بزم آخر/گیارھویں حضرت غوث الاعظم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

گیارھویں حضرت غوث الاعظمؒ


ربیع الثانی کے مہینے کو میراں جی کہتے ہیں؛ اس مہینے کی گیارھویں تاریخ ہوئی؛ دیکھو! دیوان خاص کے صحن میں آتش بازی گڑی؛ انار،پھلجڑی، مہتاب، جائی جوئی، ہت پھول، چھچھوندر، چکر، گنج، پٹاخے‌، چرخیاں،ہوائیاں، زمینی گولے، آسمانی گولے، خدنگ، چدّر،کوٹھی، پنکھیاں، سانپ، درخت، ہاتھی وغیرہ بنے ہوئے ہیں۔ ایک بانس کی کھپچیوں کا بنگلہ سا بنا ہوا، اوپر پنّی، ابرک لال کاغذ منڈھاہوا، اس کو منہدی کہتے ہیں‌،دیوان خاص میں رکھی گئی۔دسترخوان بچھا، سب طرح کا کھانا چنا گیا۔ بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے منہدی روشن کی۔ پھر دستر خوان پر حضرت غوث الاعظمؒ کی نیاز دی، آتش بازی چھٹنے لگی، کھانا تقسیم ہوا۔ صبح کو مہتاب باغ کی درگاہ میں مشائخ جمع ہوئے، بادشاہ آئے، ختم ہوا، تبرک بٹا۔ سترھویں

اسی مہینے کی سترھویں تاریخ حضرت سلطان نظام الدین اولیاء کا عرس ہوتا ہے۔ دیکھو! رات کو درگاہ میں مشائخ جمع ہوئے، پہلے ختم ہوا، پھر قوالی ہونے لگی، مشائخوں کو حال آنے لگے۔ صبح کو بادشاہ آئے، درگاہ میں فاتحہ پڑھی، چار اشرفیاں اور بتیس روپے درگاہ میں نذر چڑھائی، دو سو روپے عرس کے مصارف کے خادموں کو دیے؛ ختم میں شامل ہوئے، تبرک کی ہنڈیاں اور پھیٹے)[25]( خادم لائے۔ بادشاہ نے ایک اشرفی تبرک کی اُن کو دی، پھر سوار ہو گئے۔ دیکھو! اب شہر کی خلقت آنی شروع ہوئی۔ درگاہ میں نذریں چڑھنے لگیں، خادموں کی گوڑی ہونے لگی۔ اپنی اپنی اسامیاں تاک تاک کے دو دو تبرک کی ہنڈیاں، کھیلیں، بتاشے، شکر پارے اُن میں بھرے ہوئے، آٹے سے اُن کے منہ لپے ہوئے خادم اُن کو دیتے ہیں اور گرہ گرہ بھر کے دھوتر کے سبز سفید پھیٹے اُن کے سر سے باندھ دیتے ہیں۔ بہت سی خاطر مدارت کر کے اُن سے کہتے ہیں: “ہم آپ کے دعا گو قدیم ہیں، رات دن آپ کی کامیابی کی درگاہ شریف میں دعائیں مانگتے ہیں”، اپنا معمول اُن سے لے لیتے ہیں۔ اب درگاہ شریف میں ناچ ہونے لگا۔ دیکھو! کوئی ناچ دیکھ رہا ہے، کوئی باؤلی میں سیڑھیوں پر بیٹھا نہا رہا ہے، کوئی چت کوئی پٹ تیر رہا ہے، کوئی دھما دھم اوپر سے کود رہا ہے۔ لوگ باؤلی میں کوڑیاں پیسے پھینک رہے ہیں، لڑکے غوطے لگا لگا کر نکال رہے ہیں۔ سودے والے پکار رہے ہیں “تازی گرما گرم کچوریاں ہیں، برفی ہے تازی دودھ کی، مکھن ہے ملائی سے میٹھا، کوزے ملائی کی برف کے، کسیرو ہیں میوے، گھلے فالسے ہیں شربت کو، ڈالی ڈالی کا گھلا ہی پیوندی ہے، سیاہ لچھے ہیں ہاتھوں کے، کھلونے ہیں بالے بھولوں کے”۔ کوئی مقراضی حلوا لیے بیٹھا ہے، کوئی کباب، لونگچڑے، کھجلے، شیر مال، باقر خانی، خمیری روٹی، نہاری بیچ رہا ہے۔ ککڑ والے حقہ پلاتے پھرتے ہیں، پنواڑی گلوریاں بنا رہا ہے، کٹورے چھنک رہے ہیں۔ فالودے والے فالودہ، پن بھتا، تخم ریحان، اولے، گلاب پاش، کٹورے چمچے لیے بیٹھے ہیں۔ لو! دوپہر ہوئی، اب میلہ ہمایوں کے مقبرے میں آیا۔ دیکھو تو کوئی بھول بھلیوں میں بھولا بھالا کیسا ہکا بکا پھر رہا ہے، کوئی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں لیٹا آرام لے رہا ہے۔ ایک طرف پتنگ بازی ہو رہی ہے؛ بگلا، کل چِڑا، دو پلکا، دو پنّا، کل دمہ، کانڑا، کنکوّا اڑا رہا ہے؛ کل سِری، لل دُمی، کلیجہ جلی، دو باز پریوں دار، الفن تکلّیں بڑھ رہی ہیں۔ ایک دوسرے کی دھیری پکار رہا ہے۔ جو کوئی ہم سے نہ لڑائے اُس کی دھیری ہے۔ لو پینچ لڑ گئے، ڈھیلیں چلنے لگیں۔ وہ کسی کا کٹ گیا۔ آہا!!! کیا غل مچایا ہے، وہ کاٹا! جس بیچارے کا کٹ گیا اُس کا منہ تو کیا فق فق ہو رہا ہے۔ کسی کا ہتھے پر سے اکھڑ گیا، کسی کا کنیانے لگا، کسی کا چکرا رہا ہے، کسی کی دال چپو([26]) ہو گئی، کوئی کھچم کر رہا ہے، کوئی ٹھمکیاں دے رہا ہے۔ لو کنکوے بازی ہو چکی۔

اہا ہا!!! دیکھنا وہ کسی شہزادے کی سواری آئی۔ آگے آگے سپاہیوں کے تُمن ہیں، باجا بجا آتا ہے، نقیب چوب دار پکارتے آتے ہیں: “صاحب عالم پناہ سلامت!”۔ عماری میں آپ بیٹھے ہیں، خواصی میں مختار بیٹھا مورچھل کرتا آتا ہے، پیچھے سواروں کا رسالہ چلا آتا ہے۔ مقبرے کے دروازے پر فیل بان نے ہاتھی بٹھا دیا، سب جلوس ٹھہر گیا، سلامی اتاری۔ کہاروں نے نالکی لگا دی، نالکی میں سوار ہو کر اندر آئے۔ دو خواص مورچھل لے کر ادھر ادھر آگئے، اور سب اردگرد ہو گئے۔ نقیب چوب دار آگے آگے “ہٹو بڑھو صاحب!” کرتے چلے۔ مقبرے کے چبوترے پر سے پیدل اتر کر اوپر آئے۔ یہاں پہلے سے فرش فروش ایک طرف کیا ہوا ہے، سپاہیوں کا پہرہ لگا ہوا ہے۔ اپنی مسند پر بیٹھ کے میلے کی سیر دیکھی؛ ناچ رنگ دیکھ سوار ہو گئے۔ شام تک سب میلے کے لوگ چنپت ہوئے۔ اب دیکھو پتوں اور چھلکوں کے ڈھیر، مکھیوں کی بِھنکار کے سوا کچھ بھی دکھائی دیتا ہے! یا تو وہ گہما گہمی تھی یا دیکھو اب کیا سناٹا ہو گیا۔ اب مقبرہ کیسا سائیں سائیں کرتا ہے، دیکھنے سے جی پریشان ہوتا ہے۔ لو صاحب سترھویں ہو چکی۔