بزم آخر/عید الفطر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

عید الفطر


رات کو توپیں، ڈیرے خیمے، فرش فروش عیدگاہ روانہ ہوا۔ سواری کا حکم ہوا، ہاتھی رنگے گئے۔ صبح کو بادشاہ نے حمام کیا، پوشاک بدلی، جواہر لگایا۔ خاصے والیوں نے جلدی سے دستر خوان بچھا سویاں، دودھ، اولے، بتاشے، چھوارے، خشکا، کھڑی مسور کی دال اس پر لگا دی۔ بادشاہ نے نیاز دی، ذرا ذرا سا چکھ کر کلی کی۔ باہر بر آمد ہوئے، جسولنی نے خبر داری بولی، باہر تُرئی ہوئی، سب جلوس قاعدے سے کھڑا ہوگیا۔ فوجدار خان نے ہاتھی بٹھا دیا، کہاروں نے ہوا دار تلووں کے برابر لگا دیا۔ بادشاہ ہودے میں سوار ہوئے، دیوان عام میں سواری آئی۔ احتشام توپ خانے کی توپوں کی اکیس آوازیں ہوئیں۔ قلعے کے دروازے پر پلٹنوں نے سلامی اتاری، اکیس توپیں چلیں۔ عیدگاہ کے دروازے پر سواری پہنچی، جلوس دو طرفہ کھڑا ہوگیا، سلامی اتاری، توپیں سلامی کی چلنے لگیں۔ دروازے پر سے بادشاہ ہوادار میں اور ولی عہد نالکی میں اور سب پیدل عید گاہ کے اندر آئے۔ چبوترے پر سے اتر کر خیمے میں اپنے مصلوں پر کھڑے ہو گئے۔ مکبر پر تکبیر ہوئی، سب نمازیوں نے صفیں درست کیں۔ امام جی کے ساتھ سب نے نیت باندھی۔ دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیرا، سب کھڑے ہو گئے۔ بادشاہ، ولى عہد، شاہ زادے اپنے مصلوں پر بیٹھے رہے۔ امام جی کو خطبہ کا حکم ہوا، قور خانے کے داروغہ نے امام جی کے گلے میں کلابتونی پرتلا اور تلوار ڈالی۔ امام جی نے منبر پر کھڑے ہو کر تلوار کے قبضے پر ہاتھ رکھ کر خطبہ پڑھا ۔ جب بادشاہ کا نام آیا، توشہ خانے کے داروغہ نے امام جی کو خلعت پہنایا۔ دعا مانگی، خطبے کی ایک توپ چلی۔

اب دھوپ چڑھ گئی تھی، بادشاہ نگڈمبر میں سوار ہوئے ؛ دیوان خاص میں آئے، تخت طاؤس پر بیٹھ کر دربار کیا، نذریں لیں۔ پھول کے طرے اور ہار سب کو مرحمت ہوئے۔ محل میں داخل ہوئے، چاندی کے تخت پر بیٹھ کے محل کی نذریں لیں، خاصہ کھایا، سکھ کیا۔