بزم آخر/سلونو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

سلونو


اس رسم کا ذکر یوں سنا ہے کہ عزیز الدین عالمگیر ثانی بادشاہ سے ان کے وزیر غازی الدین خاں کو دشمنی تھی۔ ایک دن ڈھکوسلا بنا کر عرض کیا کہ حضور! پرانے کوٹلے میں ایک فقیر صاحب کمال آئے ہیں۔ بادشاہ نے حکم دیا اچھا بلاؤ۔ اس نے کہا بہت خوب۔ دوسرے دن پرانے کوٹلے میں ایک موقع کا مکان تجویز کر دو آدمی خنجر لے کر وہاں چھپواں کھڑے کردیے اور بادشاہ سے جھوٹ موٹ آکر عرض کیا کہ کرامات! فقیر صاحب کہتے ہیں ہم آپ بادشاہ ہیں؛ بادشاہ کو غرض ہے تو آپ ہمارے پاس چلے آئیں۔ بادشاہ کو فقیروں سے بہت اعتقاد تھا؛ فرمایا: “ہم آپ چلتے ہیں”۔ جب کوٹلے میں پہنچے، وزیر نے عرض کیا: “جہاں پناہ! فقیر صاحب یہ بھیڑ بھاڑ دیکھ کر ناراض ہوں گے”، بادشاہ نے حکم دیا: “اچھا سب یہیں ٹھہریں”۔بادشاہ تن تنہا وزیر کے ساتھ اندر گئے، جاتے ہی ان دونوں نابکاروں نے بادشاہ کے خنجریں بھونک دیں اور کام تمام کرکے لاش کو دریا کی طرف نیچے پھینک دیا، آپ وہاں سے چنپت بنے۔ وزیر باہر آیا، لوگوں نے پوچھا: “حضور کہاں ہے؟” کہا: “فقیر صاحب پاس بیٹھے ہیں؛ مجھ سے خواب گاہ میں سے ایک کاغذ منگوایاہے، وہ لینے جاتاہوں۔ تم سب یہیں کھڑے رہو، میں ابھی الٹے پاؤں آتاہوں”۔ یہ فقرہ گھڑ کے یہ بھی وہاں سے سٹک گیا۔ اُدھر دریا کی طرف سے کوئی ہندنی چلی آتی تھی۔ کہیں اس کی نگاہ پڑی کہ کسی کی لاش پڑی ہے؛ پاس آکر دیکھا تو پہچانا کہ ارے یہ تو ہمارے بادشاہ ہیں۔ ہے ہے کس ظلمی نے یہ کام کیا؟ وہیں بیٹھ گئی۔ جب بہت دیر ہوگئی تو یہ لوگ گھبرائے اور درّانہ اندر گھس گئے۔وہاں دیکھیں تو بادشاہ نہ فقیر، ادھر ادھر دیکھنے بھالنے لگے۔ نیچے جھک کر جو دیکھیں تو بادشاہ قتل ہوئے پڑے ہیں اور ایک ہندنی پاس بیٹھی نگہبانی کررہی ہے۔ لاش کو اٹھاکر لائے، نہلا دھلا ہمایوں کے مقبرے میں دفن کیا۔ شاہ عالم بادشاہ نے اس ہندنی کی خیر خواہی پر کہ اس نے میرے باپ کی لاش کی رکھوالی کی، اس کو اپنی بہن بنایا اور بہت سا کچھ اس کو دیا۔ بہنوں کی طرح ساری رسمیں اس سے برتتے رہے۔ وہ بھی بھائی سمجھ کر اپنی رسم کے موافق سلونو کے تہوار کو بہت سی مٹھائی تھالوں میں لے کر آتی تھی، بادشاہ اس کو اشرفیاں اور روپے دیتے تھے۔ شاہ عالم کے بعد اکبر شاہ نے اس سے اور بہادر شاہ نے اس کی اولاد سے یہ رسم نباہی۔