بزم آخر/محرم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

محرم


‌محرم کا چاند دکھائی دیا، ماتم کے باجے بجنے لگے، سبیلیں رکھی گئیں۔ بادشاہ حضرت امام حسنؑ حسینؑ کے فقیر بنے، سبز کپڑے پہنے، گلے میں سبز کفنی جھولی ڈالی، جھولی میں الائچی دانے، سونف، خشخاش بھری، درگاہ میں جاکر سلام کیا، نیاز دی۔ دس تک صبح کو کھانا، شام کو شربت فقیروں کو بٹے گا۔ چھٹی تاریخ ہوئی، آج بادشاہ لنگر میں کھنچیں گے۔

دیکھو! چاندی کے دو پنجے بنے ہوئے، دولکڑیوں پر لگے ہوئے، لال سبز کپڑے ان پر بندھے ہوئے،ان کو شدّے کہتے ہیں۔ بادشاہ کے دونوں ہاتھوں میں ہیں۔ ایک چاندی کی زنجیر کمر میں پڑی ہوئی ہے۔ دو سیدوں نے آکر زنجیر پکڑ بادشاہ کو دوچارقدم کھینچا۔ایلو! وہ زنجیر بادشاہ کے گلے میں ڈال دی۔دونوں شدّے سید لے گئے۔

ساتویں تاریخ ہوئی۔دیکھو! ابرک کے کنول، ان میں شمعیں روشن، بانس کی کھپچیوں کی ٹٹیاں لال کاغذ سے منڈھی ہوئیں، ان پر لال لال کنول، بیچ میں دغدغے روشن ہیں۔ منہدی اور مالیدے کے خوان، بڑی بڑی طوغیں جلتی ہوئیں ساتھ ساتھ ہیں۔ آگے آگے تاشے باجے، روشن چوکی والیاں، پیچھے پیچھے بادشاہ اور بیگماتیں، حبشنیاں، ترکنیاں، خوجے وغیرہ سب چلے جاتے ہیں۔ لو منہدی امام باڑے میں پہنچی، آرائش سب لٹ گئی۔منہدی، مالیدہ، طوغیں درگاہ میں چڑھا دیں۔ آٹھویں تاریخ ہوئی، ایلو! آج بادشاہ حضرت عباس کے سقے بنے، لال کھاروے کی ایک لنگی بندھی ہوئی، شربت کی بھری ہوئی ایک مشک کندھے پر رکھے ہوئے معصوموں کو شربت پلا رہے ہیں۔ لو شربت پلا چکے، مالیدے پر نیاز دی، سب کو بٹوادیا۔

آج دسویں تاریخ عشرے کا دن ہے۔ مٹی کے آبخورے لمبے، گلے کے بیچ میں سے پتلے کورے کورےآئے؛ ان کو کوزیاں کہتے ہیں۔ دودھ اور شربت بھرا گیا۔ لال لال کلاوے ان کے گلوں میں باندھے۔ تازے تازے تر حلوے کے کونڈے بھر کر رکھے گئے، نیاز ہوئی۔ دیکھو! چھوٹے چھوٹے بچے دوڑے چلے آتے ہیں؛ ایک ایک دودھ، ایک ایک شربت کی کوزی پی، حلوا چٹ کر، پیسے کوڑیوں کی جھولیاں بھر کیسے اچھلتے کودتے کُلانچیں مارتے چلے جاتے ہیں۔ ظہر کا وقت ہوا، بادشاہ برآمد ہوئے، موتی مسجد میں عاشورے کی نماز پڑھی، دیوان خاص میں حاضری کی تیاری ہوئی۔ ایک بڑا سا دسترخوان بچھا، اس پر شیرمالیں چنی گئیں۔ شیرمالوں پر کباب، پنیر، پودینہ، ادرک، مولیاں کتر کے رکھیں۔بادشاہ نے کھڑے ہو کر نیاز دی؛ ذرا سا شیرمال، کباب، پنیر، مولی کا ٹکڑا پہلے آپ چکھا، پھر ایک ایک شیرمال اور کباب وغیرہ پہلے ولی عہد، پھر اور شاہ زادوں اور معزز امیروں کو اپنے ہاتھ سے دیا، باقی سب کو بٹ گئیں۔ ایلو! وہ جامع مسجد سے تبرکات نالکی میں رکھے ہوئے، آگے آگے سپاہیوں کے تمن، باجا بجتا ہوا، آئے؛ بادشاہ تعظیم کو کھڑے ہوگئے۔ تبرکات نالکی میں سے نکال کر چوکی پر رکھے گئے۔ حضرت محمد ﷺ کا جبہ اور نعلین آنکھوں سے لگائیں؛ حضرت علیؓ کے ہاتھ کا قرآن شریف سر پر رکھا، بوسہ دیا؛ حضرت امام حسن حسینؑ کی خاک شفا کو آنکھوں سے لگایا؛ پھر حضرت ﷺ کے موئے مبارک کو گلاب اور خوشبو میں غسل دیا۔ لو اب زنانہ ہوا، بیگماتیں آئیں، تبرکات کی زیارت کی، بادشاہ اور بیگماتیں محل میں داخل ہوئیں۔ تبرکات اُسی طرح نالکی میں باجے گاجے سے جامع مسجد گئے۔ شام کو اسی طرح محل کی درگاہ کے تبرکات کی زیارت کی۔ دیکھو! گوٹا بٹ رہا ہے؛ بُن ڈلیاں، الائچیاں، جوز چھالیہ کتر کے بھنے ہوئے خربوزوں کے بیج اور دھنیا کترا ہوا کھوپرا اس میں ملا کے گوٹا بنایا، شیشے اور کاغذ کی پیٹیوں اور کارچوبی بٹووں اور چھوٹی چھوٹی طشتریوں میں رکھ، ان پر مہین مہین رنگین کھوپرے کے پھول بنا آپس میں بٹ رہا ہے۔ اکثر سلاطین قلعے میں تعزیہ داری کرتے تھے، فقیر پیک بنتے تھے۔ کوئی نشانچی کوئی نقیب بنتا تھا، کوئی تاشا، کوئی ڈھول، کوئی جھانجھ تعزیوں کے آگے بجاتا تھا، کوئی مرثیے پڑھتا تھا۔ مرثیے خوانوں کو درگاہ میں سے چار چار طشتریاں بُن چکنی ڈلیاں، بھنے ہوئے خربوزے کے بیج اور دھنیے کی ملا کرتی تھیں؛ بڑی دھوم سے عَلَم اٹھاتے تھے۔ محرم ہو چکا، آخری چہارشنبہ آیا۔