بزم آخر/شب برات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب برات


اس مہینے کی چودھویں تاریخ شاہ زادوں کے اُستاد لال سفید چمکتی ہوئی عیدیاں لکھ لکھ کر لائے، شاہ زادوں کو دیں۔

عیدی

آمد شب برات جہاں پر چراغ شد

بازار از شگفتن او صحن باغ شد

انار و پھلجڑی و ہوائی و مہتاب

گل ہائے بوستاں بہ ہمیں داغ داغ شد

استادوں کو عیدی کے اشرفی روپے ملے، مکتبوں میں چھٹی ہوئی۔ دیکھو! اب کوری کوری ٹھلیاں، آبخورے آئے، ایک بڑی سی چوکی پر دھو دھلا کر پانی بھر کر رکھے گئے۔ شیرمالیں اور میٹھے کی رکابیاں قابیں آئیں، اگر سوز میں لوبان روشن ہوا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت امیر حمزہؓ، حضرت فاطمہؓ، بڑبڑیڑے، بابر بادشاہ، اوت اور سب اپنے مُردوں کی جدا جدا قابوں، شیرمالوں، پانی کے آبخوروں پر، اور دودھ پیتے بچے جو مرے، اُن کی دودھ کے آبخوروں پر نیاز ہوئی۔ حضرت فاطمہ کی نیاز کا بیوی زنوں کو، بابر بادشاہ کی نیاز کا خاص اُن کی اولاد کو، باقی ہما شما کو بٹ گیا۔ تیسرے پہر کو آتش بازی شاہ زادوں اور شاہ زادیوں کو تقسیم ہوئی۔ دیکھو! رات کو بیٹوں کے ہاتھی بھوڈل پھرے ہوئے مٹی کے، اُن کی سونڈ اور سر پر چراغ بنے ہوئے؛ بیٹیوں کی ہڑیاں بنگلے کی صورت کی مٹی کی بنی ہوئیں، اوپر چراغ بنے ہوئے روشن ہوئیں۔ سب نے مبارک باد دی۔ تاشے باجے، نوبت خانے، روشن چوکی والیاں باجا بجانے لگیں۔ بڑی خوشی ہوئی، آتش بازی چھٹنے لگی۔

لو اب بادشاہ امام باڑے میں آئے۔ دیکھو! اپنے ہاتھ سے روشنی کی۔ کنگنی کی کھیر پک کے آئی، ایک چمچے میں لے کر پہلے ذرا سی آپ چکھی، پھر ایک ایک چمچا سب کو اپنے ہاتھ سے دیا؛ مجرا کرکے سب نے لے لیا۔ اپنی بیٹھک میں آئے، خاصہ کھایا، آرام کیا۔