بزم آخر/نوروز

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

نوروز


یہ نیا سال شروع ہوتا ہے۔ نجومی پنڈت جو رنگ سال کا بتاتے ہیں، دیکھو ویسی ہی رنگ کی پوشاک بادشاہ اور بیگماتوں اور شاہ زادیوں کی تیار ہورہی ہے۔ بانس کی کھپچیوں کی کھانچیاں، ان میں سات سات مٹی کی طشتریاں بھوڈل پھری ہوئی، سات رنگ کی مٹھائیوں سے بھری ہوئی،اوپر نوروزی رنگ کے کسنے بسمے کے چھپے ہوئے کسے ہوئے، نوروزی رنگ کے جوڑے گوٹا کناری ٹکے ہوئے، کشتیوں میں رکھے ہوئے، اسی رنگ کے کشتی پوش پڑے ہوئے، کہاریوں کے سر پر جسولنیاں لیے ہوئے بانٹتی پھرتی ہیں۔ لو دربار آراستہ ہوا، بادشاہ نوروزی پوشاک پہن کر برآمد ہوئے۔دیکھو! سب شاہزادے بھی نوروزی کپڑے پہنے ہوئے، امیرامرا، نواب راجا نوروزی رنگ کی پگڑی دوپٹے باندھے ہوئے دائیں بائیں کھڑے ہیں۔ نذریں ہونے لگیں۔ سلطان الشعرا اور اَور شاعروں نے مبارکباد کے قصیدے پڑھے، خلعت مرحمت ہوئے۔دربار برخاست ہوا۔دسترخوان چنا گیا۔

دیکھو! نوروزی رنگ کا دسترخوان اور ویسے ہی خوانوں کے خوان پوش اور کسنے ہیں۔ سات رنگ کے پلاؤ، مٹھائیاں،سالن، ترکاریاں،میوے اور سب چیزیں سات سات طرح کی ہیں،اور سات ترکاریاں ملی ہوئی بھی پکی ہیں ؛ اس کو نورتن کہتے ہیں۔

ایلو! جو کی روٹی، ساگ کی بھجیا اور ستّو بھی ہیں۔ خاصےکی داروغہ نے عرض کیا: “جہاں پناہ! دسترخوان تیار ہے”۔ بادشاہ آئے، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دسترخوان پر نیاز دی کہ یہ ان کی خلافت کا دن ہے اور یہ دسترخوان بھی حضرت علی کا کہلاتا ہے۔ بادشاہ نے ذرا ذرا سا اس میں سے پہلے آپ چکھا، پھر ولی عہد اور شہزادوں اور معزز امیروں کو اپنے ہاتھ سے تبرک دیا۔ سب نے مجراکر کے لیا۔ لو اب دیوان خاص میں زنانہ ہوگیا، سب بیگماتیں آئیں۔ بادشاہ نے اسی طرح ذرا ذرا سا اپنے ہاتھ سے تبرک ان کو دیا۔ بادشاہ اور بیگماتیں محل میں داخل ہوئیں۔ باقی تبرک سب کو بٹ گیا۔ تیسرے پہر کو سب بیگماتیں اور شاہ زادے جمع ہوئے۔

دیکھو! اب پنکھا جھلنے کا شگون ہوا، پھر ہاتھوں میں چاندی سونا‌لے کر اچھالا۔ یہ بھی نو روز کا شگون‌ہے۔ چار گھڑی دن رہے سلاطین بھائی بند سبزوار مرغیوں کے انڈے نیش دار،مشک زعفران پان میں رنگ رنگا، دیوان خاص میں آئے۔ بادشاہ برآ مد ہوئے،مسند پر بیٹھے۔ سب بھائی بند سلاطین اور شاہ زادے سامنے ہو بیٹھے۔ دیکھو اب انڈے لڑتے ہیں۔ ایک نے ایک انڈا ہاتھ میں لے کر نیچے رکھا۔ سارا انگلیوں میں چھپالیا فقط اس کا نیش کھلارکھا۔دوسرا اوپر سے دوسرے انڈے سے اس پر چوٹیں لگانے لگا۔ ایلو! دونوں میں سے کسی کا انڈا ٹوٹ گیا۔جس نے توڑا ہے، اس کے ساتھ والے نے غل مچا یا ہے “وہ توڑا”۔ بس پانچ انڈے لڑ چکے، بادشاہ محل میں داخل ہوئے۔ سب بھائی بند رخصت ہوئے۔ نوروز ہو چکا، اب محرم کی رسمیں دیکھو۔