بزم آخر/پیش لفظ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

پیش لفظ

از اشرف صبوحی دہلوی


دنیا نکھرتے نکھرتے جب اس قابل ہو گئی کہ اس کے روپ کے گاہک پیدا ہوں تو بادشاہت کا آغاز ہوا۔ بڑے بڑے بانکے ترچھے اپنے بل دکھانے لگے۔ ان میں بعض کے دماغوں میں ایسی ہوا سمائی کہ شاہی سے خدائی کے دعوے دار بن گئے۔ مگر مادر گیتی کو ان کی یہ ادا پسند نہ آئی، جس وقت چاہا اس نے ٹانگ پکڑ کر کھینچ لی۔ ہندوستان کی راج دھانیاں دیوتاؤں نے سجائیں، راجاؤں کو اوتاروں کا درجہ دیا، پھر بھی نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات؛ کوئی چار دن سے زیادہ اپنی نوبت نہ بجا سکا۔ ان کے بعد آسمان نے پھر ایک اور رنگ بدلا؛ یہ دیس باہر والوں کی یورش کا آماج گاہ بن گیا اور وہی بات ہوئی کہ “ہر کہ آمد عمارتِ نو ساخت”۔ تمدن اور معاشرت میں تبدیلیاں ہونے لگیں۔ آخر میں اسلامی سلطنت قائم ہوئی اور وہ بھی اس شان و شوکت کی جس کے تذکرے نو سو سال گزرنے کے بعد آج تک زباں زدِ خاص و عام ہیں۔ یعنی:

تیموری ٹڈی دل ہندو کش کے بلند و بالا پہاڑوں کے اُس پار سے اٹھتا ہے؛ بابر پرچم جہاں بانی اڑاتا ہوا درۂ خیبر کے سنگلاخ راستے سے ہندوستان میں داخل ہوتا ہے اور اسے فتح کرکے مغلیہ سلطنت کا سنگ بنیاد رکھتا ہے۔ پھر “بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست” کا نغمہ الاپتا ہوا حکومت اپنے ولی عہد ہُمایوں کے حوالے کرکے دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ ہمایوں زمامِ سلطنت سنبھالتے ہی خانہ جنگیوں میں گھر جاتا ہے اور شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر نظام سقّے کی مشک پر تیرتا ہوا ایران پہنچتا ہے؛ کابل پر گرجتا ہے اور پھر برستا ہوا دہلی آ کر اندر پرستھ کی بلندی سے زمین کی پستی میں سما جاتا ہے۔

اس کے بعد اکبر اپنے نو رتن کے ساتھ حکومت کی سبھا سجاتا ہے؛ کبھی دربار میں چمکتا ہے اور کبھی یلغار میں مصروف نظر آتا ہے؛ شہنشاہی کی ایسی دھاک بٹھاتا ہے کہ اکبرِ اعظم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جہانگیر محبت میں مست اور جامِ شراب در دست باپ کے تاج و تخت کو لڑکھڑاتے ہوئے ہاتھوں سے سنبھالتا ہے اور زنجیرِ عدل کے سہارے زندگی کے دن پورے کرتے ہوئے راہیٔ عالمِ بقا ہو جاتا ہے۔ شاہ جہاں شہرتِ عام اور بقائے دوام کے شوق میں عمارت پر عمارت بنا رہا ہے اور عجائباتِ عالم کا ایک نمونہ تاج محل کی شکل میں چھوڑ جاتا ہے۔ عالم گیر تلوار ہاتھ میں لیے اور قرآن سر پر رکھے بوڑھے باپ کو قیدخانے میں دھکیل رہا ہے۔

حیدرآباد کا رخ ہے؛ گول کنڈے پر ابوالحسن تانا شاہ عطر میں ڈوبا ہوا عیش کا جیش سے مقابلہ ہوتا ہوا دیکھ رہا ہے۔ مرہٹوں کی لوٹ مار اور عالم گیر کی سپاہیانہ ہمت کا توڑ ایک تماشا ہے جس کی غلطیوں پر تعصب کی روایتیں تیار ہو گئیں۔

عالم گیری شان اورنگ آباد میں دفن ہو رہی ہے اور دہلی کا تخت لا وارث مال کی طرح لوٹا جا رہا ہے۔ طوائف الملوکی کا دور ہے۔ محمد شاہ رنگیلا سلطنت کی اہمیت کو “ایں دفتر بے معنی غرقِ مے ناب اولیٰ” کہہ کر طبلے کی تھاپ اور گویّوں کی الاپ پر نثار کر رہا ہے۔ اسی اثنا میں ایک ایرانی سپاہی جس کو “ابنِ شمشیر ابنِ شمشیر” کہنے پر فخر تھا، گھوڑے کی پیٹھ سے اُچھل کر تخت پر بیٹھتا ہے اور ہندوستان آ کر دہلی کا تخت اور ہندوستان کی قسمت اُلٹ دیتا ہے۔

شاہ عالم ثانی بے چارہ، جس کی حکومت کے متعلق مشہور تھا کہ “حکومتِ شاہ عالم از دہلی تا پالم” غلام قادر سے آنکھیں نکلوا کر عدم آباد کا رستہ ٹٹول رہا ہے۔ آخری تاج دار بہادر شاہ ظفر جس کے پاس نہ تیموری لشکر تھا، نہ بابری شجاعت و شوکت، نہ اکبری صولت و جبروت، نہ شاہ جہانی سطوت و شان، پھر بھی بادشاہ تھا، نام ہی کا سہی، اور چونکہ آل تیمور کا خاتمہ اس پر ہوا اس لیے ہماری نگاہیں اب تک اسی پر جمی ہوئی ہیں۔

دلی کا لال قلعہ جب تک اس میں غدر کے سبز قدم نہیں آئے تھے، اپنی گودیوں کے پالوں کے لیے سچ مچ کا گہوارہ تھا؛ ایسا گہوارہ جس میں عیشوں اور راحتوں کے سوا ہزاروں چیزیں پرورش پاتی ہیں۔ وہاں کا طرز تمدن، وہاں کی معاشرت اور بولیاں ٹھولیاں سب جداگانہ تھیں۔ ہمارے باپ دادا نے وہ دور دیکھا تھا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ساون کے اندھے کو ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے، انھیں اور ان کے بعد ان کی اولاد کو مدتوں وہی بہار نظر آتی رہی بلکہ آج تک اُن ہی کہانیوں کو کہنے سننے میں مگن ہیں۔ کیوں نہ ہوں، پرانا مقولہ ہے“اَلنَّاسُ عَلٰی دِینِ مُلُوکِهِم” اور کچھ نہ سہی گزری ہوئی بہاروں کا ذکر بھی نہ کریں، ان کی بولیاں بھی نہ بولیں!

دولت اور حکومت والے اپنی زندگیوں کو عام زندگیوں سے ہمیشہ الگ رکھتے ہیں۔ جینے کی باتیں تو ایک طرف مرکر بھی وہ دوسروں کے ساتھ ملنا نہیں چاہتے؛ پھر یہاں تو شاہی دیگ کی کھرچن تھی، جتنی اس کی شکل صورت، بو باس انوکھی ہوتی، کم تھا۔ نئی تانتی کے انجان بے خبر پوچھیں گے کہ آخر وہ کیا باتیں تھیں جن کو زمانے کی نظر کھا گئی اور جو اب کسی گھرانے کا روز مرہ نہیں؟ خدا بخشے منشی فیض الدین مرحوم کو اگر وہ “بزم آخر” کے نام سے یہ دل چسپ اور معلوماتی کتاب لکھ کر دلی والوں پر احسان نہ کرتے تو میں سچ کہتا ہوں کہ نوجوانوں کے سوال کا ہمارے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اور یہ بھی اس وقت کی کیفیت ہے جب بہار لٹ چکی تھی اور خزاں کا دور دورہ تھا۔ اس سے اندازہ لگا لیجیے کہ جب اس لال حویلی کی کوکھ ہری تھی تو اس کا جلال وجمال کیا ہوگا۔ واقعی بڑے مغل بادشاہ شاہی نہیں خدائی کرتے ہوں گے۔

منشی فیض الدین مرحوم جنھوں نے قلعے میں پرورش پائی اور وہیں چھوٹے سے بڑے ہوئے، اُن کا اس کتاب کے لکھنے سے اصل مقصد تاریخ نویسی نہ تھا، بلکہ اس مٹی ہوئی ثقافت اور دَم توڑتے ہوئے تمدّن کو محفوظ کر لینے کی آرزو اور شعوری کوشش تھی جس کا اعتراف مصنف نے خود کیا ہے:

خزاں کے دن جو دیکھا کچھ نہ تھا جُز خار گلشن میں بتاتا باغباں رو رو، یہاں غنچہ، یہاں گُل تھا

وہ تو فقط غنچہ وگل کا پتا دینا چاہتے تھے لیکن تاریخ کا اور اس کا چولی دامن کا ساتھ ہوگیا اور یہی وہ مقام ہے جہاں پر محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ اور ثقافت کے سنگم پر زمانے جنم لیتے ہیں اور ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔

یوں تو دلی کے اس دل چسپ موضوع پر قبل وما بعد غدر کے اخبارات و رسائل اور مختلف کتب جن میں سفرنامۂ ابنِ بطوطہ، ڈاکٹر برنیر کا روزنامچہ، سر سید کی آثار الصنادید وغیرہ بہت سی کار آمد چیزیں ہیں، لیکن “بزمِ آخر” میں ابو ظفر معین الدین محمد اکبر شاہ ثانی کے زمانے سے ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ اخیر بادشاہِ دہلی کے عہد تک روزمرہ کے ظاہر و مخفی برتاؤ، خانگی معاملات، طرزِ معاشرت، دربار اور سواری کے قاعدے، جشن اور نذروں کے قرینے، میلوں کے رنگ، تماشوں کے ڈھنگ، زنانہ میلوں میں بیگمات کی بات چیت، غرض بہت سی ایسی استعمالی اشیا اور ملبوسات کا ذکر ہے جن سے آج قطعی نابلد ہیں؛ علاوہ ازیں تخت نشینی اور مرنے کی کیفیت وغیرہ بیان کی گئی ہے۔ اور یہ کتاب قلعے کی اس تہذیب و معاشرت، رسم و رواج اور زبان کا وہ زندہ جاوید مرقع ہے جس کی اہمیت سے انکار کی جرات نہیں۔ گذشتہ نصف صدی میں بہت کم ایسے اہل قلم ہوں گے جنھوں نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہو اور اس کتاب سے استفادہ نہ کیا ہو۔

اس کتاب کے چھپنے سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ غدر کے بعد کے ادیبوں کو جنھوں نے اپنے بڑے بوڑھوں سے شہر آبادی اور غدر کے جو حالات اور واقعات سنے تھے انھیں قلم بند کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ انھوں نے بڑی محنت اور قابلیت سے انھیں مرتب کیا۔ مرحوم بزرگوں میں مولانا راشد الخیری کی “نوبت پنج روزہ”، “دلی کی آخری بہار”، “داستانِ پارینہ”، “غدر کی ماری شہزادیاں”، خواجہ حسن نظامی کی غدر کی بارہ کتابوں کا سیٹ، ناصر نذیر فراق کی “لال قلعہ کی ایک جھلک”، “دلی کا اجڑا ہوا لال قلعہ”، مرزا فرحت اللہ بیگ دہلوی کی “دہلی کی آخری شمع” اور “پھول والوں کی سیر”، عرش تیموری کی “قلعۂ معلی کی جھلکیاں”، باقر علی داستان گو کا “مولا بخش ہاتھی” قابل ذکر ہیں۔ بقید حیات لکھنے والوں میں وزیر حسن دہلوی کا “دلی کا آخری دیدار”، خواجہ محمد شفیع کا “دلی کا سنبھالا”، سید یوسف بخاری کی “یہ دلی ہے”، اس خاکسار کی“دلی کی چند ہستیاں”؛ یہ تمام تقریباً ایک ہی زمانے سے متعلق اور مختلف گذشتہ واقعات کی کڑیاں ہیں۔

“بزم آخر” کا پہلا ایڈیشن ١٨٩٠؁ء میں یا اس سے قبل شائع ہوا ہوگا، اس لیے کہ شاہ زادہ میرزا محمد سلیمان شاہ جنھوں نے “بزمِ آخر” پر تقریظ لکھی اور اس تقریظ میں “بزمِ آخر” کے مندرجات کی تصدیق کے علاوہ اپنے اور مصنف کے باہمی تعلقات پر بھی روشنی ڈالی، انھوں نے بقول یادگار خاندان مغلیہ صاحب عالم میرزا خیر الدین خورشید جاہ صاحب ۱۸۹۰؁ء میں انتقال کیا۔ بہرحال یہ تقریظ انھوں نے اسی سن میں یا اس سے کچھ پہلے لکھی ہوگی۔

مجلسِ ترقیٔ ادب نے اردو ادب کی ایسی گراں قدر اور مفید کتابوں کو جو آج نایاب ہو چکی ہیں، نہایت تزئین و تہذیب کے ساتھ حسن و خوبی اور نفاست سے دوبارہ شائع کرنے کا مہتم بالشان سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کو میں نے حتی الامکان احتیاط کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ قدیم الفاظ جو آج کل بالکل نہیں سمجھے جاتے اور عام لغات میں نہیں ملتے، ان کی تشریح میں نے فرہنگ میں کردی ہے۔ کتاب کے صحیح چھپنے کا بھی بہت خیال رکھا ہے۔ خدا کرے صاحب ذوق حضرات اور اہل علم اصحاب اسے پسند فرمائیں اور یہ علمی اور ادبی تحفہ ہمارے کتب خانوں کے لیے زینت کا موجب ہو!


اشرف صبوحی دہلوی

۳۱ جنوری ۱۹۶۵؁ء