراز بیگم صاحبہ



شہر سے دل اُچاٹ ہے انس نہیں اجاڑ سے

پھوڑے سر کو اے جنوں کون سے اب پہاڑ سے

تقدیر نے شبِ ہجر سے زیادہ روزِ سیاہ دکھائے، فلاکت کے پھندے سے کبھی چھٹنے نہ پائے۔ جگر میں خنجر مژگاں کی کاوش ہے، آنکھوں سے خون ناب کی ہر دم تراوش ہے۔ کچھ حال یہاں کا لکھتی ہوں۔

جناب عالیہ کے ساتھ ولایت جانے کے لیے ایک سو دس آدمی سب ذکور و اناث تجویز ہوئے۔ مولوی محمد مسیح الدین خاں سفید شاہی ان کی پیشی میں میر محمد رفیع مقرر ہوئے۔ حاجی الحرمین شیخ محمد علی واعظ و ذاکر رفیق خاص جنرل صاحب و جلیس الدولہ مصاحب مرزا ولی عہد بہادر کو دس لاکھ روپیہ اخراجات کے لیے دیے گئے۔ جناب ملکہ معظمہ دام اقبالہا کے لیے ایک ہار الماس کا جس کا وزن تین سیر، دوسرا ہار یاقوت کا، زمرد کی کنگھی، پرچہ الماس، بہت سے مالۂ مروارید اور انگوٹھیاں اور پیشواز بہت تکلف کی بتیس ہزار روپیہ کی تیار کی ہوئی، ایک نامہ شاہی متضمن حال خود جناب ملکۂ دوراں اور مختار نامہ جزئی و کلی سپرد جناب عالیہ کیا گیا۔ آخر استخارہ ذات الرقعہ لیا، پانچ رقعے نکلے۔ ۱۴ شوال روز سہ شنبہ سنہ ١۲۷۲ھ بارہ بجے رات کو جناب عالیہ سوار ہوئیں۔ وقت رخصت عجیب حشر و نشر محل سے برپا ہوا، نعرۂ الفراق و الوداع۔ مخدَّرات اس پردۂ شب میں محیط کرۂ عالم ہوا۔ ہر ایک کی آنکھ سے مسلسل درِّ اشک بہہ رہے تھے۔ صبح جہاز نے لنگر اٹھایا۔ زیرِ کوٹھی شاہی گذرا۔ بادشاہ سلطان عالم فرط بے قراری سے برآمدے میں کھڑے ہوئے۔ جنرل صاحب و مرزا ولی عہد نے آداب و سلام بادشاہ سے کیے۔ خدا حافظ کہہ کے رخصت کیا۔ طرفین کو عجیب صدمۂ روحانی ہوا۔ میں نے غم میں دو وقت کھانا نہیں کھایا۔ جان عالم نے کہا بھی، مگر میں روتی رہی۔ جو حال پر ملال ہم پر گذرا، وہ تم کو لکھ دیا ؎

رخصت سیر باغ نہ ہوئی

یوں ہی جاتی رہی بہار افسوس

جان جاں بیگم

کلکتہ ١٦ شوال سنہ ١٢٧٢ھ



جان عالم

شوقیہ نظم شیدا



مسی ہونٹوں پہ اور آنکھ میں سرمہ

رچی ہاتھوں و پاؤں میں حنا ہے

طلائی ہے پڑا مو باف سر میں

چنی ماتھے پر افشاں خوش نما ہے

گلابی پائجامہ سرخ کرتی

دوپٹہ گاج کا دھانی رنگا ہے

ملا ہے عطر مجموعے کا ایسا

کہ سارا مثل عنبر گھر بسا ہے

یہ ساون سب یونہی جاتا ہے خالی

جو ایسے میں تم آؤ تو مزہ ہے



بنام جان عالم سلطان عالم



مہر سپہر دلبری، غیرت ماہ مشتری، سرور دلہاے پر غم سلطان عالم جان جان عالم ادام اللہ بقاءکم نمیقہ و انیقہ

صحیفہ شریفہ مرقوم بست و ششم ماہ رمضان، بھیجا ہوا تمھارا ہمارے دل و جان سے زیادہ پیارا شہر حال یعنی ماہ شوال کو آیا۔ آتش عشق کو بھڑکایا۔ حال تمھاری صحت کا سن کے ہمارے دل نے بڑا حظ اٹھایا۔ سینہ خوشی سے رشک گلشن ہوا۔ گھر سارا روشن ہوا۔ یہ حال سن کے گھڑی دو گھڑی تو خوشی کی رہی صورت، پھر زیادہ ہونے لگا غم فرقت۔ اب خنجر غم دل پہ چلتا ہے۔ جان جاتی ہے دم نکلتا ہے۔ اور خدا سے ہر وقت یہ دعا ہے کہ تا صد و سی سال تم کو سلامت رکھے۔ تمھاری صحت سے ہماری صحت ہے۔ جس طرح حکیم مطلق نے عارضۂ تپ تم سے کیا دور، ہمارا دل ہوا مسرور۔ اب جامع المتفرقین حجاب فرقت ہمارے تمھارے درمیان سے اٹھائے اور ہم کو تم کو ملائے کہ دفع ہو یہ رنج و الم پھر ہم تم ہوں باہم۔



منا جان

مرقوم یازدہم شوال سنہ ١٢٧٢ھ



(سالنامہ ادبی دنیا)





نواب منّا جان صاحبہ


ہم ہیں کلکتے میں اور عالم تنہائی ہے



"جان من راحت جان و دل، صندل درد سر مضمحل، باعث آبادی شہر عاشقاں، بہار ریاض و چمنستاں، منّا جان تفریح بخش، غنچہ خاطر اختر مضطر رہو۔خط تمھارا دل سے عزیز جان سے پیارا بست و یکم شہر حال معرفت کنز الدولہ بہادر کے کلید قفل مسرت ہوا۔ اہل شہر کی بے قراریاں معلوم ہوئیں۔ ان کی ایذائیں سب مفہوم ہوئیں۔ واللہ جان جان ان سے زیادہ بے قرار ہوں۔ گھر چھوڑے ان کے لیے ساکن دیار نکبت آثار ہوں، آگے جو مقدّر۔ زیادہ حسرت ہم آغوشی۔"



مرقوم 23 رجب 73ھ


(ادبی دنیا)



راقم جان عالم


مخاطب پیا جانِ عالم


اے جان جاں صورت جاں اعتبار کیا

تم آؤ یا نہ آؤ ہمیں اختیار کیا

بے اپنے گل کے سیر گلستاں خراب ہے

کیفیتیں دکھائے گی فصلِ بہار کیا

برہم ہوئے ہیں گیسوے برہم کی یاد سے

اب پوچھتے ہو تم سببِ انتشار کیا

گیسو کی آرزو کسی عارض کا اشتیاق

دیکھیں دکھائے گردش لیل و نہار کیا

ممکن نہیں جو کوچۂ جاناں میں رہ سکے

میرے غبار سے ہے صبا کو غبار کیا

لو آؤ ایک دم مرے پہلو میں سو رہو

گر اپنا جانتے ہو تم اے جان عار کیا

قسمت کہاں جو دیکھیے صورت بھی چند دم

تم سے امید واریٔ بوس و کنار کیا

بگڑی ہوئی ہے ہجر سے کیفیتِ مزاج

تم ہم سے پوچھتے ہو جی بار بار کیا

آتی ہے خوش کسی گل پژمردہ کی بہار

تم کو دکھائیں شکل دلِ داغ دار کیا

لاکھوں حسیں ہیں صورتِ جاناں کے شیفتہ

ہم کس قطار میں ہیں، ہمارا شمار کیا

کب ہے یقیں کہ زینتِ آغوش ہو حصول

اے حورؔ ان کے دل پہ ہمیں اختیار کیا



حور بیگم



(ادبی دنیا)



بنام جانِ عالم



قمریِ سردستانِ محبت، طوطیِ شکرستان مودت، آفتاب آسمان کرم حضرت جانِ عالم زید اللہ حسن الحانہ

آنکھیں روتے روتے سفید ہوئیں تمھارے اشتیاق میں، رُخسارے گھل گئے اشک باری سے۔ فراق سے میں چین کسی وقت نہیں پاتی۔ بے قراری دم بھر نہیں جاتی۔ سامنا ہے مصیبت کا ہر گھڑی۔ اجل سر پر رہتی ہے کھڑی۔ تمھاری فرقت میں بیمار ہوں۔ زندگی سے بیزار ہوں۔ کچھ بس نہیں تقدیر سے۔ ناچار ہوں تدبیر سے۔ سینہ غم سے پارہ ہے۔ ہر لحظہ دھیان تمھارا ہے ؎

کیا کہوں کچھ کہا نہیں جاتا

ہاے چپ بھی رہا نہیں جاتا

گوہرِ عیش وعشرت نایاب ہے۔خونِ جگر ہر دم پیتی ہوں۔ تمھارے ذکر سے جیتی ہوں۔ظاہر ہیں آثارِ جنوں۔ تمھارے شربتِ وصال کی پیاسی ہوں۔ اب جلد با مراد تمھیں یہاں لائے اور صحیح و سالم ہم سے ملائے۔

بست و ہفتم رجب سنہ 1273ھ



دل رباے جان عالم

نواب مہدی بیگم



بنام جان عالم



آپ وہ چہرۂ روشن جو دکھا دیں بخدا

بے قراری دلِ بےتاب ہرگز نہ رہے

مہر و گلزار رعنائی، تدُورِ کوہسار بے وفائی زید اللہ حسنہ

یہاں کا عجیب حال ہے۔ دن دونی رات بد احوال ہے۔ لکھنؤ میں تازہ روداد ہوئی جس سے طبیعت کچھ کچھ شاد ہوئی۔ آٹھویں کو اس مہینے کی روز یک شنبہ دوپہر سے فوج فرنگی تقسیم پر کارتوسوں کے بگڑ گئی۔ جنگ و جدل کی ٹہر گئی۔ سب فوج موسیٰ باغ میں عیسائیوں کے قتل کو ایک جا ہوئی۔ اوّل ہیبتوں پر ہیبت غالب سوا ہوئی۔ کتنا مردمان فوج کو سمجھایا، ان لوگوں کے خیال میں نہ آیا۔ آخر ان احمقوں نے کئی سو گورے نکالے اور قریب شام قتل کی سمت کو روانہ کیا۔ عیش باغ میں پندرہ سو آدمی جمع ہو چکے تھے۔ وقتِ تحریر اب تک وہیں مجمع کثیر ہے۔ علما عَلمِ محمدی اٹھانے کو ہیں۔ دیکھیے کیا ہوتی اس کی اخیر ہے۔ بے ڈھب ہوا یہ بگاڑ ہے۔ اب تو عیسائیوں کو موسیٰ باغ جانا پہاڑ ہے۔ اطلاعاً لکھا ہے، آگاہ تم کو کیا ہے۔ اور اے جان عالم! معلوم نہیں یہاں کےاخبار ہر روز تم کو مطالعہ سے گذرتے ہیں یا اہلکار پوشیدہ کرتے ہیں۔

جیسا ہو ویسا لکھو۔ ہم یہاں سے تحریر کیا کریں اخبار اور حال مفصل تحریر کریں اظہار۔ آپ کی چہیتی نواب سرفراز بیگم بھی یہاں کے حال سے آپ کو آگاہ کر رہی ہیں۔ فقط۔

فرخندہ محل

شہر صوم سنہ ۱۲۷۳ھ



بنام نواب شیدا بیگم صاحبہ



مرگ سوجھے ہے آج کل مجھ کو

بے کلی سی نہیں ہے کل مجھ کو

مہر سپہر بے وفائی، ماہ سماے دل ربائی، گوہر تاج آشنائی، جوہر شمشیر یکتائی۔ ہمیشہ خوش رہو ؎

معلوم ہو گیا ہمیں لیل و نہار سے

ایک وضع پر نہیں ہے زمانے کا طور آہ

معلوم ہوا اودھ میں کچھ بلوائی لوگ جمع ہوئے ہیں اور سرکار انگریزی کے خلاف ہو گئے ہیں۔ کم بختوں سے کہو ہم چپ چاپ چلے آئے تم لوگ کاہے کو دنگا مچا رہے ہو۔ میں یہاں بہت بیمار تھا، صفرہ کی تپ نے دق کر دیا تھا۔ آخر تبرید کے بعد صحت ہوئی۔ جس قدر نذر و نیاز مانی تھیں، وہ کی گئیں۔ جلسہ رات بھر رہا، ناچ گانا ہوتا رہا۔ کوئی چار گھڑی رات باقی ہوگی۔ غل پکار ہونے لگا۔ ہم غفلت میں پڑے تھے۔ آنکھ کھلتے ہی ہکّا بکّا رہ گئے۔ دیکھا کہ انگریزی فوج موج در موج ٹڈی دل چاروں طرف سے آ گئی۔ میں نے پوچھا یہ کیا غل ہے۔ ان میں سے ایک نے کہا، علی نقی قید ہو گئے۔ مجھ کو غسل کی حاجت تھی۔ میں تو حمام میں چلا گیا۔ نہا کر فارغ ہوا کہ لاٹ صاحب کے سکریٹری اومنٹن حاضر ہوئے اور کہنے لگے، میرے ساتھ چلیے۔ میں نے کہا، آخر کچھ سبب بتاؤ۔ کہنے لگے، گورنمنٹ کو کچھ شبہ ہو گیا ہے۔ میں نے کہا، میری طرف سے شبہ بے کار ہے۔ میں تو خود جھگڑوں سے دور بھاگتا ہوں۔ اس کشت و خون اور خلق خدا کے قتل و غارت کے سبب سے تو میں نے سلطنت سے ہاتھ اٹھا لیا۔ میں بھلا اب کلکتہ میں کیا فساد کرا سکتا ہوں۔ انھوں نے کہا، مجھ کو صرف اتنا معلوم ہے کہ کچھ لوگ سلطنت کے شریک ہو کر فساد پھیلانا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا، اچھا اگر انتظام کرنا ہے تو میرے چلنے کی کیا ضرورت ہے۔ میرے ہی مکان پر فوج مقرّر کر دو۔ انھوں نے کہا، مجھ کو جیسا حکم ملا ہے میں نے عرض کر دیا۔ بالآخر میں ساتھ ساتھ چلنے پر تیار ہوا۔ میرے رفقا بھی چلنے پر تیار ہو گئے۔ سکریٹری نے کہا، صرف آٹھ آدمی آپ کے ہمراہ چل سکتے ہیں۔ پھوپھا مجاہد الدولہ، ذہانت الدولہ، سکریٹری صاحب اور میں ایک بگھی میں سوار ہو کر قلعہ میں آئے اور قید کر لیے گئے۔ میرے ساتھیوں میں ذو الفقار الدولہ، فتح الدولہ، خزانچی کاظم علی، سوار باقر علی، حیدر خاں کول، سردار جمال الدین چپراسی، شیخ امام علی حقّہ بردار، امیر بیگ خواص، ولی محمد مہتر، محمد شیر خاں گولہ انداز، کریم بخش سقّہ، حاجی قادر بخش کہار، امامی گاڑی پوچھنے والا، یہ قدیم ملازم نمک خوار تھے۔ زبردسی قید خانہ میں آ گئے۔ راحت سلطانہ خاصہ بردار، حسینی گلوری والی، محمدی خانم مغلانی، طبیب الدولہ حکیم بھی ساتھ آیا۔ دیکھا دیکھی آیا تھا، گھبرا گیا اور کہنے لگا: خدا اس مصیبت سے نجات دے۔ میں نے بہت کچھ حق جتائے کہ تجھ کو بیس برس پالا ہے۔ مگر وہ اپنی جان چھڑا کر بھاگ گیا۔ جس قلعہ میں ہم قید کیے گئے تھے اس کو قلی باب کہتے ہیں۔ یہ خط کربلاے آب خاصہ بردار کے بھائی کے ہاتھ بھیج رہا ہوں ؎

ہوا ہے اب تو یہ نقشہ ترے بیمارِ ہجراں کا

کہ جس نے کھول کر منہ اس کا دیکھا بس وہیں ڈھانکا

جان عالم اختر



بنام جانِ عالم سلطانِ عالم



حامیِ رعایا، ناصر برایا، تم پر خدا کا سایہ۔ اشتیاق نامہ سترھویں کا لکھا ہوا عین انتظار میں آیا۔ ہم نے دیکھتے ہی آنکھوں سے لگایا۔ جب عسیر نے پڑھ کر سنایا، کلیجہ منہ کو آیا۔ جدائی نے وہ صدمہ دکھایا غم نے ایسا رلایا کہ خون آنکھوں سے برسایا۔ پیرِ فلک نے عجیب رنگ دکھایا۔ آپ کہیں ہیں، ہم کہیں ہیں؎

کسی وقت آرام آتا نہیں

تصور ترا دل سے جاتا نہیں

خدا جلد مصیبت ٹالے۔ تمھاری صورت رشک خورشید دکھلائے۔ یعنی تم کو ہم سے ملائے۔ سببِ تردّد جائے، دل کو تسکین آئے۔ رقیّہ بانو بیگم کو زکام ہے ؎

خدا تم کو صحت سے رکھے سدا

کرے ملک جلدی تمھارا عطا

شیدا بیگم

26 جمادی الآخر سنہ 1273ھ



بنام جانِ عالم پیا اختر



انیس ہمدم، مونس محرم حضرت جانِ عالم زید اللہ عشقہٗ

محبت نامہ جودت ختامہ تمھارے نے 21 رجب کو مثل تسکین دل غمگین نزول کیا اور صورتِ روح جسم بے جان میں حلول کیا۔ ہماری طبیعت شاد ہوئی، قیدِ غم سے آزاد ہوئی۔ تردّد دور ہوا، دل مسرور ہوا۔ مگر صدمۂ فرقت ہے۔ اس قدر تمھارا تصور ہے۔ آٹھ پہر کبھی تمھارے دُرِ دنداں کے تصور میں اشک بہاتی ہوں اور کبھی لبِ یاقوت گوں کے دھیان میں دیدۂ خونبار سے لختِ جگر مثلِ عقیق احمر ٹپکاتی ہوں۔ کبھی تمھارے سبز رنگ زمرد رمانی کے خیال میں دستِ وحشت غیرتِ مرجان سے اپنے عارضِ گلفام کو مارے طمانچوں کے لال کرتی ہوں۔ اور کبھی یشبِ خیال وصل کی تختی واسطے دفع خفقان کے سینہ پر دھرتی ہوں۔ کبھی کاکلِ مشکیں کی یاد میں نیلم کی طرح آنکھوں میں ایسی تیرگی چھاتی ہے کہ ہر ایک آنکھ پتھرا کے نگینۂ سلیمانی بن جاتی ہے۔ غرض ایسا رنجِ جدائی ہے کہ جان لبوں پر آئی ہے۔ اب خدا کامیاب جلد تم کو لائے اور عیش و عشرت کا دن دکھلائے۔ فقط

محبوبۂ سلطان عالم دلپذیر بیگم



(ادبی دنیا)

۲۳ رجب سنہ 1273ھ





بنام جان عالم



غواص دریاے ہمہ دانی، مصلح کلیم ہمدانی، اختر اوج حشم، حضرت سلطان عالم زید اللہ جودہٗ و طبعہٗ

تمھاری فرقت سے دل بے تاب ہے اور چشم پُر آب ہے۔ گردش آسمان کُہن لیکن عجیب نیرنگ دکھاتی ہے۔ پاؤں کے تلے سے زمین سرکی جاتی ہے۔ بے تمھارے سارے شہر میں پڑا سنسان ہے، ویران ہر ایک مکان ہے۔ تقدیر کام بناتی نہیں، کوئی تدبیر بن آتی نہیں۔ آج کل دریاے غم کا اٹھا طوفان ہے، بحرِ جہاں سے مثلِ حباب مٹنے کا سامان ہے۔ آتشِ فراق کے بڑھنے سے آہِ سوزاں بلند ہے۔ مجمر ہجر پروانہ سویداے دل پسند ہے۔ تمھاری صرصر جدائی سے گریبانِ زندگی چاک ہے، ایسے جینے پر خاک ہے۔ اب طاقت بار جدائی اٹھانے کی نہیں رہی ہے۔ آٹھوں پہر دعا یہی ہے کہ خدا جلد تم کو یہاں لائے، چاند سی شکل ہم کو دکھائے ؎

پھر وہی چرچے ہوں، پھر وہی باتیں

دن ہوں عشرت کے، عیش کی راتیں



فاطمہ بیگم

۲۲ رجب سنہ 1273ھ



بنام جانِ عالم



سوزِ تپِ فرقت سے عجب رنگ ہیں دل کے

تحریر نہیں ہوتے ہیں جو ڈھنگ ہیں دل کے

آشناے دریاے موانست و اخلاص، شناور قلزم مصادقت مرزا جانِ عالم بلکہ جانِ جہاں سے بڑھ کر سلطانِ عالم زید اللہ لطفہٗ

ترے فراق میں کیونکر یہ دردناک جیے

مرے تو مر نہیں سکتا، جیے تو خاک جیے

چرخِ نا ہنجار مستعد آزار ہے۔ کوئی مونس ہے نہ غم خوار ہے۔ زندگی سے یاس ہے۔ جینے کی کسے آس ہے۔ دل میں درد ہے، آہ سرد ہے۔ سینہ ماتم سرا ہے، جسم خشک، جگر ہرا ہے۔ جوشِ وحشت کی شدت ہے۔ جینے سے جی بیزار، دنیا سے نفرت ہے ؎

کاش کہ دو دل بھی ہوتے عشق میں

ایک رکھتے ایک کھوتے عشق میں

پیا جانِ عالم! جب سے آپ لکھنؤ سے سدھارے، خواب و خور حرام ہے۔ رونا دھونا مدام ہے۔ یہاں شب و روز آہ و بکا میں گذرتی ہے۔ مگر دوسری میری ہم جنسیں خوش خوش اتراتی پھرتی ہیں۔ آپ کے بعد سے فرنگیوں کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے۔ نئی نئی باتیں سننے میں آ رہی ہیں۔ دل کو ہول ہے۔ دیکھیے فلک کیا کیا رنگ دکھاتا ہے۔ گھانس منڈی میں مولویوں کا جماؤ ہے۔ سُنا ہے کہ ایک صوفی احمد اللہ شاہ آئے ہوئے ہیں۔ نواب چیناٹین کے صاحبزادے کہلاتے ہیں۔ آگرہ سے آئے ہیں۔ یہ بھی سنا ہے ان کے ہزارہا مرید ہیں۔ پالکی میں نکلتے ہیں، آگے ڈنکا بجتا ہوتا ہے، پیچھے ازدحام بڑا ہوتا ہے۔ وحشت ناک خبروں کی گرم بازاری ہے۔ سرکار سلطانِ عالم اپنا حال لکھیے۔ دل کو شاد کام کیجیے۔

شیدا بیگم



جواب

جان جانِ عالم نواب شیدا بیگم صاحبہ زاد حسنہا و جمالہا

دو تشفی نامے تمھارے انجم الدولہ بہادر نے نویں رجب کو لا کر دکھائے۔ دل شاد ہوا، طبیعت میں قوت آئی۔ جان تازہ پائی۔ مگر اے جانی اب ہم وہ نہیں رہے۔ ہم اپنا حال لکھتے ہیں، اس سے معلوم ہوگا ہم پر کیا گذر رہی ہے۔ عشق و عاشقی سب مفقود ہے۔ رنج نے حالت تباہ کی۔ اٹھے تو نالہ کیا۔ بیٹھے تو آہ کی۔ ہم قلعہ فورٹ ولیم میں نظر بند ہیں۔ لارڈلنگ صاحب کا میرے پاس بھی خط آیا کہ افسران آپ کے اعزاز میں فرق نہ کریں گے۔ مگر میری زندگی دشوار ہو رہی ہے۔ آٹھ دن بعد قلعہ میں ایک کوٹھی ہے، اُس میں اُٹھ آئے۔ 23 آدمی ہمراہ ہیں۔ پرندہ تک پر نہیں مار سکتا۔ قید خانہ کے دروازے بند کر لیے گئے۔ ہمارا دم گھٹتا ہے۔ مجاہد الدولہ، مرزا زین العابدین، دیانت الدولہ، متدین الملک محمد معتمد علی خاں، امانت جنگ کمیدان ہر وقت پروانہ وار جاں نثار تھے۔ فتح الدولہ بخشی الملک ضعیفی کے سبب چراغِ سحری تھے۔ وہ ۲۸ صفر سنہ 73ھ کو ہم سے رخصت ہو گئے۔ ہم کو کلفت میں چھوڑ کر خود راہیِ جنت ہو گئے۔

مہتمم الدولہ بہادر اور ذو الفقار الدولہ سید محمد سجاد علی خاں رسال دار ہر وقت شریکِ درد و غم تھے۔ آخر مصیبت اور تکلیف سے عاجز آ کر اور اکتا کر مجھ سے جُدا ہونا شروع کیا۔ پہلے دیانت الدولہ نے کونسل سے عتبات عالیات جانے کی اجازت لی مگر اجازت ملتے ہی قلعہ سے چل دیا۔ مہتمم الدولہ نے پاگل بن کر ہر ایک کو گالیوں پر دھر لیا۔ مار پیٹ کرنے لگا، آخر نکالا گیا۔ محمد شیر خاں گولہ انداز نے باقر علی کی ناک کاٹ لی۔ سزا ہو گئی۔ جیل گیا۔ کریم بخش سقّہ تپ دق میں مبتلا ہوا۔ میں جان سے اجیرن ہوں۔

مرقوم دہم رجب سنہ 73ھ

راقم جانِ عالم



ایضاً

آشناے دریاے آشنائی، شناور بحر دل ربائی، گوہر اکیل رفاقت، جوہر جمیل صداقت، محبوبۂ دل نواز زید اللہ محبتہ

فلک نے تو اتنا ہنسایا نہ تھا

کہ جس کے عوض یوں رلانے لگا

محبت نامہ بدست محمد جان چوب دار سے ملا۔ ہم لوگ ابھی کلکتہ میں مقیم ہیں۔ اعزا کی جدائی، سلطنت جانے کا صدمہ، شہر و دیار کا چھٹنا۔ 14 شوال کو جناب والدہ اور ولی عہد بہادر اور بھائی کو لندن روانہ کیا۔ اب صرف نواب خاص محل اور چار بیبیاں رہ گئیں۔ ابھی ابھی نواب علی نقی خاں اور منور الدولہ میرے پاس آ گئے۔ گھبراؤ نہیں، خدا پر نظر رکھو۔ مسبّب الاسباب ہے، کوئی سبب ملانے کا نکالے گا۔

برجیس قدر کا خیال رکھنا، رقیہ بانو کو دعا۔

بدقسمت اختر



نوٹ: شیدا بیگم واجد علی شاہ کی چہیتی محل تھی۔ "حزن اختر" میں واجد علی شاہ نے شیدا بیگم اور ان کی نگین آرا معروف رقیہ بانو بیگم کا ذکر کیا ہے ؎

نگین آرا جو چوتھی شہزادی تھی

حقیقت میں گھر بھر کی آبادی تھی

رقیہ ملائیں جو بانو سے ہم

لکھیں نام اس مہ کا اے ذی کرم

جو نواب پہلے تو بیگم ہے بعد

کھلا اس طرح مہر کا سعد نام سعد

یہ شیدا کی خالق نے امداد کی

یہ تھی والدہ اس پری زاد کی

خدا نے یہ کی شیدا بیگم پہ مہر

عنایت جو کی اس کو یہ حور چہر

برس تین کی یہ بھی تھی نیک ذات

ابھی منہ سے کرتی نہ تھی ایک بات

سنا یہ عدم کو گئی رشکِ ماہ

خبر یہ ملی ہے مجھے آہ آہ





بنام جانِ عالم



اے شہنشاہ شہر حسن و جمال

ماہ تابانِ اوجِ فضل و کمال

گل شاداب گلشن خوبی

سرو آزادے باغِ محبوبی

حق سدا مہربان رہے تم پر

اور علیؑ کی اماں رہے تم پر

دردِ جگر سے کام تمام ہوا، مرنا انجام ہوا۔ گریہ شعاری ہے، عادت آہ و زاری ہے۔ وحشت سمائی ہے، جنون کی چڑھائی ہے۔ دل کو اضطراب ہے، جگر کباب ہے۔ نہ چشم میں خواب ہے نہ جی کو تاب ہے ؎

تپِ جدائی سے اب اس طرح نزار ہوں میں

نظر میں خلق کی رشکِ خطِ غبار ہوں میں

کبھی بُکا ہے کبھی ہنسی ہے۔ عجیب مصیبت میں طبیعت پھنسی ہے۔ غم و الم خوراک ہے، وحشت کے زور میں گریباں چاک ہے۔ گلا ہے اور خنجرِ فراق ہے، مرنے کی خوشی سے جینا شاق ہے ؎

بے تابیِ دل کسے سنائیں

یہ دیدۂ تر کسے دکھائیں

جانِ عالم خواب میں بھی نہیں آتے۔ جب سے یہ معلوم ہوا کہ قلعہ میں قیام ہے، دل کو بڑی بے چینی اور آلام ہے ؎

ایک وضع پر نہیں ہے زمانے کا طور آہ

معلوم ہو گیا ہمیں لیل و نہار سے

یہاں نئے گُل کھلائے جا رہے ہیں۔ حضرت محل آپ کی محبوبہ سرکار سے جوڑ توڑ کر کے باغیوں کی سردار بنی ہیں۔ نواب محمد علی خاں کے بہکانے میں آ گئی ہیں۔ شورا پشتی دکھا رہی ہیں۔ دیکھیے کس کل اونٹ بیٹھے ؏

وہ خوش ہوویں کہ جن کو طاقتِ پرواز ہے

شیدا بیگم





فاطمہ بیگم کے نام

رشکِ بدر، مشتری قدر، زہرہ جمال، مہر مثال، حور نژاد، پری نہاد، گل رو، سمن بو، انیس و ہمدم، خوبیِ مجسم، نواب فاطمہ بیگم صاحبہ

اسم بامسمٰی رہو۔ مکتوب محبت اسلوب غرۂ شعبان کو منشی صفدر کی معرفت نشاط بخش غرۂ شوال ہوا۔ دلِ غم زدہ دولتِ خرمی سے مالا مال ہوا۔ شوقِ وصال دو چند ہوا، ذوقِ بوس و کنار بلاے دل درد مند ہوا۔ جامع المتفرقین کہیں اس عذاب سے نکالے۔ مریضانِ فراق کو شربتِ وصال سے سنبھالے۔ پھر اسی طرح ہمارا تمھارا ساتھ ہو۔ ہمارے گلے میں تمھارا اور تمھاری گردن میں ہمارا ہاتھ ہو۔

مرقوم چہارم شہر شعبان سنہ 1273ھ

راقم جانِ عالم



بنام جانِ عالم

چراغ دودمان خیر و سعادت، شمع شبستانِ محبت و صداقت، اختر آسمانِ کرم، حضرت جانِ عالم زید اللہ نور جمالہ



محبت نامہ مہر شمامہ مرقوم نہم ماہِ رجب کا معرفت منشی صفدر جلوہ گر ہوا۔ روشن سارا گھر ہوا۔ خورشیدِ مضمون گردونِ صفحۂ نیلگوں سے طلوع کیا۔ دیدۂ غم دیدۂ منور ہونے لگا۔ جب دیکھنا شروع کیا، سبحان اللہ کیا اچھی عبارت تھی۔ ما شاء اللہ کیا فصاحت تھی۔ ہر فقرہ گوہرِ شاہوار تھا، تسکین بخش دلِ بے قرار تھا۔ تمھاری تحریر کیا خوب ہے، تقریر تمھاری دل کو مرغوب ہے۔ جدائی سے حال بہت غیر، ناچار در پیش ملکِ عدم کی سیر ہے۔ جب خط تمھارا آتا ہے، دل تھوڑی دیر آرام پاتا ہے۔ پھر بدستور ہوتی ہے بے قراری، چشمۂ چشم رہتا ہے جاری۔ اب جامع المتفرقین وہ دن لائے کہ تم کو ہم سے جلد ملائے۔ فقط

منور بیگم

بست و ہشتم شہر رجب سنہ 1273ھ





بنام فرخندہ محل

زینت بخش چار بالش محبت، رونق افزاے بساطِ الفت، نواب فرخندہ محل صاحبہ جمال با کمال ہمیشہ روز افزوں رہے۔

محبت نامہ تمھارا بیچ تاریخ 23 رجب کے معرفت منشی صفدر کے آیا۔ کاشفِ حالات مندرجہ ہوا۔ خبر صحت اثر قرار دہ خاطر مضطر ہوئی۔ اس نامے سے بو محبت کی آئی، تسکین خاطرِ پریشان نے پائی۔ تم نے لکھا ہے خط آنے سے عید ہوئی۔ جان عالم کی عید تو اس دن ہوگی جس دن ہم تم ملیں گے۔ دیکھیے خدا وہ دن کب دکھاتا ہے اور وقت کب آتا ہے ؎

ببینم تا کردگارِ جہاں

دریں آشکارا چہ دارد نہاں

لازم کہ دعا سے غافل نہ رہو اور نظر اس کے فضل پر رکھو۔ کیا عجب کہ مدتِ مہاجرت تمام ہو چکی ہو اور زمانۂ سرور و مدتِ انبساط قریب پہنچی ہو۔ خدا شاہد ہے کہ اب تاب مفارقت کی باقی نہیں رہی۔

محبوب کے مقدمہ میں جو لکھا تھا ہم جانتے تھے۔ تم فہیم ہو خوش ہوگی۔ الحمد للہ ویسا ہی ہوا۔

مرقوم بست و پنجم رقم رجب سنہ 1273ھ

راقم جانِ عالم اختر





بنام جانِ عالم

تازگی بخش گلہاے محبت، رونق افزاے بوستانِ مودت، دافع درد و الم، حضرت جانِ عالم زید اللہ عشقہ

محبت نامہ تمھارا دلوں سے پیارا مانند فصلِ بہار کے آیا، خانۂ ویران ہمارا رشکِ گلزار فرخار بنایا۔ دور سارا غم و ملال کیا، ہم کو اس نے نہال کیا۔ باعثِ آرام دلِ آشفتہ ہوا۔ غنچۂ طبیعت شگفتہ ہوا۔ سبحان اللہ کیا خوب مضامین رنگیں تھے کہ گلہاے مضامین کی خوشبو سے معطر دماغ ہوا، سینہ خوشی سے باغ باغ ہوا۔ گھڑی دو گھڑی تو بے کلی دور ہوئی۔ پھر وہی حالت بدستور ہوئی۔ رنج و محن میں چمن چمن ہوں، صورتِ بلبل نعرہ زن ہوں ؎

سر مو نہیں اس میں کچھ فرق ہے

مرا دل تری چاہ میں غرق ہے

اب بحر ہے آنسوؤں کا رواں

روانہ ہوا صبر کا کارواں

تمھاری فرقت میں یہ میرا عالم ہے، دل مضطر ہے چشم پُرنم ہے ؎

گرچہ من لیلیٰ اساسم دل چو مجنوں در ہواست

سر بصحرا می زنم لیکن حیا زنجیر پاست

راقمہ

مطلوبۂ جانِ عالم کنیز فاطمہ بیگم



پیا جانِ عالم

پہلے تو خون نکلتا تھا اشکِ سیاہ سے

اب لختِ دل ہی آتے ہیں آنکھوں کی راہ سے

عکس آئینہ اختصاص، نقش نگار خانۂ اخلاص، ملاح دریاے آشنائی و دلبری غواص لجۂ وفا پروری و مہر گستری ما دام گوہر مراد ہم کنار باد

جانِ عالم! تمھارا محبت نامہ آیا، پیامِ الفت پایا۔ حال نواب خاص محل کے چلے آنے کا معلوم ہوا۔ تمھارا ہاتھ باندھ کے سمجھانا مفہوم ہوا۔ وہ تو ایسی نہیں بے وفا تھیں، تم پر ہزار جان سے فدا تھیں۔ مگر بے سبب وہ تم کو چھوڑتی ہیں اور بے وجہ منہ موڑتی ہیں۔ کچھ تو انھوں نے رنج پایا جو چلا آنا یہاں کا پسند آیا۔ جو تم نے لکھا کہ لعن اللہ علیٰ اہلِ ہندوستان، اس لکھنے کے وقت تمھارا دھیان تھا کہاں کہ سکان ہند کیسے کیسے اور شہروں میں لوگ ایسے ایسے ہیں۔ علی الخصوص لکھنؤ میں کس کس طرح کے دین دار ہیں، صدہا عالم و فاضل اور مفتی و ابرار ہیں۔ ہرچند بدکار بھی بے شمار ہیں لیکن ان میں کچھ عقل مند ہیں کچھ ہوشیار ہیں۔ چنانچہ بقول شخصے ؎

نہ ہر زن زن است و نہ ہر مرد مرد است

خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد

مگر اس مقام پر قطعۂ سعدی نے قطع کلام کیا، لہذا یہ نامہ اس پر تمام کیا ؎

چو از قومے یکے بے دانشی کرد

نہ کہ را منزلت باشد نہ مہ را

نمی بینی کہ گاؤ در علف زار

بیالاید ہمہ گاواں دہ را

محبوبہ جان عالم فرخندہ محل

دہم رمضان سنہ 73ھ



بنام امراؤ محل

جان جانِ عالم، بانیِ جور و ستم، گل رخانِ عالم کے کعبۂ اعلیٰ نواب امراؤ محل صاحبہ!

بادۂ حسن لا زوال سے سرشار اور عنبر گیسوے مشکیں تمھارا غیرت دہِ چین و تاتار ہے۔ کاہشِ تن سے غیرت ہلال ہوں، صدمۂ مفارقت سے بدرجۂ کمال ہوں۔ امید فصلِ بہار نے نیا رنگ واللہ دکھایا ہے۔ بادِ صرصر نے آہِ آتشیں سے غنچۂ وحشت کھلایا ہے۔ تمھارا بلبل گل رخسار یعنی اختر جگر افگار ہوش و حواس سب بھولا ہے، کلیجہ منہ کو آتا ہے، جنون اپنا زور دکھاتا ہے۔ اے مسیحا! دل بیمار ہمارا کیا کرے۔ کسی نوع جان زار بغیر شربتِ وصل آرام نہ پائے گی۔ تمھیں بتاؤ مشتاق تمھارا کس طبیب کی دوا کرے۔ اے قلم سینۂ چاک و اے خامۂ دیدۂ غمناک! تیرا کدھر خیال ہے، تحریر داستانِ فراق محال ہے۔ لکھنا جواب خط کا مطلوب ہے، یہ بات دل کو مرغوب ہے۔ دیباچۂ نشاط یعنی خط مسرت ارتباط تمھارا 18 شعبان کو انجم الدولہ کی معرفت آیا۔ اس کے مضمون کو اپنے زخمِ جگر کا مرہم بنایا۔ جب تک حصولِ مواصلت نہ ہو، خط و کتابت میں غفلت نہ ہو۔ زیادہ شوق ست و بس باقی ہوس۔

۲۰ شعبان سنہ 1273ھ

راقم خستہ جگر جانِ عالم اختر



بنام جان جاں بیگم

مجنوں کا دل ہوں محملِ لیلیٰ سے ہوں جدا

تنہا پھروں ہوں دشت میں جوں نالۂ جرس

دواے درد مندان و اتحاد شفاے مستمندان! ہمیشہ بامراد رہو۔

لکھنؤ کی حالت سلطان عالم کے بعد سے تباہ و برباد ہو رہی ہے۔ نئے نئے فتنے اٹھ رہے ہیں۔ کوئی سر دھرا نہیں ہے۔ متوحش خبریں اڑتی ہیں۔ دل ہول کھاتا ہے، دیکھیے کیا کیا فلک رنگ دکھاتا ہے۔ لکھنؤ میں تلنگوں نے ادھم مچا رکھی ہے۔ فیض آباد سے مولوی احمد اللہ شاہ نے آ کر ان کی لوٹ مار کم کی ہے اور جگہ جگہ اپنے چوکی پہرے بٹھا دیے ہیں۔ بہت سے سرپھرے ان کے خیرخواہ ساتھ ہیں۔ ادھر سلطانِ عالم کے خیر خواہ لوگ یہ چاہتے ہیں ان کا تخت خالی نہ رہے۔ مرزا دارا سطوت کو بادشاہ بنانے کی تجویز ہے۔ 3 لاکھ نذرانہ طلب کیا تھا مگر وہ کہنے لگے نواب شجاع الدولہ انگریزوں سے مقابلہ نہ کر سکے ہم کیا کر سکتے ہیں۔ راجا جواہر سنگھ خلف درشن سنگھ نواب خاص محل کی ڈیوڑھی پر آ کر کہنے لگے مرزا نوشیرواں قدر کو مسند نشین ریاست کر لیں۔ شمشیر الدولہ داروغہ نے کہا وہ لڑکا سب طرح معذور ہے اور نواب خاص محل اور بادشاہ کی منظوری بغیر کیسے یہ کام ہو سکتا ہے۔ محمود خاں اور شیخ احمد حسین نے راجا مان سنگھ و جواہر سنگھ سے مرزا برجیس قدر کے واسطے کہا۔ اس نے یہ جواب دیا فوج کو یہ منظور ہے۔ بیگمات محل شاہی راضی ہوں تو البتہ ممکن ہے۔ اس وقت محمود خاں راجا کو اپنے ساتھ لائے۔ میر واجد علی کو بلایا۔ سب بیگمات جمع ہوئیں۔ بعض نے کہا واجد علی شاہ کے ہوتے ہوئے کسی کو بادشاہ نہ بناؤ، شگونِ بد ہے۔ میں بھی یہ سن رہی تھی۔ بعض بولیں کہ سلطانِ عالم کا بیٹا ان کے سامنے تخت پر بیٹھ رہا ہے اور باپ کو تاج و تخت دلانے کا سامان کر رہا ہے۔ حضرت محل نے سب سے ہاتھ جوڑ کر کہا یہ لڑکا تمھارا ہے، جیسا تم مناسب حال جانو۔ نواب خرد محل نے از راہِ فراست کہا کہ اگر ہم تمھارے راضی نامہ پر مہر کر دیں، کلکتہ میں انگریز واجد علی شاہ کو مار ڈالیں تو کیا ہو۔ راجا رخصت ہو کے چلا گیا۔ حضرت محل مایوس ہوئیں مگر محمود کے تل تلووں کو لگی ہوئی تھی۔ اس نے حضرت محل سے فوج کے سرداروں کو خط بھجوا دیے۔ 12 ذی قعدہ روز یک شنبہ سنہ 1273ھ اتفاقاً پانی شدت سے برس رہا تھا۔ راجا معہ افسرانِ فوج قصر الجنان میں آ کر بیٹھے۔ مرزا رمضان علی خان المقلب مرزا برجیس قدر تام جان سواری حضور عالم پر سوار آئے اور مسند جلوس جنت آرام گاہ پر آ کر بیٹھے۔ کسی نے کہا چھوٹا ہے کسی نے کہا عیش و عشرت میں محو ہو کر غافل نہ ہو جائے۔ آخر کار شہاب الدین اور سید برکات احمد 15 رسالے کے رسال دار نے اٹھ کر مندیل مرزا برجیس قدر کے سر پر رکھ دی۔ مبارکباد دی گئی۔ افسروں نے تلواروں کی نذر دکھائی۔ جہانگیر بخش صوبہ دار توپ خانہ فیض آباد نے 21 توپ کی سلامی سر کی۔ شہر میں ایک غلغلۂ مسند نشینی ہوا۔ گرمی کی شدت تھی۔ مرزا برجیس قدر داخل محل ہوئے۔ گھمنڈی سنگھ صوبیدار کلماتِ لا طائل بکتا رہا۔ نائبِ دیوان حسام الدولہ کو بنانا چاہا مگر وہ رضامند نہ ہوئے۔ شہنشاہ محل نے مفتاح الدولہ سے کہا، وہ بھی تیار نہ ہوئے تو نواب شرف الدولہ محمد ابراہیم خاں کی تجویز ہوئی۔ ممّو خاں بگڑ بیٹھے۔ پھر صفائی ہو گئی۔ جناب عالیہ کو گیارہ اشرفی نذر دی گئی۔ نواب حسام الدولہ نے اٹھ کر بیگم صاحبہ کے ہاتھ میں رکھ دیں۔ سید برکات احمد قاسم جان نے ان کی تعریف کی۔ برجیس قدر نے دوسرے دن خلعت نیابت عنایت کیا۔ خلعت دیوانی مہاراجا بال کرشن کو عطا کیا۔ تیسرا خلعت کوتوالی مرزا علی رضا بیگ، چوتھا میر یاور حسین مہتمم روند کو، پانچواں خلعت جرنیل حسام الدولہ بہادر کو۔ پھر تمام نے مرزا برجیس قدر اور حضرت محل کو اور شہنشاہ محل کو نذریں دیں۔ داروغۂ دیوانِ خاص ممو خاں، علی محمد خاں بہادر روانہ ہوئے۔ منشی کچہری خاص امیر حیدر داروغہ دیوریہات، میر واجد علی اخبار ملکی، محمد حسن داماد نواب شرف الدولہ کو دیا گیا۔ جرنل حسام الدولہ کو حکم بھرتی 13 پلٹن نجیب کا ہوا اور انگریزوں سے لڑائی شروع کر دی۔ بیلی گارد پر حملہ کر دیا جہاں انگریز جمع ہیں۔ مولوی احمد اللہ شاہ نے بڑی بہادری کی۔ بیلی گارد کے پھاٹک تک پہنچ گئے۔ مگر کوئی اور ساتھی نہ تھا۔ زخمی ہو کر لوٹ آئے۔ مَیں محلات سے اٹھ کر شہر آ گئی ہوں۔ یہ میرا خط جانِ عالم تک پہنچا دینا۔ وہ قلعہ میں نظر بند ہیں۔ میرے نام بھی خط آیا تھا۔ بمشکل ملا۔

فقط

سرفراز بیگم لکھنؤ



بنام حضرت جانِ عالم



کیا لکھوں او بتِ بے رحم تری دوری ہے

کونسا دن تھا کہ میں دیدۂ گریاں نہ ہوا

جوہر تیغ ناز و نیاز، قطرۂ سبغ غمزہ و انداز، ہمیشہ گلشن خوبی شاداب رہو۔

جانِ عالم! ایک سال ہو گیا۔ سب چہیتوں کو نوازا۔ مجھ نگوڑی کو کبھی بھول کے بھی پرزۂ کاغذ سے نہ کیا خوش افزا۔ یہاں دن رات آتشِ فراق میں گھل رہی ہوں۔ وہاں بے خبری وہ ہے جو جان رہی ہوں ؎

آتش بھری ہوئی ہے مرے جسمِ زار میں

پارے کا ہے خواص دل بے قرار میں

ہم ہیں اور غمِ دل دار ہے۔ سینہ ہے اور آہِ شرر بار ہے۔ محلات میں برجیس قدر کو دیکھ لیتی ہوں، دل شاد کر لیتی ہوں۔ تمھاری پھبن اس میں پوری ہے۔ صورت بھی باپ کی سی گوری ہے۔ اللہ حضرت محل کی کوکھ کو ٹھنڈی رکھے۔ مجھ پر وہ مہربان ہے۔ مجھ کو بھی پیارا دل و جان ہے۔ کل اس کی گیارھویں سالگرہ تھی۔ یہ تو سنا ہوگا کہ وہ تخت نشین ہے۔ تمام لوگ اس کے فدا کار ہیں۔ شب میں رقص و سرود کی محفل تھی۔ ایک طوائف نے غزل پڑھی۔ ایک شعر یاد ہے ؎

غیرتِ مہتاب ہے برجیس قدر

گوہرِ نایاب ہے برجیس قدر

خدا نظرِ بد سے لاڈلے کو بچائے، دشمن کا منہ کالا ہو جائے۔ سنتے ہیں موسمِ خزاں جا چکا، اب بہار آئی ہے۔ بلبلوں نے گلستاں میں خوشی مچائی ہے۔ اپنی تو یہ حالت ہے کہ جوں بلبلِ تصویر پرواز کی طاقت نہیں اور یاس چمن ہے۔

جانِ عالم اپنی خیریت سے اطلاع دیجیے اور سوزِ مہجوری سے نجات دیجیے ؎

موت سی اب تو زیست ہے کہ بہت

دردِ دل کا علاج کر دیکھا

جیتے جی موت کی سی لذت کو

خوب دیکھا کہ تجھ پہ مر دیکھا

یاسمین محل



بنام سرفراز محل پنج والی

شعلۂ برق دوری، نائرۂ نار مہجوری، آتشِ حسن دو بالا ہو جیو ؎

وہ کون ہے جو مجھ پہ تاسّف نہیں کرتا

پر میرا جگر دیکھ کہ میں اف نہیں کرتا

یہاں کا حال کیا لکھوں، دل بے قرار ہے۔ سینہ فرطِ نالہ سے رشکِ رباب ہے۔ لکھنؤ سے میرے ساتھ پانچ سو آدمی آئے تھے۔ موچی کھولا میں مقیم ہیں۔ ولی عہد بہادر کی ماں ملکۂ خاص محل، جرنیل کی والدہ ملکۂ ملک عالی جناب تاج النساء بیگم، تیسرا محل محبوبہ خاص ملکۂ عاشق نما جان جاں بیگم ہے۔ یہ آج کل بیمار ہے۔ خدا اس کو شفا دے۔ محل چہارم بڑی بیگم عاشقِ سلطان ممتاز عالم قیصر بیگم نہ منکوحہ تھی نہ ممتوعہ۔ صرف دوستی میں چلی آئی تھی۔ اس نے خرچ کو مانگا، گیارہ ہزار روپے دیے۔ وہ روپیہ پاتے ہی کلکتہ سے چل دی۔ پنجم خستہ محل ششم ممتوعہ جعفری بیگم عجیب چلبلی طبیعت، نازک مزاج، کھلنڈری، چنچل، جنگجو، تندخو، تیغ زبان، درشت کلام۔ ہم کو قلعہ ولیم میں اکثر گلوریاں بھیج دیا کرتی ہے۔ وہ ایسی محبوب تھی کہ ایک دم نظر سے جدا نہ ہوتی تھی یا مہینوں سے اس کے فراق میں تڑپتا ہوں۔ اس کے غم سے دل پانی پانی ہو گیا۔ غنچۂ دل کملا گیا۔ دل ہزار سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ صبا بھی ہم قیدیوں کی پیغام بری نہیں کرتی۔ ہر طرف پہرا ہے، ہر طرف یاس ہے۔ دو رفیق ہیں، ایک خوف دوسرا ہراس۔ ایک قید خانہ میں ہم پڑے ہوئے ہیں۔ چاروں طرف حراست ہے۔ ہمارے ساتھ اٹھارہ آدمی مصیبت جھیل رہے ہیں۔ ہر ایک اپنے جینے سے بے زار ہے۔ قیدِ غم میں گرفتار ہے۔ بہشتی و خاکروب آتے ہیں، ان کے ساتھ ایک ایک گورا بھی آتا ہے۔ مجال کیا جو منہ سے بول سکے۔ قید خانہ کی کوٹھی بہت وسیع ہے۔ مگر میرے کس کام کی۔ ہر وقت دروازے بند، گرمی سے دل تنگ ہے اور پریشان ہوں، حالت تباہ ہے۔ جب دروازے کھلتے ہیں تو دھوپ کی شدت سے جان بے زار ہوتی ہے۔ کئی مرتبہ لاٹ صاحب کو شکایتی خطوط بھیجے مگر کسی کا جواب نہیں آیا۔ تم خدا کا شکر کرو۔ آزاد ہو اپنی نیند سوتی ہو، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ شیدا بیگم کا خط آیا تھا اس کا جواب لکھ دیا ہے۔ اس کو ملا بھی ہوگا یا نہیں ؎

وہ بلبل مردود بہار اور خزاں ہوں

جس کا کہ ٹھکانہ نہ چمن میں نہ قفس میں

کیا ہے اخترؔ بے پر کو اس نے مکر سے قید

کہیں بھی ہوتا ہے ایسا شکار کا اسلوب

راقم جانِ عالم





بنام اختر محل

فلک تو نے اتنا ہنسایا نہ تھا

کہ جس کے عوض یوں رلانے لگا

ملکہ ملک خوبی، پشت پناہِ ولایت محبوبی ادام اللہ جمالہا و اقبالہا

میری ملکۂ عالم، رفیق سلطانِ عالم! لکھنؤ کی حالتِ زار جانِ عالم کے لیے لکھ رہی ہوں۔ یہاں کا حال دگرگوں ہے، بُرا شگوں ہے۔

ایک دن مشہور ہوا کہ کل یا پرسوں فوج بیلی گارد پر دھاوا کرے گی۔ صاحبان محصور کو زیرِ تیغ کرے گی اور وہاں کی زمین کو کھود کر برابر کر دے گی۔ یہ خبر گوش زد صاحبات محل ہوئی۔ آپس میں کہنے لگیں کہ جس وقت یہاں سب کو قتل کیا، تو کیا جتنے کلکتہ میں ہیں ان کی جان کاہے کو رہے گی۔ ایک نے کہا، ہم تم ہی نہ بچیں گے کس واسطے کہ فرنگیوں کا جال مثل گھاس کی جڑ کے ہے۔ جتنا کاٹو اتنا ہی بڑھتی ہے۔ غرض کہ نواب فخر محل بندی جان، نواب سلیمان محل، نواب شکوہ محل، نواب فرخندہ محل، یاسمین محل، محبوب محل اور کئی محل جمع ہو کر حضرت محل سے کہنے لگیں اور نواب خرد محل اور نواب سلطان جہاں محل ان کی شریک تھیں۔ کہا کہ تم سب طرح اچھی رہیں، تمھارا بیٹا بادشاہ ہوا، مبارک۔ مگر ہم سب بے وارث ہوئی جاتی ہیں۔ کل فوج کا یہ ارادہ سنا ہے۔ اب تمھیں انصاف کرو۔ پھر بادشاہ اور محلات وغیرہ جتنے کلکتہ میں ہیں زندہ بچیں گے یا سب پھانسی دیے جائیں گے۔ ایسی سلطنت کو چولہے میں ڈالو۔ جناب عالیہ نے برہم ہو کر جواب دیا: معلوم ہوا تم سب ہمارا برا چاہتی ہو۔ بلکہ اس سلطنت کے ہونے سے جلتی ہو۔ غرض کہ ایسی جلی کٹی ہوئی، جناب عالیہ برجیس قدر کو لے کر اور دالان میں چلی گئی۔ یہ خبر افسروں کو لگ گئی۔ مفتاح الدولہ وغیرہ حضرت محل کے پاس آئے اور کہا: محلات فرنگیوں سے ملے ہوئے ہیں، نکال باہر کرو۔ وہ بولیں، صبر سے کام لو۔ دوسرے دن بیلی گارد پر حملہ کرنے چلے مگر پہلے شہر پر ہاتھ صاف کیا۔ لوٹ مار کی۔ برجیس قدر نے خود گھوڑے پر بیٹھ کر تلنگوں کو بلوا کر کہا: بہادرو! ہم تم سے بہت خوش ہوئے۔ خوب لڑتے ہو مگر رنج یہ ہے کہ تم شہر کو لوٹتے ہو۔ سب رعایا بد دعا کرے گی۔ افسروں نے دست بستہ عرض کی: جناب عالی اب شہر نہ لٹے گا۔ اور دلّی سفیر روانہ کیا کہ حضور بہادر شاہ سے سند مسند نشینی کی لی جائے۔ میں نہیں سمجھتی تھی حضرت محل ایسی آفت کی پرکالہ ہے۔ خود ہاتھی پر بیٹھ کر تلنگوں کے آگے آگے فرنگیوں سے مقابلہ کرتی ہے۔ آنکھ کا پانی ڈھل گیا ہے اور اس کو ہراس مطلق نہیں ہے۔ عالم باغ پر بڑا مقابلہ رہا۔ احمد اللہ شاہ سے بھی حضرت محل مل لی۔ ہر دو نے بڑی جانفشانی دکھائی۔ مگر قسمت کو کیا کریے۔ 22 دسمبر 57ء کا روز تھا۔ فرنگی سردار جنرل اوٹرم اور جنرل ہولے لاک مقابل تھے۔ 40 ہزار فوج یہاں جمع تھی۔ پانی بڑے زور کا برسا۔ تاریکی ہو گئی۔ فرنگیوں کی توپ نے اور گولے برسائے۔ تلنگے پلٹے۔ ممو خاں اور اشرف الدولہ نے ہٹ کر ناکۂ چار باغ لیا۔ راجا مان سنگھ نے بڑی بہادری دکھائی۔ نو ہزار جمعیت سے ایسا مقابلہ فرنگیوں کا کیا کہ ان کے دل چھوٹ گئے۔ شام ہو گئی تھی۔ جناب عالیہ نے راجا مان سنگھ بہادر کو جاں فشانی و جاں بازی پر خطابِ فرزندی دیا۔ خلعت دو شالہ رومال اور ملبوس خاص دوپٹہ عنایت کیا اور بہادری کی بڑی تعریف کی۔ مگر یہ سب تدبیریں الٹی رہیں۔ آخرش ہم کو شکست اٹھانا پڑی۔ کانپور سے نانا راؤ پیشوا آیا۔ دلّی سے جنرل بخت خاں روہیلہ، یہ رشتہ دار ملکہ خاص کا ہے۔ شاہزادہ فیروز شاہ آئے۔ احمد اللہ نے بڑی بہادری دکھائی، سب نے منہ کی کھائی۔ فرنگیوں نے جان توڑ کر تلنگوں کو پسپا کیا۔ قیصر باغ کے محلات پر گولے گرے۔ بیگمات بھاگیں۔ بڑی افراتفری تھی۔ خدا وہ دن دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ پا برہنہ، سراسیمہ، پریشان حال، دامن بڑے پائچوں کے اپنی پتلی کمروں سے باندھے ہوئے، پان دان اور بیش قیمت اشیا ساتھ لیے بھاگتی پھرتی تھیں۔ جناب عالیہ سراسیمہ پریشان پا پیادہ مع صاحبات محل اور شاگرد پیشہ غول عورات ملازمین باغ کے کوٹھوں پر سے گھسیاری منڈی کے پھاٹک سے باہر نکلیں۔ حلقۂ عورات صف بستہ، ان کے بیچ برجیس قدر ایک سید کی گود میں کندھے سے چمٹے ہوئے اور غالیچہ اور چاندنی رفع احتمال کو ڈالے ہوئے۔ جس نے راہ میں قافلۂ ناموس شاہی کو دیکھا بے اختیار پیٹنے اور رونے لگا۔ یہ انقلاب کا زمانہ تھا۔ بہرحال گلیوں میں گرتی پڑتی ٹیلہ شاہ پیر جلیل سے گذر کے پُل مولوی گنج میں جواہر علی خاں کے یہاں پہنچے۔ وہاں سے پینس میں سوار ہو کر غلام رضا خاں کے گھر اتریں۔ پھر شرف الدولہ کے یہاں گئیں۔ رات کو شاہ جی کے مکان میں ٹھہریں۔ جنرل اوٹرم نے کہلا بھیجا کہ تم اپنے محل میں آرام سے رہو۔ ہم باغیوں کو نکال کر تمھارا احترام کریں گے۔ حضرت محل نے مصیبت اٹھا کر ہمت نہیں ہاری۔ 29 رجب

۵۷ء کو قریب شام معہ برجیس قدر پینس میں سوار ہو کر ناکہ عالم باغ کی طرف سے معہ ممو خاں گھوڑے پر سوار لکھنؤ سے روانہ ہو گئیں۔ راستہ میں راجا مردن سنگھ زمین دار تمردی سے پیش آیا۔ مولوی عماد الدین دیوی عرف مولوی محمد ناظم بسوان باڑی تین کوس سے استقبال جناب عالیہ کے لیے آئے۔ بڑی دھوم نقارہ و نشان جلوس سوار سے مرزا بندہ علی بیگ کے امام باڑے میں اتارا۔ راہ میں فقرا کو دو ہزار خیرات کیے۔ جب داخلِ شہر ہوئیں توپیں سلامی کی چلیں۔ وہاں صلاح ہوئی کہ بریلی کو چلیں۔ چنانچہ یہ قافلہ آگے کو روانہ ہو گیا۔ میری چھوکری یاسمین ساتھ تھی وہ لوٹ آئی۔ اور اس نے سب حال کہا جو جانِ عالم کے سنانے کے لیے تم کو لکھ رہی ہوں۔ اب یہاں فرنگیوں کا معاملہ مولوی احمد اللہ شاہ سے ہو رہا ہے۔ دیکھیے کیا انجام ہو۔ میں بھی اپنی بھانجی کے یہاں خیر آباد جا رہی ہوں۔ دیکھوں یہ خط میرا پہنچے ہے یا نہیں۔ مفتاح الدولہ کے آدمی کے ہاتھ بھیجتی ہوں۔ وہ یہاں سے بھاگ کر کلکتہ جا رہا ہے۔

سرفراز بیگم



بنام جانِ عالم

انیس و ہمدم جانِ عالم ابقاکم اللہ تعالیٰ!

بعد اشتیاق وصال نواب شیدا بیگم کا ظاہر ہو ؎

بے تابیِ دل کسے سنائیں

یہ دیدۂ تر کسے دکھائیں

مدت سے خبر فرحت اثر نہیں پائی۔ پریشانی بے شمار ہے اور روز روشن ہماری نظروں میں شب تار ہے۔ حافظ حقیقی صحت و عافیت سے تم کو اپنی حفظ مدام میں رکھے اور یہ جدائی درمیان سے جدا علی الدوام رکھے۔ حال میرا یہ ہے ؎

مل گئے خاک میں یہ پھل پایا

تخمِ غم کشتِ دل میں بو بو کے

آپ کے جانے کے ایک سال بعد وہ وہ بلواے عام ہوئے، وہ وہ مصیبتیں آئیں جو خدا دشمن کو بھی نصیب نہ کرے۔ حضرت محل نے ایسی بہادری دکھائی کہ دشمن کے منہ پھر پھر گئے۔ بڑی جی دار عورت نکلیں۔ سلطان عالم کا نام کر دیا کہ جس کی عورت ایسی جو مردانہ وار مقابلہ کر سکتی ہے تو اس کا مرد کیسا بہادر اور شجاع ہوگا۔ جب ہی خوف سے حضور کو آنکھوں آنکھوں میں رکھا۔ نواب سرفراز محل نے مفصّل حالات لکھ بھیجے ہیں۔ تکرار لا حاصل ہے۔ جانِ عالم! فرنگیوں نے بڑی بے دردی سے حضرت باغ پر کچھ گولے برسائے۔ محلات کے ساتھ میں بھی جان لے کر بھاگی۔ سب سامان حضرت باغ میں چھٹ گیا اور جو کچھ بچ رہا تھا وہ سب مسافرت میں لُٹ گیا۔ اب سردست یہ حال پہنچا ہے کہ جب کسی سے نہیں کچھ قرضہ بہم پہنچتا ہے تو نوبت فاقہ کشی کی آتی ہے۔ دیکھیے قسمت کیا دکھاتی ہے۔ خدا کے واسطے جس صورت سے بنے ہم کو اپنے پاس بلاؤ۔ اور اگر نہیں تو جس طرح ہوگا میں خود چلی آؤں گی۔ یہ صدمہ کہاں تک اٹھاؤں گی۔ اور اے جان عالم! حال میرے والدین کی غربت کا تم پر ہویدا ہے۔ نہ وثیقہ ہے نہ وظیفہ۔ میں ہی ان کی مدد کر دیتی ہوں۔ جب شہر کے لوگوں کے ساتھ میں بھی بھاگی، والدین اور ہمشیر کے ساتھ ہی پیدل ننگے سر کرسی تک پہنچے۔ وہاں نگین آرا بیگم کو بخار آیا۔ تین روز وہاں مقام ٹھہرایا۔ چوتھے دن وہاں سے سب بھاگے، میں بھی بڑھی آگے۔ آخر رفتہ رفتہ تقدیر ہم کو مصیبت کی جگہ لے گئی۔ یہ صدمۂ غم ہم کو دے گئی۔ راہ میں نہ دوا میسّر ہوئی، کچھ نہ اس کو افاقہ ہوا۔ گرمی سے سر کا تڑاقا ہوا۔ سترھویں رمضان کو اس نے انتقال کیا، ہمارا غیر حال کیا۔ اب تک جب صورت یاد آتی ہے ٹکڑے چھاتی ہو جاتی ہے۔ جی چاہتا ہے اپنے تئیں ہلاک کروں، گریبان اور کسوتِ حیات چاک کروں۔ ناچار ہوں اگر اس طرح موت نہ ہوتی حرام تو میں کرتی اپنا کام تمام ؎

ہمیشہ آگ نکلتی ہے اپنے سینے سے

الٰہی! موت دے، گذری میں ایسے جینے سے

جان عالم! سوگند خدا و رسول تم اس کو پڑھ کر نہ ہونا ملول۔ تم بھی بڑے بڑے صدموں میں مبتلا ہو، موردِ آفات و بلا ہو۔ سلطان بیگم بھی قضا کر گئیں۔ ہر چند دل پارہ پارہ ہے مگر مرضی خدا سے کیا چارہ ہے۔ سید علی واجد سے حال تمھارا استفسار کیا، انھوں نے خیریت کا اظہار کیا۔ اب قسم تم کو ہمارے سر کی، جواب اس کا جلد بھیجو، اپنی خیریت سے آگاہ کرو۔ فقط

صفر سنہ 1274ھ

شیدا بیگم





بنام جان عالم ابو المنصور ناصر الدین سکندر جاہ بادشاہ عادل قیصر زمان سلطانِ عالم واجد علی شاہ



اے خسروِ خوش جمال میرے!

اے دل بر ذی کمال میرے!

اے میرے انیس میرے جانی!

تم پر رہے حق کی مہربانی

اے میرے وفا شعار دل دار!

خالق نہ کرے تمھیں دل افگار

اے شعلۂ حسن عالم افروز!

عشرت ہو نصیب تم کو ہر روز



انیس و ہمدم جان عالم زاد محبتہ!

بہت عرصہ سے خبر خیریت تمھاری نہیں پائی۔ طبیعت بہت گھبرائی۔ حافظ حقیقی تم کو صحت و عافیت سے رکھے۔ حال گردش لیل و نہار سے بہت پریشان ہے۔ لبوں پر جان ہے۔ جب سے سب محلات کے ساتھ نکلی، شہزادی کو لیے لیے ننگے پاؤں چلی۔ راستے میں سب سے مفارقت ہوئی۔ بدشواری تمام سعادت گنج پہنچنے کی نوبت ہوئی۔ وہاں بڑی تلاش سے ایک مکان خالی پایا۔ اس میں دو دن کی بسر۔ تیسرے دن بخوف جان آبرو وہاں سے کیا سفر۔ غرض کہ یوں ایک دن کہیں رہی اور دو دن کہیں رہی۔ اس آوارگی میں طاقت جینے کی بھی نہیں رہی۔ اثناے راہ میں کبھی کھانا ملا اور کبھی فاقہ ہوا۔ ایک دم بھی نہ رنج و الم سے افاقہ ہوا۔ آخر کو افتاں و خیزاں ہر قریہ و قصبہ میں پھرتی ہوئی اپنے گھر معافی خاں کی سرا میں آئی۔ وہاں آ کر سب سے زیادہ مصیبت اٹھائی۔ شہزادی دیہم آرا بیگم بیمار ہوئی، ہماری حالتِ دل زار ہوئی۔ وہ صدمہ کس منہ سے بیان کروں کہ راحت جاں ہماری رمضان میں قضا کر گئی۔ خدا شاہد ہے کہ میں جیتے جی مر گئی۔ اب تک جب اس کی صورت یاد آتی ہے، ٹکڑے چھاتی ہو جاتی ہے۔ اے جان عالم! خدا و رسول گواہ ہے۔ سب سے زیادہ میری حالت تباہ ہے۔ کھانے پینے کو حیراں ہوں۔ گھر تک جاتا رہا، بے مکاں ہوں۔ چند روز سے ایک مکان میں رہتی ہوں، ہر گھڑی صدمہ سہتی ہوں۔ اس وقت میں کوئی ہمارا پرسانِ حال نہیں۔ کسی کو ہمارا خیال نہیں۔ ہم کو تباہ دیکھ کر سب نے منہ موڑا۔ مگر دن رات تمھاری آتشِ اندوہ میں جلا کرتی ہوں۔ پروانوں کی طرح تصور شمع اختیار میں ہر شب کباب ہوا کرتی ہوں ؎

حورؔ کیا عشق میں تاثیر ہے اللہ اللہ

ہر گھڑی کاوشِ تقدیر ہے اللہ اللہ

حور بیگم

دوم ذی قعدہ سنہ ۱۲۷۳ھ





بنام جانِ عالم



جانِ جہاں، سلیمان زماں، سلطان انساں، عیسیٰ امراض الم، جان عالم! ہمیشہ رکھے اللہ کمال تمھارا۔ گلستانِ عشق کا پھول، راحتِ دلہائے ملول، اخترِ درخشندۂ برجِ محبت، گوہر یابندہ درجِ مودت، ہم کو لاکھ جان سے مرغوب یعنی مکتوبِ الفت اسلوب بستم شعبان کا لکھا ہوا یوسف علی خاں بہادر کی معرفت ہمارے خانۂ امید کا روشن کرنے والا ہوا۔ تمام گھر میں اجالا ہوا۔ احوالِ شوقیہ ظاہر ہوا، دل ہمارا اس کے مضمون سے ماہر ہوا ؎

خدا دور تم سے کرے یہ الم

نہ ہووے کسی بات کا تم کو غم

حکومت اسی طرح پھر تم کو دے

قیامت تلک ملک قائم رہے

جہاں میں نہ تم کو کبھی ہو ملال

محب شاد ہوویں، عدو پائمال

امراؤ بیگم



بنام جانِ عالم

سرور خوبانِ جہاں، داور محبوبانِ دوراں، اختر آسمان کرم حضرت جان عالم زید اللہ نور حسنہ

بیا بیا کہ ترا تنگ در کنار کشم

بہ تنگ آمدہ ام چند انتظار کشم

داستان تمھارے فراق کی طولانی ہے، دریاے اشک کی بار بار طغیانی ہے۔ عجب طرح کی پریشانی ہے۔ آتشِ شوق دل میں بھڑکتی ہے۔ جان تن میں پھڑکتی ہے۔ بغیر تمھارے نہیں کل، اشتیاق میں لکھتی ہوں یہ غزل۔

غزل

میرے گل پیرہن سلطان عالم

میرے غنچہ دہن سلطان عالم

تو ہی ہے خُسروِ ملک معانی

مرے شیریں سخن سلطان عالم

جدا ہم سے ہوئی فرقت میں تیری

توانِ جان و تن سلطان عالم

تمھارے ہجر میں ہم نے اٹھائے

بڑے رنج و محن سلطان عالم

ستم سے باغیوں کے شہر چھوڑا

بسایا جا کے بن سلطان عالم

ستارے نے نئی گردش دکھائی

پھرا چرخِ کہن سلطانِ عالم

ترے پیچھے ہوا جاتا ہے برباد

مرا سب بانکپن سلطان عالم

رہیں یاور تمھارے شش جہت میں

خدا و پنجتن سلطان عالم

وزیرؔ غمزدہ تیری ہے مشتاق

مرے شاہِ زمن سلطان عالم

نواب وزیر صاحبہ

۱۸ رجب

وزیر بیگم





بنام جانِ عالم

اختر آسمان دلربائی، گوہر دریاے آشنائی، بلبل شاخسار یک جہتی، خسرو خو شیریں گفتگو، سلیمان چشم بلقیس شِیم، یوسف جمال زلیخا خصال، ماہ صورت چکور سیرت، لیلیٰ کی سج مجنوں کی دھج، دمن کے دل کا گھاؤ، نل کی صورت کا ساؤ، عذرا کا ناز وامق کا انداز، شاہد کی راحت عزیز کی عزت، شمع کا رنگ پروانہ کا ڈھنگ، شہر کی آرائش پہلو کی زیبائش، بند کے کھولنے والے لپٹ کے سونے والے، زخمِ فراق کے مرہم مرزا جانِ عالم بلکہ جانِ جہاں سے بہتر سلطان عالم اختر۔

نامۂ محبت آیا، مگر اس نے خوب رلایا۔ مفت کا مجھ پر اتہام لگایا۔ دشمنوں کے بہکائے میں آ گئے، مجھ کو آنکھوں سے ایسا گرا گئے۔ میں کوئی عزت ہی نہیں رکھتی۔ آپ نے یہ جو تحریر کیا: "نثار علی لہسنیا ہاتھی پر چڑھ کے چینی بازار میں تمھارے محل کے کوٹھے کے سامنے چار گھڑی تک کھڑا رہا اور تمھارے یہاں کی کھڑکیاں کھلی رہیں اور عورتیں بیٹھی رہیں۔ نہ تو کھڑکیاں بند ہوئیں، نہ عورات رخصت ہوئیں۔ اس کے کیا معنی؟"

جانی! اس کے ہیں دو معنی۔ ایک تو لغوی دوسرے اصطلاحی۔ پہلے تو لغوی سے ہو آگاہ، پھر اصطلاحی سمجھنا خاطر خواہ۔ لغوی تو یہ ہے، نہ اس میں کچھ لغو ہے نہ خلاف، ترجمہ اس حال صدق مآل کا حرف بحرف ہے:

صاف صاف کہ تین کھڑکیاں دروازہ وار ہمارے محل کے کوٹھے پر جانب چینی بازار کڑے پڑی ہوئی آدھی چُنی ہوئی ہیں۔ فی الحقیقت بہلا بغیر بیلچہ وغیرہ کے ان کے کھلنے کی کون سی صورت جس طرح چاہو اس کی پہنچا لو سند کہ قول حاسدوں کا ہو جائے رد۔ لُغوی تو ہو چکے مرقوم، اب اصطلاحی کرو معلوم کہ جب سے تم ادھر سدھارے ہو ہم نے چینی بازار کی طرف اپنے کوٹھے پر دو کمرے بنوائے ہیں اور جھاڑ شیشہ آلات سے سجوائے ہیں۔ پردے تمامی کے بندھوائے ہیں۔ چاندی کے پلنگ بچھوائے ہیں۔ اور عورتوں کا کیا ذکر ہے، خود ہمارا یہ حال ہے کہ ہم کو ایک ذرہ بھی نہیں تمھارا خیال ہے۔ جو دو تین گھڑی دن رہتا ہے، تو ہم ہر روز وہاں بیٹھنے کو جاتے ہیں۔ دیدہ و دانستہ ہر مردم سے آنکھیں لڑاتے ہیں اور وقتِ شب جس کو چاہتے ہیں اس کو بلاتے ہیں۔ تمام رات خوب خوب مزے اٹھاتے ہیں۔ ہمارا کام بیٹھنا سرِ راہ ہے، یہاں سے کلکتہ تک ہر شخص اس پر گواہ ہے۔ جو طرز و انداز ہمارا ہے، تم پر بھی سب آشکارا ہے۔ ہم کو ہرگز کچھ نہیں ہے باک، جھوٹوں حاسدوں کے منہ میں ہے خاک۔ اور ہاں اس وقت مجھ کو خوب یاد آیا، ایک نیا مضمون ذہن میں سمایا۔ میں تم سے پوچھتی ہوں خلاصہ اس کا جلد تر لکھ کر بھجوانا۔ تم نے جو لکھا تھا کہ لہسنیا تمھارے محل کے سامنے کھڑا تھا۔ اس بات کو تصور کرو اور بغور دیکھو کہ لہسن پیاز کا یہاں کیا کام ہے، اس کا تو باورچی خانہ مقام ہے۔ اگر کوئی باورچی ہوگا جہاں مصالحہ بھی ہر ایک ہوگا وہاں ہوگا۔ یہاں کا حال تو تم کو بخوبی معلوم ہے اور ظاہر و باطن سب مفہوم ہے کہ باورچی ہے نہ درزی نہ حجام ہے۔ ان میں سے ایک کا بھی یہاں نہیں کام ہے۔ ہم فقط آپ ہیں یا آپ ہی کے کارکن ہمارے باپ ہیں۔ اور عورتیں بھی ہمارے یہاں جتنی ہیں، ان میں سب ضعیف اور ادھیڑ ہیں کوئی جوان نہیں۔ ان پر فعلِ بد کا کسی کو گمان نہیں۔ ہاں مگر جوان ایک مغلانی ہے۔ سو وہ بھی مستانی نہیں دیوانی ہے۔ کوئی نمک حرام عیار اپنے اڑھائی چاول پکایا کرے ہزار لیکن یہاں دال نہیں گلنے کی زینہار۔ بلکہ بعض پختہ کاروں نے ابتدا میں کچھ سمجھ کے ہم کو اکثر دم دیا۔ خدا شاہد ہے کہ ہم نے بجز تمھارے کسی کو قبول نہ کیا۔ فقط

نواب شیدا بیگم مرقوم 14 رمضان سنہ 1273ھ



بنام جانِ عالم

جہاندار کشورِ خوب روئی، شہریار اقلیم نکوئی، سلطان ملکِ حسن و جمال، خسرو ماہِ طلعتانِ شیریں مقال، ضیا افروز چہرہ حور و پری، نور افزاے رخسارِ دلبری، شہنشاہ گیتی ستان، خاقان ابنِ خاقان، مشتاقوں کے حال سے بے غم جانِ عالم! سلامت رہو۔

اب ہمارا وہ حال ہے کہ قلم کو لکھنے میں انفعال ہے۔ دامن کاغذ سے منہ چھپاتا ہے۔ سر اٹھانے میں شرماتا ہے۔ تمھاری یاد نے ایسی صورت دکھائی ہے کہ قابل دیکھنے کے صورت بنائی ہے۔ ہر روز مانندِ رکن مزاحفِ جود مسلسل کا جو دھیان اکثر ہے، رکن ابتر کی طرح صورتِ حال ابتر ہے۔ اصلاح کا مقام نہیں کیفیت اصلی پر کلام نہیں۔ درد صدا کہ آغازِ فراق سے حاصل ہوتا ہے، ابتداے سخن دشوار ہے۔ تخیل کو اظہارِ مدعا میں حشو کی شکل حجاب ناگوار ہے۔ ہر چند تحریر میں قلم رکن عروض کی صورت قدم جماتا ہے مگر ضرب مضامین سے کہ عجب طرح کی چوٹ ہے سینہ شق ہو جاتا ہے۔ وہ بیت کہ جس کو اتحادِ قوافی سے مغائرت ہو مطلع مدعا نہیں کر سکتی یا وہ قافیہ کہ جس سے صورتِ زوائد پیش آئے گوہر مقصد کے مانند دامنِ مطلب میں نہیں بھر سکتی۔ چمنِ صبر صرصرِ اضطراب سے پریشان ہے۔ جس کے نظارہ سے افسوس حاصل ہو، یہ وہ گلستان ہے۔ یقین ہے کہ بلبلِ شوق کو دمِ نظارہ کمال ملال ہو۔ ہم کو اپنی ویرانی وحشت سے سر تا پا انفعال ہے۔ صبح سے تا شام انتظار ہے، ورود محبت نامہ سے دل بے قرار ہے۔ آنکھیں جانبِ در میں کبھی امید وار کبھی مضطر نہیں، تاخیر تحریر سے عالم دگرگوں ہو جاتا ہے، ہاتھوں دل اچھلتا ہے، کلیجا منہ کو آتا ہے۔ اور جو کبھی تقدیر نے یاری کی تمھاری محبت نے طرف داری کی۔ کسی نے کہہ دیا کہ لو خط آیا۔ جوشِ شوق نے ہم کو گھبرا کر اٹھایا۔ از بس کہ دل میں ارمان ہے۔ کہنے لگی کہاں ہے کہاں ہے۔ دل مشتاق ہو کر لب پر آیا۔ کانوں کا پردہ اٹھایا۔ مضامین پر عبور ہوا، جی مسرور ہوا۔ پھر دو چار دن کو طاقت جسم میں آگئی۔ گھبراہٹ کچھ ٹھہری، تسکین جلوہ دکھا گئی۔ چند دن بے قراری سے فرصت پائی۔

حور بیگم





بنام جانِ عالم

صدر نشین جرعہ نوشانِ بادۂ حسنِ انتظامی، مسند آراے بادہ کشانِ رحیق مروّق مِصطبۂ خوش کلامی، مستسقی شراب حسن دل افروز، سر خوشِ ساتگین مے خانہ امروز، ماہ سیماے رعنائی، گوہر تاج آشنائی جانِ عالم دام اقبالہ

پھر وہی شمع ہو تم، پھر وہی پروانہ ہم

پھر پری ہو وہی تم، پھر وہی دیوانہ ہم

خوب مری شیفتگی اور فریفتگی کی قدر دانی کی۔ قرباں ہوں پھر مجھ پر نہ نظر ثانی کی ؎

ان دلبروں کی آنکھ نہیں جاے اعتماد

جب تک انھیں یہ چاہیے پیشِ نظر رہیں

داروغہ نعمت خاں فیروز خواجہ سرا اور شیخ حسین علی نے مجھ سے امام قائم علیہم السلام کی سوگند کھائی تھی، جانِ عالم تجھ سے رُخ نہ پھیریں گے اور ہر وقت اپنے پاس رکھیں گے۔ سب وعدہ و وعید گاؤ خورد ہوئے۔ ادھر الطاف و کرم کے لالے ہیں، گو ہم ویسے ہی متوالے ہیں۔ وہ لوگ جا قبر میں آرام پذیر ہوئے، ہم ان نقشوں سے یہاں دلگیر ہوئے۔ پچھلی باتیں یاد دلا کر نظرِ کرم کی امیدوار ہے۔ بقسم شرعی بغیر آپ کے جینا دشوار ہے ؎

عاشقی جی ہی لے گئی آخر

یہ بلا کوئی ناگہانی تھی

خدا کے لیے پرزۂ خط سے مرے دل کی ڈھارس بندھائیے یا مجھ کو اپنے پہلو کے لیے پاس بلائیے۔

دل آرا بیگم



بنام جانِ عالم

خسرو فیض مآب، شمع شبستان آفتاب، ظہیر رفیع قدر، مخدوم فخر دہر، خورشید مطلع صدق و صفا، کلید گنجینۂ مہر و وفا جان عالم دام اقبالہ!

اپنی دل پسند صاحباتِ محل کو ساتھ لے گئے، ہم سے سوختوں کو اجڑی نگری میں چھوڑ گئے۔ اپنا تو نقشہ یہ ہے ہاتھ پاؤں سنسناتے ہیں۔ اپنے آپ غش پر غش آتے ہیں۔ سینے میں دم بند ہے، گھبراتا ہے، رہنے کا مکان کاٹے کھاتا ہے۔ جان بے قرار ہے۔ بند بند ٹوٹتا ہے۔ دامنِ صبر دستِ استقلال سے چھوٹتا ہے۔ تنہائی خوش آتی ہے۔ اعزا کی شکلوں سے طبیعت نفرت کھاتی ہے ؎

ظاہر میں گو کہ بیٹھا لوگوں کے درمیاں ہوں

پر یہ خبر نہیں ہے میں کون ہوں کہاں ہوں

آنکھ ظاہر میں بند ہوئی جاتی ہے۔ نیند مطلق نہیں آتی ہے ؎

ہاتھ چاہتے ہیں سر دست چاک گریباں دیکھیں

پاؤں چل نکلے ہیں کہ بیاباں دیکھیں

قرار پاتی نہیں جان زار بن تیرے

ستا رہا ہے دل بے قرار بن تیرے

منہ کی رونق چند دن میں جاتی رہی۔ زردی چہرہ پر چھا گئی۔ بہارِ حسن پر خزاں آ گئی۔ ہر دم لب پر آہ سرد ہے، ایک دل ہے اور ہزار طرح کا درد ہے۔ سرکار کا عطیہ جو زیور ہے وہ مثلِ طوق و سلاسل ہے، جس کی زیب و زینت سے بدمزگی حاصل ہے ؎

ہوں کاہ سے کاہیدہ بس زار اسے کہتے ہیں

عیسیٰ سے نہ ہو اچھا بیمار اسے کہتے ہیں

حالتِ اصلی سے آگاہ کیا۔ جانِ عالم! ہم سے اچھا چاہ کیا۔ نامۂ محبت و شمامۂ الفت کا انتظار ہے ورنہ ابھی تک تو ہم چشموں میں شرم سار ہے ؎

نہ مرتے مرتے منہ پھیرا محبت سے کبھی میں نے

جفائیں کس قدر وفا پر اپنی نازاں ہوں

نواب نشاط محل





نشاط محل

نوٹ: نئی بیگم نام تھا۔ یہ تین بہنیں تھیں۔ حیدری بیگم اور محمدی بیگم۔ میر انشاء اللہ خاں کی نواسیاں تھیں۔ نواب امجد علی شاہ کی سرکار میں یہ تینوں خواتین ذاکرۂ جناب سید الشہداء کے عہدہ پر ممتاز تھیں۔ ننھی بیگم کے شوہر اور اس سے جو دختر تھی ہر دو کے انتقال کے بعد یہ بھی نواب واجد علی شاہ کی منظورِ نظر ہو کر محل میں داخل ہوئیں اور اعزاز و مرتبہ پایا۔ اور خطاب نشاط محل نواب ننھی بیگم صاحبہ عطا ہوا۔



پیا جانِ عالم

اختر آسمان دلربائی، گوہر دریاے اشنائی، جواہر زواہر صدق و صفا زید اللہ حسنہ!

لازم ہے سوزِ عشق میں شعلہ عیاں نہ ہو

جل بجھیے اس طرح سے کہ مطلق دھواں نہ ہو

مرگ درپیش ہے، جگر پاش پاش ہے، سینہ ریش ہے۔ دریاے غم کا اٹھا طوفان ہے، بجز جہاں سے مثلِ حباب مٹنے کا سر و سامان ہے۔ آتشِ فرقت کے بھڑکنے سے شعلۂ آہ سوزاں بلند ہے، عمر ہجر پروانہ سویداے دل پسند ہے ؎

گرچہ الطاف کے قابل یہ دل زار نہ تھا

لیکن اس جور و جفا کا بھی سزاوار نہ تھا

جب سے سدھارے ہیں یہاں جان کے لالے ہیں، بارہ دور مہر جہاں تاب نے اس زمانہ میں نکالے ہیں۔ اس عرصہ میں ہماری خبر ہی نہ لی ؎

نہیں شکوہ مجھے کچھ بے وفائی کا تری ہرگز

گلہ تب ہو اگر تو نے کسی سے بھی نبھائی ہو

ہر ایک مکان ویران ہے۔ کالوں نے ادھم مچائی ہے۔ گوروں نے مات کھائی ہے۔ دو چار دن میں دیکھیے کیا ہو ؎

صنم نامہربان ہے اس قدر اے میرے رب کیا ہے

مری تقصیر کچھ ثابت نہیں وجہ غضب کیا ہے

جب سے فلک کج رو درپے ستم و جور ہے، یہ شیفتہ و خستہ زندہ درگور ہے۔ گو روتے روتے دیدۂ خونی میں نمی نہیں پھر بھی لختِ جگر نکلنے میں کمی نہیں ؎

نئی زندگی میں وصل میسر نہ بعد مرگ

عاجز ہوا ہوں اے دلِ ناشاد کیا کروں

مردمِ دنیا سے نفرت ہے، جوشِ وحدت کی شدت ہے۔ اب تو جینے سے جی چھوٹ گیا، مرا ہر طرف سے دل ٹوٹ گیا۔ یہ عریضہ ارسال کرتی ہوں ؎

خط دیجیو چھپا کے ملے وہ اگر کہیں

لینا نہ مرے نام کو اے نامہ بر کہیں

نواب فخر محل

رمضان سنہ 1273ھ



بنام نواب شیدا بیگم صاحبہ



غمِ عشق از دل کس کم مبادا

دل بے عشق در عالم مبادا

مہر سپہر بے وفائی، ماہ سیماے رعنائی زاد حسنہا و جمالہا

تشفی نامہ مشعر احوال گوناگوں ملا، کچھ عرصہ سے قلب کو سکون اور مصیبت کا وقت قدرے ٹلا۔ "چشم فسوں ساز"، "ملکۂ عالم نواب نگار محل" کا جو طعنہ دیا ہے کہ "وہ میرے پاس ملنے آئی اور اپنی کُل کہانی اگلی پچھلی کہہ سنائی اور خود اس نے کج ادائی دکھائی"۔ مگر اے جانی سُن اصلی کہانی:

اپنے پری خانہ میں اور حزن اختر میں اس کا کچھ قصہ لکھا ہے، کچا چٹھا بھی سب اس میں آ گیا ہے۔ مگر میری زہرہ جمال! تجھ کو وہ کاہے کو دیکھنے آئے گا۔ انیس و ہمدم! میری تیئیس چوبیس برس کی عمر تھی، ولولہ و شوق کی طبیعت میں لہر تھی۔ دن و رات رنگین مزاجی میں گذرتا، خیر خواہوں کے مفروضات پر کسی نوع نہ سنورتا۔ فصل برشگال میں کالی گھٹائیں گھری تھیں، ننھی ننھی بوندیاں تقاطر کر رہی تھیں۔ رنگ برنگ کے ابر کے ٹکڑے مرے حضرت باغ سے پرے پھرے جاتے تھے۔ دل بہلانے کے لیے محفلِ عیش کے کُل سامان خدّام لگاتے تھے۔ متوسلین حلقہ کیے بیٹھتے تھے اور ہاں میں ہاں ملاتے تھے۔ ایک سپہر پری رو رقص کے جوہر بھی دکھا رہی تھی۔ مصاحب جوشِ انبساط سے دادِ عشرت و خرمی دے رہے تھے۔ اس وقت کی محفل عروسِ نو کی طرح آراستہ و پیراستہ بنی ہوئی تھی ؎

بہشت آں جا کہ آزارے نہ باشد

کسے را با کسے کارے نہ باشد

اتنے میں اس محفلِ سرور میں مرزا سکندر حشمت بہادر آ شریک ہوئے اور کہنے لگے: ایک حسینہ کو مجرے کے لیے بلایا ہے۔ ابھی خادم اس کے آنے کا پیام لایا ہے۔ گانے بجانے میں اپنا نظیر نہیں رکھتی۔ یہ سن کے عنانِ اختیار مرے ہاتھ سے چھوٹ گئی، مگر اتنے میں دوسرا پیک یہ خبر لایا کہ آج وہ بُتِ طناز خستہ و بے حال ہے، کل کے آنے کی مرے حضور التجا و التماس کی قال ہے۔ سُن کے دل پر صبر کی سل رکھی۔ لیکن ایک دن کی مفارقت ایک سال کے برابر تھی۔ فجر کے ہوتے ہی انتظامِ بزمِ طرب کیا۔ جرنیل بہادر مری دل جوئی کے مدِ نظر اور مرے ملحوظِ خاطر تڑکے سے ہی اس پری زاد کو ہمراہ لے کر محفلِ عیش میں آ موجود ہوئے، دیکھتے ہی ہزار جان سے مہ پارہ پر متوالا اور عاشق ہوئے ؎

دل اس نے لیا مجھ کو ملی دولتِ دیدار

کیا لوٹ کا سامان ادھر بھی ہے ادھر بھی

رنگ اس کا کندن کی طرح دمک رہا تھا۔ صبح شکر ریز کی جھلک تھی ؎

آں شوخ کہ دی در نظرم جلوہ گری داشت

پر شور ہمہ شہر ز حسن شکری داشت

مجھے دیکھتے ہی ایک ایک قدم سے ہزاروں جانیں پائمال کرتی ہوئی بصد ناز و انداز اودی اطلس کا پائجامہ اس کے اوپر سرخ رنگ کی مصالحہ دار پشواز پہنے ہوئے آبِ رواں پر شال اوڑھے ہوئے سازندوں کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی تبسم کناں ناز و نزاکت سے خراماں خراماں بل کھاتی ہوئی آئی ؎

ندارد نقشِ پا کاندر زمین است

کہ تصویر خرام فتنہ زین است

بوٹا قد ؎

رعنا قدے چو سرو دل جو

در دیدۂ والہش لب جو

ان دنوں سن پندرہ برس کا ہوگا۔ بدن کی لطافت و نازکی کا کیا حال کہوں۔ کسی نے کہا ہے ؎

نازکی بسکہ ترا در بدن است

پیرہن یار دل و دوش تن است

اس کی جبیں کیا تھی ؎

کسیکہ تشنہ لب نار تست میداند

کہ موج آب حیات است چنیں پیشانی

اس کی خوبی چشم اس شعر کی مصداق تھی ؎

در حسن دو چیز است بلاے دل و دیدہ

چشمِ سیہ و گوشۂ ابروے کشیدہ

اس کا رخ کیا تھا ؎

آئینہ پیشِ رو نہ و سیرِ بہشت کُن

بایں رُخِ شگفتہ گلستاں چہ می کنی

نگاہ چار ہوتے ہی عجب حال سے بے حال ہوا۔ ہم چشموں کی صحبت سے مجبور رہا، کچھ کہہ سن نہ سکا۔ البتہ دونوں ہاتھوں سے دل تھام کر اور آہِ سرد کھینچ کر رہ گیا۔ "رشک بدر" کیا کہوں۔ قریب تھا عالمِ بے خودی میں بے تابانہ فسانۂ عشق کہہ سناتا مگر حجاب مانع ہوا ؎

اے پری زادو! تمھاری آگ نے پھونکا یہ گھر

قاف سے تا قاف سہرہ اور فسانہ ہو گیا

اتنے میں اس پری پیکر نے رقص کا آغاز کیا ؎

حسن کیا کم تھا جو آئینہ کی کھولی قلعی

ایک حیرتی زیادہ ہوئی حیرانوں پر

وہ مثلِ طاؤس رقص کر رہی تھی۔ یاں ہر دو آنکھ رو رہی تھی۔ مجھ میں تابِ ضبط نہ رہی ؎

دل کو تو ہر طرح سے دلاسہ دیا کروں

آنکھیں جو مانتی نہیں، میں اس کو کیا کروں

محفل برخاست کا حکم دیا، رات مشکل سے کٹی ؎

پوچھتے کیا ہو شبِ ہجر کی حالت یارو!

میں ہوں اور رات ہے اور بسترِ تنہائی

توقع صبح ہونے کی کسے ہوتی ہے فرقت میں

وہ راتیں ہجر کی ہیں اے خدا جو کٹ نہیں سکتیں

دوسرا دن آیا۔ محفل جمی۔ پری پیکر نے بزم میں آ کر داد عشوہ و ناز دی اور مجھ مہجور بلا کو خنجرِ ابرو سے بہت ہی مجروح کیا کہ بے طاقت ہو گیا۔ خواب و خور حرام ہوا۔ ناوک مژگاں سے دل دو نیم ہو کر مرغِ بسمل ہوا ؎

الجھاؤ پڑ گیا جو ہمیں اس کے عشق میں

دل سا عزیز جان کا جنجال ہو گیا

مرے ایک محرمِ راز پیارے صاحب نواب خاص محل کی نسبتی چچی اور مدار الدولہ بہادر کی نسبتی بہن انھوں نے جو دیکھا مری جان پر بنی ہے، قوتِ صبر و تحمل رخصت ہو چکا ہے تو فرطِ محبت سے ضبط نہ کر کے بے تابانہ مرے قدموں پر گر پڑیں اور عرض پرداز ہوئیں: جانِ عالم! مری جان آپ کے قدموں پر فدا ہو۔ کیا ایسی فکر لاحق ہے جو اپنی جان، جس پر ہوں صد بار مَیں قربان، معرضِ ہلاکت میں لا رہے ہو۔ بندگانِ عالی کا چراغ عیش و راحت صرصرِ غم کے جھونکوں سے بجھا نظر آتا ہے۔ سلطانِ عالم! یہ کنیز حضور کے فرمان سے سر نہ اٹھائے گی ؎

ایک بیمارِ جدائی ہوں میں آپھی تس پر

پوچھنے والے جدا جان کو کھا جاتے ہیں

محبوبہ جاں نواز! اس کے جملہ نے ڈھارس باندھی۔ نجم النسا بیگم مرحومہ، تجھ کو جنت نصیب ہو، مرے لیے حسبِ وعدہ امّن اور امامن کو ہم نوا کر کے جد و کد میں لگ گئیں اور مرے آتشِ عشق اس گل نوخیز بوستان محبوبی کا جو مرے دل میں شعلہ زن تھا، نغمہ عشق انگیز و غزلیات محبت آمیز گا کر راز سر بستہ کھولنے کے درپے ہوئیں۔ اس اوقات میں مجھے ٹھمریاں کہنے کا شوق دامن گیر ہوا ؎

سن او گوئیاں سیاں رہے واہو دیس

آگ تھے ابتداے عشق میں ہم

اب ہوئے خاک انتہا ہے یہ

مجھے اس حال میں مبتلا رہنے دیا۔ خود پیارے جناب نجم النسا کسی حیلے حوالہ سے بی جان مادر معشوقہ طناز کے گھر پہنچیں۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں اس ستم گر کے مزاج کو بھی تاڑ گئیں کہ وہ پھر میرے تیرِ عشق کی گھائل ہو چکی ہے اور میرے لیے سرگرم نالہ و آہ ہے۔ زبانِ حال سے کہتی ہے ؎

چھیڑ مت بادِ بہاری کہ میں چوں نکہتِ گل

پھاڑ کے کپڑے ابھی گھر سے نکل جاؤں گا

مگر اس کی ماں کی جان خونخوار ڈائن سے کم نہیں۔ انھیں ناچار واپس محل آنا پڑا۔ میں دلی صدمات سے بسترِ غم پر پڑا کروٹیں بدل رہا تھا اور دم بدم آہِ جاں سوز بھر رہا تھا۔ یہ اضطراب دیکھ کر نجم النسا مجھ مہجور و تفتہ جان کے قدموں پر گر پڑیں۔ نہایت الحاح و زاری سے عرض پرداز ہوئیں کہ سلطان عالم اتنا دل بھاری نہیں کرتے، صبر سے بھی کام لیتے ہیں ؎

مشکلے نیست کہ آساں نشود

مرد باید کہ ہراساں نشود

خدا نے چاہا حضرت قائم الزماں سلام اللہ علیہ کی سوگند حضور کی معشوقہ پری چہرہ کو پہلو میں لا بٹھاؤں گی۔ الّا چند دن ضبط و تحمل سے کام لو۔ ایسا نہ ہو اس کی ماں جو بڑی قطامہ اور شیطان کی خالہ ہے اور آفت کی پرکالہ ہے، داد فریاد کرے اور پرچہ حضرت جنت مکان کی خدمت میں نہ گذارن دے۔ بنا بنایا کام خاک میں مل جائے گا اور ہمارے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔ میں نے کہا ؎

سودا ہووے جب عاشق کیا پاس آبرو کا

سُنتا ہے اے دِوانے جب دل دیا تو پھر کیا

میں غمزدہ ہمیشہ اس مکان میں جس کا نام خاص مکان تھا بسترِ غم پر منہ دو شالہ سے لپیٹا پڑا رہتا اور شب و روز محبت میں گھل گھل کر نحیف و زار ہوتا جاتا۔ ان دنوں جو میں نے غزلیں کہی ہیں وہ اس وقتوں کی مری صحیح تصویر ہیں۔ مری اس کیفیت کو مرزا سودا کہہ گیا ہے ؎

عاشق کی بھی کٹتی ہیں کیا خوب طرح راتیں

دو چار گھڑی رونا دو چار گھڑی باتیں

مری سچی بہی خواہوں نے چاہا کوئی ایسی صورت پیدا ہو کہ اس بت طناز سے جلد ملاقات کا سبیتہ ہو۔ الّا اس کی ماں علامۂ دہر تھی۔ کوئی تدبیر پیش نہ گئی۔ جی کڑا کر کے نجم النسا پھر اس کے گھر گئیں۔ دیکھا وہ پلنگ پر لیٹی رو رہی ہے اور آہیں سرد بھر رہی ہے۔ اس نے چاہا کنایہ سے اسے تنہائی میں لے جا کر کلمات ضروری سنا کر فقرات محبت آمیز میری طرف سے اسے کہے اور اس کے دل کو ڈھارس دے۔ ناگاہ بے رحم خطامہ نے غل و شور مچایا، آسمان سر پر اٹھایا۔ نجم النسا بعجلت تمام اس کے مکان سے رخصت ہوئیں۔ مجبور و ناچار مرے قرین آئیں، ان کے چہرہ سے رنج و ملال کی علامتیں ہویدا تھیں۔ سبب دریافت کیا۔ اس نے پورا قصہ بیان کیا۔ واقعہ سن کر غیظ آیا۔ میر محمد مہدی جو امین الدولہ کے متوسلین سے تھا اس کو بلایا۔ اس سے کہا: جب تک مری محبوبہ نہ آئے گی، یقین جانو مری اپنے ہاتھوں جان جائے گی ؎

دردِ دل کچھ کہا نہیں جاتا

آہ چُپ بھی رہا نہیں جاتا

آخرش مہدی نے میرے قدموں پر سر رکھا اور وعدہ کر کے گیا: حضور جلد پری وش کو حاضر کرتا ہوں۔ یہ سنتے ہی دل باغ باغ ہو گیا ؎

کیوں آج سماتا نہیں سینہ میں خوشی سے

پہنچا ہے مگر دل تجھے پیغام کسی کا

وہ غلام علی کو لے کر اس کے گھر گئے۔ مرے دل کو خوش ہر صورت سے کر گئے۔ اپنے مکان کو ہر طرح سے آرائشوں سے آراستہ کیا۔ نہر کے درمیان جس کے چاروں طرف فوارے چھوٹ رہے تھے، پیراستہ کیا۔ اپنی سیج بچھوائی ؎

وعدۂ وصل چوں شود نزدیک

آتشِ شوق تیز تر گردد

فرطِ خوشی و مسرت سے اِدھر اُدھر ٹہل رہا تھا۔ پہر رات گذری تھی کہ دل اپنے آپ انبساط سے اچھل رہا تھا۔ یکایک کیا دیکھتا ہوں، ماہ وش کے پرتوِ جمال سے مکان روشن ہے، اب تو مرے دل کے قریب ہی شمعِ انجمن ہے ؎

ہمارے پاس کیا ہے جو فدا کریں تجھ پر

مگر یہ زندگی مستعار رکھتے ہیں

فرطِ بے خودی سے دوڑ کر اسے گود میں اٹھا لیا۔ رات بھر اس کے شمعِ جمال پر مثلِ پروانہ نثار ہوتا رہا۔ ہم میں ان میں خوب خوب پیار ہوتا رہا ؎

روداد محبت کی مت پوچھ یقیں مجھ سے

کچھ خوب نہیں سننا افسوں ہے یہ فسانہ

الغرض تمام رات شکوہ و شکایت اور راز و نیاز میں بسر ہوئی ؏

گہ خندم و گہ گریم گہ آہ جگر سوز

القصّہ سحر نے غازۂ نور اپنے منہ پر ملا۔ آواز نوبت و گجر اور صداے مرغ و اللہ اکبر نے مرے مرغِ روح کو عین وصال میں ہجر کی چھری سے حلال کر ڈالا۔ ناگاہ پس در سے میر مہدی نے آواز دی: "ظلمتِ شب برطرف ہو رہا ہے۔ صبح نور چاروں سمت پھیل رہا ہے۔ حضور کو رخصت کرنا چاہیے۔" ان کی صدا سن کے مرے چہرے سے رنگ اور دل سے صبر و قرار جاتا رہا۔ بے تاب ہو کر اٹھا اور بہ ہزار بلا گردانی اسے رخصت کیا۔ ایک مہینے تک یہی سلسلہ آمد و رفت جاری رہا۔ آخر کار ایک روز میں نے اس ماہ برج حسن و خوبی کو جانے سے روک دیا۔ القصّہ جس دن وہ محبوبہ میرے گھر بیٹھی تو فرطِ خوشی و خرّمی سے مطربانِ خوش گلو اور مغنیانِ پری رو نے خود محفل کو رشکِ ارم بنا دیا۔ ہر طرف سے صداے مبارکباد آنے لگی۔ چاروں طرف سے نوبتوں کی آوازیں گونجنے لگیں۔ حضرت مشکل کشا کا دسترخوان کیا۔ ملازمین نے نذریں گذاریں۔ حسبِ مراتب سرفراز کیے گئے۔ نجم النسا بیگم کو دولت سے مالا مال کیا گیا۔ اپنی مہوش کو نفیس نفیس جواہرات بے بہا سے سر سے لے کر پیروں تک لاد دیا اور بڑے خطاب ملکۂ عالم نواب نگار صاحبہ سے سرفراز کیا۔

ماہِ طلعت! سنا قصہ۔ ایک برس تک اس کا انجم اقبال بڑے کرّ و فر سے چمکتا رہا۔ اس کے بعد بوجوہات چند در چند اس سے دل بجھ گیا۔ سینکڑوں باتیں ہیں جس کی وجہ سے میرا مَن اس سے بگڑ گیا۔ میں نے خود نگاہیں پھیر لیں۔ دوسری مہ جبین کے تیرِ محبت کا گھائل ہو گیا ؎

مر جائیے کسی سے پر الفت نہ کیجیے

جی دیجیے تو دیجیے پر دل نہ دیجیے

منشی السلطان بہادر کو حکم دے دیا ہے کہ عبد القادر جس دن محلات کو روپیہ پیش کرے اس یوم تمھارے نام ہنڈی بھیج دے۔ حاجی خدا بخش لکھنؤ گیا ہے وہیں ہنڈی سِکار دے گا۔ دعا کرو جامع المتفرقین ہمیں اس عذاب سے نکالے، مریضانِ فراق کو شربتِ وصال سے سنبھالے۔

راقم جان عالم

مرقوم دوازدہ شوال سنہ 1276ھ



بنام جانِ عالم

جرعہ چشان ساغر عنایت و سر خوشانِ بادۂ مروت، مخمورۂ بادۂ حسن و خوبی، سرشار میخانۂ عاشقی و محبوبی زاد حسنہ و جمالہ!

مشہور ہیں دلوں کی مرے بے قراریاں

جاتی ہیں لامکاں دل شب کی زاریاں

الفت نامہ بدست منشی عبد القادر آیا، مرے لیے خوب ہی قربت کا پیغام لایا۔ پاک پروردگار جانِ عالم کو صدہا سال سلامت رکھے، خدا وہ دن لائے سوختہ بخت فرقت زدہ وصلت کے مزے چکھے۔ ہجر و مہجوری کے دن تمام ہوں، پھر نئے سر سے عیش و عشرت کے ایام ہوں۔ یہاں تو دن آہ و زاری میں گذرتا ہے، شب کیا آتی ہے رنج و الم میں وقت بسر ہوتا ہے ؎

بہر بوے پیرہن چشم تمنا شد سفید

آخرش اے ماہ نو! یک رہ نظر کن سوے ما

نواب امیر محل

مخاطب خورشید لقا



مودت نامہ بنام جانِ عالم

مہر تمثال، یوسف جمال، داؤد الحان، سلیمان زمان جانِ عالم خلد اللہ ملکہ و سلطنتہ!

ستم رسیدۂ مہاجرت، آفت رسیدۂ مفارقت بدر عالم، بعد عالم عالم ارادت و نیاز و جہان تمناے دولتِ مواصلت مسرت آغاز کے ملتمس یہ ہے کہ نالۂ اعطاف نظام، افتخار انضمام، مملوے شکوہ و شکایت و متضمن ارشاد و ہدایت نسبت اس بیمار زار اسیر شکنجۂ عجز و اضطرار، ورود مسعود سے عزت افزا و مسرت پیرا ہوا۔ اس عنایت پر جانفشانی، حیات جاودانی اور محو شیفتہ نوازی ہونا سرمایۂ انبساطِ روحانی ہے۔ جس خداے عز و جل نے مجھ کو شیداے جمال جہاں آرا کیا، اسی کو گواہ کرتی ہوں کہ رات دن تمھارے درد فراق سے سواے گریہ و سوز مشغلہ نہیں رکھتی ہوں اور سب ساتھی اور سنگت والیوں سے کنارے بسر کرتی ہوں اور خداوند حقیقی سے جو چارہ گرِ بیچارگاں ہے بہ ہزار زبان دعا مانگتی ہوں کہ جان عالم کو باحشمت و اقبال و سلطنت و اجلال زینت افزاے تخت و تاج دیکھوں۔ ایک تصنیفِ نو غزل بھی ہم رشتۂ نامہ ہے ؎

شکل دکھلاؤ بس اب بہرِ پیمبر اختر!

ہوں رنجِ جدائی سے مکدر اختر!

رات دن تیرے تصور میں بسر کرتی ہوں

اس دلِ زار کو سمجھاؤں میں کیونکر اختر!

چُھٹ گیا آب و خورش صدمۂ ہجراں سے مرا

کیا کہوں تجھ سے کہ جیتی ہوں میں کیوں کر اختر!

تجھ سلیمانِ جہاں سے جو محبت ہے مجھے

طائرِ دل کو بناتی ہوں کبوتر اختر!

سیدھے ہو کر چمنِ دہر میں با رنج و الم

یاد کرتے ہیں تجھے سرو صنوبر اختر!

سانپ سے سینۂ مجروح پہ لہراتے ہیں

یاد آتی ہیں جو زلفیں تری یکسر اختر!

ناتوانی نے کیا جسم کو ایسا لاغر

ضعف سے آتے ہیں ہر گام پہ چکر اختر!

بدرِ عالم یہی رکھتی ہے سدا وردِ زبان

نورِ دیدار سے کر دل کو منور اختر!



(نوٹ: بیگمات اودھ کے خطوط پر جناب سید تمکین کاظمی صاحب کے دو مضمون نظر سے گذرے، اس سے بھی اس مجموعہ میں مدد لی ہے جس کا ذکر ضروری ہے۔)





مودت نامہ دوم بنام جانِ عالم

جانِ عالم ہمارے اختر پیارے!

بدر عالم تمھارے عجب صدمہ میں گرفتار ہے، درد دوری سے بے قرار ہے۔ حال مختصر اگرچہ سلسلۂ نظم میں موزوں کیا ہے، لیکن کچھ نہیں لکھا گیا ہے۔ دل کی کیفیت بیان میں نہیں آتی ہے۔ جو حقیقت گذرتی ہے نظم و نثر میں کسی طرح نہیں سماتی ہے۔ مسیحا سے دوری ہے مریضِ محبت کی جہاں سے رخصت ضروری ہے۔ زندگی کا سہارا اب فقط خط تمھارا ہے۔ للہ ہاتھ جوڑتی ہوں منتیں کرتی ہوں، جان عالم! ادھر دیکھو ہماری طرف منہ پھیرو۔ سنتے ہو خط جلدی جلدی لکھا کرو۔ اچھے جان عالم! ہماری طرف سے غافل نہ ہو۔ نہیں تو ہم سچ کہتے ہیں مر جائیں گے، جہاں سے گزر جائیں گے۔ کوئی مصیبت اٹھ نہیں رہی ہے جو ہم پر نہیں پڑی ہے۔ اب ہم پر رحم کا مقام ہے، دردِ دوری سے ہمارا کام تمام ہے۔ زیادہ سواے آرزوے وصل خطوط کے کیا لکھیں، حالِ زار اپنا کہاں تک کہیں۔ فقط

11 ذی قعدہ سنہ 1275ھ

مرقومہ بدر عالم



بنام نواب بدر عالم صاحبہ

کچھ حسن بھی رکھتے ہو اگر عشق فزوں ہو

موجود ہے اخترؔ سا خریدار تمھارا

شعلۂ برق دوری، نائرہ نار مہجوری، آئینہ سکندر حیراں، صحیفۂ حسنِ دلبراں! آتشِ حسن دوبالا ہو جیو۔ بدر عالم! تیری تصویر خیالی کبھو متصور ہوتی ہے، دل بے چین ہو جاتا ہے۔ پہروں باتیں یاد آتی ہیں، دم الٹ جاتا ہے ؎

بر میں دلدار ہے اور پیار سے شرماتا ہے

آج ہم محوِ تصور ہیں مزہ آتا ہے

تقدیر نے یہ ایامِ شب ہجر دکھائے۔ آئینۂ رخ میں جو حیرانی ہے وہ کہہ سکتا ہوں۔ دیوانوں کی طرح ہر ایک کا منہ تکتا ہوں۔ افسانۂ رنج و فراق ہوں۔ اب تو اپنا جینا مجھ کو شاق ہے۔ دل بہلانے کو آپ بیتی میں کچھ فکر کر لیا کرتا ہوں۔ پھر کسی کی یاد اٹھ آتی ہے، سر دھننے لگ جاتا ہوں۔ غزل تصنیف نو ارسال ہے، تری چاہت کا اس میں پورا حال ہے ؎

دل جس کو ہمارا ڈھونڈتا ہے

اے چراغ! کدھر وہ مہ لقا ہے

ہم غم میں ہیں جس کی جان دیتے

پروا نہیں اس کو آخر ذرا ہے

روٹھیں ہیں جو آپ مجھ سے روٹھیں

بندے کا بھی اے صنم! خدا ہے

اے چرخ! ہماری کیا ہے تقصیر

کیوں ہم سے وہ مہ لقا خفا ہے

معشوق تمام بے وفا ہیں

عاشق کے سرشت میں وفا ہے

ہم جان دیں اور تم نہ پوچھو

پیارے یہی عشق کی جزا ہے

پریاں ہوتی ہیں سن کے تسخیر

اخترؔ کا کلام دل ربا ہے

جان عالم اخترؔ





(جواب)

بنام جانِ عالم مودت نامۂ سوم

اختر پیارے میں صدقے تمھارے! ہمیشہ شاد رہو، دائماً آباد رہو۔ خدا تم کو قید سے نجات دے، مجھ کو آبِ حیات دے۔ وہ دن آئے کہ تم یہاں آؤ پیاری پیاری صورت مجھ کو دکھاؤ۔ تم کو پاؤں مرتی ہوں جی جاؤں۔ جب سے یہ غزل آئی مرے دل مضطر کو کل آئی۔ سبحان اللہ کیا فصاحت ہے، ما شاء اللہ کیا بلاغت ہے۔ نظیریؔ تمھارے بے نظیری کا مقر ہے۔ ظہوریؔ کے اظہار حال سے یہ ظاہر ہے۔ جامیؔ تمھارے جام بادۂ شاعری سے مدہوش ہے۔ نظامیؔ تمھارے کلام معجز نظام کا حلقہ بگوش ہے۔ انوریؔ تمھاری روشن بیانی کا قائل ہے۔ فرید الدین عطارؔ نسخۂ صحت کا تم سے سائل ہے۔ عرفیؔ شرعاً اور عرفاً تمھارا مدح خواں ہے۔ خاقانیؔ تم کو خاقان اقلیم سخن جان کر قربان ہے۔ اہلیؔ اگر دعویٰ کرے تو سراپا اس کی نا اہلی ہے۔ صائبؔ اگر قائل نہیں تو راے صائب نہیں بلکہ بڑا جہلی ہے۔ حسان بن ثابت پر ثابت اور عیاں ہے۔ ہلالیؔ فرط غیرت سے سر بگریباں ہے۔ مرزا رئیس واقف خوب واقف ہے۔ سلمان ساوجی سلیمانِ روح سخن جان کر تمھارا واصف ہے۔ شمس الدین فقیر تمھارے باب ابیات کا گدا ہے۔ کلیمؔ کو کیا کلام ہے بلکہ تمھارے کلام کا طالب سدا ہے۔ فردوسیؔ اور سعدیؔ ہر ایک تمھارے گلستان سخن کا گل چیں ہے۔ بیدلؔ بے دل، حزینِ حزیں کوئی تمھارا ثانی نہیں ہے۔ ہر شب ماہ کامل بایں کمال نظم ثریا کو دکھاتا ہے۔ ہر صبح پیر فلک بایں کہنہ سالی مطلع آفتاب کو بامید اصلاح لاتا ہے۔ ہر بیت ایک مثنوی، ہر شعر ایک دیوان ہے بلکہ مثنوی صدقے دیوان قربان ہے۔ یہ بحر رمل مسدس مقصور شش جہت میں لاجواب ہے۔ ہر مضمون اس بحر میں گوہر نایاب ہے۔ سر مطلع تکرار لفظ بدر عالم نے قند مکرر کا مزہ دیا، فصاحت کا دریا بہا دیا ؎

یا الہیٰ وصلِ اختر ہو نصیب

ہو پذیر اب دعاے عاشقان

ہو کہیں یوسف کو زنداں سے نجات

آرزومندوں کا دل ہو شادماں

بدر عالم سے نہ ہونا بے خبر

اے مرے اختر، مرے بخت جواں!

9 ذی الحجہ سنہ 1275ھ

بدر عالم



مودت نامۂ چہارم بنام جانِ عالم

اختر جانی زاد اللہ محبتہ بعون اللہ سبحانہ تعالیٰ!

بَیَوم خامس شہر ذی الحجہ سنہ 1275ھ مژدۂ صحت مزاج عیسیٰ لا علاج نامۂ اعلیٰ صحیفۂ والا آیا۔ اعجاز مسیحائی دکھلایا۔ ایک جوڑا جہانگیری مرصع الماس فرحت اساس کی آمد کا مژدہ پایا۔ بن دیکھے بے پہنے دل نے مزا اٹھایا۔ الحق، سوا تمھارے یہاں کون ہے جو اس از خود فراموش کو یاد کرے اور ایسے ایسے تحائف بھیج کر پھر اس اجڑی ہوئی بستی کو آباد کرے۔ واللہ ایک جہانگیری پر کیا ہے، میں نے کل زیورات و اسباب قدیمی سے صبر کیا۔ باغیوں اور ظالموں نیگ لگایا۔ تمھاری سلامتی کی دعا لیل و نہار ہے۔ یہی اب زیور اور سنگھار ہے۔ خدا تم جہانگیر ثانی کو آباد رکھے، خرم و شاد رکھے۔ ہر چند کہ اس مہجور کے پاس اب کچھ نہیں ہے، مگر تم سلامت رہو تو سب کچھ ہے۔ اور تم نے جو لکھا ہے صندلی کلائیوں میں لہراوٹ ان کی مبارک ہو شاخِ گلاب میں سجاوٹ کی چمک ہو۔ سنو جانِ عالم! بغیر تمھارے ان صندلی کلائیوں میں جہانگیریوں کا نقشہ یہ ہے کہ گویا شاخِ نخلِ صندل میں مارِ پیچاں لپٹا ہے۔ ان دنوں خلش خارِ الم شاخِ گلاب کو پژمردہ کیا ہے۔ طائرِ دل کو مانند عندلیب نالاں کے افسردہ کیا ہے۔ آج کل روپیہ کا بڑا توڑا تھا، نہ بہت تھا نہ تھوڑا تھا۔ تم نے ہزار روپیہ بھجوائے، سنا تو ہے آئے مگر میں نے ابھی نہیں پائے۔ جس وقت پاؤں گی رسید بھجوا دوں گی۔ خدا تعالیٰ اب تم کو جلد لائے اور جلوہ جمال جہاں آرا ہم کو دکھلائے۔ واللہ اب تاب مفارقت نہیں ہے۔ ضبط کی طاقت نہیں ہے۔ زیادہ اشتیاق، فقط

بدر عالم



غزل

شکل اپنی دکھاؤ جانِ عالم

بس اب نہ ستاؤ جانِ عالم

مجھ زار حزیں کے جان و دل پر

صدمہ ہے اب آؤ جان عالم

دل پُھنکتا ہے آتش الم سے

تم آ کے بجھاؤ جانِ عالم

راحت ہو مری تمھیں جو منظور

مجھ کو بھی بلاؤ جانِ عالم

فرقت کے الم سے رو رہی ہوں

اب تم نہ رلاؤ جانِ عالم

تم مری محبت و ولا کو

دل سے نہ بھلاؤ جان عالم

غم کھاتی ہوں، خونِ دل پیتی ہوں

یہ شغل چھڑاؤ جانِ عالم

ہر دم ہے یہ ذکر بدرِ عالم

للہ اب آؤ جان عالم





(ادبی دنیا صفحہ 198 سالنامہ سنہ 1935ء)





منظوم خط بنام جانِ عالم



پس از شوق وصال جانِ عالم

بیان کرتی ہوں اپنا حال پُر غم

تپِ فرقت سے یہ بے تاب ہے دل

مثالِ پارہ سیماب ہے دل

خداوند کبھی پھر وصل ہوگا

مبدل وصل کیا یہ فصل ہوگا

کبھی دل محو زیب و زین ہوگا

کبھی اس جان کو پھر چین ہوگا

کبھی آئیں گے یاں سلطان عالم

میں پھر دیکھوں گی شکلِ جانِ عالم

کبھی یہ دور دل کا داغ ہوگا

میسر پھر وہ قیصر باغ ہوگا

کبھی پھر عیش کا سامان ہوگا

کبھی پورا میرا ارمان ہوگا

کبھی نکلے گی میرے دل کی حسرت

خوشی کی پھر کبھی دیکھوں گی صورت

ستاتا ہے بہت دردِ جدائی

دوہائی ہے خداوندا دوہائی

اسی فقرے کے اوپر خاتمہ ہے

کہ خط کی بدرِ عالم راقمہ ہے



مودت نامہ منظوم بنام جانِ عالم



دواے درد منداں جانِ عالم

مسیحاے مریضاں جانِ عالم

قیامت تک رکھے تم کو سلامت

خداے پاک با اقبال و شوکت

پس ذوق وصال و شوق دیدار

میں اپنا حال یوں کرتی ہوں اظہار

جدا تم سے ہوئی ہوں جس گھڑی سے

بہ تنگ آئی ہوں اپنی زندگی سے

چھڑایا ہے فلک نے تم کو جب سے

گھلی جاتی ہوں میں رنج و تعب سے

ستاتا ہے مجھے دردِ جدائی

بلا یہ کیسی مرے سر پہ آئی

کہوں کیا اپنے دل کی بے قراری

ہوئی ہوں جان سے میں اپنی عاری

تمھاری ہر گھڑی ہے یادگاری

ہر اک دم آنکھوں سے آنسو ہیں جاری

کُھلے رہتے ہیں مرے دیدۂ تر

نہیں آتی ہے مجھ کو نیند دم بھر

تڑپتی ہوں سحر سے لے کے تا شام

نہیں ملتا کسی دم مجھ کو آرام

میرا دل خانۂ تن میں ہے بے تاب

خدا آگاہ ہے مانندِ سیماب

تری فرقت میں فرشِ رنج و غم پر

پڑی رہتی ہوں ہر دم تانے چادر

ہوئی ہے مجھ کو صحبت رنج و غم سے

بہا کرتے ہیں آنسو چشمِ نم سے

ہوئی ہوں یاں تلک میں زار و لاغر

ہوا ہے جسم شکلِ تار بستر

ہوا ہے بار دوش اپنا مجھے سر

ہوئی ہے اب تو اپنی جان دوبھر

یہاں تک جوش سودے کی ہے کثرت

کہ اپنے سایہ سے آتی ہے وحشت

ہوا ہے گھر مجھے زنداں سے بدتر

دہانِ مار ہے گھر کا مجھے در

زیادہ دم بدم ہوتا ہے سودا

نہیں مجھ کو خبر کچھ اپنی اصلا

بلاے ہجر میں جب سے پھنسی ہوں

میں انگاروں کے اوپر لوٹتی ہوں

پڑی ہوں نیم جاں فرقت میں تیری

ہوئی ہوں ناتواں فرقت میں تیری

تڑپتا ہے مرے پہلو میں یہ دل

ہر اِک ساعت برنگ مرغِ بسمل

تپِ فرقت ستاتی ہے بہت اب

نہیں ملتی مجھے راحت کسی ڈھب

الجھتا ہے مرا دم خود بخود اب

ملائے گا مجھے تم سے خدا کب

دعا ہے ہر گھڑی مری خدا سے

تمھاری شکل پھر مجھ کو دکھا دے

ہوئی ہے تم سے جس دن سے جدائی

عدوے جان ہوئی ساری خدائی

نہیں لگتا کسی جا پر مرا جی

تڑپتی پھرتی ہوں مانندِ وحشی

خدا آگاہ ہے یہ بدرِ عالم

تمھاری یاد میں رہتی ہے ہر دم

ہوئی شدت جنوں کی جب کہ مجھ کو

پڑھا تب اس غزل کو میں نے رو رو



غزل



خدا لائے یہاں سلطانِ عالم!

تمھیں با عز و شاں سلطانِ عالم!

تمھاری یاد کرتے ہیں شب و روز

حسینانِ جہاں سلطانِ عالم!

کرے سر سبز باغِ آرزو کو

بہارِ جاوداں سلطانِ عالم!

ہر اک گل رو یہی کہتے ہیں ہر دم

گُلِ باغِ جہاں سلطانِ عالم!

پڑی ہوں بسترِ غم پر یہاں میں

گئے جب سے وہاں سلطانِ عالم!

تمھاری بزمِ عشرت یاد کر کے

ہوں روتی شمع ساں سلطانِ عالم!

غم و اندوہ و رنج و درد و صدمہ

مرے ہیں مہرباں سلطانِ عالم!

تمھارے ہجر میں زار و لاغر

پڑی ہوں نیم جاں سلطانِ عالم!

یہ کیسی سر پہ مرے آ گئی ہے

بلا اک ناگہاں سلطانِ عالم!

ہیں جلتے آتشِ فرقت سے ہر دم

ہمارے استخواں سلطانِ عالم!

کہوں کس سے حالِ دل کو اپنے

نہیں کوئی یہاں سلطانِ عالم!

نہ روؤں کس طرح سے میں شب و روز

ہیں آنکھوں سے نہاں سلطانِ عالم!

حباب آسا ہوں اس بحرِ جہاں میں

کوئی دم مہماں سلطانِ عالم!

کیا غربال تیرِ ہجر نے دل

مرے ابرو کماں سلطانِ عالم!

مریضِ ہجر کی اب کوئی دم میں

نکلتی ہے یہ جاں سلطانِ عالم!

اب اپنی بدرِ عالم کو یہاں سے

بلا لیجے وہاں سلطانِ عالم!

بدر عالم

جمادی الآخر سنہ 1275ھ



بنام نواب نشاط محل صاحبہ

روحِ رواں، سردار محبوبہ زماں، گل باغ شرم و حیا، گلدستۂ بزمِ خفا، خوش رو خوش خو گل اندام باعث صبر ازام ہمیشہ خوش رہو ؎

سب گئے ہوش و صبر و تاب و تواں

دل سے اک داغ ہی جدا نہ ہوا

تمھارے برادر مکرم ذوالفقار الدولہ میر محمد سجاد کے معرفت شکوہ نامہ آیا، پچھلی یاد آتے ہی آنکھوں سے لگایا۔ گھبراؤ نہیں خدا مسبب الاسباب ہے کوئی صورت نکالے۔ بچھڑے ہوئے پھر وہ نئے سرے سے ملا دے۔ تمھاری دلی حالت سے آگاہ ہوا، اب تم سے اور چاہ ہوا۔ یہ نئی غزل بھیجتا ہوں ؎

کانوں کو پھر خوش آتی ہے صورت ہزار کچھ

آتی چلی ہے گلشن دل میں بہار کچھ

مطرب کی صورت سے دلِ ناساز ہے فگار

باقی پہر پھر گلے میں گریباں کے تار کچھ

پھر آمدِ بہار میں کٹتے ہیں پر مرے

بے رنگ ہو گیا چمنِ روزگار کچھ

ساقی نے اپنے دور میں محروم جو رکھا

روشن ہے اس کے نور سے اب اس میں نار کچھ

دار و مدار دارِ فنا میں خدا پہ ہے

اخترؔ بتوں کا عشق نہیں پائیدار کچھ

یہاں کا وہی حال ہے، مرے دل پہ بڑا ملال ہے ؎

سخت مشکل ہے کہ ہر بات کنایہ سمجھو

ہے زباں میری بھی، گفتار کروں یا نہ کروں

منشی السلطان بہادر کو ہدایت کر دی ہے وہ ہمارا محبت نامہ معہ رقم تمھارے تک پہنچا دے۔ فرنگیوں کی بے اعتنائی حد سے زیادہ ہے۔ مرے حالات جو صاحبات محل تک پہنچے ہوں گے، مصائب کی تفصیل ان سے ہویدا ہے ؎

حیف سمجھا ہے نہ وہ قاتل نادان ورنہ

بے گنہ مارنے کے قابل یہ گنہ گار نہ تھا

راقم جانِ عالم اختر



نامۂ منظوم بنام جانِ عالم



اے سرور مے ایاغ مراد

اب بخش نہال باغ مراد

افسرِ افسرانِ کشورِ حُسن

خسروِ خسروانِ کشورِ حُسن

نگہت افزاے گیسوے قدرت

جوہر تیغِ ابروے قدرت

سپہر آرزو منور باد

ظلِ الطاف سایہ گسترد باد

بعد اظہار شوقِ بوس کنار

شرح کرتی ہوں حالت دل زار

لاکھ میں آپ کو سنبھالتی ہوں

ہر طرح دردِ ہجر پالتی ہوں

خود بخود دم مگر نکلتا ہے

دل کو جیسے کوئی مسلتا ہے

سوزِ غم سے ہوا ہے دل تفتہ

رفتہ رفتہ ہو از خود رفتہ

گاہ اٹھتی ہوں، گاہ گرتی ہوں

چاہ میں باولی سی پھرتی ہوں

ہاے تقدیر کا پڑا یہ بجوگ

جان کو لگ گیا کہاں کا روگ

لالہ باغ میں تو چار ہیں داغ

ایک دل میں مرے ہزار ہیں داغ

دن گذر کر جو شام ہوتی ہے

ایک منزل تمام ہوتی ہے

کشورِ دل خراب ہے پیارے!

رنج اب بے حساب ہے پیارے!

مدتوں سے مدام رونا ہے

صبح رونا ہے شام رونا ہے

اب یہ چوتھا برس ہوا ہے شروع

مہر وصل نے کیا نہ طلوع

ایک دو میں سے حال ہو جائے

وصل ہو یا وصال ہو جائے

تم سے یہ التجا ہے جانِ جہاں

کوئی صورت تو زیست کی ہو عیاں

واقعی کم ملال ہوتا ہے

خط بھی نصف الوصال ہوتا ہے

جانِ عالم! پئے رحیم و رؤوف

آمد و شد نہ خط کی ہو موقوف

ہجر سے جان دردناک ہے اب

زندگی برسبیل ڈاک ہے اب

دردِ دل جس قدر لکھوں کم ہے

راقمہ خط کی بدر عالم ہے

بدر عالم

3 محرم سنہ 1276ھ



منظوم رقعہ بنام جانِ عالم



ہمارے قدرداں سلطانِ عالم

سلیمانِ زماں سلطانِ عالم

معدنِ الفت مسیحاے زماں

جانِ عالم جانِ عالم جانِ عالم

سپہر مہر و الفت کے ستارے

تم بھی ہو اختر طالع ہمارے

میرے مالک میرے سلطان غازی

میرے وارث خداوند مجازی

تا صد و سی سال تم قائم رہو

شعر حق حامی رہیں اور مہرباں

داستانِ شوق کیا کیجیے رقم

مختصر بھی ہو نہیں سکتی بیاں

ہے تپِ فرقت سے بھڑکی دل کی آگ

آہ کا سینہ سے اٹھتا ہے دھواں

کس قدر دشوار ہے آزارِ ہجر

قرض کا بھی سر پہ ہے بارِ گراں

تین ہزار اور ایک سو کی قرض دار

ہو گئی ہوں ان دنوں اے جانِ جاں

اطلاعاً کر دیا افشاے حال

ورنہ تھا یہ راز سینہ میں نہاں

رقیمۂ بدر عالم



بنام نواب بدر عالم صاحبہ



انیس باوفا، متصف با صدق و صفا! آتشِ حسن دوبالا ہو جیو ؎

پڑا ہے پاؤں میں اب سلسلہ محبت کا

بُرا ہمارا ہوا ہو بھلا محبت کا

تیری صورت کبھی جو یاد آتی ہے، دم الٹتا ہے سینہ میں سانس نہیں سماتی ہے ؎

گو نالہ نارسا ہو نہ ہو آہ میں اثر

میں نے تو درگذر نہ کی جو مجھ سے ہو سکا

پچھلی کہانی کسی معشوقۂ طناز کی یاد آ جاتی ہے، ساعتوں کروٹیں بدلتا رہتا ہوں۔ نیند بالکل اُچٹ جاتی ہے۔ میں نے ایسے حال میں کہا ہے ؎

پریاں تو اڑ گئیں دل دیوانہ رہ گیا

شعلہ پتنگ ہو گیا پروانہ رہ گیا

عرصہ بعد سرفراز بیگم کا نامۂ اشتیاقیہ آیا، گذرا ہوا فسانہ یاد آیا۔ نواب خاص محل اور تمھارے سنانے کو اس بے وفا کی کج ادائی اور اپنی قسمت کی نارسائی کیا بیان کروں۔ سرفراز پری المخاطب بہ نواب سرفراز بیگم صاحبہ مرے گھر میں جیسے پڑی تھی دادِ عیش دے رہی تھی، پر اس سودے کا کیا علاج تھا اور ہر لحظہ ناوک مژہ اس کا مرے دل کے پار ہوتا تھا۔ اس کی ایک ایک ادا پر ہزار ہزار سنگ رنج و غم اپنے سینہ بے کینہ پر رکھا تھا۔ اس کی دل ربائیوں کا نظارہ کیا کرتا۔ جب وہ سوتی تو میں تمام رات جاگتا اور اس کے حسن جہاں تاب کا نظارہ کیا کرتا۔ اس کے عشق میں عجب حال تھا ؎

کہنے سے میرؔ اور بھی ہوتا ہے مضطرب

سمجھاؤں کب تک اس دل خانہ خراب کو

الغرض اس نے ہزاروں مکر و فریب سے مجھے اپنا گرویدہ کر لیا تھا۔ وہ دن میں کئی کئی لباس رنگ برنگی بدلتی۔ ہر وقت حنا کا عطر لگائے رہتی۔ دندان گوہر آبدار پر مسّی ملی رہتی۔ ہونٹوں پر ہر وقت پانوں کی لالی۔ اس پر میں نے کہا ؎

لکھوٹا مسی پہ اس نے غضب جمایا ہے

اٹھا ہے آتشِ بے داد سے دھواں کیا خوب

ماتھے پر افشاں چنی اور بالوں کو خوبصورتی کے ساتھ بنائے رکھتی۔ چوٹی میں غضب کا موباف ہوتا۔ ہاتھوں میں مہندی ہمیشہ لگی رہتی۔ چھوٹی چھوٹی انگلیوں میں چھلّے آرسی کا بڑا شوق۔ غرض کہ ہزاروں اداؤں سے میرا دل لبھاتی۔ میں بے تکلف اس کے بادۂ الفت سے سرشار رہتا اور ہر وقت اس کا ہی طلب گار رہتا۔ جب کبھی وہ مجھ کو اشارے سے بلاتی، مری جان میں جان آ جاتی۔ اس سے کہتا ؎

شمع عریاں کی طرح دل نہ جلاؤ صاحب!

اپنے جامہ سے نہ باہر ہوئے جاؤ صاحب!

مری اس خود فراموشی نے سب صاحباتِ محل کو مجھ سے کشیدہ کر رکھا تھا۔ ایک روز نجم النسا، نواب خُرد محل اور نواب نشاط محل نے بالاتفاق مجھے علاحدہ شہنشاہ منزل کے ایک گوشہ میں بلایا اور منہ بنا کر ذریعۂ نشاط محل کہلایا۔ میں نے پوچھا خیر تو ہے مدعا کیا ہے۔ آخر بہ ہزار رقم سرفراز پری پر عاشق ہونے کی داستان سنائی۔ عجیب عجیب مکر گانٹھا۔ ایک ذکر کرتی، دوسری اپنا سر افسوس سے ہلاتی، تیسری حسرت سے زانوں پر ہاتھ مارتی۔ کبھی ہونٹوں پر زبان پھیرتی، کبھی دستِ تاسف ملتی۔ یہ حال دیکھا نہ گیا۔ بے اختیار ہو کر پوچھا: "خدا و رسول کا واسطہ تم جو کہنا چاہتی ہو اصلی بات جلد کہو تاکہ میرے دل کا اختلاج رفع ہو"۔ ہرچند تفحص کرتا مگر ان کی طرف سے تکلف ہوتا۔ آخرش نجم النسا نے بات کاٹ کے کہا: اے سرتاج پیا جان عالم! کہنا یہ ہے۔ سرفراز پری کی چاہت و محبت میں اس قدر اپنا حال تباہ کر لیا ہے لیکن اس کی عجیب عجیب باتیں گوش زد ہوئی ہیں۔ میں نے تکدر خاطر ہو کر کہا: کچھ تو کہو مجھے خفقان ہوتا ہے اور جی کو خلجان ہوتا ہے۔ ہم زبان ہو کر عرض کرنے لگیں: جان عالم! آپ پر ہم سب قربان و نثار ہوں۔ تمام عورتوں میں بدی کی خو ہوتی ہے۔ ان کے آب و گِل میں حد درجہ بے مروتی ہے۔ اگر ملالِ خاطر نہ ہو تو یہ عرض کریں۔ سرفراز پری بظاہر آپ سے تپاک رکھتی ہے، باطن میں ذرا خیال نہیں۔ اس کے فراق میں نصیب دشمناں کچھ ہی حال ہو اس کو ذرہ ملال نہیں۔ سرفراز کا نام سنتے ہی مرا رنگ اڑ گیا۔ چہرہ فق ہو گیا۔ دونوں ہاتھوں سے دل پکڑ کر رہ گیا۔ قلب پر ایسی چوٹ پڑی کہ بے اختیار منہ سے آہ نکل گئی۔ اس دن ٹالا۔ دوسرے روز جملہ پریوں کو جمع کر کے سب کے سامنے ہاتھ باندھ کر میں نے کہا: اے صاحبو! میں نے تم لوگوں میں سے کسی کو جبراً اپنے گھر میں بٹھایا ہے۔ کوئی مجھ پر عاشق ہو کر آیا ہے کوئی خواب میں دیکھ کر فدا ہوا ہے۔ کوئی بازار میں دیکھ کر فریفتہ ہوا ہے۔ کوئی گھر میں خود شیدا ہوا ہے۔ کسی نے ناچ میں دل دیا ہے۔ کسی نے گانے میں طوقِ الفت گلوگیر کیا ہے۔ ایسا نہ ہو مجھے حسرت و افسوس کا شکار بننا پڑے۔ پھر خوب سیلِ اشک آنکھوں سے جاری ہونے لگے۔ سرفراز پری سے مخاطب ہو کر کہا: تجھ کو خدا کا واسطہ ہے، مری تمام راحتیں و آرام ترے ہاتھ میں ہیں۔ مری ہمدردیاں اور نوازشات ترے ساتھ ہیں۔ ظالم اظلم تمھیں کب قید کیا۔ جس وقت جس بات کو تو نے چاہا اسی وقت سر انجام اور تری مرضی کا عہد کیا ؎

جگرِ عاشق دل سوز جلاتے نہ چلو

شمع کو محفلِ عشرت میں رُلاتے نہ چلو

بے تامل مری اجازت سے ہر کام کر سکتی ہو اور ہر آرزو پوری کرنے کو دل و جان سے موجود ہوں۔ جو خواہش ہو بیان کرو۔ سر آنکھوں سے بجا لانے کو بہر نوع تیار اور موجود ہوں۔ مگر للہ ایسی باتیں نہ کرو جس کا انجام نمک حرامی کی طرف منتقل ہو۔ میں ایسا کام کرنے پر مجبور نہ ہوں جو ناقابل ہو۔ اس نے اطمینانِ قلب کے ساتھ نہایت شدید و غلیظ قسمیں کھائیں کہ جانِ عالم! مری آنکھیں پھوٹیں اگر سوا تمھارے خوشی ہو۔ مجھ کو کوئی اور غرض نہیں۔ اس کے بعد حور پری اور دیگر نے بلکہ سب نے ہی زیادہ سے زیادہ قسمیں کھائیں۔ جانِ عالم کی پیاری، دل سے دلاری! اس وقت کا کیا حال پوچھتی ہو۔ باتیں سنتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا۔ آخر مرے غم و رنج کی آگ تو کچھ فرو ہوئی لیکن تحقیق میں ضرور لگا رہا مگر وہ جب کبھی نظر پڑی دل بے قابو ہو گیا ؎

جب کہ آنکھیں دو چار ہوتی ہیں

برچھیاں دل کے پار ہوتی ہیں

ایک دن تنہائی میں سرفراز پری سے جو باتیں ہوئیں، اس نے مخبر کو پوچھا۔ میں نے بسبب یک دلی بے تکلف ان صاحبوں کا نام بتا دیا۔ پھر تو آپس میں دشمنی کی بنا پڑ گئی۔ کٹی چھنی ہونے لگ گئی۔ مرتے دم تک ان میں دشمنی نہ گئی۔ آخر موافق ان کی عذر خواہی کے ان لوگوں کی تقصیر سے درگذرا۔ میرا سینہ سرفراز پری کے غم سے چونے کی بھٹی کے مانند ہو گیا تھا۔ ہر چند اس کی محبت روز بروز کم ہوتی جاتی تھی لیکن اس کے رشک کی آگ دن بدن بھڑکتی جاتی تھی۔ آخر ایک روز بہزار شکوہ و شکایت اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا: اے یار جانی، اے معشوق لاثانی! تو ہمیشہ مجھے مبتلاے آلام نہانی کرتی ہے۔ یہ کیا ضرور ہے کہ اپنے عشق میں میرا دل جلانا اور مجھ سے محبت نہ کرنا، یہ تو کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ تیری ان باتوں سے مجھے سخت صدمہ ہے۔ اس قدر بے وفائی کرنا چھوڑ دے اور اپنے کیے سے باز آ ؎

پھر وہی شمع ہو تم، پھر وہی پروانے ہم

پھر پری ہو وہی تم، پھر وہی دیوانے ہم

آخرش اس نے طریقہ بہتر اختیار کیا مگر دیگر پریوں نے اس کے عمل کو مکاری پر محمول رکھا۔ عزل حکومت کے بعد یہاں آ گیا۔ اس کی تحریر نے تمام شبہات رفع کر دیے۔ لگائی بجھائی نے مجھے برسوں پریشانی میں ڈالے رکھا۔ دل آرام! یہ کہانی سرفراز پری کی تھی جو تمھیں قلم بند کی۔ مرا ایک شعر اس زمانے کا ہے ؎

دار و مدار دارِ فنا میں خدا پر ہے

اخترؔ بتوں کا عشق نہیں پائیدار کچھ

جان عالم اختر



بنام جانِ عالم



طوطیِ رنگیں بیان، بلبل ہزار داستان، مرہم زخم درد الم جان عالم! ہمیشہ رہے محبت تمھاری۔ مدت مدید اور عرصہ بعید ہوا کہ تحریر تمھاری نہیں آئی، خبر خیریت کی نہیں پائی۔ ہم نے کئی خط تم کو بھجوائے۔ جواب ایک کا بھی نہ ملا، غنچۂ دل نسیمِ عشرت سے نہ کھلا۔ بیس روز گذرےکہ ایک خط منشی سرور کے ذریعہ ہم نے بھجوایا اس کا بھی جواب اب تک نہیں آیا ؎

معلوم نہیں یہ کیا سبب ہے

تشویش زیادہ مجھ کو اب ہے

میرا تو غیر حال ہے، تم کو تو کچھ نہیں خیال ہے۔ محبت میں تو یہ بات نہیں چاہیے، جہاں تک ہو سکے رسمِ الفت کو نبھائیے۔ میں یہ نہ جانتی تھی کہ وہاں جا کے تم مجھ کو فراموش کروگے اور غمِ ہجرت سے بے ہوش کرو گے۔ تم کو لازم تھا کہ ہر روز اشتیاق نامہ جات سے ہمارا دل شاد کرتے لیکن اب تو ہفتہ عشرہ میں بھی نہیں یاد کرتے ؎

نہیں آتا ہے اب قرار مجھے

ترے خط کا ہے انتظار مجھے

حال اپنا میں کیا کروں اظہار

بس ترا دھیان مجھ کو ہے ہر بار

دن کو رہتا ہے اضطراب مجھے

شب کو آتا نہیں ہے خواب مجھے

ہر گھڑی حال غیر ہے جانی

خاتمہ اب بخیر ہے جانی

گر رہے گا یہی تمھارا رنگ

اور ہو جائے گا ہمارا رنگ

(حضور السلطان نواب) امراؤ محل



بنام حضرت سلطان عالم شاہِ اودھ



مسند آراے محافل ولا، صدر نشین مجلس صدق و صفا، گوہر دریاے آشنائی، اختر آسمان دلربائی، سلیمان حشم، خسرو دیہم ادام اللہ شوکتہ!

تھی آرزو نہ قدموں سے تا مرگ ہوں جدا

پر کیا کروں نصیب نے تجھ سے چھڑا دیا

(عالمؔ)

مہر سپہر بے وفائی، بہت ہو چکی کج ادائی ؎

کیا جو قید سے تو نے مجھے رہا صیاد

بتا تو کون سی مجھ سے ہوئی خطا صیاد

(عالمؔ)

غیروں کا کیا گلہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنا ہی طالع کجی پر آ رہا ہے۔ نہ کوئی مونس ہے نہ رفیق ہے نہ عزیز ہے۔ وطنِ غیر میں بھی وہی اگلی سی نفرت آپ کو دل پذیر ہے۔ کبھی تو قریب ہوتے ہوئے صورت دکھا دیا کرو۔ اب مفارقت شاق ہے، سرکارِ عالم! آپ کے دیکھنے کا بے حد اشتیاق ہے ؎

پھر شوق سے حضور سنا لیتے گالیاں

ثابت کیا تو ہوتا ہمارے قصور کو

(عالمؔ)

مغلانی سے بار بار کہلایا مگر کوئی جواب نہیں آیا ؎

آنکھوں سے یمِ اشک سدا بہتے ہیں

کس سے کہیں دل پر جو الم سہتے ہیں

کرتے ہیں جلا جلا کے عاشق کو یہ خاک

ثابت کب قول پر حسین رہتے ہیں

یاد رخ گیسو میں سدا ہم نے بسر کی

رو رو کے کبھی شام کی اور گاہ سحر کی

(عالمؔ)

جواب کی طالب بادشاہ محل متخلص بہ عالم

نواب بادشاہ محل عالم بنت نواب علی تقی خاں بہادر

ابن شرف الدولہ بہادر



بنام حضرت جانِ عالم سلطانِ عالم بہادر

شاہِ مملکت خوبی، پشت و پناہِ ولایت مجنوں، انیس و ہمدم سلطانِ عالم ابقاکم اللہ تعالیٰ!

تارے گن گن کے سحر ہو گئی ہم کو عالمؔ

سرِ افلاک نظر آیا جو اختر میرا

امراؤ خانم مغلانی کے ہمراہ قلماقنیوں کے سر پر خوانِ طعام



(ملکہ مخدرۂ عظمیٰ نواب بادشاہ محل کے یہاں سے خوان طعام واجد علی شاہ کے لیے آتا۔ اس کا ذکر خود بھی اپنی مثنوی "حُزن اختر" میں کیا ہے ؎

محل خاص ہے جو مرا نیک نام

وہاں سے بھی آتا ہے خوانِ طعام

)





ارسال پیشِ حضور کیا تھا۔ اغلب ہے کہ شاہِ عالم، سرتاج عالم نے اس کو مرغوب طریق سے بھی پسندِ خاطر کیا ہو۔ برسہا برس ہو گئے چشمِ الطاف اس طرف نہ ہوئی۔ شیفتہ و خستہ زندہ درگور ہوئی ؎

نہ ہونا حکم سے باہر کبھی تا زیست اختر کے

ہمیشہ جادۂ طاعت پہ عالمؔ اپنا سر رکھنا

اکثر انیسوں نے مجھ سے کہا: اپنی مہ رخوں اور گل عذاروں کے درمیان میرا ذکر کبھی آیا گیا ہے، با دلِ نخواستہ اظہارِ خیال کیا گیا ہے ؎

خود ہوئے رسوا مجھے رسوا کیا

جس جگہ بیٹھے مرا چرچا کیا

سینہ داغِ الم سے تختۂ گلزار ہے، لب پہ نالے ہیں جوشِ جنوں کی بہار ہے۔ پیک اجل نے دلِ مجروح پر اور نمک مہجوری کا لگا دیا۔ حضرت کی چاہت نے دونوں جہاں سے مجھ کو تو برباد کیا ؎

حاصل نہیں کچھ اور سوا ایذا کے

پچھتائے گا دیکھنا جو شیدا ہوگا



گر مہر تری او بت پُر فن ہو جائے

موقوف ابھی فغان و شیون ہو جائے

عالمؔ کو غرض نہیں ہے کچھ عالم سے

تو دوست رہے زمانہ دشمن ہو جائے



سلطانِ عالم پر فدا

عالم



بنام جانِ عالم

سر آمد خسروانِ زمن، شیریں سخن، عنقاے اوج رعنائی، ہمایون طاؤس چمن زیبائی، دافع حزنِ دلِ رنجور، سراپا ابتہاج و سرور حضرت جان عالم نور اللہ وجہہ!

تقصیر نہ خوباں کی، نہ جلاد کا کچھ جرم

تھا دشمن جانی میرا اقرارِ محبت

پیا جانِ عالم لکھنؤ سے جب سے سدھارے، صاحبانِ محلات کے پاس پے بہ پے محبت نامے آئے۔ مگر ہمارے لیے ایک بھی پرزہ آپ کی سرکار میں نہ تھا۔ جھونٹوں بھی ہمیں پوچھا جاتا۔ یہاں اگلی باتیں یاد آ آ کے ستاتی ہیں۔ پچھلی عشرت کی راتیں مجھے ساعتوں رلاتی ہیں۔ حضور! حضرت باغ کبھی جانا ہوتا ہے اگلا سماں آنکھوں میں پھر جاتا ہے۔ پیا جان عالم! اپنے پاس ہی بلا لو اور گلے سے لگا لو۔ یہاں فرقت میں جان جاتی ہے، شبِ ہجر میں کاہے کو نیند آتی ہے ؎

مت پوچھ کس طرح سے کٹی رات ہجر کی

ہر نالہ مری جان کو تیغ کشیدہ تھا

جب تصویر خیالی سامنے آتی ہے دم الٹ جاتا ہے۔ پہروں مرے سینہ بے کینہ میں سانس نہیں سماتی ہے ؎

راہِ دردِ عشق میں روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

مہجور و مغموم زہرہ بیگم المخاطب انجمن السلطان

ذی الحجہ سنہ 1271ھ



شمع بزم خوبی، مہر تمثال محبوبی، خورشید طلعت، گل بوستان شجاعت، مسند آراے محافل ولا ادام اللہ شوکتہ!

لبریزِ شکوہ تھے ہم لیکن حضور ترے

کارِ شکایت اپنا گفتار تک نہ پہنچا

امتیاز بیگم کی زبانی کچھ حالات پریشانی گوش زد ہو کر سخت ملال ہوا۔ مرا بڑا برا حال ہوا۔ واقعات سے مطلع کرو، صدقہ جاؤں کبھی تو یاد کرو۔ آپ کی بدولت بہت آرام سے ہوں۔ پر آپ کے خیال سے تکدر اور مبتلاے آلام ہوں ؎

نہیں شکوہ مجھے کچھ بے وفائی کا تری ہرگز

گلہ تب ہو اگر تو نے کسی سے بھی نبھائی ہو

کنیز سردار پری



بنام جان عالم



اچھے مرے پیارے جان عالم

قربان تمھارے جان عالم

گل گلزار خوش بیانی، سرو جوئبار سحر بیانی، خوش نواے چمنستان، زمزمۂ سراے گلستان! گل مراد شگفتہ باد۔

گرفتار زندان فرقت و الم و یاس، مبتلاے رنج و غم و ہراس ؎

اس کے وصالِ ہجر میں یونہی گذر گئی

دیکھا تو ہنس دیا جو نہ دیکھا تو رو دیا

اب رنج و محن کا وفور ہے، کلیجہ میں ناسور ہے۔ آبلۂ دل پک رہا ہے، زخمِ جگر لپک رہا ہے ؎

کیا صورتیں بگڑی ہیں مشتاقوں کی ہجراں میں

اس چہرہ کو اے خالق! ایسا نہ بنانا تھا

اگر جلد بلاؤ گے تو جان بچ جائے گی ورنہ فریاد و فغاں سے اک قیامت مچ جائے گی ؎

عاشقی جی ہی لے گئی آخر

یہ بلا کوئی ناگہانی تھی

رقیمۂ نشاط محل ننھی بیگم



بنام جان عالم



سرتاج خوبرویاں، خورشید ماہرویاں، فروغ بدر منیر، مرے اختر بے نظیر! چہرۂ الفت با آب و تاب باد ؎

ہشیار کہ ہے راہ محبت کی خطرناک

مارے گئے ہیں لوگ بہت بے خبری سے

لکھنؤ پر خدائی قہر نمودار ہوا۔ ہم سب کا عجیب حال ہوا۔ آتش باری نے کی خانہ ویرانی، ہر کس تھا مبتلاے حیرانی۔ غیر جگہ کا رُخ کر کے وطن چھوڑا، با جبر و اکراہ گھر سے منہ موڑا۔ بحال تباہ خستہ و خراب کانپور پہنچے با دلِ مضطر و بے تاب۔ ناواقفوں نے از راہِ کرم بیٹھنے کو جگہ دی۔ میں نے اپنا قصۂ کلفت سنایا۔ ہر ایک کا جی بھر بھر آیا۔ جبکہ انھیں یہ معلوم ہوا کہ بادشاہ اودھ کی دیگر کنیزوں میں سے ایک کنیز ہونے کا شرف رکھتی ہوں، سب نے آنکھوں پر بٹھایا۔ گو آرام سے مقیم ہوں پر یاد آٹھوں پہر ستاتی ہے۔ آہِ سرد کھینچ کر طبیعت رہ جاتی ہے۔ بحال رنج و الم ہوں، مبتلاے غم ہوں۔ حضرت سرور نے کیا خوب مرے حسبِ حال کہا ہے ؎

عشرت کدے جہاں میں سینکڑوں ولے

اک دل ہمارا تھا کہ وہ ماتم سرا رہا

تاثیر آہ دیکھی نہ گریے میں کچھ اثر

ناحق میں اس امید پہ کرتا بُکا رہا

کیا دیکھتا ہے سینہ کو مرے تو اے سرورؔ!

جز یاد یار اس میں نہیں دوسرا رہا

حالات و واقعات سے آگاہی بخشیے اور اپنی رنج و مغموم پر نظرِ الطاف کیجیے۔

مہر النسا خانم



بنام نواب بدرِ عالم صاحبہ

گل عذار خوبی، سرتاج محبوبی، شیریں گفتار، حجت اطوار، نیک کردار نواب بدر عالم صاحبہ زید اللہ حسنہا و جمالہا!

تم بلبل گلشن سخن ہو

معنی کے چمن میں نغمہ زن ہو

پیشہ نہیں میرا شاعری کچھ

خط میں نہیں اس کا بیان اجی کچھ

کچھ شعر و سخن کا مشغلہ تھا

دل میں بھی عجیب ولولہ تھا

تھا نشہ بادۂ جوانی

حاصل تھا سرور زندگانی

میں گوہرِ بحرِ شاعری ہوں

میں فخرِ حکیم و انوری ہوں

اعجاز رقم ہے میرا خامہ

ہر نظم ہے ایک کارنامہ

سر مست مے سخن سے ہیں ہم

جامی کیا ہوگا ہم سا ہم جم

بے مثل ہیں آج ہم سخن ور

گر چاہیں تو صورت سمندر

بحرِ مضمون بہائیں پل میں

ملک سخن اپنے ہی عمل میں

پیرو اپنے ہیں سب سخنور

کرتے ہیں بہت ادب سخن ور

شاگرد کسی کا میں نہیں ہوں

ہے مری ازل سے طبع موزوں

ایک طبع کا یہ ہی مشغلہ ہے

الفت کا جو دل میں ولولہ ہے

تفریح کے واسطے کبھی کچھ

موزوں کر لیتے ہیں اجی کچھ

کیا یہاں ہے دماغ آج کل سے

معشوق مزاج ہوں ازل سے

کیا کیا کیجیے فلک کا شکوہ

کچھ دردِ جگر بھی سنیے میرا

دنیا کا یہی ہے کارخانہ

دکھلاتا ہے گردشیں زمانہ

اخترؔ اب اٹھاؤ کلکِ فطرت

دکھلاؤ روانیِ طبیعت

حیران ہوں یار تو کدھر ہے

کچھ تری نہیں مجھے خبر ہے

پھرتا ہوں میں جس کی جستجو میں

وہ حال سے مرے بے خبر ہے

کس طرح ملے وہ سیم بر آہ

نہ زور ہے کچھ نہ پاس زر ہے

مجھ تک اسے کھینچ لا تو اے دل!

کچھ بھی تجھ میں کشش اگر ہے

نالہ بھی کیے نہ دل پسیجا

پتھر سے بھی بہت وہ سخت تر ہے

کس طرح کٹے گی ہجر کی رات

طول اس کو ہے، عمر مختصر ہے

سہتا ہوں ترے ستم میں کیا کیا

اے جان! میرا ہی یہ جگر ہے

اخترؔ کی خبر وہ لیوے گا کیا

جس کو نہیں اپنی خود خبر ہے

جانِ عالم



بنام نگار محل صاحبہ



گلعذار نگینۂ یگانگی، عندلیب خوش نوا چمنستان ولا! لعاب دہن آبِ حیات باد۔

نواب نگار محل! تو نے پھر ستا رکھا ہے اور دل کو بہت کچھ جلا رکھا ہے۔ آنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ مہ لقا دردِ فرقت بڑی بیماری ہے، کسی طرح شفا نہیں ملتی جان عاری ہے ؎

جی سیرِ چمن سے پھر گیا ہے

اب یار میں دل لگا ہوا ہے

یا رب مجھے یار سے ملا دے

مُکھڑا وہ چاند سا دکھا دے

جب تک کہ نہ یار ہم بغل ہو

ہر گز نہ دلِ زار کو کل ہو

شائق نہیں میں کسی حسین کا

مشتاق ہوں اپنی نازنین کا

اس اشتیاق نامہ کے دیکھتے ہی چلی آؤ۔ تپِ ہجر کے بیمار کو شفا دے جاؤ۔ میرا معالجہ اب صرف شربتِ دیدار ہے اور کوئی تدبیر سراسر بے کار ہے ؎

بے تاب جی کو دیکھا، دل کو کباب دیکھا

جیتے رہے تھے کیوں ہم جو یہ عذاب دیکھا

اب صرف تجھ سے ملنے کی آرزو ہے۔ ہر لحظہ لو لگی تری شمع رو ہے ؎

اخترؔ یہ مری ہمدم، مَیں غم گسار اُس کا

اُلفت نثار مجھ پر اور میں نثارِ الفت

اختر



بنام جانِ عالم

گلچین دوحۂ تحریر و تقریر، ہم صفیر گلشن نظیر دلپذیر، مہر گلزار رعنائی زید اللہ حسنہ و جمالہ!

گہ شربتِ وصلت بہ لبِ تشنہ ندادند

بیمارِ غمِ عشق چشم تری ہست

جانِ عالم! یہ گرفتارِ رنج و الم سوزِ فرقت سے دل تنگ، ورنہ ہر ایک صاحبات محل خوش و خرم، مست و ملنگ۔ اپنا نہ کوئی ہمدرد و دم ساز ہے نہ کوئی ہم راز ہے۔ اپنے پیا کی بدولت کنبہ چھوڑا پھر تو اب سب نے ہی منہ موڑا بلکہ نام دھرتے ہیں ؎

کوئی کہتا ہے وحشی اور کوئی کہتا ہے دیوانہ

تری الفت میں مجھ کو لوگ کیا کیا نام دھرتے ہیں

کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ بیمار پڑی، طبیب سے کہنے والا حال نہیں۔ مشکل کشا نے مشکل کشائی کی، افاقہ ہوا۔ پر ماہانہ نہ موصول ہونے سے فاقہ پر فاقہ ہوا۔ قرض پر گذر اوقات، کیا کہوں نا گفتہ واقعات۔ اب تو جلد خبر لیجیے جس طرح ہو مدد کیجیے۔ ہجر و فراق کی کیفیت اس شعر میں ہے ظاہر ؎

دل کو تو ہر طرح سے دلاسہ دیا کروں

آنکھیں جو مانتی نہیں میں اس کو کیا کروں

خسرو محل



جانِ عالم کی عشقیہ غزل



عاشق کو نہ اس قدر ستاؤ

پچھتاؤ گے اب بھی باز آؤ

وہ غمزہ و ناز کے گئے دن

بس باتیں بہت تم نہ بناؤ

ہم جانتے ہیں کہ بے وفا ہو

اتنی الفت نہ تم جتاؤ

بے وصل جیے مریضِ الفت

کچھ ایسا علاج تم بتاؤ

بے رحم ہو خود غرض ہو صاحب!

بس دیکھ لیا تمھیں بھی جاؤ

مشتاق فقط ہیں دید رُخ کے

للہ نہ ہم سے منہ چھپاؤ

الفت سے کہا کبھی نہ اتنا

مر جاؤ گے غم بہت نہ کھاؤ

عاشق نہ ملے گا ہم سا دیکھو

جو کہتے ہیں اب بھی مان جاؤ

ناقد ہیں خود غرض ہیں معشوق

اخترؔ ان سے نہ دل لگاؤ



بنام جانِ عالم



قدردان اہل فضل و ہنر، سخن فہم والا گہر، دُرِ بے بہاے بحرِ زخار ریاست، سرو خرامان بوستانِ امارت، نیر اعظم برج سپہر جاہ و جلال، بدر درخشاں آسمان دولت و اقبال، مسند نشین بزم خلق و مروت و زینت افزاے اریکۂ شوکت، جوہر شناس ملک اساس، والا مرتبت اعلیٰ ہمت، مشہور ادیب صاحب تہذیب، نافع الخلق جامع الحلق، سرتاج خوب رویان انیس مہرویان جان عالم سلطان عالم ادام اللہ شوکتہ!

سرفراز نامہ فیض شمامہ مشعر حالات و عیش و عشرت کے واقعات باعث رفع تکدر و ملال ہوا۔ دل کو شعر گوئی میں لگا لیا ہے۔ اپنے کو مجنوں صفت بنا لیا ہے۔ بحمد اللہ اشتیاق نامہ کلفت کے دفعیہ کے سبب بنے مگر یہاں حال فی الحقیقت دگرگوں ہے ؎

اچھا نہیں ہے میر کا احوال آج کل

غالب کہ ہو چکے گا یہ بیمار آج کل

نواب نشاط محل صاحبہ کا بھی اس طرف دورہ ہوا تھا۔ ساعتوں پچھلے ذکر و اذکار رہے۔ آپ کی عاشقانہ داستانوں پر بہت گفتار رہے ؎

پاسِ ناموسِ عشق تھا ورنہ

کتنے آنسو پلک تک آتے تھے

ہمیں ایک جانِ عالم کے متوالے ہیں ؎

ہم ہوتے تم ہوتے کہ میر ہوتے

اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوتے

غرض کہ جو ہے اپنا عشق جتاتا ہے اور فرقت کے احوال سناتا ہے ؎

کوئی تو زمزمہ کرے میرا سا دل خراش

یوں تو قفس میں اور گرفتار بہت ہیں

بدر عالم



بنام حضرت جانِ عالم



سرو گلزار رعنائی، شمشاد گلستان زیبائی، گل اقبال گلشن شاہی، زیر حکم ہو مہ سے تا ماہی زید اللہ جمالہ!

دوری میں کروں نالہ و فریاد کہاں تک

یک بار تو اس شوخ سے یا رب ہو ملاقات

محبت نامہ مہر شمامہ جلوہ گر ہوا۔ دل رنجیدہ خُرسند ہوا۔ کبھی آپ کے معشوق تھے، اب عاشقوں میں نام ہے۔ ہجوم نالہ و آہ ہے فراق میں بند کلام ہے۔ راحت کسی پہلو نصیب نہیں، وہ کون سا وقت ہے جو دو چار بلائیں ہم سے قریب نہیں۔ بہر حال اے جانی! تمھارے شکر گزار ہیں۔ اپنے دل کی طرح بے اختیار ہیں۔ خدا جلد اس حجاب ظاہری کو درمیان سے ہٹائے، تمھارا جمال رشک آفتاب ہم کو دکھائے۔ وہ محیط نظر جو دلِ مشتاق سے بھی زیادہ تنگ ہے، مانند سخن دراز ہو کر تم کو آزاد کرے۔ فیض قدم گلرنگ سے تمھارے اس باغ ویراں کو خدا آباد کرے۔ ہم بھی رنجِ فرقت سے فرصت پائیں، خوشیاں منائیں۔ اب جی ہمارا نہایت تنگ ہے۔ طبیعت کا یہ رنگ ہے کہ بات کرنی مشکل ہے۔ آرزوؤں کی سونی محفل ہے۔ جان عالم کے تصور میں آشفتہ سری ہے۔ کیا کہیں کہ کیا بے خبری ہے ؎

راحت ہمیں نصیب کہاں ہجر یار سے

آہیں نکل رہی ہیں دل بے قرار سے

پھر محبت نامہ سے کبھی شاد کرو، اپنی محفل میں گاہے ہمیں بھی یاد کرو ؎

ہم تو ناکام ہی جہاں میں رہے

ہاں کبھو اپنا مدعا نہ ہوا

ستم رسیدہ

عمدہ محل

سنہ 1272ھ



بنام جانِ عالم

سوداے محبت کے خریدار، عشق کے طلب گار، تیغ نگاہ کے گھائل، ترچھی نظر پر مائل، خوب روؤں کے فدائی، آشناے کوچۂ دل ربائی! محبت تابانی باد ؎

فلک نے کھانے کو اتنا تو غم دیا ہوتا

کہ چار روز مری زندگی کے چل جاتے

آپ کے جاتے ہی میں اسیرِ کنج تنہائی موجب بربادی و تباہی خونِ دل پیتی ہوں، لختِ جگر کھاتی ہوں، بے کسی کو مخاطب کر کے یہ شعر سناتی ہوں ؎

تو ہی دم ساز ہے پسِ مردن

بے کسی صدقہ اس رفاقت کے

کپڑے جان جی کے جنجال ہو گئے، بال سر پر وبال ہو گئے۔ کبھی یہ عشرت محل تھا اب سودائیوں کا جیل خانہ ہے، خدنگ ظلم کا نشانہ ہے۔ ہر روز سرِ شام فراق میں مبتلاے آلام سودا اٹھتا ہے، گلا گھٹتا ہے۔ کیا کہیں جو ہمارا رنگ ڈھنگ ہے، نہ کوئی ہمدرد پاس ہے نہ کوئی رفیق سنگ ہے، تقدیر سے جنگ ہے ؎

شکل امید تو کب ہم کو نظر آتی ہے

صورتِ یاس بھی بن بن کے بگڑ جاتی ہے

گو ہر طرح عاقل و فرزانہ ہوں،جب دل بس میں نہیں آپ ہی دیوانہ ہوں ؎

فریبِ عشق ثابت ہے مجھے بھی

مگر دل پر میرا قابو نہیں ہے

یاس و الم سے کثرتِ غم سے طبیعت بگڑتی ہے۔ ہنسنے سے زخم جگر پھٹ جاتے ہیں، کلیجہ کے ٹکڑے منہ کو آتے ہیں۔ چپ رہنے سے جنون کا جن سر چڑھتا ہے، سودا بڑھتا ہے۔ کمبخت محبت برا آزار ہے۔ سیر گلزار بھی بغیر دلدار کے خار ہے۔ یہاں تو گریہ و زاری ہے اور ہمارا رونا ابرِ بہاری ہے۔ عاشقوں کے دل سے پوچھیے کیا کیا اس رونے میں مزا ملتا ہے ؎

نہ جاگنے میں ہے لذت نہ شب کو سونے میں

مزا جو پایا تو پچھلے پہر کے رونے میں

جواب کی طالب

نو روزی بیگم



بنام جانِ عالم



گل باغ نوجوانی، اپنے حسن میں لاثانی، گوہر محیط خوبی، گل عذار محبوبی زاد حسنہ و جمالہ!

چشمِ دریا بار سے اب خون دل آنے لگا

دستِ وحشت سوے داماں آپ سے جانے لگا

صدمۂ فراق میں کلپ رہی ہوں، مرغِ بسمل کی طرح تڑپ رہی ہوں۔ کھانا پینا حرام ہے، گریہ و زاری سے رات دن کام ہے۔ بال الجھ الجھ کر جی کے وبال ہو گئے، کپڑے تار تار ہو کر جنجال ہو گئے۔ اچھا جوگی بروگی نے اپنے روپ پر رجھایا، ہمیں بھی جوگن بنایا۔ اس مکھتی میں باسا ہوا، جینے کا سانسا ہوا۔ تار گریبان زنار ہوئے، قشقہ کی جگہ داغ حرماں نمودار ہوئے۔ اشک خونی گلے کا ہار ہوئے۔ مرگ چھالا ہے نالہ سے ناقوس کا کام نکالا ہے۔ بھبوتی خاک دھول ہے، کہنی بیراگن پنجۂ ترسول ہے۔ گیسوے مشک بار الجھ الجھ کر جٹا بن گئے۔ کسی سبزۂ رخسار کے ہجر میں دل و جگر پانی کی طرح چھن گئے۔ شراب الست کے مست ہیں۔ بے شراب مخمور ہیں۔ پربھو کی دَیا سے جوگ روگ میں بھرپور ہیں۔ اپنے کنور کنھیا کی پجاری ہیں۔ جگت دھرم لٹا دھاری ہیں۔ یعنی حضرت عشق کی تقلید ہے۔ کفر و اسلام سے غرض نہیں، محبت کے سوا کوئی مرض نہیں ؎

نو گرفتار ہوں کچھ رسم مجھے یاد نہیں

اس لیے لب پہ مرے نالہ و فریاد نہیں

لیٹتی ہوں تو سینہ میں سانس گھٹتی ہے، بیٹھتی ہوں تو کلیجہ سے ہوک اٹھتی ہے۔ یہ ایک میں ہی سخت جان ہوں ورنہ اب تک اور کسی کا کام تمام ہو جاتا۔ بیماریے دل کو آرام ہو جاتا۔ ملک الموت کی یاوری ہے، زندگی سے شرم ساری ہے۔ لختِ جگر آنکھوں سے جاری ہیں۔ دم بھر گذارنا فرقت میں دشوار ہے۔ یا الہی! کوئی گھڑی ارمان بھری نیند آ جائے تاکہ جان عالم تمھارا مکھڑا خواب میں ہی نظر آ جائے ؎

رشک ہے حال زلیخا پہ کہ ہم سے کم بخت

خواب میں بھی نہ کبھی وصل سے مسرور ہوئے

نامۂ الفت کی منتظر

نگار محل



بنام جانِ عالم



جان عالم سراپا ناز، عربدہ ساز، زینت فرماے انجمن، رونق کاشانۂ جان و تن، دلدار دلبر گلفام سیم بر زید اللہ حسنہ!

عزیزاں غم میں اپنے یوسف گم گشتہ کے ہر دم

چلے جاتے ہیں آنسو کارواں در کارواں میرے

پیا! تمھارا یہاں سے سدھارنا مرے لیے باعثِ صد رنج و تکدر ہے۔ لب خشک ہیں ہر وقت چشم تر ہے۔ بالکل بھوک پیاس مر گئی ہے۔ خواب و خور مجھ پر حرام ہو گئی ہے۔ خونِ دل پیتی ہوں، مر مر کے جیتی ہوں۔

اپنوں کے طعنوں سے اور سینہ فگار ہے، جینے سے اب تو دل بے زار ہے۔ سلطان عالم چھوڑ گئے، کچھ نہ سمجھا کیسا منہ موڑ گئے۔ دن ہجر کی بے قراری میں گذرتا ہے۔ شب اختر شماری میں کٹتی ہے ؎

بے طاقتی میں شب کی پوچھو نہ ضبط میرا

ہاتھوں میں دل کو رکھا دانتوں تلے جگر کو

خیر و عافیت سے شاد کام کیجیے اپنی مہجور غمزدہ کی جلد خبر لیجیے ؎

آنکھ پڑتی تھی تمھاری منہ پہ جب تک چین نہ تھا

کیا کیا تم نے کہ مجھ بے تاب سے پردہ کیا

بست و سوم شہر رجب سنہ 1272ھ

حضرت بیگم

معشوقۂ سلطان عالم نواب حضرت بیگم (مخاطب مطلوب السلطان)



بنام جان عالم



شناور بحرِ محبت، غواص چشمۂ الفت، غریق محیط الم، گرفتار لطمۂ غم، دُرِ شہوار، غم گسار، خسرو زمان، سلطانِ دوران زید اللہ محبتہ!

منشی عبد القادر وثیقہ کیا لایا سکونِ قلب کے لیے جواہر کا خریطہ لایا۔ سخت پریشانی تھی۔ پیسہ پیسہ کے لیے دیوانی تھی۔ بدولت غدر سب برباد ہوا حتٰی کہ گھر بھی خیر باد ہوا۔ گو کچھ ایک طرف سے سکون ملا ہے پر دوسری طرف سے دل رنج و غم میں مبتلا ہے۔ کوئی اپنا غم گسار نہیں، اعزا کو مجھ سے اب پیار نہیں۔ دن رات جانِ عالم کی یاد ہے، پھر ہونے وصال کی مولا سے فریاد ہے ؎

تصویرِ مرقع ہوں، سکتے کا سا عالم ہے

جنبش ہی نہیں نقشِ دیوار اسے کہتے ہیں

ماہ ربیع الثانی سنہ 1274ھ

گلزار بیگم





بنام جانِ عالم



صاحبِ کرم، خجستہ شیم، فروغ بزمِ دولت، دانش مند فراخ ہمت، خلق خوش لقا، صاحبِ ولا زید اللہ لطفہ!

الفت نامہ نظر سے نہیں گذرتا ہے، دل بے چین رہتا ہے۔ دو پہر آنکھیں لگی رہتی ہیں۔ غم کھاتی ہوں نیت نہیں بھرتی۔ کیا غم ہے مزے کا کہ طبیعت نہیں بھرتی۔ سینہ کہاں جی سینے میں بے قرار، پہلو میں ہر چیز مثلِ خار۔ ہر دم آہ سرد دل پُر درد سے بلند، چشمۂ چشم جاری فریاد و زاری دو چند، جگر میں سوز فراق نہاں دود پنہاں عیاں ؎

کسی کی شب وصل سوتے کٹے ہے

کسی کی شبِ ہجر روتے کٹے ہے

ہماری یہ شب کیسی شب ہے الہی!

نہ سوتے کٹے ہے نہ روتے کٹے ہے

تن من پُھنک رہا ہے کلیجہ کباب ہو رہا ہے ؎

بسوزِ شمع رویاں اس طرح کا سینۂ سوزاں

کہ رفتہ رفتہ آخرجلوۂ سرو چراغاں ہوں

(نواب) قیصر بیگم

مخاطب عاشق السلطان ممتاز عالم

یکم رجب المرجب سنہ 1274ھ



بنام جانِ عالم



گل گلدستۂ حدیقۂ شجاعت و نونہال گلشن جلالت، شاہ باز روح ہمت و صولت، اے شہر یار، والا تبار، جانِ عالم سلطان عالم یار وفادار، صادق الاقرار! سلامت باد۔ شرح اشتیاق داستان فراق قصۂ طول و طویل ہے۔ زندگی کا بکھیڑا قلیل ہے۔ اگر ہماری زیست منظور ہے، اپنے پاس جلد بلاؤ صورت اپنی دکھاؤ۔ نہیں تو تاسف کرو گے پچھتاؤ گے۔ تم نے اگر بلانے میں دیر کی تو ہم نے صدمۂ ہجر سے تڑپ کر جان دی ؎

جبر یہ ہے کہ تری خاطر دل

روز بے اختیار رہتا ہے

کوئی دم کا دم سینے میں مہمان ہے، نام کو جسم میں جان ہے ؎

مفت یوں ہاتھ سے نہ کھو ہم کو

کہیں پیدا بھی ہوتے ہیں ہم سے

فلک نے ہماری دو روزہ صحبت کا رشک کھایا، بے تفرقہ پردازی ظالم کو چین نہ آیا۔ ہم کہیں ہیں تم ہو کہیں۔ روز شب رنج جدائی سے جان کھوتی ہوں ؎

روتے پھرتے ہیں ساری رات

اب یہی روزگار ہے اپنا

اتنا کبھی کاہے کو کسی دن ہنسے تھے، جیسا اب بلک بلک کر فرقت کی راتوں میں روتے ہیں ؎

بے تابیِ دل کسے سنائیں

یہ دیدۂ تر کسے دکھائیں

تمھاری اگلی باتیں ہر دم بر زبان ہیں۔ بے تصور باتیں کیے چین نصیب کہاں ہیں ؎

یہ جانتے تو نہ باتوں کی تجھ سے خو کرتے

ترے خیال سے پہروں ہی گفتگو کرتے

ہر پہر گجر سے فزوں شور و فغاں ہے۔ چشمِ ہر اختر معائنۂ حال زار سے بخیریت وا ہے۔ چراغ گرداں مری گردش دیکھ کر چکر کر رہا ہے ؎

دکھ اب فراق کا ہم سے سہا نہیں جاتا

پھر اس پر ظلم یہ ہے کچھ کہا نہیں جاتا

آپ ہم کو بلائیں گے رنجِ فرقت کے ذکر مفصل سنائیں گے ؎

ستم اٹھانے کی طاقت نہیں ہے اب ہم کو

جو دل میں آوے تو ٹک میرؔ پر رحم کریے

اور جو فلک کو ہی منظور ہے تو انسان مجبور ہے۔ اس حسرت کو بھی درگور لے جائیں گے ؎

جیتا ہی نہیں، ہو جسے آزارِ محبت

مایوس ہوں میں بھی کہ ہوں بیمارِ محبت

بخدا نماز پنج گانہ میں یہ دعا ہے، جامع المتفرقین سے یہی التجا ہے کہ تم سے جلد ملاقات ہو جائے۔ جان زار دل بے قرار کو چین آئے ؎

افسانہ غم کا لب تک آتا ہے مدتوں میں

سو جائیو نہ پیارے اس داستان تلک تو

زیادہ ملاقات کا اشتیاق ہے۔ اشتیاق اور جدائی کا صدمۂ جانکاہ سخت شاق ہے۔ اب تو وصلِ محبوب کا دل مشتاق ہے ؎

ٹک میرؔ جگر سوختہ کی جلد خبر لے

کیا یار بھروسا ہے چراغِ سحری کا

(انجمن السلطان) زہرہ بیگم



بنام جان عالم



گوہر گراں مایۂ خوبی، گل گلشن محبوبی، رہرو راہِ دوستی و ولا، جرس کاروانِ صدق و صفا، بہار گلشن وصل، زمانۂ حسن کی فصل، خوبی میں خوبیِ تقدیر، چین کی صورت راحت کی تصویر جان عالم! خدا سلامت رکھے۔ کیا پوچھو ہو ہمارا کیا حال ہے۔ یہاں چشم اپنی نم ناک ہے، دل وحشت منزل صد چاک ہے۔ جامۂ ہستی اندامِ شوق پر تنگ، جینے سے ہم کو ننگ۔ جگر پھوڑے کی طرح پکتا ہے، قلب مثلِ ماہیِ بے آب تڑپتا ہے۔ زبان ناطقہ لال ہے، تمھیں کیا بتائیں کہ کیا حال ہے ؎

وہ بد خو اور مری داستان عشق طولانی

عبارت مختصر قاصد بھی گھبرا جائے ہے مجھ سے

مختصر عرضِ حال کرتی ہوں، شب و روز جدائی میں ٹھنڈی آہیں بھرتی ہوں ؎

عزلت نشین ہوئے جب، دل داغ ہو گیا تب

یعنی کہ عاشقی میں ہم گھر جلا کے بیٹھے

خجستہ صورت دیکھنے کی تمنا ہے، آخری مری یہی التجا ہے ؎

یک نظر دیکھنے کی حسرت میں

آنکھیں تو پانی ہو گئیں پیارے

شکستہ دل

امیر محل



بنام جانِ عالم

حدیقہ مندان گلشن معانی و گل چشان بہارستان نکتہ دانی، جرس کاروانِ صدق و صفا، رہرو راہِ دوستی و ولا زید اللہ لطفہ!

جدائی میں بھوک پیاس گئی، کھانے کو ہمیں اپنا دل اخگر اور پینے کو اپنا ہی خونِ جگر۔ اب تو تمھارا دیدار مدِ نظر۔ کب تک دیکھیں پھری رہے ہم سے نظر ؎

وصل دلبر نہ ٹک ہوا قسمت

مر چلے ہجر میں رہے با قسمت

شیخ علی حسین بیٹھے بٹھائے مجھ کو جان عالم، تمھاری چاہت کا اچھا روگ لگا گئے ؎

مبارک تمھیں میرؔ ہو عشق کرنا

بہت ہم تو پچھتائے دل کو لگا کر

خوب چند روز عشق و عاشقی کے دور رہے، اب وہ عالم ہے کہ تم اور رہے ہم اور رہے ؎

جی جائے کسی کا کہ رہے تم کو قسم ہے

مقدور تلک درپے آزار رہو تم

آفت زدہ

محبوبہ فیروزہ دلدار پری



بنام جان عالم

غالب کہ یہ دل خستہ شبِ ہجر میں مر جائے

یہ رات نہیں وہ جو کہانی میں گذر جائے

حدیقہ بندان گلشن معانی، غواص بحر چمن سخن دانی، غیرت دہ گلشن حُسن معشوقاں، حسن خزاں بخش گلزار جناں انار اللہ برہانہ!

نامۂ محبت موصول ہوا، دل بے حد مسرور ہوا۔ اب یہاں امن و امان ہے، ہر ایک خوش خرم شادمان ہے۔ سب کی کلفتیں ختم ہوئیں۔ مگر یہاں تو وہی اشتیاقِ ملاقات ہے۔ اس طرح یہ فغاں کش ہمسرِ عنادل مصروف شیون، دود و آہ بھی یاد گل عذار میں گلشن سینۂ داغدار۔ شام ہوتے ہی بہار آتشِ لالہ و گل نے اور بھی آگ لگائی، جانِ مضطر فراقِ یار میں لب پہ آئی ؎

گو طاقت و آرام و خور و خواب گئے

بارے یہ غنیمت ہے کہ جیتا تو رہا ہوں

حضور پری



بنام جانِ عالم

گوہر گراں مایۂ خوبی، گل گلشن محبوبی، خورشید تاج بخش شہان، رہیں آباد تا قیام زمان، زینت بزمِ موافقت، رونق صدر موانست دام مجدکم!

اس کے گئے پہ دل کی خرابی کا نہ پوچھیے

جیسے کسی کا کوئی نگر ہو لُٹا ہوا

جان عالم! پچھلی باتیں یاد آتی ہیں، گھنٹوں رلاتی ہیں۔ برسات کا کیا موسم آتا ہے دل بے چین ہو جاتا ہے۔ مجھ پہ غم کا عالم چھا جاتا ہے۔ عیش باغ کا جلسہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے۔ دل پاش پاش ہو جاتا ہے۔ مینہ برسا، پانی جا بہ جا بہہ گیا۔ گلی کوچہ صاف رہ گیا۔ ساون بھادوں میں زردوزی پاپوش پہن کر پھرے، کیچڑ کا نام کیا ہے مٹی بھی نہ بھرے۔

فصلِ بہار کی صفت، پروردگار کی قدرت۔ باغ میں آنے کا ہر ایک شائق، تماشا دیکھنے کے لائق۔ خواجوں کا جمگھٹا رنگا رنگ کی پوشاک، آپس کی تاک جھانک۔ باغ کا تختۂ لالہ و نافرمان جن پر مٹنے والوں کی جان قربان۔ صاحبانِ محلات کی سبک روی، خرامِ ناز ہر قدم پر کبک دری۔ چال بھول کر جبینِ نیاز رگڑتی، شاخِ سرو ان کے روبرو نہ اکڑتی۔ جان عالم! تمھاری جانب سے آم کے درختوں میں جھولا پڑتا۔ جھولنے والیوں پر آپ کا دل ٹپکا پڑتا۔ ہر ایک سے محبت کے پتنگ بڑھاتے، خواجیں ہمت بڑھا بڑھا کے نیگ چڑھاتے۔ باغ میں کوئل پپیہے مور کا شور، جھولے پر گھٹا رہی رو یہی گھنگھور۔ ساون بھادوں کے جھالے، وہ رنگین جھولنے والے ؎

کیسی کیسی صحبتیں آنکھوں کے آگے سے گئیں

دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہو گیا اک بارگی

اس سمے کا خیال آ کر دل پاش پاش ہو جاتا ہے، کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ پیا کی بدولت سب عیش کرے۔ اب صرف جدائی شاق ہے اور دن و رات آپ کا ہی فراق ہے ؎

اب کیا کریں نہ صبر ہے دل کو، نہ تاب ہے

کل اس گلی میں آٹھ پہر غش میں پڑے رہے

محبوبۂ عالم

نواب مغل صاحبہ



بنام جانِ عالم

دقیقہ سنج معانی،پرورد سخنور فیض گستر و قدردان متاع بازار معانی و خریدار جواہر زواہر دکان سخندانی جان عالم سلطان عالم زید اللہ لطفہ!

اُدھر آپ لکھنؤ سدھارے، اِدھر شعلۂ عشق نے بھڑک کر مجھ کو سلامت نہ رکھا۔ تاب و تواں شکیب و تحمل کو ہیزم خشک کی طرح جلا صبر کا قافلہ لوٹ لیا۔ حضرت میر نے مری حالت کا نقشہ ہو بہو کھینچا ہے ؎

بستر خاک پر گرا وہ زار

درد کا گھر ہوا دل بیمار

خاطر افگار خار خار ہوئی

جاں تمنا کش نگار ہوئی

دل نہ سمجھا اور اضطراب کیا

شوق میں کام کو خراب کیا

رفتہ رفتہ سخن ہوئے نالے

لگے اڑنے جگر کے پرکالے

تپ مہاجرت اور دردِ مفارقت سے صاحب فراش ہوئے، دل و جگر سینے میں پاش پاش ہوئے۔ حس و حرکت کی طاقت نہ رہی، اپنی اب زبان میں بھی طلاقت نہ رہی ؎

کرے کیا کہ دل بھی تو مجبور ہے

زمین سخت ہے آسمان دور ہے

کجا کھانا و پینا، بجز غم کھانے اور پانی سوا اشک بہانے کے آنسو پینے کا نام ہے۔ اس سے نہیں پیتی ہوں اور کھانے کی قسم سے قسم تک نہیں کھاتی ہوں۔ متحیر ہوں کیونکر جیتی ہوں۔ مگر تنہائی میں ہاں خوف کھا کے روز دن بھرتی ہوں۔ ہر شب کو شب اوّلین گور ہے۔ جاں کنی رہتی ہے سخت جانی کی بدولت نہیں مرتی ہوں ؎

یہ غلط کہتے ہیں بے آب و خورش جیتے ہیں

لختِ دل کھاتے ہیں اور خونِ جگر پیتے ہیں

اگرچہ آپ کی جذب محبت سے میرا حال تغیر ہوا، ضبط سے کام لیا، دل بے قرار کو تھام لیا۔ خنجرِ الم سے جسم زخم دار ہے، سنانِ غم سینے کے پار ہے ؎

فراق میں ترے، بن موت اب تو مارا ہے

تڑپ تڑپ کر دل بے قرار نے ہم کو

دن رات کی وہ صحبت تمھارے ساتھ کی جب یاد آتی ہے، نیند اچٹتی ہے، بے چینی کی رات پہاڑ ہو جاتی ہے، کاٹے نہیں کٹتی ہے ؎

کیا جانتے تھے ایسے دن آ جائیں گے شتاب

روتے گذرتیاں ہیں ہمیں راتیں ساریاں

چارپائی تنہائی میں پلنگ بن کر کھائے جاتی ہے۔ خواب میں نیند کا خیال نہیں، کھانا پینا ہجر میں حرام ہے حلال نہیں ؏

ہجران کی کوفت کھینچے بے دم سے ہو چلے ہیں

مرے جاگنے کے مزے پیارے ستارے شاہد ہیں، گواہ شرعی زاہد ہیں۔ مرغِ سحر کو بے قراری سے چونکاتی ہوں، موذن کی نیند آہ و زاری سے اڑاتی ہوں ؎

ہماری تو گذری اسی طور عمر

یہی نالہ کرنا یہی زاریاں

دل ہر ساعت گھڑی سے زیادہ نالاں ہے۔ وحشت پیراموں حال ہے، ہر گھڑی فرقت کی ماہ ہے جو پہر ہے وہ سال ہے ؎

کیا کیا نہ ہم نے کھینچے آزار تیری خاطر

اب ہو گئے ہیں آخر بیمار تیری خاطر

تمھاری صورت ہر پل روبرو ہے، جس طرف دیکھا تو ہی تو ہے۔ چشمِ فرقت دیدۂ دریا بار ہے، آنکھ نہیں چشمۂ آبشار ہے ؎

لہو لگتا ہے ٹپکنے جو پلک ماروں مَیں

اب تو یہ رنگ ہے اس دیدۂ اشک افشاں کا

جن آنکھوں کو تم پُر نم نہ دیکھ سکتے تھے، ان سے خون کے دریا بہہ گئے ؎

جب پاس رات رہنا آتا ہے یاد اس کا

تہمت نہیں ہے رونا دو دو پہر ہمارا

اب تو خیریت کا کچھ حال لکھیے، شقۂ عالی سے قلب کو خوش حال کیجیے۔

محبوب محل



بنام جانِ عالم

اسیر زلف گرہ گیر، باد گیسو کی پا بہ زنجیر، شہیدان خنجر الفت، رہروان بادۂ کلفت، شمشیر کرشمہ کے مذبوح، تیر غمزہ کے مجروح، چشم نرگسیں کے بیمار، جامِ محبت کے سرشار، مے تعشق کے متوالے، اشک حسرت کے پینے والے، حضرتِ عشق کے سرتاج، حسن کے محتاج، ازل کے مست، ابتدا کے حسن پرست، شمع محفل اخلاص، چراغ مجلسِ اختصاص! چہرۂ مراد درخشاں باد ؎

آیا ہوں تنگ اس دل وحشی مزاج سے

دے دوں اگر حسین کوئی دل ربا ملے

مرغ بسمل ہو گیا، بے قابو مرا دل ہو گیا۔ ہر چند ضبط کیا سنبھل نہ سکا۔ ہاتھ پاؤں سرد ہو گئے، رخسار زرد ہو گئے۔ حالتِ غشی طاری ہوئی، بُری حالت ہماری ہوئی ؎

ہوش جاتا رہا نگاہ کے ساتھ

صبر رخصت ہوا اک آہ کے ساتھ

حق تو یہ ہے کہ جو سر سوداے محبت سے خالی ہے وہ سر نہیں سبوچۂ گل ہے۔ اور جس سنگ دل میں صہباے عشق نہیں وہ دل نہیں سل ہے۔ مرضِ عشق نے گھیر لیا، دل محبت منزل کو اپنی طرف پھیر لیا۔ شرابِ محبت کا چسکا پڑ گیا۔ اچھا خاصہ بگڑ گیا۔ ہلالِ ابرو کے دیکھنے کی آرزو ہوئی، مہ جبینوں کی جستجو ہوئی۔ تنہائی میں بیٹھے بیٹھے طبیعت اداس ہو جاتی، جینے سے یاس ہو جاتی۔ ناچار دل کو تھام لیا، دیدۂ خونبار سے کام لیا۔ گو عالمِ تحیر میں محو اور خاموش تھا اور بالکل خواب و آرام فراموش تھا ؎

حالت ہے اس کی پارہ کی برق و شرار کی

کیا کیا تڑپ سناؤں دلِ بے قرار کی

یکایک مجھ بیمارِ عشق کی طبیعت بگڑ گئی، تمام گھر میں ہلچل پڑ گئی۔ پھر تو میں آیا تو لایا۔ ہر ایک نے طبیعت آزمائی، تشخیص دکھائی۔ جس کے جو سمجھ میں آیا مرض بتایا۔ آخر کار شافیِ امراض بڑے بڑے نبّاض حاضر ہوئے۔ مگر مرضِ خاص سے ذرا بھی نہ ماہر ہوئے، کیونکہ یہ مریضِ عشق چشمِ نرگسیں کے بیمار، تپِ محبت ان کا آزار۔ ان کی دوا عناب لبِ یار اور شربت دیدارِ دلدار ہیں۔ شربتِ دینار سے کیا غرض۔ حبِّ شفا کا یہاں کسے مرض۔ نہیں ممکن ہے جینا کشتہ تیغ تغافل کا، مسیحا بے سبب کیوں دعویٰ اعجاز کرتے ہیں۔ جب ہم کو کسی کی چاہ نہ تھی، دل سے دل کو راہ نہ تھی، منزلِ عشق کو آسان سمجھتے تھے۔ دل لگی یہ درد بے درماں سمجھتے تھے۔ آج جان گئے لو مان گئے کہ تیغ ابرو کے گھائل مرتے ہیں نہ جیتے ہیں، لختِ جگر کھاتے ہیں خونِ دل پیتے ہیں؎

گر یونہی رہے گی بے قراری

تو ہو چکی زندگی ہماری

جان عالم! تمھارے خیال میں، تدبیر وصال میں حیران ہوں کیا کروں۔ کہاں جاؤں، کس طرح کوچۂ دلدار لوں۔ بہتر ہو جو اس ابروے خمدار کی یاد میں خنجر آبدار مار لوں مگر ؎

تپ فراق کا صدما سہا نہیں جاتا

حرام موت نہ ہوتی تو زہر کھا جاتا

(نواب) امراؤ محل